عمیر کوٹی ندوی
تعلیم سے دوری کا نتیجہ
تعلیم ہر انسان کے لئے بہت ضروری ہے،خواہ وہ کہیں کا رہنے والا ہو اور کسی بھی قوم ومذہب سے تعلق رکھتا ہو۔ تعلیم کے بغیرایک عام انسان کے لئے عزت کے ساتھ دو وقت کی روزی روٹی کا حصول مشکل ہی نہیں روز مرہ کی زندگی بھی عذاب بن جاتی ہے۔ سماجی رہن سہن بھی انتہائی مشکل ہوجاتا ہے۔ اسے سمجھنے کے لئے انسانی آبادی کے اس حصہ پر خاص طور پر نظر ڈال لینی چاہئے جسے عام طور پر پسماندہ آبادی، غریب آبادی، جھگی جھونپڑی یا اس سے تھوڑا اوپر مڈل کلاس یعنی متوسط طبقہ کی دیہی و شہری آبادی کا نام دیا جاتا ہے۔ یہاں جی جانے والی زندگی کو جو جتنے قریب سے دیکھتا ہے وہ اس کی تکلیفوں، درد اور سانسوں کے کرب کو اتنی ہی شدت سے محسوس کرتا ہے۔ یہی نہیں وہاں مسائل کے انبار کے انبار نظر آتے ہیں۔ امراض کی بہتات اور ان کی نوعیتوں میں پیچیدگیاں نظر آتی ہیں۔سوچ میں سطحیت، اخلاقیات میں تباہیاں، مزاج میں سختیاں پائی جاتی ہیں۔ قدم قدم پہ جھگڑے، چیخ وپکار، مارپیٹ، قتل وغارت گری، آہ و بکا اور نہ جانے کیا کیا وہاں موجود ہوتا ہے۔ رنج والم سے دوچار کردینے والی کب کس بات سے سابقہ پیش آجائے اور کب کون سی چیز نظر آجائے کچھ نہیں کہا جاسکتا ہے۔ ان سب چیزوں اور کرب ناک منظر کو دیکھ کر پہلا خیال جو ایک ہوش مند آدمی کے دماغ میں آتا ہے اور وہ چیز جس کی طرف اس کا ذہن جاتا ہے وہ تعلیم ہے۔
تعلیم کا فائدہ
تعلیم انسان کو آگاہ کرتی ہے ان باتوں سے جنہیں وہ نہیں جانتا ہے۔وہ دور جہاں ہی نہیں اس کے قدموں کے نیچے، سر کے اوپر، آنکھوں کے سامنے اورپیٹھ کے پیچھے کی چیزوں کے بارے میں بھی بتاتی ہے۔ وہ بتاتی اور سکھاتی ہے وہ چیز جس کو جان اور سیکھ کر اس کے لئے زندگی جینا آسان ہو جاتا ہے۔ تعلیم کے ذریعہ زندگی کا جینا آسان ہوجاتا ہے، اسے دنیا کی ایک بڑی آبادی نے اچھی طرح سے جان لیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس آبادی کا بڑا حصہ اس کے حصول میں لگ گیا ہے۔ اس کی وجہ سے اس وقت دنیا میں ہر سو چکا چوند نظر آرہی ہے۔ ہر طرف ایجادات کے ڈھیر کے ڈھیر لگے ہوئے ہیں اور مزید لگتے جا رہے ہیں۔ ہر لمحہ تجربات ہورہے ہیں اور ہر پل تحقیقات ہورہی ہیں۔ اس کی تیزی اور برق رفتاری کا یہ عالم ہے کہ ابھی ایک چیز مارکیٹ میں ڈھنگ سے آئی بھی نہیں کہ اگلے پل اس سے ایڈوانس چیز آجاتی ہے۔ بلکہ عالم تو یہ ہے کہ بہت سی چیزیں منظر عام پر آنے سے پہلے ہی پرانی ہوجاتی ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ دنیا نے اپنا دل کھول کر رکھ دیا ہے اور دونوں ہاتھوں سے وہ لوگوں پر اپنا خزانہ لٹا رہی ہے۔یہ سب سامنے کی باتیں ہیں اور ہر ایک انہیں دیکھ اور برت رہا ہے۔ لیکن سامنے کی ان باتوں میں سمجھنے کی جوچیز ہے وہ یہ کہ کیوں کر ایسا ممکن ہوا؟۔ اندھے کے ہاتھ بٹیر لگ گئی ہے ، اتفاقیہ اور حادثاتی طور پر یہ ساری چیزیں سامنے آرہی ہیں، دنیا کی یہ چکاچوند محض اتفاق ہے۔
ہمارے ملک پر اس کے اثرات
یہ درست خیال نہیں ہوسکتاہے، درست تو یہ ہے کہ یہ سب تعلیم کی وجہ سے ممکن ہوسکاہے۔ تعلیم کے ذریعہ انسان وہ جان سکا جو وہ نہیں جانتا تھا اور وہ حاصل کرسکا جو اس سے پہلے وہ حاصل نہیں کرسکا تھا۔ تعلیم کی اس ضرورت کو محسوس کرتے ہوئے تمام اقوام اور تمام ممالک نے اس کی طرف توجہ دی ہے۔ ایران و توران کی بات نہ کی جائے اور اپنے ملک کو دیکھا جائے تو یہاں پر بھی گزشتہ دہائیوں میں تعلیم کے میدان میں نمایاں پیش قدمی نظر آتی ہے۔ 1980ء کے بعد سے ہمارے ملک میں ابتدائی تعلیمی نظام میں اسکول کی تعلیم سے محروم بچوں کا تناسب 50 فیصد سے گھٹ کر اب صرف10 فیصد رہ گیا ہے۔ یہ بہت بڑی کامیابی ہے۔ ان تین عشروں کے دوران کم و بیش 26 کروڑ بچوں کو اسکول کی تعلیم حاصل کرنے کی پوزیشن میں پہنچادیا گیا ہے۔ بچوں کو اسکول تک لانا بھی بڑی کامیابی اور بہت خوش آئند بات ہے۔ اس وقت صورتحال یہ ہے کہ ہمارے ملک کا ابتدائی تعلیمی نظام تمام تر خامیوں اور کمیوں کے باوجود دنیا کا سب سے بڑا (تعداد کے لحاظ سے) اسکول سسٹم ہے۔اسی طرح ہمارا ملک اعلیٰ تعلیمی نظام میں دنیا کےتیسرے بڑے اعلیٰ تعلیمی نظام کا حامل ہے۔اعلیٰ تعلیمی نظام میں طلبا کی تعداد کے لحاظ سے چین اور امریکہ کے بعد ہندوستان تیسرے نمبر پر ہے۔اس میں کوئی شک نہیں کہ یہاں سےپڑھ کر نکلنے والے دنیا بھر میں کام کر رہے ہیں اور یہاں کے ڈاکٹر اور انجینئر دنیا بھر میں نمایاں خدمات انجام دے رہے ہیں۔
مقصد تعلیم سے بے خبری کا نتیجہ
یہ تعلیم کا ایک رخ ہے اور دنیاوی ترقی ، چمک دمک، چکا چوند اس کے ایک مقصد’حصولِ دنیا‘ کی تکمیل ہے۔ ’حصولِ دنیا‘ کے مقصد نے ایک معاملہ کو تو آسان کردیا کہ زندگی جینے کو آسان بنانے والی چیزیں قدموں میں آپڑی ہیں لیکن اس کے نتیجہ میں انہیں قدموں میں لاڈالنے کی ہوس بھی پیدا ہوگئی ہے۔ اس کا نقصان یہ ہے کہ وہی تصویر جو غیر تعلیم یافتہ آبادی میں نظر آتی ہے اب تعلیم یافتہ سوسائٹی میں بھی نظر آرہی ہے۔ حرص وہوس کی وجہ سے قدم قدم پر باہم رسہ کشی ہے، جھگڑے ہیں۔ لوٹ کھسوٹ اور فتنہ و فساد ہے۔ قتل وغارت گری ہے ،انسان انسان کو کھائے جارہا ہے۔ منافقت کا دور دورہ ہے ، کوئی کسی پر اعتبار کرنے کو تیار نہیں ہے۔ ہر ایک دوسرے کو ذلیل ورسوا کرنے کے لئے برسرپیکار ہے۔ ان سب کی وجہ سے انسانی آبادی تعلیم یافتہ ہونے کے باوجود کرب والم سے کراہ رہی ہے۔ ہر سو آہ و بکا،چیخ وپکار ہے۔ انسان اپنے مقام سے گر چکا ہے اور اپنی ذات سے بھی ناواقف ہوگیا ہے۔ اس صورت میں سوچنے والی بات یہ ہے کہ اگر تعلیم کا مقصد آگہی ہے، وہ ان باتوں کو بتاتی ہے جو انسان نہیں جانتا تھا اور ان رازوں سے پردہ اٹھاتی ہے جو اب تک صیغۂ راز میں تھے تو موجودہ صورت حال اس قدر اذیت ناک کیسے بن گئی ہے؟۔تعلیم اس قدر خطرناک اور انسانیت کو تباہ وبرباد کرنے والی کیسے بن گئی؟اس وقت تعلیم یافتہ طبقہ جو کردار ادا کررہا ہے اسے کیا نام دیا جائے؟۔
مقصدِ تعلیم
انسانوں کا ایک وہ طبقہ ہے جو اس وجہ سے پریشان ہے کہ اس کے پاس تعلیم نہیں ہے ۔ دوسرا انسانوں کا وہ طبقہ ہے جس کی زندگیاں تعلیم یافتہ لوگوں کی وجہ سے تباہ وبرباد ہورہی ہیں۔ یہ صورت حال تعلیم کے اس پہلو سے ناواقفیت کی وجہ سے پیدا ہوئی ہے جو انسان کو اس کے مقام اور مقصد سے روشناس کراتا ہے۔ اس پہلو کو انسانوں کے پیدا کرنےوالے نے ’دین‘ کا نام دیا ہے۔ اسے دوسرے الفاظ میں نظام حیات سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ انسانوں کے پیدا کرنے والے نے تمام انسانوں کے لئے کم از کم اتنی تعلیم لازمی قرار دی ہے جس کے ذریعہ سے انسان اپنے پیدا کرنے والے اور خود اپنے دنیا میں آنے کے مقصد کو جان سکے اور اس دنیا میں جینے مرنے اور رہنے سہنے کا سلیقہ سیکھ سکے۔وہ انسانی زندگی اور جانور کی زندگی کے درمیان فرق کرنا جان جائے۔جو دین آشنا ہیں وہ اپنے پیدا کرنے والے کے دئے ہوئے نظام حیات کا کم از کم کا اعتراف کرتے ہیں اور اسے جپتے بھی ہیں۔ لیکن جو دین ناآشنا ہیں یا دین بے زار ہیں وہ بھی اس کی افادیت کا اعتراف کئے اور اس کی مالاجپے بغیر اس سے استفادہ کرتے ہیں۔ اس سے استفادہ کر کے تیار کی گئی چیزوں کو وہ اپنا لیبل لگاتے ہیں اور اسے’انسانی اخلاقیات‘ کا نام دیتے ہیں۔ اس وقت وہ بھی ہر جگہ اس بات کا اعتراف کرتے ہوئے نظر آتے ہیں کہ موجودہ تعلیم سے ’انسانی اخلاقیات‘ کو نکال دیا گیا ہے، اس کی وجہ سے سماج میں بگاڑ پیدا ہورہا ہے اور تعلیم کا غلط استعمال کیا جارہا ہے۔
مقصدِ تعلیم کی طرف توجہ
موجودہ صورت حال یہ ہے کہ اشاروں کنایوں میں نہیں راست طور پر اسلام کا نام لے کر اس سے استفادہ کی باتیں بھی کی جارہی ہیں۔ ابھی زیادہ وقت نہیں گزرا جب بی جے پی کے سابق لیڈر اور سابق وزیر قانون رام جیٹھ ملانی نے اسلامی کتابوں کو پڑھنے کی بات کہی تھی۔ اس سے بھی پہلے اسلامی قوانین سے استفادہ کی باتیں بھی برملا زبانوں پر آتی رہی ہیں۔ تازہ ترین معاملہ وہ ہے جس کی خبر ہندوستان ٹائمز نے دی ہے وہ یہ کہ خواتین اور بچوں کی فلاح وبہبود کی وزارت(Ministry of Women’s & Child Development Welfare) کی وزیر مینکا گاندھی نے طلباء کو ہفتہ میں کم از کم دو بار مذہبی کتابوں کا مطالعہ کرنے کی تاکید کی ہے۔ انہوں نے خود اپنے بارے میں یہ بھی کہا ہےکہ ’میں نےقرآن پڑھا ہے‘۔ اس موقع پر انہوں نے یہ بھی کہا ہے کہ ’ہمارے اسکول کے دنوں میں ہمیں اخلاقی تعلیم دی گئی تھی لیکن اب یہ نہیں کیا جاتا ہے‘۔ اس وقت دنیا اپنے پیدا کرنے والے کی طرف سے دی گئی تعلیم، رہنمائی، نظام حیات کی اہمیت کو محسوس کررہی ہے۔ کوئی صراحتاً نام لے لیتا ہے تو کوئی ایسا کرنے میں ہچکچاتا ہے اور کوئی بغیر نام لئے اس سے استفادہ کرتا ہے اور اس سے استفادہ کرنے کی باتیں بھی کرتا ہے۔
تعلیم ومقصدِ تعلیم کی طرف رہنمائی کرنے والے
بہر کیف ان سب باتوں سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ دین، نظام حیات، اخلاقیات، انسانی اخلاقیات تعلیم کا انتہائی اہم جزء ہیں۔ ان کے بغیر یا ان سے آزاد تعلیم انسان کو انسان نہیں رہنے دیتی ہے، وہ اسے بد سے بد تر کی طرف کھینچ لے جاتی ہے۔تعلیم پر گفتگو کرتے وقت یا اس تعلق سے کوئی بھی قدم اٹھاتے وقت یہ پہلو ذہن میں بالکل واضح رہنا چاہئے۔ تعلیم بہت ضروری ہے لیکن ساتھ ہی اس کے اس پہلوکوبھی جاننا ضروری ہے جس کی وجہ سے انسان اپنے رب کا بندہ بنے، دنیا میں آنے کا مقصد جانے اور دنیا میں رہنے سہنے کا سلیقہ سیکھے۔ یہ ہر ایک کے لئے ضروری ہے لیکن پوری انسانیت کے لئے کافی ہے اور پوری انسانیت کی ضرورت اتنی واقفیت اور آگاہی سے پوری ہوجاتی ہےیہ بات درست نہیں ہے ۔ ضروری علم سے آگاہی بذات خود اعلان کر رہی ہے کہ’جائے استاد خالی است‘ یعنی کہ استاد وماہر کی جگہ خالی ہے۔
رہنمائی کرنے والے کا وجود واہمیت
اس جگہ کا تعین نہ کیا جاتا تو کیسے معلوم ہوتا کہ کون سا علم ضروری ہے اور کون سا نہیں۔ کون بتاتا کہ کس کے لئے کتنا علم سیکھنا لازمی ہے۔ یہ جگہ انسانی سماج کے لئے انتہائی اہمیت کی حامل ہے۔ اس سے غفلت نہ برتی جائے اور یہ خالی نہ رہ جائے اس لئے انسانوں کے خالق نے خود ہی اس کی ضرورت کی وضاحت بھی کردی ہے اور کسی بھی صورت میں یہ خالی نہ رہے اس کی تاکید بھی کردی ہے۔ اس لئے اس نے یہ ہدایت دی ہے کہ ہر طبقہ، ہرخطہ اور ہر آبادی میں سے یقیناً ایسےلوگ ہونے چاہئیں جو اس جگہ کو پر کریں اور دین کا علم ہی حاصل نہ کریں بلکہ اس میں مہارت کے ساتھ ساتھ ’تفقہ ‘حاصل کریں ۔ دین کے علم، اس میں مہارت اور تفقہ کے حصول کے بعد جب اپنے سماج میں واپس جائیں تو پھر رہبری ورہنمائی کا فریضہ انجام دیں اور استاد کی ذمہ داری کو سنبھالیں۔ یہ وہ اہم کام ہے جس کے لئے افراد کی فراہمی، اس کام کے لئے وسائل وذرائع کی فراہمی اور اس کام میں ہر طرح کی معاونت وشرکت ہر سماج اور اس کے ہر فردکی ذمہ داری ہے۔ یہ ذمہ داری اختیاری نہیں ہے اور نہ اس کی انجام دہی، اس کے لئے کوشش، اس میں شرکت اور معاونت رضاکارانہ ہے بلکہ اس ذمہ داری کو انسانوں کے رب نے عائد کیا ہے اور یہ ہر ایک کے ذمہ ہے۔ اسی طرح دین کے علم، اس میں مہارت اور تفقہ کے حصول میں مشغول اور اس سے فارغ ہوکر اپنی ذمہ داریوں کی ادائیگی میں مصروف لوگوں کے مقام ومنصب کو بھی رب کائنات نےبیان کردیا ہے۔
رہنمائی کا لازمی تقاضہ
اس مقام ومنصب کے لئے جن لوگوں کو چنا گیا ہے اور دین کے علم، اس میں مہارت اور تفقہ کے حصول میں مشغولیت کے لئے جن کا انتخاب کیا گیا ہے وہ اپنی ذمہ داری کی ادائیگی کے لئے خود کو کس طرح سے تیار کریں اور اپنے اندر کس کس قسم کی صلاحیت پیدا کریں ،اس گوشے کو یونہی نہیں چھوڑا گیا ہے۔ اس سلسلہ میں بھی رب کائنات نے واضح ہدایات دی ہیں۔ تفقہ کے دائرہ کو اسلام نےفقہ تک محدود نہیں کیا ہے بلکہ پورے دین کو اس کے دائرہ میں شامل کر دیا ہے۔انذار وتبشیر کی ذمہ داری کی ادائیگی کے لئے ضروری ہے کہ اپنی قوم ومخاطب کی زبان،ضرورت پڑنے پر ایک نہیں متعدد زبانوں، قوم کے مزاج، لیاقت وصلاحیت، دیگر ضروری علوم وفنون، وقت کے تقاضوں، ضرورتوں سے آگاہی اور پوری مہارت حاصل ہو۔ ذہن وفکر، قلب ونظر کا دائرہ محدود نہیں وسیع ہو۔ حکمت ودانائی سے ناآشنائی اور ماحولیات سے بےخبری نہ ہو بلکہ اس کی فراصت اور ذکاوت ہمہ وقت اس کی رفیق ہو۔ رفیقوں کی سادہ لوحی، بھولے پن اور اغیار ورقیبوں کی چالوں کو سمجھنے کی صلاحیت رکھتا ہو۔ شر سے نبرد آزمائی کا ہنر جانتا ہو ۔ اسی کے ساتھ مصلحت پسندی اور وقت وحالات کی نزاکتوں کی سمجھ رکھتا ہو۔ حالات وقلوب کو پھیرنے اور حق کا ساتھی ورفیق بنانے کا گر بھی خوب جانتا ہو۔نظم وضبط کی اہمیت سے بھی ناآشنا نہ ہو۔ اس کے اندر حق گوئی کی جرات اور حق پر جمنے کا حوصلہ ہو۔ غلط کو غلط کہنے اور غلط کو ترک کرنے میں اسے ذرہ برابر بھی تامل نہ ہو۔یہ سب اس لئے ضروری ہے کہ جب وہ تفقہ کے بعد باہر نکلے اور میدان عمل میں پہنچے تو اسے اپنے فرائض کی انجام دہی میں کسی دشواری کا سامنا نہ کرنا پڑے ۔ کسی بھی موقع پر اسے یہ نہ لگے کہ وہ داخلی کمی کا شکار ہے جس کی وجہ سے ذمہ داری کی ادائیگی نہیں کرپا رہا ہے۔ فراغت کے بعد خواہ وہ کہیں پر رہے لیکن ہمہ وقت وہ اسی منصب پر فائزرہے جس پر اسے اس کے رب نے فائز کیا ہے اور وہی ذمہ داری ادا کرے جو اس کے رب نے اس پر عائد کی ہے۔