اُدخُلُوْفِی السِلْمِ کَآ فَۃًٓ -(تم پورے کے پورے اسلام میں داخل ہوجاؤ)

ایڈمن

قرآن مجید میں اللہ رب العزت مومنین سے مخاطب کرتے ہوئے کہتا ہیکہ ”ائے لوگو جو ایمان لائے ہو تم پورے کے پورے اسلام میں آجاؤ“ (البقرہ 208)۔ یہ خطاب، عام انسانوں سے نہیں ہے بلکہ مسلمانوں سے ہے جو…

قرآن مجید میں اللہ رب العزت مومنین سے مخاطب کرتے ہوئے کہتا ہیکہ ”ائے لوگو جو ایمان لائے ہو تم پورے کے پورے اسلام میں آجاؤ“ (البقرہ 208)۔ یہ خطاب، عام انسانوں سے نہیں ہے بلکہ مسلمانوں سے ہے جو پہلے سے ہی اسلام کے پیروکار ہیں اور اس پر عمل پیرا ہیں، سمجھنے والی بات یہ ھیکہ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں سے ہی یہ بات کیوں کہی ہے؟ اس بات کو سمجھنے کے لئے قرآن مجید کی آیت جس میں اللہ تعالیٰ نے اس دینِ اسلام جس پر ہم(مسلمان) عمل پیرا ہیں کے متعلق ارشاد فرماتا ہیکہ ”مسلمانوں! آ ج میں نے تمہارے لئے دین کومکمل کردیا اور تم پر اپنی نعمت پوری کردی اور تمہارے لئے بحیثیت دین کے ”اسلام“ کو پسند کیا ہے“ (سورہ مائدہ۔ ۳)۔ مزیدایک مقام پر ھیکہ ”بلا شبہ اللہ کے نزدیک (پسندیدہ اور مقبول) دین ”اسلام“ ہے (العمران۔۹۱)۔ اِن آیتوں میں ”الاسلام“صاف طور پر خاص اسی ایک دین کو کہا گیا ہے جو قرآن اور حضرت محمدﷺ کا لایا ہوا دین ہے۔مولانا صدر الدین اصلاحیؒاسلام کے تعارف کے بعد لفظ ”مسلم“ کا تعارف کرواتے ہوئے قرآنِ مجید کی ایک آیت کا حوالہ دیتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں ارشاد فرمایا ”اسی نے تمہارا نام پہلے ہی سے اور اسی امر کے پیشِ نظر ”مسلم“ رکھا ہے۔(سورۃ حج- 78)، مولاناؒ تشریح میں فرماتے ہیکہ ”مسلم یعنی فرمانبردار، اس ذات کا فرمانبردار جس نے اس کو پیدا کیا، سارے جہانوں کو پیدا کیا اور تمام کا خالق، مالک و حاکم ہے۔مذکورہ بالا آیات اسے امر کا اندازہ ہوتا ہے کہ اللہ رب العزت کے نزدیک مقبول ترین اور پسندیدہ دین ”اسلام“ ہے اور یہی وہ دین ہے جس پر مکمل عمل پیرا ہوکر ایک فرد کی کامیابی ممکن ہے“۔ اللہ رب العزت نے دین اسلام کو ہر شعبہ کے لئے مکمل کردیا ہے یہ صرف چند عقائد اور فرائض کا نام نہیں ہے بلکہ زندگی کے ہر شعبہ کے لئے قابلِ قبول اور کارفرماں ہے، انسان کی سماجی زندگی، معاشی زندگی، معاشرتی زندگی حتیٰ کے گھریلو اور انفرادی زندگی کو بھی اسلام نے واضح اندازمیں پیش کردیا ہے یہی وجہ ہیکہ آپﷺ نے اپنی اجتماعی زند گی سے لیکر انفرادی زندگی اور اپنی ذاتی زندگی سے لیکر ازداجی زندگی تک کو صحابہؓ اور دنیا کے سامنے پیش کردیا تاکہ لوگ اس سے رہنمائی حاصل کرسکیں اور اپنی زندگیوں میں عمل کرسکیں۔ قرآن مجید نے اسی بات کو اسطرح سے کہا ہیکہ ”درحقیقت تم لوگوں کے لئے حضورﷺ میں ایک نمونہ تھا“ (سورۃ الاحزاب 21)

”ادخلو فی سلمہ کافۃ“ یہ آیت اس بات کا اعلان کرتی ہے کہ اسلام محض مسجدوں اور چند عبادات کی حد تک محدود نہیں ہے بلکہ زندگی کے ہر شعبہ کو اسلام پیش کرتا ہے اور ایسا راستہ دکھلاتا ہے جسمیں سراسر کامیابی ہی کامیابی موجو دہے۔ مولانا مودودیؒ مذکورہ بالا آیت کی تشریح میں لکھتے ہیں
”یعنی کسی استشنا اور تحفظ کے بغیر اپنی پوری زندگی کو اسلام کے تحت لے آؤ۔ تمہارے خیالات، تمہارے نظریات، تمہارے علوم، تمہارے طور طریقے، تمہارے معاملات اور تمہاری سعی و عمل کے راستے سب کے سب بالکل تابعِ اسلام ہوں۔ ایسانہ ہو کہ تم اپنی زندگی کے مختلف حصوں میں اسلام کی پیروی کرو اور بعض حصوں کو اس کی پیروی سے مستشنیٰ کرلو“۔(تفہیم القرآن)

دور حاضر میں مسلمانوں نے ہی اسلام کو منقسم کردیا ہے۔ ذاتی زندگی، اجتماعی زندگی اور اسلامی زندگی جیسے حصوں میں تقسیم کرتے ہوئے اسلام کو محض مساجد تک محدود کردیا ہے جس کا نتیجہ یہ ہو کہ خود مسلم ممالک میں ہی ان کا سماجی، معاشی اور معاشرتی زوال شروع ہوگیا جیسے ہی مسلمانوں نے اسلام کو محدود کردیا، ان کے اندر اخلاقی گراوٹ کے ساتھ ساتھ ان کا وزن بھی ہلکا ہوتا چلا گیا اور آج مسلمان دفاعی پوزیشن میں آکھڑے ہوگئے ہیں، کہیں اپنے حقوق کے لئے لڑ رہے ہیں تو کہیں تحفظات کی مانگ۔۔۔! اسی بات کو مولانا ابولحسن علی ندویؒ اس آیت کی تشریح میں بیان کرتے ہیں۔
”اس میں یہ بات لحاظ کرنے کی ہے کہ سوفیصدی اسلام میں داخل ہوجانا چاہئے، مسلمان بھی سو فیصدی ہو اور اسلام بھی سو فیصدی ہو، نہ مسلمانوں میں کوئی تحفظ، استشناء یا ریزرویشن ہے، خدا کا مطالبہ اور قرآن مجید کی صریح آیت ھیکہ سو فیصدی مسلمانوں کو سو فیصدی اسلام میں داخل ہونا چاہئے“۔(بحوالہ ماہنامہ ردائے حرم حیدرآباد شمارہ نومبر 2004؁ء)

قرآن اس بات کا صاف انداز میں اعلان کرتا ہیکہ اگر تمہیں اسلام میں رہتا ہے تو مکمل اسلام میں داخل ہوجاؤ ورنہ یہ منافقت کی صفت کو اپنا کر اسلام میں رہنا صرف اور صرف تمہارے لئے ہی نقصاندہ ہے، اگر تمہیں اسلام میں رہنا ہے تو تمہیں اپنی پوری زندگی کو اللہ کے ”مسلم“ (فرمانبردار) بن کر گزارنا ہوگا ورنہ تمہارے لئے اجازت ہیکہ تم کو ئی اور مذہب کو اختیار کرکے اپنی خواہشاتِ نفس کی پیروی کرسکتے ہو۔ لیکن یہ بات یقینی طور پر سمجھ لینا چاہئے کہ کامیابی و کامرانی صرف اور صرف اسلام میں ہی ہے۔

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہیکہ اسلام نے یہ Condition کیوں رکھی ہے؟اس کی مثال ایک پیشہ وارانہ کمپنی کے ذریعہ سے لی جاسکتی ہے، ایک کمپنی جسمیں آپ ملازمت کرتے ہوں اور وہاں پر آپ اس فرد کے تابع دار ہوتے ہیں جس کی یہ کمپنی ہے۔ آپ کو اس کمپنی کے مالک کی ہر بات کو ”سمعنا واطعنا“ کی طرح سن کر عمل کرنا ہوتا ہے اور اگر آپ اس میں ذرہ برابر بھی کوتاہی کرینگے تو اس کمپنی کا مالک آپ کو ملازمت سے خارج کردیگا، اسی طرح اس کائینات اور خود انسان کی تشکیل کرنے والا موجود ہے جس نے اس کائینات کے نظام کو چلانے کی ذمہ داری انسانوں کے اورپردے دی اور احکامات سے بھی روشنا س کروادیا ہے، اب اگر انسان خدا کی بنائی ہوئی زمین، اور کائینات کو خدا کے بتائے ہوئے قوانین کے مطابق ہی چلائیں گے اور اپنی زندگی کو بھی کامل اسلامی احکامات کے مطابق گزارینگے تب ہی وہ آپ کو کامیاب کریگا اور اگر خدا کی بنائی ہو ئی کائینات پر خدا کے قانون کے بجائے خود ساختہ قوانین کے مطابق چلائیں گے تو کیونکر وہ آپ کو کامیاب کریگاَ اور کیونکر اپنے پسندیدہ بندوں میں شامل کریگا؟۔ اس لئے اس امر کو سمجھ لینا انتہائی ضروری ہیکہ اسلام میں مکمل طور پر عمل آواری سے ہی دنیوی اور اخروی کامیابی ممکن ہے۔ اس بات کو مولانا مودودیؒ بیان کرتے ہیکہ
”اسلام انسان کی پوری زندگی سے بحث کرتا ہے اور عملاً اس کا قیام اس کے بغیر نہی ہو سکتا کہ ہر شعبہ زندگی کو پورے توازن کے ساتھ اس کے دائرہ عمل میں لایا جائے۔ اس لئے ہم کسی پہلو کو نظر انداز نہیں کرسکتے“۔
٭٭٭

محمد فراز احمد

حالیہ شمارے

براہیمی نظر پیدا مگر مشکل سے ہوتی ہے

شمارہ پڑھیں

امتیازی سلوک کے خلاف منظم جدو جہد کی ضرورت

شمارہ پڑھیں