سیدہ ضوفشاں تسنیم فاطمی
“اپنا خیال ایسے رکھیں جیسے آپ شیشہ کا گلدستہ ہوں”
یہ اور اسطرح کی ملتی جلتی نصیحتیں صرف افسانوں میں نہیں حقیقی زندگیوں میں بھی”ماں” بننے والی خاتون کو ملتی ہیں،”ماں” کی عظمت کسی مذہب کی محتاج نہیں ہے لیکن بات اسوقت بگڑتی ہے جب مری ہوئی انسانیت نے مذہب کے نام پر جمہوری مملکت میں جہاں آزادئ رائے کا حق حاصل ہے وہاں ایک”ماں”کے لفظ سے عنقریب مشرف ہونے والی ایک مسلم خاتون(صفورہ زرگر) کے نا صرف وجود بلکہ عزت نفس پر وہ ستم ڈھائے ہیں جس کے درد کو ماں بننے والی، حوا کی ہر بیٹی پوری طرح محسوس کرسکتی ہے!!
یہ تو تصویر کا صرف ایک رخ ہے،میرے ساتھ چلیے،دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ہونے کا دعوے دار”ہندوستان”انتہا پسندوں کے ستم سے کس قدر داغدار ہے میں اسکی درد ناک اور چیختے چلاتے انصاف کی دہائی دینے والے “تاریخ کے صفحات” میں بند پڑے ستم کی داستان سناتی ہوں کہ ستم کا سلسلہ اب شروع نہیں ہوا یہ توRSS، بجرنگ دل اور اسلام دشمن اقوام کی جانب سے چل رہی صدیوں پرانی زنجیر ہے!
آزادی کے لیے تو جو ستم سہے تھے وہ غیروں نے دیے تھے! لیکن جو ستم میں سنانے جارہی ہوں وہ اس سیکولر ملک کے درندہ صفت انسانوں نے مسلمانوں کو دی ہے اور ظلم کا ہر عنوان ستم کی داستان لیے ہوئے ہے!
آئیے 1948 میں پولیس ایکشن کے نام پر رضاکارانہ ہونے کا الزام لگا کر 5 لاکھ سے زائد نہتے بے بس مسلمانوں کو موت کے گھاٹ اتاردیا گیا،1983 میں آسام کے 1800 سے زائد مسلمانوں کو شہید کیا گیا،1992 میں بابری مسجد کو شہید کرکے مسلمانوں کے ایمان پر جو ستم ڈھایا ہے وہ آج تک جاری ہے،2002 میں تاریخ ہند کے بدترین مسلم کش فسادات گجرات میں ہوئے جو نریندر مودی کی ماتحتی میں ہوئے ان فسادات نے 3000 مسلمانوں کو شہید کردیا اور 2 لاکھ سے زائد مسلمانوں کو جبرا علاقہ بدر کیا گیا! سلسلہ یہیں ختم نہیں ہوا ابھی تو ستم کی تاریخ شروع ہوئی ہے
“ابھی سے کیوں چھلک آئے تمہاری آنکھ میں آنسو
ابھی چھیڑی کہاں ہے داستان زندگی میں نے”
سر زمین ہندوستان نے جہاں لاکھوں قربان ہونے والوں کو اپنے اندر سمویا ہے وہیں آسمان ہند مسلمانوں پر ہونے والے ستم کو آج تک دیکھے جارہا ہے چاہے وہCAA،NRC کی شکل میں مسلمانوں کو ملک بدر کرنے کی سازش ہو یا پھر اسلامو فومیا کے ذریعہ اسلام سے نفرت پیدا کرنے کی چال ہو، یا گاو ماتا کی محبت کی آڑ میں اسلام کے فرزندوں کا قتل ہو،یا رام مندر کی تعمیر کے مسئلہ کے ذریعہ مسلمانوں کی دلوں کو چھلنی کرنا ہو،یا پھر سالوں سے ہندوستان کی جیلوں میں قید غریب ماں باپ کے لائق مسلمان بیٹے ہوں جنکا گناہ محض مسلمان ہونا ہے،اور دردناک سزائیں انکا مقدر ہیں روتے بلکتے والدین کے بڑھاپے کا سہارا بننا جنکا خواب ہے، اس کہانی کے اختتام کی طرف جانے سے پہلے یہ سوال میں خالد بن ولید،محمد بن فاتح،سلطان صلاح الدین ایوبی،محمد بن قاسم کی اولاد سے کرنا چاہتی ہوں کہ ستم گروں کا مسلمانوں پر یہ ستم ہماری آنکھیں کھولنے کے لیے کافی نہیں ہے؟؟ کیا اللہ تعالٰی نے ہمیں آگاہ نہیں کردیا تھا کہ”مشرک اور یہودی تمہارے بد ترین دشمن ہیں”؟ ہر زمانہ میں حق پرستوں کو ستم کا نشانہ بنایا گیا ہے لیکن کیا صحابہ کرام کی تاریخ ہمارے سامنے نہیں ہے؟کیوں ہم نے غیروں کی غلامی منظور کرلی؟ہماری غیرت کیوں بک گئی؟ کیوں ہم ستم سہنے پر راضی ہیں؟
“ظلم سہنے سے بھی ظالم کی مدد ہوتی ہے”
اور یہی ہورہا ہے تبھی یہ ستم صفورہ جیسی اسلام کی غیور بیٹی کو نشانہ بنانے میں کامیاب ہوگیا اگر اب بھی ہم نہ جاگے تو شاید یہ ستم کبھی ختم نہ ہوگا اور میں کہوں گی کہ ستم کی اس داستان کا کوئی اختتام نہیں ہے اور داستان جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔