2024کے انتخابات ملک کی سیاسی تاریخ میں ایک اہم سنگ میل ثابت ہوں گے۔ بر سر اقتدار گروہ کے لیے یہ تیسری میعاد تھی۔اس میں حکومت مخالف رجحان (anti-incumbency) ایک فطری کیفیت ہے ۔اس لیے یہ باور کرانے کی کوشش ہورہی ہے کہ یہ کوئی بڑی ناکامی نہیں ہے۔ لیکن جب علاقائی بنیادوں پر گہرائی سے تجزیہ کیا جاتا ہے تو واضح ہوتا ہے کہ ان انتخابات میں جو تبدیلی آئی ہے وہ کوئی معمولی تبدیلی نہیں ہے بلکہ بہت بڑی تبدیلی ہے۔
روایتی طور پر شمالی ہند اور مغربی ہندوستان BJP کی قوت کے اصل مراکز رہے ہیں۔ گزشتہ دوانتخابات میں یہاں کی اکثر نشستوں پر BJP نے کامیابی حاصل کی تھی۔ بعض ریاستوں میں تو صد فی صد نشستیں حاصل کی تھیں۔ اس دفعہ ان دونوں علاقوں میں اسے بری طرح ناکامی کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ یہاں اس کی 67 نشستیں یعنی تقریباً تیس فیصدنشستیں کم ہوئی ہیں۔شمالی ہند میں اس کے ووٹوں میں تقریباً چھ فیصد کی اور مغربی ہندوستان میں تقریباً پندرہ فی صد کی کمی ہوئی ہے۔ اترپردیش BJP کی قوت کا اہم مرکز رہا ہے۔ یہاں اسے 29 یعنی آدھی سے کچھ کم نشستوں کا نقصان ہوا ہے۔ مرکزی کابینہ کےاتر پردیش سے تعلق رکھنے والے تقریباً پچاس فی صد وزراء کو یہاں شکست کاسامنا کرنا پڑا۔ خود وزیر اعظم کے ووٹوں میں بھاری گراوٹ ہوئی اوربمشکل وہ اپنی سیٹ بچاسکے۔
NDA اپنی حکومت بچا پائی تو محض اس وجہ سے کہ اس نے ان انتخابات میں بعض نئے علاقوں میں کامیابی حاصل کی ہے۔ آندھرا پردیش میں حلیف جماعت کی مدد سے اسے بڑی کامیابی ملی ہے۔ اڑیسہ میں تبدیلی کی لہر کا اسے فائدہ ہوا اور تلنگانہ میں BRS کے ووٹ اپنی طرف منتقل کرنے میں اسے کامیابی ملی۔ ان تین ریاستوں میں اگر صورت حال نہیں بدلتی تو BJP کے لیے حکومت بنانا ممکن نہیں ہوتا۔
انتخابات کا ایک دلچسپ پہلو یہ ہے کہ اس میں نفرت پر مبنی تقریروں کو فیصلہ کن طریقے سے عوام نے مسترد کردیا۔ راجستھان کے بنسواڑہ میں جہاں وزیر اعظم نے ‘گھس پیٹیے’،زیادہ بچے والے’ وغیرہ ناشائستہ بازاری جملوں پر مشتمل سخت قابل اعتراض تقریر کی تھی وہاں ایک نوزائیدہ پارٹی کے گمنام امیدوار نے BJP کو تقریباً ڈھائی لاکھ ووٹوں سے شکست دے دی۔ اسی طرح گھوسی اتر پردیش، نندوربار مہاراشٹر، ٹونک راجستھان، متھراپور مغربی بنگال،پاٹلی پتر بہار، بارہ بنکی اتر پردیش اور ڈمکا جھارکھنڈ ان سب مقامات پر مختلف نفرت انگیز بیانات وزیر اعظم کی تقریروں میں مبینہ طور پائے گئے اور ان سب جگہوں پر BJP کو شکست ہوئی۔ عوام نے باوجود حکمران جماعت کی ہزار کوشش کے، جذباتی فرقہ پرست اور نفرت انگیز ایجنڈے کو قبول نہیں کیا ہے۔ یہ سمجھا جارہا تھا کہ اس دفعہ رام مندر سب سے بڑا انتخابی موضوع بنے گا۔ حکمران جماعت کو امید تھی کہ وہ اس کے سہارے اب تک کی سب سے بڑی کامیابی ملک میں حاصل کرے گی۔ لیکن خود ایودھیا کی نشست میں BJP کو شرم ناک شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ نہ صرف ایودھیا میں بلکہ ایودھیا سے متصل تمام نشستوں میں انڈیا الائنس کو کام یابی ملی ہے۔ یعنی لال گنج،سلطان پور،اعظم گڑھ، سنت کبیر نگر، امبیڈکر نگر میں سماج وادی پارٹی کے اور رائے بریلی اور بار ہ بنکی میں کانگریس کے امیدوارجیتے۔ بنارس میں گیان واپی مسجد کا تنازعہ گرم کرنے کی مسلسل کوشش ہوتی رہی۔ یہاں خود وزیر اعظم امیدوارتھے اور انہیں ڈیڑھ لاکھ ووٹوں سے بمشکل کامیابی مل سکی۔ اس کے اطراف و اکناف میں بھی الہ آباد، چندولی اور رابرٹس گنج کی نشستیں کانگریس اور سماج وادی پارٹیوں نے BJP سے چھین لی ہیں۔ مسجد مندر تنازعات کی تیسری اہم جگہ متھرا تھی۔ یہاں اگرچہ بی جےپی کی ہیما مالنی جیت گئی ہیں لیکن ان کے ووٹوں میں تقریباً آٹھ فی صد کی گراوٹ ہوئی ہے اور پڑوسی ایٹا کی نشست سماج وادی پارٹی نے چھین لی ہے۔
ان انتخابی نتائج میں اس قسم کےمتعدد اشارے موجود ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ عوام کی سوچ میں بڑی تبدیلی واقع ہورہی ہے اور انہوں نے جذباتی، فرقہ پرست مسائل کےمقابلے میں ترقی، روزگار، اور گورننس سے متعلق حقیقی مسائل کو ترجیح دینا شروع کیا ہے۔ جوڑ توڑ کی سیاست، ED اور CBI کے ذریعے پارٹیوں اور لیڈروں پر دباؤ اور اس کے ذریعے انہیں توڑنے اور اپنی تائید پر مجبور کرنے کے قبیح مجرمانہ رجحان پر عوام کا غیض و غضب امڈنے لگا ہے۔یقیناً یہ تبدیلی مکمل نہیں ہے۔ ایسا ہرگز نہیں ہے کہ عوام نے فرقہ پرست ایجنڈے کو مکمل طور پر ترک کردیا ہے۔ انہیں دوبارہ اس کی طرف دھکیلا جاسکتا ہے۔ لیکن ان انتخابات میں ایک مثبت شروعات ہوئی ہے اور اس رخ پر کوشش ہو تو آئندہ صورت حال اور بہتر ہوسکتی ہے۔ رائے اوررجحان میں اس تبدیلی کا اثر ضرور پالیسی سازی اورحکومت کی ترجیحات پربھی پڑے گا۔
ان نتائج کے اہم اسباق اور کرنے کے کام
1۔ ان نتائج کا پہلا سبق یہ ہے کہ کوئی سیاسی طاقت، کوئی جماعت اور کوئی لیڈر ناقابل شکست(invincible) نہیں ہے۔کوشش اور سنجیدہ محنت کی جائے تو ملک کو نفرت و فرقہ پرستی کی آندھی سے بچایا جاسکتا ہے۔ فرقہ پرستی اس ملک میں ایک تیزرفتار آندھی کی مانند ہے جو بڑی تباہی ضرور پیدا کرسکتی ہے لیکن مستقل اور دیر پا نہیں رہ سکتی۔ ان نتائج نے ہمارے اس یقین کو اور مستحکم کیا ہے کہ ہندوستانی عوام سے مایوس ہوئے بغیر مسلسل کوشش کی ضرورت ہے۔ راست انہیں مخاطب کرنے اور ان کے دلوں اور دماغوں پر دستک دینے کی ضرورت ہے۔ یہ کام ہو تو بہت کچھ بدلا جاسکتا ہے اور جلد سے جلد بدلا جاسکتا ہے۔ بہت معمولی اور حد درجے کم زور کوششوں کے بھی جو نتائج سامنے آئے ہیں اور جس طرح شمالی ہند کی انتہائی سخت سمجھی جانے والی زمین میں تبدیلی کی کونپلوں نے سر اٹھانا شروع کردیا ہے وہ حالات کے بارے میں ہمارے بہت سے اجتماعی خیالات پر سنجیدہ نظر ثانی کا تقاضا کرتے ہیں۔
2۔ ان نتائج کا دوسرا اہم سبق یہ ہے کہ جمہوری سیاست میں سیاسی پارٹیوں کے ساتھ سول سوسائٹی اور غیر انتخابی سیاسی سرگرمی یا عوامی سیاست non electoral political activism یا people’s politicsکابھی ایک اہم اور کلیدی کردار ہے۔ اس دفعہ عوامی رجحان کو بدلنے کا کام اصلاً اسی قسم کی سرگرمیوں نے کیا ہے۔ ہندوستان کے موجودہ احوال میں مسلمانوں کے لیے خاموش سول سوسائٹی ایکٹیوزم ہی سیاسی تمکین کا اہم ترین راستہ ہے۔ اس میں ان کے لیے بھرپور مواقع موجودہیں۔ اس بات کی ضرورت ہے کہ ہر سطح پر اس کی اہمیت کا شعور عام ہو اور جہد کاری کا بڑے پیمانے پر احیاء ہو۔ گاؤں گاؤں اور شہروں کی گلی گلی میں نوجوان پالیٹیکل ایکٹیسوٹ تیار ہوں اور وہ سول سوسائٹی تنظیموں سے مناسب تال میل کے ساتھ حقیقی عوامی مسائل پر جدوجہد کرتے رہیں۔ اسی سے باصلاحیت، بااعتماد اور حوصلہ مند سیاسی قیادت زمینی سطح پر تیار ہوگی اور بہتر سیاسی مستقبل کی راہیں ہموار کرے گی۔
3۔ ان نتائج کا تیسرا اہم سبق یہ ہے کہ رائے عامہ اور عوامی رجحان کی تبدیلی کے لیے مسلمانوں کے اپنے رویوں کا بھی اہم کردار ہوتا ہے۔ ان انتخابات میں خصوصاً شمالی ہند کے مسلمانوں نے غیرمعمولی صبر و تحمل کا اور سیاسی شعور کا مظاہرہ کیا ہے۔ اشتعال پیدا کرنے اور فرقہ وارانہ تفریق پیدا کرنے کی ہر ممکن کوشش کی گئی لیکن مسلمانوں نے اجتماعی متانت و بردباری کا غیر معمولی مظاہرہ کرتے ہوئے ایسی ہر کوشش کو ناکام بنادیا۔ بہت سے جذباتی، مذہبی اور فرقہ وارانہ مسائل کو انہوں نے غیر معمولی صبر وضبط کے ساتھ موخر کردیا۔سرگرمی اور جہد کاری کے لیے سیاسی مقاصد پر نگاہ رکھتے ہوئے موضوعات کا انتخاب کیا۔ عام ہندووں کی فرقہ وارانہ حمیت کو اپنے رویوں کے ذریعے مشتعل ہونے کا کوئی موقع فراہم نہیں کیا۔ اگر مسلمان ایسا نہیں کرتے تو یہ نتائج ہرگز نہیں آسکتے تھے۔ لوگوں کو اپنے خیالات پر نظر ثانی کرنے کا یہ موقعہ ہرگز نہیں مل پاتا تھا۔مذہبی و فرقہ وارانہ جذبات کے مقابلے میں گورننس اور ڈیولپمنٹ کے حقیقی مسائل کی طرف متوجہ ہونا ان کے لیے ممکن ہی نہیں ہوپاتا تھا۔ ایسے خیالات ہمیشہ سنجیدہ غیر جذباتی ماحول ہی میں بدل سکتے ہیں۔ فرقہ پرست قوتوں کی پوری کوشش تھی کہ ایسا سنجیدہ غیر جذباتی ماحول پیدا نہ ہونے پائے لیکن ایسا ماحول پیدا ہوا اور اس کی پرورش کے لیے ایک اہم عامل جس نے کردار ادا کیا ہے وہ مسلمانوں کا یک طرفہ رویہ ہے۔ پورے ملک کو اس کے لیے ان کا شکر گذار ہونا چاہیے۔ ان انتخابات کا یہ اہم سبق ہمیں بھولنا نہیں چاہیے اور آئندہ بھی روایتی جذباتی سیاست کی بجائے اسی دانش مند سیاست کو آگے بڑھانا چاہیے۔
4۔ان انتخابات میں تشویش کاسب سے بڑا پہلو جنوبی ہند میں فرقہ پرست طاقتوں کو ملنے والی غیر متوقع پذیرائی ہے۔ اس انتخابات میں ان کو جو بھی کامیابی ملی ہے وہ جنوبی ہند اور اڑیسہ ہی میں ملی ہے اور اڑیسہ اور جنوبی ہند میں ملنے والی کامیابی ہی نے ان کی حکومت بچائی ہے۔مسلمانوں کی، ان کی صحافت اور اہل دانش کی اور سول سوسائٹی کی بھی اس دفعہ سب سے بڑی ناکامی یہی رہی کہ جنوبی ہند اور اڑیسہ کے سیاسی احوال undercurrentsکو ہم پوری طرح سمجھ نہیں سکے اور اس کی پیش بندی نہیں کرسکے۔ اندیشہ یہ بھی ہے کہ آئندہ یہ کامیابیاں جنوب میں مزید مستحکم ہوسکتی ہیں۔تجزیہ نگاروں کے اندیشے درست ہوجائیں تو تلنگانہ اورتمل ناڈو میں BJP کی حکومتیں بظاہر زیادہ دور نہیں ہیں اور کیرالہ میں بنگال جیسی صورت حال کا فروغ اور آندھرا پردیش میں اڑیسہ جیسے حالات کا پیدا ہوجانا بھی مستقبل قریب میں عین ممکن ہے۔ اس پس منظر میں جنوب کے مسلمانوں کو بھی یہ سبق سیکھنا چاہیے اور زیادہ بردباری و تحمل کے ساتھ عوامی رائے اور رجحان کی تبدیلی کے مقصد پر نظر رکھ کراپنی جدوجہد اور کوششوں کا رخ طئے کرنا چاہیے۔
5۔ مسلمانوں کی تمکین و ترقی کی ایک اہم ضرورت یہ بھی ہے کہ عام غیر مسلموں سے ان کے تعلقات مستحکم ہوں۔ فرقہ پرست طاقتیں ان کو عام سماج سے کاٹنا چاہتی ہیں۔ مسلمانوں کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ اس پروجیکٹ کو کامیاب ہونے نہ دیں اور ہر سطح پر مستحکم سماجی تعلقات کی طاقت ور مہم چلائیں۔ اس سلسلے میں ہماری طویل غفلت نے یہ صورت حال پیدا کردی تھی کہ فرقہ پرست طاقتوں نے دلتوں، کم زور طبقات اور اقلیتوں میں بھی نفوذ کرلیا تھا۔ 2014 اور2019 میں ان طاقتوں کی بڑی کامیابیوں کا اہم سبب ان پچھڑے طبقات سے ملنے والی غیر معمولی تائید ہی تھی۔ اس دفعہ کے نتائج سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ ایک عارضی صورت حال تھی اور اب دوبارہ یہ طبقات فرقہ پرست استحصالی طاقتوں کے چنگل سے باہر آنے لگے ہیں۔ CSDSلوک نیتی کے مابعد انتخابات سروے کے مطابق 2019 کے مقابلے میں پورے ملک میں BJP کے دلت ووٹوں میں تقریباً تین فی صد کی کمی واقع ہوئی ہے۔ OBC ووٹ بھی کم ہوئے ہیں۔شمالی ہند میں یہ کمی اور زیادہ ہے۔آئندہ مایا وتی سے شفٹ ہونے والے دلت ووٹوں کو دوبارہ فرقہ پرست قوتوں کی طرف مائل کرنے کی منصوبہ بند کوششیں ہوسکتی ہیں۔ اس لیے ان کے ساتھ بہتر تال میل اور ان کااعتماد جیتنے کی کوششیں ضروری ہیں۔ ملک کی کئی ریاستوں میں مختلف مذاہب کے ماننے والے لوگ سول سوسائٹی کے تحت مشترکہ جدوجہد کے لیے آگے آئے۔منی پور کے واقعات کے بعد عیسائی تنظیموں نے بہت سرگرم کوششیں کیں اور اس كے نتیجے میں شمال مشرق میں BJP اور NDA کی نشستوں میں واضح کمی واقع ہوئی۔ لیکن دوسری طرف کیرالہ اور دیگر ریاستوں میں عیسائیوں کا BJP کی طرف جھکاؤ بھی بڑھا ہے بلکہ CSDS کے سروے کے مطابق مذہبی گروہوں میں صرف عیسائی ہی وہ واحد گروہ ہیں جن کا پہلے کے مقابلے میں BJP کو ووٹ دینے میں اضافہ ہے۔ اس بات کی ضرورت ہے کہ مختلف مذہبی گروہوں سے بھی تال میل بڑھے اور کیرالہ جیسی ریاستوں میں جس طرح مختلف مذہبی گروہوں میں اسلاموفوبیا کے فروغ کی کوششیں ہورہی ہیں ان کو کامیاب ہونے نہ دیاجائے۔