غزہ ایک بار پھر لہولہان ہے!
غزہ کا لہولہان ہونا کوئی نئی بات نہیں۔یہ اہل غزہ کے لیے ایک عام سی بات ہے۔ اس نے اپنی کئی نسلوں کی آبیاری اسی لہو سے کی ہے۔اسی لہو نے اہل غزہ کے اندر وہ یقین، ثبات قدمی اور حوصلہ پیدا کیا ہے جس نے سارے عالم کو حیرت میں ڈال رکھا ہے۔ اسی لہو نے اہل غزہ کے اندر وہ اجتماعی شعور بیدار کیا ہے، جس کے نتیجے میں پوری قوم قدم سے قدم ملائے آزادی اور حق وانصاف کی جدوجہدمیں مصروف ہے۔ اسی لہو نے اہل غزہ کے اندر وہ نگاہیں پیدا کی ہیں جن سے انہوں نے اپنے حقیقی دشمن کا نہ صرف ادراک کرلیا ہے، بلکہ اس کے سلسلے میں ذرا بھی مداہنت اختیار کرنے سے انہیں باز رکھا ہے۔ اسی لہو نے اہل غزہ کو وہ آہنی عزم عطا کیا ہے جس سے آج دنیا کی ایک بڑی طاقت بری طرح نہ صرف گھبرائی ہوئی ہے، بلکہ اس گھبراہٹ میں پیہم ٹھوکریں کھائے جارہی ہے۔ اسی لہو نے اہل غزہ کو اُس انسانی عظمت سے روشناس کرایا ہے، جو نہ ہی کسی دولت کے ذریعہ حاصل کی جاسکتی ہے اور نہ ہی کسی دوسرے مادی ذرائع سے، جس انسانی عظمت کے سامنے بڑے بڑے سلاطین اور فرمانروا ہیچ نظر آتے ہیں۔
غزہ ایک بار پھر لہولہان ہے!
غزہ کا لہولہان ہونا کوئی نئی بات نہیں۔ یہ اہل غزہ کے لیے ایک عام سی بات ہے۔ تعجب کی بات یہ ہے کہ اس مرتبہ غزہ کو لہولہان دیکھ کر پوری مسلم دنیا پر عجیب وغریب سی خاموشی چھائی ہوئی ہے، اس سے پہلے بھی غزہ لہولہان ہوا، اس سے پہلے بھی مسلم دنیا کے ممالک نے فی الواقع کچھ بھی نہیں کیا، لیکن اتنا تو ضرور تھا کہ غزہ کے لہو کو دیکھ کر رسمی طور سے ہی سہی کچھ بیانات سامنے آجاتے تھے، کوئی اعلی سطحی میٹنگ ہوجایا کرتی تھی، ۲۰۰۹ ء کی اسرائیلی جارحیت کے وہ مناظر آج بھی ذہن میں موجود ہیں جب کہ قطر میں غزہ کے مسئلہ کو لے کر مسلم دنیا کے ممالک کی چوٹی کانفرنس ہوئی تھی، اور اس میں خالد مشعل بنفس نفیس موجود تھے۔ آج کیا ہوگیا کہ ہر طرف سناٹا چھایا ہوا ہے اور کسی بھی طرف سے کوئی آواز نہیں، لہولہان اہل غزہ کی طرف نظرالتفات کے لیے بھی کوئی تیار نہیں، جبکہ اسرائیل کے جسم پر آئی خراشوں کو دیکھ کر پوری مسلم دنیا میں ہر طرف بے چینی اور اضطراب کا عالم ہے، اور ہر طرف سے جنگ بندی کا آوازہ بلند ہونا شروع ہوگیا۔ پڑوسی مسلم ملک جہاں سے قریب دوسال قبل پل پل کی خیریت لی جاتی تھی، جہاں سے ہر طرح کی رسد فراہم کی جاتی تھی، وہاں سے آج کیا وجہ ہے کہ اسرائیل کے حق میں آواز بلند ہورہی ہے، کیوں اس نے ان تمام اہل خیر کے لیے اپنی سرحدیں بند کررکھی ہیں جو غزہ تک پہنچا چاہتے ہیں! کیا وجہ ہے کہ اسلامی انقلاب کے نقیب جو ہمیشہ غزہ کے لیے چیخ چیخ کر بیان بازی کیا کرتے تھے، اور اس کے حلیف جو اسرائیل کے جنگی جہازوں کو مار گرانے کا دعوی کیا کرتے تھے، وہ سب کے سب خاموش ہیں!
غزہ ایک بار پھر لہولہان ہے!
غزہ کا لہولہان ہونا کوئی نئی بات نہیں۔ یہ اہل غزہ کے لیے ایک عام سی بات ہے۔ تعجب کی بات یہ ہے کہ امن وانصاف کی آواز اٹھانے والے، آزادی اور جمہوری اقدار کے علمبردار، اور حقوق انسانی کا دم بھرنے والے آج سب کچھ بھول بیٹھے ہیں۔ اس سے پہلے بھی انہوں نے اہل غزہ کے لیے کبھی کچھ نہیں کیا، تاہم عوام کا جذباتی استحصال کرنے اور اپنی امیج بنائے رکھنے کے لیے رسمی طور سے ہی سہی،کچھ بیانات تو ضرور ہی دے دیا کرتے تھے، لیکن کیا وجہ ہے کہ جمہوریت اور جمہوری اقدار کا ٹھیکیدار امریکہ بہادرآج اسرائیلی جارحیت کے لیے عذر تلاش کرنے میں مصروف ہے، اور اسے اپنے ننگے پن کا بالکل ہی احساس نہیں۔ کیا وجہ ہے کہ بانکی مون دس دن گزر جانے کے بعد محض ایک رسمی بیان پر اکتفاء کرتا ہے۔ کیا وجہ ہے کہ اقوام متحدہ اور دوسرے عالمی ادارے آنکھیں کھولنے کو تیار نہیں!
غزہ ایک بار پھر لہولہان ہے!
غزہ کا لہولہان ہونا کوئی نئی بات نہیں۔ یہ اہل غزہ کے لیے ایک عام سی بات ہے۔خوشی کی بات یہ ہے کہ اہل غزہ لہولہان ہونے کے باوجود محاذ پر ڈٹے ہوئے ہیں، انہوں نے خونِ شہیداں کا نہ صرف احترام کیا ہے، بلکہ اس کے تقاضوں کی تکمیل کے لیے ہر ممکن اقدام بھی کیا ہے۔ آج غزہ نے تن تنہا اسرائیل کو یہ سبق پڑھانے میں کامیابی حاصل کرلی ہے کہ معرکہ اتنا آسان نہیں ہے، تمام تر جنگی آلات کے باوجود شکست کا منہ دیکھنا پڑسکتا ہے۔ آج غزہ نے تمام مسلم دنیا کو یہ سبق پڑھانے میں کامیابی حاصل کرلی ہے کہ مومنین کے لیے ایمان اور یقین سے بڑی کوئی طاقت نہیں، اور آج بھی اگرمسلم دنیا کے عوام کوآزادی اور خود مختاری حاصل ہوجائے تو دنیا کا نقشہ یکسر تبدیل ہوسکتا ہے۔ آج غزہ نے پورے عالم انسانیت کو یہ سبق پڑھانے میں کامیابی حاصل کرلی ہے کہ انسانی عظمت کیا ہوتی ہے اور انسانی عظمت کی پاسداری کسے کہتے ہیں، جھوٹے دعووں اور بلندنعروں کے آگے اخلاق وکردار کی ایک سچی دنیا ہے، اس دنیا میں جب کوئی قدم رکھتا ہے تووہ دشمن قوم کے ساتھ بھی انسانیت کا سلوک کرتا ہے، وہ جھوٹے بیانات اور استحصالی نعروں پر اپنی انسانیت کی دیوار نہیں کھڑی کرتا۔۔۔۔۔ نہیں معلوم کہ لہولہان اہل غزہ سے کس نے کتنا سبق حاصل کیا۔۔۔۔
(ابوالاعلی سید سبحانی)