اِنَّ العَبْدَ لَیَعْمَلُ عَمَلَ أَھلِ النَّارِ وَ انَّہُ مِنْ أَھْلِ الْجَنَّۃِ وَیَعْمَلُ عَمَلَ أَھلِ الْجَنَّۃِ وَاِنَّہُ مِنْ أَھْلِ النَّارِ۔ الأعْمَالُ بِالْخَوَاتِیْمِ۔ (بخاری عن سھل بن سعد رضی اللہ عنہ)، وفی روایۃ للامام احمدؒ فی المسند: وَاِنَّمَا الأعْمَالُ بِالْخَوَاتِیْمِ۔
امام بخاریؒ کی روایت کردہ درج بالا حدیث کا مفہوم یہ ہے کہ کسی بندہ کا عمل جہنمیوں کے عمل کے مطابق ہوتا ہے لیکن وہ جنتی ہوتا ہے اور کسی بندے کا عمل جنتیوں کے عمل کے مطابق ہوتا ہے لیکن وہ جہنمی ہوتا ہے۔ اعمال کی حقیقت تو خاتمہ (کے وقت) کے اعمال ہیں۔ مسند احمد میں بھی یہ روایت آئی ہے اور اس کے آخری الفاظ ہیں: وَاِنَّمَا الأعْمَالُ بِالْخَوَاتِیْمِیعنی اعمال کا دارومدار خاتمہ کے اوپر ہے۔
ایک دوسری حدیث ہے جس میں اعمال کی ابتدا سے متعلق آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بات کہی کہ اِنَّمَا اَلأعْمَالُ بِالنِّیَاتِ (اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہوتا ہے) یہ بہت مشہور ہے بلکہ زبان زد عام ہے۔ جبکہ درج بالا مسند احمد کی روایت جس کے الفاظ اس سے بہت حد تک مماثل ہیں، اس درجہ مشہور نہیں ہے۔ ان دونوں روایتوں کو یکجا کرکے غور کیا جائے تو یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ کسی عمل کی ابتدا درست نیت کے ساتھ ہو اور اسے درست طریقے سے اپنے انجام تک پہنچانے کی سعی کی جائے تو وہ عمل عنداللہ مقبول ہوگا۔ دوسرے لفظوں میں اگر نیت درست نہیں ہے تو اعمال قابلِ رد ہیں اور اگر اس کا خاتمہ نادرست ہوگیا تو سب کچھ کیا کرایا بیکار قرار پائے گا۔
یہ بات کہ اعمال کا دارومدار خاتمہ پر ہے ایک مثال سے سمجھی جاسکتی ہے۔ ایک طالب علم پورے سال یکسوئی اور جانفشانی کے ساتھ محنت کرتا رہے لیکن امتحان کے دن غیرحاضر ہوجائے یا امتحان کی گھڑیوں میں لاپرواہی برتے تو وہ فیل ہوجائے گا۔ اسی طرح کوئی شخص پوری زندگی وہ عمل کرے جو اسے جنت میں لے جانے والا ہو لیکن موت سے قبل کفروالحاد میں مبتلا ہوجائے تو اس کا نتیجہ درج بالا حدیث کے مطابق یہی نکلے گا کہ وہ جہنم رسید کردیا جائے گا۔ دوسری طرف ایک ایسا شخص ہے جسے موت کی ساعت سے قبل توبہ وایمان کی توفیق نصیب ہوجائے تو وہ شخص کامیاب ہوجائے گا۔ ہم اسلامی تاریخ میں ایسے واقعے سنتے ہیں کہ اللہ کے ایک بندہ کے ایمان لانے اور راہ خدا میں شہادت کا شرف حاصل کرنے کے درمیان ایک وقت کی نماز کا موقع بھی نہیں آیا۔
اس حدیث کی روشنی میں ہم جو سبق حاصل کرتے ہیں اس میں ایک بات کا تعلق دوسروں کے اعمال سے ہے اور ایک بات کا تعلق خود اپنی ذات سے ہے۔ کسی دوسرے شخص کے عمل کو دیکھ کر یہ رائے قائم نہیں کی جاسکتی کہ وہ شخص جہنمی ہے یا جنتی۔ یہ علم صرف اللہ تعالی کو حاصل ہے کہ کسی شخص کا خاتمہ کس حال میں ہوگا۔ ہم کسی عمل کے بارے میں یہ تو کہہ سکتے ہیں کہ وہ اچھا ہے یا برا، لیکن اس کے کرنے والے کے بارے میں حتمی طور پر یہ نہیں کہہ سکتے کہ وہ اچھا ہے یا برا۔ ہمیں نہیں معلوم کہ راہ حق پر چلنے والے کسی شخص کا پاؤں کب پھسل جائے اور وہ ناکامی کے غار میں گرجائے یا آج جس کے قدم لڑکھڑارہے ہیں وہ کب سنبھل جائے اور جنت الفردوس کی سمت رواں دواں چلا جائے۔ خصوصاََ کسی شخص کے برے عمل کو دیکھ کر مایوس نہیں ہونا چاہئے اور اسے راہ نجات پر لانے کی سعی اور دعا کرتے رہنا چاہیے۔ بندوں کے قلوب اللہ تبارک وتعالی کے ہاتھ میں ہیں وہ کب کہاں کیسا انقلاب برپا کردے ہم نہیں جانتے۔ ہم اپنے اردگرد ایسے افراد کو دیکھ سکتے ہیں (اور اس آئینے میں اپنی تصویر بھی دیکھ سکتے ہیں) کہ عمر کے ایک خاص مرحلے میں اسلامی دعوت اور ایمان کے تقاضوں کی طرف متوجہ ہوئے اور ان کی اُٹھان بہت خوش آئند محسوس ہوئی اور بعد کے مراحل میں اس راہ حق سے دور ہوتے چلے گئے۔ دوسری طرف ایسے لوگ بھی ہوتے ہیں جن کے ایمان وعمل کا نور بڑھتا ہی چلا جاتا ہے۔ ایسے لوگ بھی ہوتے ہیں جو بہت دیر سے اسلام کے تقاضوں کی طرف توجہ کرتے ہیں اور اس کے بعد ان کے قدم نہیں ڈگمگاتے۔ سوال یہ ہے کہ خود ہمارا شمار کس قسم کے افراد میں ہے۔
خود اپنے اعمال کے سلسلے میں ہمیں ہمیشہ محتاط اور چوکنا رہنا چاہیے۔ نہ تو اپنے آج کے اچھے اعمال پر اطمینان ہونا چاہیے کہ ہمیشہ ہم سے ایسے ہی اعمال کا صدور ہوتا رہے گا، اور نہ اپنی غلطیوں اور کوتاہیوں کے سبب مایوس ہونا چاہئے۔ توبہ اور خاتمہ بالخیر کی امید کی شمع جلائے رکھنا چاہیے اور اس کے لیے فکرمند ہونا چاہیے اور اس کی کوشش کرنی چاہیے۔ اپنی مدت عمل ختم ہونے کا علم ہمیں نہیں دیا گیا ہے۔ دوسری طرف ہماری قلبی کیفیات اور ایمان ہمیشہ ایک درجہ میں نہیں ہوتے ہیں۔ ہمیشہ اس کی طرف متوجہ رہنا چاہیے کہ ان دونوں یعنی وقت اخیر اور ایمانی حالت کا نقطۂ اتصال خیر کے عالم میں ہو، ان شاء اللہ ۔
(ڈاکٹر وقار انور ، مرکز جماعت اسلامی ہند)
اِنَّمَا اَلأعمَالُ بِالخَوَاتِیمِ
اِنَّ العَبْدَ لَیَعْمَلُ عَمَلَ أَھلِ النَّارِ وَ انَّہُ مِنْ أَھْلِ الْجَنَّۃِ وَیَعْمَلُ عَمَلَ أَھلِ الْجَنَّۃِ وَاِنَّہُ مِنْ أَھْلِ النَّارِ۔ الأعْمَالُ بِالْخَوَاتِیْمِ۔ (بخاری عن سھل بن سعد رضی اللہ عنہ)، وفی روایۃ للامام احمدؒ فی المسند: وَاِنَّمَا الأعْمَالُ بِالْخَوَاتِیْمِ۔ امام بخاریؒ…