انفاق فی سبیل اللہ اور انسانی شخصیت پر اس کے اثرات

ایڈمن

دنیا میں ہر انسان کو اپنی جان و مال اور اولاد بہت عزیز ہوتے ہیں، ان کے لئے وہ دن رات محنت کرتاہے، جائز و ناجائز کی بھی تمیز نہیں کرتا، بعض اوقات تو مال و متاع کی محبت اور…

دنیا میں ہر انسان کو اپنی جان و مال اور اولاد بہت عزیز ہوتے ہیں، ان کے لئے وہ دن رات محنت کرتاہے، جائز و ناجائز کی بھی تمیز نہیں کرتا، بعض اوقات تو مال و متاع کی محبت اور اس کے حصول کے لئے وہ اپنی جان تک کو قربان کردیتاہے۔قرآن میں اللہ تعالیٰ نے بیان فرمایا:
’’ اَلْھٰکُمُ التَّکَاثُرُoحَتّٰی زُرْتُمُ الْمَقَابِرَo‘‘(التکاثر: ۱۔۲)
ترجمہ’’تم لوگوں کو زیادہ سے زیادہ اور ایک دوسرے سے بڑھ کر دنیا حاصل کرنے کی فکر و دھن نے غفلت میں ڈال رکھا ہے یہاں تک کہ اسی فکر میں تم لبِ گور تک پہنچ جاتے ہو۔‘‘
یہی مال و متاع اور دنیا کی حرص وطمع انسان کو اس کی انسانیت سے گراکر حیوان بلکہ اس سے بھی بد تر حالت میں لا کھڑا کر دیتی ہے۔انسان کی یہ کیفیت دراصل اس کے اپنے مقصدوجود سے ناواقفیت اور اپنے خالق و مالک سے دوری کے نتیجہ میں ہوتی ہے۔ جب کوئی بندہ اپنے رب کو پہچانتا ہے اور اپنے وجو دسے واقف ہو کرخوداورخداشناسی اختیارکرتا ہے تو پھر یہی مال و دولت اس کے لئے دنیا و آخرت دونو ں جہاں کی کامیابی و کامرانی کاموجب بنتاہے۔جو بندہ اپنے عزیز ترین مال کو اللہ کی راہ میں، اس کے دین کی توسیع واشاعت کی خاطر، اور اُن بندوں پر جوکمزور ومحتاج ہیں خرچ کرتا ہے، تو ایسے بندوں کے لئے بشارتوں اور خوب خوب انعامات کا ذکر قرآن و حدیث میں رسول اللہؐ کے ذریعہ سے بیان کیا گیا ہے۔
) انفاق اجر عظیم کا ذریعہ:
قرآن مجید میں فرمایا گیا:’’مَثَلُ الَّذِےْنَ ےُنْفِقُوْنَ اَمْوَالَھُمْ فِیْ سَبِےْلِ اللّٰہِ کَمَثَلِ حَبَّۃٍ اَنْبَتَتْ سَبْعَ سَنَا بِلَ فِیْ کُلِّ سُنْبُلَۃٍ مِّا ءَۃُ جبَّۃٍ وَاللّٰہُ ےُضٰعِفُ لِمَنْ یَّشَآءُ وَاللّٰہُ وَاسِعٌ عَلِےْمٌo‘‘(البقرہ: ۲۶۱)
ترجمہ:’’جو لو گ اپنے مال اللہ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں،ان کے خرچ کی مثال ایسی ہے جیسے ایک دانہ بویا جائے اور اس سے سات بالیں نکلیں اور ہر بالی میں سو(۱۰۰؍)دانے ہوں ۔اسی طرح اللہ جس کے عمل کو چاہتا ہے افزونی عطافرماتا ہے۔وہ فراخ دست بھی ہے اور علیم بھی۔‘‘
اللہ کی راہ میں مال خرچ کرنے پر حاصل ہو نے والے اجر و ثواب کو ایک بہترین تمثیل سے واضح کیا گیا۔یقیناًجو بندہ آخرت کے لئے اور اللہ کی رضا کی خاطر جس قدر خلوص اور گہرے جذبہ سے اس کی راہ میں خرچ کرے گا، اس کو فراخ دست اور باخبر خدا اسی لحاظ سے بڑھا چڑھا کر ایسے زبردست اجروانعام سے نوازے گا جس کا اس دنیا میں ہم تصور بھی نہیں کر سکتے۔ ایک حدیث میں آپؐ نے فرمایا:’’اگر کوئی مومن راہِ خدا میں ایک کھجور بھی صدقہ کرے تو اللہ تعالیٰ اسے بڑھا کر اُحد پہاڑ کے برابر کردیتاہے۔‘‘
) انفاق ہدایت کا ذریعہ:
جو لوگ اللہ کی راہ میں مال خرچ کرتے ہیں ایسے بندوں سے متعلق ایک عظیم نعمت کا ذکر کرتے ہوئے قرآن میں فرمایا گیا: ’’ذٰلِکَ الْکِتٰبُ لَا رَےْبَ فِےْہِ ھُدًی لِّلْمُتَّقِےْنَoالَّذِ ےْنَ ےُوْمِنُوْنَ بِا لْغَےْبِ وَ ےُقِمُوْنَ الصَّلٰوۃَ وَ مِمَّا رَزَقْنٰھُمْ ےُنْفِقُوْنَo ‘‘(البقرہ: ۳،۲)
ترجمہ: ’’یہ اللہ کی کتا ب ہے اس میں کو ئی شک نہیں، ہدایت ہے ان پرہیز گار لوگوں کے لئے جو غیب پر ایمان لاتے ہیں،نماز قائم کرتے ہیں،جو رزق ہم نے ان کو دیا ہے،اس میں سے خرچ کرتے ہیں۔‘‘
اللہ کی راہ میں مال خرچ کرنے کی اہمیت اس سے بڑھ کر اور کیا ہو گی کہ کتاب اللہ سے ہدایت حاصل ہو، بندہ اس صفت کے بغیر ہدایت سے محروم رہتا ہے، خود غرض، تنگ دل،مال کی محبت میں گرفتار ایک بخیل انسان جو اپنے مقصد کی خاطر کچھ قربان نہ کر سکے اس لائق نہیں کہ اسے ہدایت کی دولت ملے ،ہدایت کی راہ پر وہی لوگ چل سکتے ہیں جو مال کی محبت سے دور اور کشادہ دل وفیاض ہوں ،خداکی خاطر مال کو خوشی خوشی اس کے دین پر قربان کر سکتے ہوں۔
) انفاق تزکےۂ نفس کا ذریعہ:
انفاق تزکیہ نفس کا ایک اہم ترین ذریعہ ہے۔ ہم میں سے ہر فرد کی یہ خواہش ہوتی ہے کہ اس کا تزکیہ ہو اور وہ کا میاب ہو جائے،جیسا کہ قرآن نے کہا:’’ قَدْاَفْلحَ مَنْ تَزَکیٰ‘‘ ۔’’جس نے اپنے نفس کا تزکیہ کیا وہ کامیاب ہو گیا۔‘‘اس تزکیہ نفس کا ایک اہم ذریعہ اللہ کی راہ میں مال کا خرچ کرنا ہے۔
فرمایاگیا اللہ کے رسولؐسے’’خُذْمِنْ اَمْوَالِھِمْ صَدَقَۃً تُطَھِّرُھُمْ وَتُزَکِّےْھِمْ۔‘‘ (التوبہ: ۱۰۳)
ترجمہ: ’’اے نبیؐ! ان کے اموال میں سے صدقہ لے کر انہیں پاک کرو اور (نیکی کی راہ میں) انہیں بڑھاؤ۔‘‘
صدقہ کا اہم ترین مقصد یہ ہے کہ نفس کا تزکیہ ہو جائے۔بخل و حرص اور دنیا پر ستی کے تمام بُرے جذبات سے دل پاک ہو،خدا کی محبت و خوفِ خدا پیداہو، اور روحانی ترقیوں کی راہ آسان ہو ،اسی مقصد کی وضاحت ایک اور مقام پر فرمائی گئی ہے:
’’ وَسَےُجَنَّبُھَاالْاَ تْقَیo اَلَّذِیْ ےُوْتِیْ مَالَہُ ےَتَزَکَّیٰo ‘‘ (الّیل: ۱۸،۱۷)
ترجمہ : ’’اوراس ( جہنم کی آگ )سے دور رکھا جائے گا وہ نہایت پرہیز گارجو پا کیزہ ہونے کی خاطر اپنا مال دیتا ہے۔‘‘
) انفاق غلبۂ دین میں تعاون کا ذریعہ:
انفاق اللہ کے دین کے غلبہ کی راہ میں کام آنے والا بہترین مال ہے: ’’وَتُجَاھِدُوْنَ فِیْ سَبِےْلِ اللّٰہِ بِاَمْوَالِکُمْ وَاَنْفُسِکُمْ ط‘ ‘(الصف: ۱۱)
ترجمہ:’’اللہ کی راہ میں جہاد کرو اپنے مالوں اور اپنی جانوں سے‘‘۔
معلوم ہوا کہ اللہ کی راہ میں جہاد دو طرح سے کیا جانا چاہیے ایک تو اپنے مال اور دوسرے اپنی جان سے۔یہاں پر جان سے اللہ تعالیٰ نے مال کو مقدم رکھا۔جو شخص اپنے عزیز ترین مال کو قربان کرنے کا جذبہ رکھتاہے وہ دوسرے محاذ پر یعنی جان کو بھی آسانی سے اس کی راہ میں قربان کرنے کے لئے تیار ہوسکتاہے، اور مزید اس کی وضاحت کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
’’اِنْفِرُوْا خِفَافًا وَّ ثِقَا لاًوَّجَاھِدُوْابِاَمْوَالِکُمْ وَاَنْفُسِکُمْ فِیْ سَبِےْلِ اللّٰہِ ط۔‘‘(التوبہ۴۱)
ترجمہ:’’نکلو خدا کی راہ میں خواہ ہلکے ہو یا بوجھل اور خدا کی راہ میں اپنے مال اور جانو ں سے جہاد کرو۔‘‘
ہلکے اور بوجھل ہو نے سے مراد یہ کہ تمہارے پاس مال و اسباب اور اسلحہ کی فراوانی ہویا تم تہی دست ہو،تمہارے پا س طاقت و قوت ہو یا تم کمزور ہو، غرض ہر حال میں خدا کی راہ میں نکلو تاکہ دین کی سربلندی ہو اورکفر دم توڑدے۔
) انفاق مغفرت کا ذریعہ:
انفاق خدا کے غضب کو ٹھنڈا کرنے اور اس کی مغفرت کا بہترین ذریعہ ہے۔فرمایا گیا:’’اَلشَّےْطٰنُ ےَعِدُ کُمُ الفَقْرَ وَ ےَا مُرُکُمْ بِالفَحْشَاءِ وَاللّٰہُ ےَعِدُکُمْ مَّغْفِرَۃً مِنْہُ وَ فَضْلاً وَاللّٰہُ وَاسِعٌ عَلِےْمٌo‘‘ (البقرہ: ۲۶۸)
ترجمہ: ’’شیطان تمہیں مفلسی سے ڈراتا ہے اور شرم ناک طرز عمل اختیار کرنے کی ترغیب دیتا ہے،مگر اللہ تمہیں اپنی بخشش اور فضل کی اُمید دلاتا ہے۔اللہ بڑا فراخ دست اور دانا ہے۔‘‘
شیطان ہر آن اس کوشش میں ہوتا ہے کہ بندہ دنیا اور مال کی محبت میں گرفتارہواور یہ کہتے ہوئے ڈراتا ہے کہ اگر تم اپنا مال اللہ کی راہ میں خرچ کروگے تو یہ تمہارا مال گھٹتا جائے گا اور تم فقر و ناداری میں مبتلا ہوجاؤگے،جبکہ اللہ نے بندہ کو ترغیب دلائی کہ راہ خدا میں مال کے خرچ کرنے سے مغفرت اور فضل

دونوں چیزیں دی جائیں گی۔اللہ تعالیٰ نے حقیقی مو من کی تصویر اور خصوصیات بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ:
’’الَّذِےْنَ ےُقِےْمُوْنَ الصَّلوٰۃَ وَمِمَّا رَزَقْنٰھُمْ ےُنْفِقُوْنَOاُولٰءِکَ ھُمُ الْمُؤْمِنُوْنَ حَقًّالَھُمْ دَرَجٰتٌ عِنْدَ رَبِّھِمْ وَ مَغْفِرَۃٌ وَّ رِزْقٌ کَرِیْمٌ O‘‘(انفال: ۴)
ترجمہ: ’’ جو نماز قائم کرتے ہیں اورجوکچھ ہم نے ان کو دیا ہے اس میں سے (ہماری راہ میں خرچ کرتے ہیں)ایسے ہی لوگ حقیقی مومن ہیں۔ان کے لیے ان کے رب کے پاس بڑے درجے ہیں،قصوروں سے در گزر ہے اور بہترین رزق ہے۔‘‘
جن کے دل و دماغ اور کردار یہ گواہی دیتے ہیں کہ اللہ کا دین ہی حق ہے اور اس کو غالب کرنا، انسانیت کو اس سے آشنا کرانا، اورخدا ربِ رحیم سے بندوں کو ملانا جن کا مقصد ہے، ان کی یہ فکر اور یہ جدو جہد دراصل اس بات کا تقاضا کرتی ہے کہ وہ اپنے مال کو بھی اس راہ میں خرچ کریں۔جوکچھ اللہ نے دیا ہے اس کو اسی کی راہ میں لگانا اور قربان کردینا دراصل بڑے ہی عزم و حوصلے والوں کی خصوصیت ہوتی ہے۔
حشمت اللہ خان، سکریٹری حلقہ ایس آئی او آندھراپردیش

حالیہ شمارے

براہیمی نظر پیدا مگر مشکل سے ہوتی ہے

شمارہ پڑھیں

امتیازی سلوک کے خلاف منظم جدو جہد کی ضرورت

شمارہ پڑھیں