ذرا توقف کیجئے تو محسوس ہوگا کہ گزرتے وقت کے ساتھ ہماری زندگی مختلف چیزوں سے گھِر گئی ہے۔تکنیکی ترقی کے باعث نئےنئے آلات اورگیجیٹس سہولتوں کا دلفریب جواز لئے کب شاپنگ کارٹ سے نکل کرگھرمیں جگہ بنالیتے ہیں محسوس بھی نہیں ہوتا۔چنددہائیوں پہلے کی زندگی کس قدر سادہ اور ہلکی پھلکی ہواکرتی تھی ،لیکن اب سادہ سے سادہ زندگی بھی پرتعیش ہے۔ آج کا انسان اپنی روز مرہ زندگی میں ایسی چیزوں کو استعمال کرنے لگا ہے جن کی اسے کوئی ضرورت نہیں مثلاً اچھے اور مہنگے موبائل فونس، گاڑیاں، کپڑے، طرح طرح کے گیجیٹس، پرتکلف کھانے وغیرہ۔ ہرایک اسمارٹ بننے کا خواہاں ہیں ،ہر جگہ برینڈازم چھایا ہوا ہے۔ یہ حال سماج کے ہر طبقہ کا ہے۔غور کیا جائے تو یہ تبدیلی پچھلی چند دہائیوں میں رونما ہوئی ہے، اس سے پہلے کا انسان نہایت محتاط ، سادگی پسند اور کفایت شعار تھا۔ آخر چنددہائیوں میں ہماری زندگیوں میں یہ تبدیلی کہاں سے رونما ہوئی؟
اس تبدیلی کے پس پردہ عوامل اور میکانزم کا نہایت دلچسپ تجزیہ دو ماہرینِ سماجیات اڈرنو(Adorno)اور ہارکھائمر(Horkheimer) نے ‘ثقافتی صنعت (کلچر انڈسٹری)’ کے تصور میں پیش کیا ہے۔یہ جدید ثقافت پرہونے والی تنقیدوں میں سے نہایت اہم تنقیدہے۔دراصل سرمایہ دارانہ نظام اپنے معاشی اہداف کے حصول میں انسانی خواہشات کا استحصال کرتا ہے۔ اس نظام کی نگاہ میں سارے انسان محض صارف ہیں۔ثقافتی صنعت کا تصور ہمیں یہ سمجھنے میں مدد فراہم کرتا ہے کہ سرمایہ دارانہ نظام اپنے مفادات کی خاطر کلچر میں کیسی تبدیلی پیداکرتا ہے۔اس تبدیلی میں تین ٹولز استعمال کئے جاتے ہیں؛
1۔جھوٹی ضروریات(False Needs):سرمایہ دارانہ نظام صارفین میں جھوٹی ضروریات پروان چڑھاتا ہے اور انہیں پورا بھی کرتا ہے، جووقت کے ساتھ ‘حقیقی ضروریات’ کی جگہ لے لیتی ہیں۔
2۔کموڈٹی فیٹشزم(Commodity fetishism): سماجی تعلقات اور ثقافتی تجربات کو پیسے کی شکل میں objectifiedکیا جاتا ہے۔ ایسے میں ہماری خوشی چیزوں اور ان کی قیمت سے متعین ہوتی ہے۔مثلاً تعلقات میں تحفہ کی اہمیت نہیں رہ جاتی بلکہ تحفہ کی قیمت تعلقات کو متعین کرتی ہے۔
3۔Standardized میڈیا: پہلے انسان چیزیں ضرورت کے مطابق خریدتا تھاجو صحیح معنوں میں اس کی بنیادی ضروریات ہوا کرتی تھیں۔ لیکن اب پاپولر میڈیا انسان میں نئی نئی چیزوں کی خواہش پیدا کرتا ہے یوں اسے جھوٹی ضروریات کے جال میں پھنسا دیا جاتا ہے اور پھر ان خواہشوں کو پورا کرنے والی چیزیں فراہم کرکے اسے اُن کا عادی بنایا جاتا ہے اور سرمایہ کاروں کی تجوریاں بھری جاتی ہیں۔دراصل ہوتا یہ ہے کہ فلموں ، سیریلوں اور اشتہارات کے ذریعے ایک خاص قسم کی پرتعیش طرزِ زندگی (lavish lifestyle) کومخاطبین کے سامنے standardized کیا جاتا ہے۔ جب ایک عام انسان یہ سب دیکھنے لگتا ہے تو اس میں بھی خواہشیں انگڑائیاں لینےلگتی ہیں کہ اس کی زندگی بھی فلم یا سیریل کے کسی خاص کردار کی طرح ہو،اس جیسا بنگلہ ہو، گاڑی ہو، وضع قطع ہو۔۔۔دیکھتے ہی دیکھتے عام انسان کا کلچر تبدیل ہونے لگتا ہے۔
ٹیکنالوجی: پاپولر-میڈیا کی طرح ٹیکنالوجی بھی اب سرمایہ دارانہ نظام کی بڑی خادم ثابت ہورہی ہے۔ جس کے ذریعہ یوزر کومنحصر بنایا جاتا ہے۔ موبائل سے پہلے وائرڈ ٹیلی کمیونیکیشن کے دور میں فون نمبر یاد کرنے کامعمول تھا، صرف پِن -کوڈ کے لئے بڑی سی کتاب کا سہارا لیا جاتا تھا،لیکن اب بمشکل ہی دو تین موبائل نمبرز ہمیں یاد رہتے ہوں گے۔ اپنی قوتِ حافظہ کے بجائے فون میموری پر انحصار تو پرانی بات ہوئی اب یہ تو اے۔آئی۔ کادورہے جس میں انسان اپنی ذہانت کے بجائے لمحوں میں مشینی ذہانت سے نہ جانے کیا کچھ کررہا ہے۔ غرض یہ صرف دو مثالیں نہیں ہے بلکہ عموماً ٹیکنالوجی انسانوں کو منحصر بنارہی ہے جو کسی معذوری سے کم نہیں ہے۔ لغویات نے غفلت میں مبتلا کرکھا ہے، تنقیدی حس کمزور ہورہی ہے جس کے باعث اس کی choice اور فیصلے عدم پختگی کا شکار ہیں۔ جو کچھ تھوڑا بہت خواہشات پر ضبط انسان کے اختیار میں تھا،ای-کامرس اور اورGig-economy کے بے تحاشا فروغ کے چلتے وہ بھی کم سے کم ہوتا چلا جارہا ہے۔انسان خواہشات کے آگے سر نگوں ہوچکا ہے۔ ای-کامرس نے تو ہر کسی کو کنزیومر بنارکھا ہے۔ اکثر نوجوانوں کا عالم تو یہ ہے کہ آئے دن نئی نئی چیزیں خرید کر وقتی تسکین حاصل کرنے اور اسکرول کرنے میں مست ہےکہ کہیں ہوش آیا تو اضطراب کے باعث دم نہ گھٹ جائے! سرمایہ داری نے میڈیا اور ٹیکنالوجی کے ذریعے انسانوں کی بڑی آبادی کو مسرور کر رکھا ہے؛
ہے دل کے لئے موت مشینوں کی حکومت
احساسِ مروت کو کچل دیتے ہیں آلات
اس پس منظرکو تفصیل سے پیش کرنے کی غایت یہ ہے کہ سرمایہ دارانہ نظام کے حصار سے آزادی ہر ایک کی اہم ضرورت ہے اوراس شکنجے سے نکلنے کی سب سے کارگر تدبیر ‘استغنا’ ہے۔
استغناء:مفہوم اورتصور
‘غِنا’ یعنی بے نیازی ،جومحتاجی کی ضد ہے۔ عربی میں ‘الغانیہ’ اس خاتون کو کہتے ہیں جسے اس کا حسن وجمال کافی ہو، اسے کسی ظاہری میک اَپ کی ضرورت نہ ہو۔امام ہاویؒ استغناء کی جامع تعریف یوں پیش کرتے ہیں کہ “الغنی قلۃ تمنیک”تمہاری خواہشات کم ہوں، “والرضا بما یکفیک” اور جتنا تمہارے لئے کافی ہے اسی پر راضی رہو۔
قرآن میں خاص طور پر ان مقامات پر اللہ کے غنی ہونے کا تذکرہ کیا گیا ہے جہاں انسانوں کے خدا کی ہدایت سے منہ موڑنے، نافرمانی و سرکشی کرنے اور انانیت پر اُتر آنے کا تذکرہ ہے۔ یعنی وہاں یہ واضح کیا گیا کہ اللہ زمین و آسمان میں کسی کا محتاج نہیں۔مخلوق اس کے خالق ہونے کا ثبوت نہیں ہے بلکہ وہ اپنے آپ ستودہ صفات ہے۔تمہاری اطاعت و بندگی کی اسے کوئی ضرورت نہیں ۔ نہ ہی تمہاری فرمانبرداری نہ ہی تمہاری نافرمانی اسے کوئی فائدہ یا نقصان پہنچا سکتی ہے۔ وہ اپنے بےشمار خزانے لٹا رہا ہے بغیر اس کے کہ ان کے بدلہ میں اپنے لئے ہم سے کچھ چاہے۔
عرفِ عام میں مالدار شخص ‘غنی’کہلاتا ہے۔ جبکہ رسول اللہﷺ نے بتایا کہ دین کے نزدیک غنی کون ہے۔ فرمایا؛ لیس الغنیٰ عن کثرة العرَض،ولکنّ الغنیٰ غنیٰ النّفس(مال ومتاع کی کثرت کانام استغنانہیں ہےبلکہ حقیقی اِستغنا نفس کا مستغنی ہونا ہے)دین نے واضح کردیا کہ اصل غنی وہ ہے جو خواہشاتِ نفس سے بلندتر ہوجائے۔ حضرت عثمانؓ کو غنی کیوں کہا؟ اس لیے نہیں کہ وہ مالدار تھے، بلکہ اس لئے کہ ان کے پاس جوکچھ تھا وہ اُس سے اوپر اُٹھ چکے تھے ، وہ سخاوتِ قلب سے مالامال تھے، سرمایہ دارانہ ذہنیت سے آزاد ہوچکے تھے ۔ وہ چاہتے تو سرمایہ دار کی طرح اُس اونٹوں سے لدے سرمائے سے وہاں رہنے والوں کا بآسانی استحصال کرسکتے تھے، ان کے پاس پورا جواز تھا ،انہیں اُس سرمایہ سے مناسب منافع کمانے سے اسلام نے نہیں روکا تھا۔اگر استحصال نہ بھی کرتے توچند اونٹوں کی تجارت کرتے اورلمبی قطاروں میں غریبوں اور فقیروں کو کھڑاکر بقیہ سرمائے کو تقسیم کرکے فیاضی وسخاوت کا اعزاز بھی حاصل کرلیتے۔
جیسے بندۂ مومن دستیاب شدہ تمام مادی وغیرمادی وسائل سےبے نیاز ہوجائے ویسے ہی اُس کی ساری نیازمندیاں صرف رب العالمین سے ہوں حتی کہ اس کے جوتے کا تسمہ بھی ٹوٹ جائے تو وہ اللہ سے مانگے۔ وہ نہ اپنے جیسے انسان کا محتاج ہو نہ ہاتھوں سے تراشے گئے اصنام کا۔ نفس کے مستغنی ہونے کا مطلب یہ ہے کہ بظاہر جو کچھ انسانوں کے پاس ہے اس سے بے پرواہ ہو جائے یعنی مال ودولت سے، عہدہ و منصب سے، نام و شہرت سے، انعام و اکرام سے ، آرائش و زیبائش سے۔
انسان جب ان تمام مادی و نفسانی خواہشات سے بلند ہو جاتا ہے تب وہ صحیح معنوں میں نافع بن جاتا ہے۔ ورنہ ایک ایسا شخص جوہزار آستانوں پر سر جھکاتا ہوں، طاقتوروں کی چاپلوسی کرتا ہو، ذرا سے فائدہ کی خاطر ایمان و اقدار سے سمجھوتا کر بیٹھتا ہو،ہوس کا غلام ہو، خواہشات کا پرستار ہو، وقتی لذت کی خاطر منہ کالا کرنے سے گریز نہ کرتا ہو ایسے بدبخت سے انسانوں کے حق میں کسی نفع بخشی کی امید رکھنا بے وقوفی ہے۔
اس کے برعکس تار یخ ان نفوسِ عالیہ کی مثالیں بھی پیش کرتی ہے جو مادی و نفسانی خواہشات سے اوپر اٹھے ، جنہوں نے وقتی لذت ، آرام و آسائش کو تج کر عزیمتوں کی راہ اختیار کی۔نتیجتاً وہ محض صارف یا لینے والابننے کے بجائے دینےوالا بنے۔امام حسن بصریؒ سے متعلق مشہور ہے کہ وہ ایک غلام خانوادے سے تعلق رکھتے تھے لیکن انہیں اہلِ بصرہ کے درمیان بلند مقام و مرتبہ حاصل تھا۔ آخرایک غلام اہلِ بصرہ کے درمیان سرداری کے مرتبہ پر کیسے فائز ہوگیا؟جب یہ سوال کسی نے بصرہ والوں سے پوچھاتو ان لوگوں نے جواب دیا: “احتجنا الی علمنا” ہم ان کے علم کے محتاج ہیں، “وستغنا عن دنیانا” لیکن وہ ہماری دنیا سے بے نیاز ہیں!!! یہ صرف حسن بصری کے مقامِ بلندتک رسائی کا راز نہیں بلکہ یہ تو ہر عظیم انسان کی عظمت کا راز ہے۔ یہ وہ خدائی اصول ہے جو ہر ایک کے لئے یکساں ہے کہ جو کوئی اپنے آپ کو زمانہ کی ضرورت ثابت کرے گا ،اپنے اندر صلاحیت و اہلیت پیدا کرے گا ،وہ نفع بخشی کے سبب عظمت و دوام سے ہمکنار ہو گا۔
وَاَمَّا مَا يَنۡفَعُ النَّاسَ فَيَمۡكُثُ فِى الۡاَرۡضِ(الرعد:17) جو کچھ انسانوں کے لئےنفع بخش ہوتا ہے وہ زمین میں ٹھہرجاتا ہے۔
دوٹوک الفاظ میں کہا جائے تو چھ امورترجیحی بنیاد پرایسے ہیں جن میں بے نیازی کی سب سے شدید ضرورت ہے۔ (1) مادی اشیاء سے بے نیازی، (2)عہدے یا مناصب سے بے نیازی،(3)نام وشہرت سے بے نیازی، (5)لذتوں سے بے نیازی (جس میں ایسی چیزوں سے دوری بھی شامل ہے جو قوتِ محرکہ کو triggerکرنے کاذریعہ بن جائے،مطلوب یہ ہے کہ تعمیری کاموں کا داعیہ فی نفسہٖ داخلی ہو نہ کہ خارجی۔ مثال کے طور پرکافی جو حرام نہیں ہے لیکن اگر کافی کے بغیر کسی علمی وتخلیقی کام کی انجام دہی کا داعیہ ہی نہ پیدا ہوتب کافی کے انحصار سے نکلنا بھی بے نیازی میں شامل ہوگا۔ اسی طرح غیرمعیاری چیزوں سے بھی گریز ضروری ہے جیسے ضب(گوہ) سے متعلق روایت میں ملتا ہے کہ رسولؐ نے اسے کھانا پسند نہیں کیاجبکہ اسے حرام نہیں قراردیا گیا، (6)دوسروں کی ملامت سے بےنیازی ۔بے نیازی صرف ان 6 معاملات تک محدود نہیں ہے بلکہ وہ تو ایک کیفیت ہے جو زندگی کے سارے معاملات میں نمایاں ہونی چاہئے۔
دراصل وقت کے ساتھ بات کوصاف صاف بغیر کسی ابہام کے کہنا ضروری ہوتا جارہا ہے۔آج کل تربیتی مباحث میں خودفریبی عام ہوچکی ہے یعنی ہر بات دوسروں کے لئے ہے یہ کمبخت نفس خود کو مخاطب بننے ہی نہیں دیتا ،چالاکی سے خود کو کنارے کرلیتا ہے!
صنم خانے کے پاسباں۔۔۔
سماج میں موجود مخفی ڈھانچہ (Hidden Structure) زیادہ حقیقی، طاقتور اور جبری ہوتا ہے۔اس کی وجہ یہ ہے کہ اس ڈھانچہ کو وہاں رہنے والے اپنے افعال کے ذریعہ روزانہ مستحکم کرتے رہتے ہیں۔ اگر ہم مخفی ڈھانچہ کو دل سے تشبیہ دیں تو اس کے مسلسل دھڑکتے رہنے میں جو کردار آکسیجن کا ہے وہی کردار ہمارے افعال کا ہے جس کے ذریعہ ہم اسے جلا بخشتے رہتے ہیں۔مثال کے طور پر سماجی روایات کو لیجئے یہ کسی بینک کی طرح انفراسٹرکچر کی شکل میں کسی جگہ قائم نہیں ہے بلکہ یہ مخفی ہے ۔دراصل جب ہم ان روایات کو عمل میں لاتے ہیں تب انہیں مستحکم کرتے ہیں۔ یعنی اگر کسی مخفی ڈھانچہ کو کمزور یا ختم کرنا ہو تو اسے اپنے افعال سے مستحکم کرنا بند کردیجئے، وہ پہلے سکڑجائے گا پھر دم توڑ دے گا۔ یہاں یہ واضح کرنا مقصود ہے کہ افرادِ تحریک جو اسلامی نظام کے غلبہ کی جدوجہد کررہے ہیں وہ بھی دراصل نادانستہ ہی سہی لیکن اُن ہی لوگوں میں شامل ہیں جو سرمایہ دارانہ نظام کے درخت کو روزانہ سینچنے میں مصروف ہیں۔ ہمارا دن بہ دن اس ظالم و استحصالی نظام پر منحصر ہوتے چلے جانا جہاں اُسے قوت فراہم کرنے کے مترادف ہے، وہیں ہمارے عملی تضاد کا ثبوت ہے۔ یہ بات کتنی مضحکہ خیز ہے کہ جو اُس نظام کو اکھاڑ پھینکنے کا عزم لے کر اٹھے تھے وہ بھی اُس کے پاسبانوں میں شام ہوگئے!
مختصر یہ کہ اس تہذیب کے زیرِ سایہ گزرنے والا ہردن ہمیں منحصربناتا چلا جارہا ہے۔اور یہ انحصار اُن لوگوں کے لئے لمحۂ فکریہ ہے جو اس تہذیب کی بنیادوں سے بغاوت رکھتے ہیں اور اسے اکھاڑ پھینکنا چاہتے ہیں!لیکن کیا وہ لوگ اس تہذیب کے ذریعے پیدا کردہ منحصر بنانے والی ٹیکنالوجی سےایک دن بھی بے نیازی اختیار کرسکتے ہیں۔۔۔؟میرے خیال میں انفرادی سطح پر اس دور کا عظیم ترین معرکہ ‘انحصار کے خول’ کو توڑ کر بے نیازی و قناعت اختیار کرنا ہے۔
اب سوال یہ ہے کہ بےنیازی کی کیفیت پیدا کیسے ہوتی ہے؟
1:قناعت
حضرت علیؓ فرماتے ہیں کہ “میں نے استغنا کو تلاش کیا تو مجھے قناعت کے علاوہ کچھ نظر نہ آیا، تم بھی اگر استغنا چاہتے ہو تو قناعت اختیار کرو۔” عربی میں قِنَاعٌ اوڑھنی کو کہتے ہیں جس سے عورتیں اپنا سر اورسینہ ڈھانپتی ہیں۔اس سے قَنِعَ کے معنی ہیں اس شخص نے اپنے فقرکوچھپانےکےلیےسرپر کچھ اوڑھ لیا۔لہذا لغت میں قَانِعٌ کی تشریح یہ کی گئی ہے کہ انسان اپنی ضرورتوں اور حاجتوں کوانسانوں سے چھپا لے جیسے اوڑھنی کے ذریعے سے ایک خاتون اپنے بدن کو چھپاتی ہے۔
قناعت میں تین پہلو شامل ہیں پہلا اِنسانوں سےاخفاءِ حاجت۔ دوسرا بغیر اصرار حاجتیں حاجت رواں کے سامنے پیش کرنا۔ تیسراتخفیفِ حاجت (یعنی ضرورتوں کو کم سے کم کرنا، سمیٹنا اور جو کچھ دستیاب ہے اس پر راضی رہنا)۔
اصل مسئلہ اس وقت شروع ہوتا ہے جب ضروریات میں اضافہ ہوتا چلا جاتا ہے۔ خواہشات کا سلسلہ کبھی نہ ختم ہونے والا ہے آپ ایک کی تکمیل کرتے ہیں تو دو مزید انگڑائیاں لینے لگتی ہیں ۔شیخ رافع فرماتے ہیں کہ “زندگی کا سب سے تنگ قید خانہ کوئی بے مقصد خواہش ہے، جس میں ایک زندہ شخص اپنے آپ کو محبوس کرلیتا ہے، نہ اسے چھوڑ پاتا ہے اور نہ اس کی تکمیل کرپاتا ہے، جتنی وہ خواہش بڑھتی ہے، اتنا ہی اس کی شقاوت اور بدبختی میں اضافہ ہوتا ہے۔”
جب تک آپ حقیقی و غیر حقیقی ضروریات میں فرق نہیں کرتے تب تک فالتو خواہشوں کی قید سے آزاد ہوپانا نہایت مشکل ہے ۔نیوٹن سے متعلق یہ مشہور ہے کہ وہ سگار نہیں پیتا تھا جب کہ اس کے زمانہ میں سگار ذہین لوگوں گا شوق سمجھا جاتا تھا۔ اس کے احباب اس سے اصرار کیا کرتے تھے کہ وہ بھی سگار استعمال کرے۔ لیکن نیوٹن سگار کو فضول شوق اور کام میں انتشار کا ذریعہ سمجھتاتھا۔دراصل یہاں یہ سمجھنا ضروری ہے کہ فالتو ضروریات یا خواہشات زندگی کے پہیے میں پنکچر کی مانند ہوتے ہیں جو آپ کے اور مقاصد و اہداف کے درمیان فاصلوں میں اضافہ کا باعث ہوتے ہیں۔جب انسان کسی بے فائدہ شوق میں مبتلا ہوجاتا ہے تو وہ صرف وقت ضائع نہیں کرتا بلکہ وہ زندگی میں انتشار کا دروازہ کھولتا ہے۔اسی لئےہر وقت جائزہ لیتے رہنے کی ضرورت ہے کہ ہماری زندگی کے پہیے میں کون کونسے پنکچر لگے ہیں۔
2:اللہ پرایمان
انسان کو جب تک یہ پختہ یقین نہ ہو کہ سارے فضل کا مالک اللہ ہے، تب تک اُس میں استغنا کی کیفیت پیدا نہیں ہو سکتی۔اگراللہ نے کسی کو خوب مال و دولت سے نواز رکھا ہے تو اس سے تقابل کے بجائے آپ غور کریں کہ اللہ نے آپ کو کس فضل سے نواز رکھا ہے۔ہو سکتا ہے آپ مال کی تنگی میں مبتلا ہو،لیکن ہمارا رب ہماری ضرورتوں کو بہتر جانتا ہے، اُس نے جیسے کسی اور کو نواز رکھا ہے کوئی بعید نہیں کہ صحیح وقت آنے پر وہ ایسا نوازے کہ جس کا وہم وگمان بھی نہ ہوسکے۔البتہ انسان اس یقین کے ساتھ کوشش کرے، محنت کرے،بس حرص و ہوس سے بچے۔اللہ تعالی نے فضل کی تلاش میں زمین پر پھیل جانے کابھی تو حکم دے رکھا ہے۔ لیکن انسان کو یہ یقین ہونا چاہیے کہ سب کچھ ‘باذن الله’ ہوتا ہے۔
3:صلاحیت و اہلیت
صلاحیت واہلیت انسان کو خودکفیل بناتی ہے۔ڈایوجینز(Diogenes) ایک بڑا فلسفی گزرا ہےجوافلاطون کا ہم عصرتھا۔مختلف مکتبہ فکر سے تعلق رکھنے کی وجہ سے دونوں کے درمیان کئی مرتبہ ٹکراؤ ہوتا رہتا تھا۔ ڈایوجینزفلسفہ کی Cynicاسکول سے وابستہ ہونے کی وجہ سے پکاخود کفالت کا حامی تھا وہ کسی بھی سیاسی سرپرستی کے سخت مخالف تھا ۔یہی وجہ ہے کہ اُس نے نہایت سادہ زندگی گزاری۔ اسے کہیں سے بڑا سا ٹَب میسر آگیا تھا جو اس کا چلتا پھرتا مسکن تھا۔ایک دن وہ سبزیاں دھونے میں مصروف تھا اتنے میں وہیں سے افلاطون کا گزر ہوا۔ اس نے موقع دیکھ کر طنزیہ انداز میں کہا کہ” ڈایوجینز اگر تمہیں یہ اندازہ ہوتا کہ Dionysius(یونانی شہری-ریاست ‘Syracuse’ کاحکمران تھا) کی وکالت(اگر تم اس کے دربار میں حاضری دیتے) کیسے کی جاتی ہے تو آج تمہیں یوں سبزیاں دھونے کی نوبت نہ پیش آتی۔” جس پر ڈایوجینز نے افلاطون کو جواب دیا کہ “اگر تمہیں سبزیاں دھونا آتی تو تمہیں یوں Dionysiusکی چاکری نہ کرنی پڑتی”۔یہ صرف مکالمہ نہیں ہے بلکہ طرزِ زندگی کی عکاسی ہے۔جب انسان کا مزاج خود کے کام خود انجام دینے کا ہواور وہ صلاحیت مند ہوتو وہ نہ صرف سستی، کاہلی سے محفوظ ہوجاتا ہے بلکہ وہ دوسروں کے انحصار سے بھی آزاد ہوجاتا ہے۔اسے معمولی کاموں کے لئے دوسروں کی منت وسماجت کرنے کی نوبت نہیں آتی، وہ چاپلوسی کی ذلت سے محفوظ ہوجاتا ہے۔پختہ شخصیت زندگی کے اصولوں، معیارات اور اقدارپر ثابت قدمی کا مثالی نمونہ ہوتی ہیں۔
4:دعا
بے نیازی اس قدر بلند کیفیت ہے کہ جسے رسول اللہﷺ اللہ سے مانگا کرتے تھے۔ہمیں اپنی ممکنہ کوشش کے ساتھ کثرت سے دعا بھی کرنی چاہئے۔ کافی مشہور دعا ہے جس کے الفاظ یہ ہے؛ اللَّهُمَّ إِنِي أَسْأَلُكَ الهُدَى، وَالتُّقَى، وَالعفَافَ، والغِنَى(یا اللہ! میں تجھ سے ہدایت، پرہیزگاری، پاکدامنی اور دل کی بے نیازی کا سوال کرتا ہوں۔)
معراجِ مسلمانی
علامہ اقبالؒ نے جگہ جگہ کئی اشعار میں استغناکو موضوعِ بحث بنایا ہے ۔دیگر اشعار سے صرفِ نظر کرتے ہوئے یہاں ان کی ایک مکمل نظم جس کا عنوان ہے ‘ایک نوجوان کے نام’ ۔یہ نظم نہایت خوبی سےاس موضوع کو اپنے اندرسمیٹ لیتی ہے۔ پچھلے کچھ عرصہ سے’موجودہ حالات۔۔۔’کی ہمارے درمیان ایسی رٹ لگی ہے کہ کئی نہایت اہم امور گم گشتہ باب بن کے رہ گئے ہوں، نہ اُن پر گفتگو ہے نہ فکرمندی! اُن ہی گم گشتہ موضوعات میں یہ موضوع بھی سرِ فہرست ہے۔
ترے صوفے ہیں افرنگی ترے قالیں ہیں ایرانی
لہو مجھ کو رلاتی ہے جوانوں کی تن آسانی
امارت کیا شکوہ خسروی بھی ہو تو کیا حاصل
نہ زور حیدری تجھ میں نہ استغنائے سلمانی
اقبال جوانوں کی تن آسانی سےنہایت غمگین ہیں اوراِس تن آسانی کا سبب افرنگی صوفے اور ایرانی قالین ہےجودراصل پُرتعیش طرزِ زندگی کی جانب اشارہ کررہے ہیں۔اقبال تیسرے مصرعہ میں کہتے ہیں کہ سامانِ آسائش تو ایک طرف۔ تجھے خسرو کی مانندبادشاہی شان وشوکت بھی مل جائے تب بھی کیا حاصل ۔ دراصل تن آسا نی کسی صورت جوانوں کوزیب نہیں دیتی ، اصلاًجوانی کو توآراستہ ہونا چاہئے قوت و جر أت اوراستغناسے۔ اِن صفات کے بغیر باقی سارامادی سرمایہ ہیچ ہے ۔
نہ ڈھونڈ اس چیز کو تہذیب حاضر کی تجلی میں
کہ پایا میں نے استغنا میں معراج مسلمانی
عقابی روح جب بیدار ہوتی ہے جوانوں میں
نظر آتی ہے ان کو اپنی منزل آسمانوں میں
جس تہذیبِ حاضر نے تجھے پُرتعیش طرزِزندگی کے دام میں پھنسا ررکھا ہے وہ سب مصنوعی چکاچوند ہےوہاں تجھے جرأت و بے نیازی کبھی میسر نہیں آسکتی ۔اُس کے لئے تو تجھے قرنِ اول کی طرف پلٹنا ہوگا اور قرنِ اول عبارت ہے زورِ حیدری اور استغنائے سلمانی سے۔اقبالؔ یہ بتاتے ہیں کہ اُن پر آشکارہوا کہ دراصل استغنا میں معراجِ مسلمانی پوشیدہ ہے۔جب جوانوں میں عقابی روح بیدار نہ ہو تب انہیں منزلیں آسمانوں میں نظر نہیں آتی بلکہ وہ خاک چھاننے میں لگے رہتے ہیں ۔تو گویا مسلمانوں کی سربلندی کے عناصرجوہرِ دین میں پوشیدہ ہیں نہ کہ کسی تہذیبِ حاضر میں جس کا تو اندروں خود تاریک تر ہے۔
(مضمون نگار، مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی میں شعبہ سماجیات کے ریسرچ اسکالر ہیں)