ڈاکٹر سلیم خان
قومی سطح پر فی الحال الیکشن کا جادو سرچڑھ کر بول رہا ہے۔انتخابی کرشمہ سازیاں بامِ عروج پر ہیں۔ اس بیچ پلاننگ کمیشن نے دعویٰ کردیا کہ ۲۰۰۴ ء سے لے کر ۲۰۱۲ ء کے درمیان غربت کی شرح ۷۳؍ فیصد سے گھٹ کر ۲۲؍ فیصد تک پہنچ گئی ہے لیکن اسی کے ساتھ منموہن حکومت نے یہ بھی کہا کہ وہ ۷۶؍ فیصد عوام کوحق غذائی تحفظ کے تحت سستا اناج فراہم کرے گی۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے جولوگ غربت کے خط سے اوپر ہیں انہیں کم نرخ پر اناج کی فراہمی چہ معنی داراد؟ دراصل یہ بلاواسطہ اس حقیقت کا اعتراف ہے کہ مہنگائی کی شرح دوگنی ہوگئی ہے بلکہ سچ تو یہ ہے کہ گرانی میں دو سو فیصد سے زیادہ اضافہ ہوا ہے۔ مگر انتخابی گہما گہمی نہ ہی مودی کو اجازت دیتی ہے کہ وہ غربت کے مسائل میں دلچسپی لے اور نہ راہل کو۔ لیکن پچھلے دنوں بنگال کے سابق وزیراعلٰی بدھ دیو نے فرمایا کہ روزمرہ کے استعمال کی قیمتوں میں روزافزوں اضافہ منموہن سنگھ کو اقتدارسے محروم کردے گا۔اقتدار سے محرومی کے بعد بدھ دیو بدھیمانی(سمجھداری) کی باتیں کرنے لگے ہیں۔
اپنے بیان کو آگے بڑھاتے ہوئے بدھ دیو نے کہا لیکن اس سے زیادہ خطرناک بات یہ ہے کہ نریندر مودی ان کی جگہ لینے کی کوشش کررہا ہے۔ بدھ و دیو کے اس حقیقت پسندانہ بیان میں یہ اعتراف موجود ہے کہ فی الحال ملک کی عوام کے نزدیک کانگریس کا متبادل اشتراکیت نہیں بلکہ فسطائیت ہے حالانکہ ۱۹۵۲ ء سے لے کر۱۹۷۱ ء تک منعقد ہونے والے پانچ انتخابات میں سے چار میں کمیونسٹ پارٹی دوسرے نمبر اور ایک میں سوتنتر پارٹی دوسرے نمبر پر تھی۔ جن سنگھ اس کے مقابلے ایک چھوٹی سے جماعت تھی۔ کسی علاقائی پارٹی کو اس پر سبقت لے جانے کا موقع نہیں ملا تھا توسوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پچھلے چالیس سالوں میں ایسا کیا ہوگیا کہ اشتراکی تحریک ہندوستانی سیاست کے اندر کسی شمار یا قطار میں نہیں ہے۔
انتخابی جائزوں کو نتیش کماراشتہار یا تفریح کا سامان قرار دیتے ہیں اس لئے کہ ان میں بی جے پی کو پہلے اور کانگریس کو دوسرے نمبر پر دکھلایا جارہا ہے لیکن وہ بھول جاتے ہیں۔ ہر جائزے میں ان دونوں کی مجموعی نشستیں دو تہائی سے کم بنتی ہیں۔ جس کے معنیٰ یہ ہیں کہ غیر کانگریسی اور غیر بی جے پی کے کامیاب امیدواروں کی مجموعی تعداد ان دونوں جماعتوں سے زیادہ ہوگی۔اشتراکیوں نے اس صورتحال کے پیشِ نظرنریندر مودی کو اقتدار میں آنے سے روکنے کے لئے پھر ایک بار تیسرے محاذ کا بگل بجادیا ہے۔کانگریس اور بی جے پی کے پاس کوئی نیتی تو ہے نہیں ہاں دونوں نے اس بار نیا نیتا ضرور میدان میں اتارا ہے، اس کے برعکس سیتارام یچوری کا نعرہ ہے’’نیتا نہیں ، نیتی نئی‘‘۔ یہ نعرہ اپنی حریف جماعتوں کی ضد ضرور ہے لیکن یہ نئی نیتی یعنی حکمت عملی کیا ہے اور کس طرح اپنے مخالفین سے مختلف یا منفرد ہے اس کی وضاحت عوام کے سامنے نہیں ہے۔
۲۰۰۹ ء سے قبل کمیونسٹوں نے تیسرا محاذ بنانے کی پہل کبھی نہیں کی تھی بلکہ وہ باہر سے حمایت کرنے پراکتفا کیا کرتے تھے۔ اْس وقت چونکہ مایاوتی اترپردیش کی وزیراعلیٰ تھیں اس لئے انہیں وزیراعظم کا امیدوار بناکر پیش کردیا گیااوران کے حریف ملائم سنگھ کو دور رکھا گیا جو کانگریس کے ساتھ چلے گئے۔ اس مرتبہ اترپردیش کا اقتدار ملائم کے پاس ہے اس لئے وہ بلااعلان وزارتِ عظمیٰ کے امیدوار بن گئے ہیں۔ اس بار مایا وتی کو قریب پھٹکنے نہیں دیاجارہا، اس لئے ممکن ہے وہ کانگریس کا پنجہ تھام لیں۔اس طرح کی ابن الوقتی کے سبب تیسرا محاذعوام کی نگاہوں میں اپنا اعتبار گنوادیتا ہے۔
ملائم کے علاوہ نتیش کمار بھی وزارتِ عظمیٰ کے دعویداروں میں ہیں لیکن ان دونوں میں سے ایک بھی اشتراکی نہیں ہے۔ ایسا کیوں ہوا جبکہ ایک زمانے میں اشتراکی تحریک میں ڈانگے، گوپالن،ہرین مکرجی، نمبودری پد اور جیوتی باسوجیسے قدآورقومی رہنماپائے جاتے تھے۔۱۹۹۶ ء میں جیوتی باسو کو وزیراعظم بنانے پر تیسرے محاذ نے اتفاق بھی کرلیا تھا لیکن اب یہ حال ہے کہ موجودہ لیڈرشپ میں سے کسی کو اس قابل نہیں سمجھا جاتاحالانکہ ملائم اور نتیش کا حلقہ اثر صرف ایک ریاست تک محدود ہے اس کے برعکس کمیونسٹ رائے دہندگان کی تعدادکم ازکم تین ریاستوں میں قابلِ لحاظ ہیں۔اس قحط الرجال کی وجہ اشتراکی رہنماؤں کا نظریاتی دیوالیہ پن اوراعلیٰ معیارزندگی ہے جس نے ان کے اور دوسرے موقع پرست رہنماؤں کے درمیان کے تفاوت کو ختم کردیا ہے۔
۲۰۱۴ ء کے انتخابی منظر نامے پر نگاہ ڈالیں تو اس کاقوی امکان نظر آتا ہے قومی سطح پرکوئی جماعت واضح اکثریت حاصل نہ کرسکے گی۔ ایسے میں انتخاب کے بعد جب کانگریس کو حمایت کی ضرورت پیش آئے گی تو سب سے پہلے ملائم اور نتیش ہی تیسرے محاذ کی لٹیا ڈبو کر کانگریس کے دریا میں کودجائیں گے، اس لئے کہ لالو کی لالٹین کو گل کرکے کانگریس نے نتیش کے تیر کا نشانہ سادھ لیا ہے۔ یہ بھی بعید از قیاس نہیں کہ اشتراکی بھی فسطائیت کوروکنے کا بہانہ بنا کر کانگریس سے اشتراک کرلیں لیکن اس بار ممتا ان کے راستے کی رکاوٹ بن سکتی ہے۔سیاسی جوڑتوڑ کے ماحول میں موقع پرست جماعت کے لئے توابن الوقتی کا مظاہرہ سیاسی دانشمندی کہلاتا ہے لیکن نظریاتی تحریک کیلئے وہ سمِ قاتل بن جاتا ہے۔
بدھ و دیو نے اپنے مذکورہ بیان میں یہ بھی کہا تھا کہ ممتا اور مودی فی الحال پھولوں کا تبادلہ کررہے ہیں لیکن آگے چل کروہ ایک دوسرے کی گلپوشی کریں گے۔مغربی بنگال میں مسلمانوں کی قابلِ لحاظ آبادی ہے جوعرصہ دراز تک کمیونسٹ پارٹی کے دست وبازو بنے رہے لیکن اس کے بدلے انہیں جو کچھ ملا اس کا بیان سچر کمیٹی کی رپورٹ میں درج ہے۔ مودی کا خوف دلانے والے بدھ دیو شاید نہیں جانتے کہ سرکاری ملازمتوں میں مسلمانوں کا تناسب زعفرانی گجرات میں سرخ بنگال سے بہترہے۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ مسلمانوں کے سبب مالدہ اور کلکتہ میں کانگریس کی کچھ نشتیں نکل آتی تھیں لیکن اس کے یہ معنیٰ بھی نہیں کہ ریاست کے جن رائے دہندگان نے اپنی پارٹی کو ووٹ نہیں دیا اس سے انتقام لو اور انہیں اپنے بنیادی حقوق سے محروم کردو۔ مغربی بنگال میں یہ بات اشتراکی دانشور بھی تسلیم کرتے ہیں کہ وہاں کی ریاستی حکومت عوام کے بجائے پارٹی کارکنان کی فلاح و بہبود پر سارے وسائل صرف کرتی تھی اور مخالفین سے معاندانہ سلوک کیا جاتا تھا۔
یہ حسنِ اتفاق ہے کہ بنگال کے مسلمانوں کو فسطائیت کا خوف دلا کر اپنے ساتھ نہیں کیا جاسکتا، اس لئے کہ وہاں بی جے پی بہت کمزور ہے اور مسلمانوں کے سامنے ترنمول اور کانگریس کا متبادل موجود ہے اس لئے اشتراکی اس کوشش میں لگے ہوئے ہیں کہ ممتا کو بی جے پی سے جوڑ کر مسلمانوں کواس سے بدظن کیا جائے، مبادہ وہ دوبارہ درانتی اور ہتھوڑا تھام لیں۔ مسلمانوں نے چونکہ اشتراکی پرچم کو ہوڑا برج سے نیچے پھینک کر ترنمول کا جھنڈاتھا ماہوا ہے اس لئے ان کو رجھانے کی خاطربدھ دیو نے وہی گھسا پٹا طریقہ استعمال کیا۔ جو ہرموقع پرست سیاسی جماعت کا شیوہ بنا ہوا ہے۔ وہ مسلمانوں کی پسماندگی کو دور کرنے کے لیے کیا کرنا چاہتے ہیں یہ بتانے کے بجائے ممتا نے کیا کیا اور کیا نہیں کیا کا رونا لے کر بیٹھ گئے۔
بھٹا چاریہ کے مطابق ممتا کا دعویٰ بے بنیاد ہے کہ اس نے مسلمانوں سے کئے گئے ۹۰؍ فیصد وعدوں کو پورا کردیا ہے۔وہ کہتے ہیں ممتا بنرجی نے ائمہ کو وظیفہ دینے کے علاوہ کوئی اقدام نہیں کیا۔ جبکہ اسے پتہ تھا کہ اس غیردستوری فیصلے کوعدالت مسترد کردے گی۔ اس ڈرامہ کے نتیجے میں مسلمانوں کے ہاتھ رسوائی کے علاوہ کچھ بھی نہیں آیا۔ اگر یہ بات درست بھی ہے تو مسلمانوں کے لئے نئی نہیں ہے، آزادی کے بعد ہر سیاسی جماعت نے جس میں قومی فرقہ پرست جماعتیں مثلاً کانگریس اور علاقائی موقع پرست پارٹیاں مثلاً بی ایس پی اور ایس پی وغیرہ شامل ہیں نے ملک کی سب سے بڑی اقلیت کے ساتھ یہی سلوک کیا ہے کہ اپنی ضرورت کے لئے انہیں استعمال کیا اور پھر بے یارومددگار چھوڑ دیا۔
ترنمول اور بی جے پی کے درمیان خفیہ معاہدہ کا الزام لگایا جاتا ہے لیکن ممتا تو بی جے پی کی حکومت میں شامل رہی ہے اور ان کے ساتھ پھر سے جاسکتی یہ بات پرد�ۂ خفا میں نہیں اظہر من الشمس ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ ابن الوقتی کی اس سیاست میں ہر سیاسی جماعت اپنے مفادات کی خاطر بی جے پی کی براہِ راست یابا لواسطہ حمایت کر سکتی ہے۔ ماضی میں یہ ہوا ہے اور مستقبل میں پھر سے ہوسکتاہے۔بدھ دیوکے ان تمام الزامات کی کوئی نظریاتی اساس نہیں ہے جواس حقیقت کا مظہر ہے کہ فی الحال دیگر فکر و نظریہ سے عاری سیاسی جماعتوں اور سی پی آئی ایم کے درمیان کوئی بنیادی فرق نہیں رہ گیا ہے۔ نظریاتی کتب مکتبوں کی زینت بن چکی ہیں اور عملی سیاست سے انہیں شہر بدر کردیا گیا ہے۔
کمیونسٹ پارٹی سے مغربی بنگال میں صرف مسلمانوں کو شکایت نہیں ہے بلکہ وہاں کے ہندو بھی ان سے نالاں ہیں۔اس لئے کہ ۳۴؍ سالوں تک مسندِاقتدار پر فائز رہنے کے باوجود بایاں محاذ خوشحالی کا وہ خواب شرمندہ تعبیر نہ کرسکا جس کے نغمے دنیا بھرمیں گائے جاتے رہے۔ان کے دورِ حکومت میں محنت کشوں کی یہ جنت سالانہ اوسط پیداواری کے معیار پر ملک میں ۱۸؍ویں نمبر پرتھی۔ بنیادی سہولت کے باب میں ۲۰۰۵ ء کے اندر بنگال کے صرف ۲۸؍ فیصدعوام کو صاف پینے کا پانی حاصل تھا جبکہ مہاراشٹر میں ۷۸؍ اور تمل ناڈو میں ۸۴؍ فیصد لوگ اس سے فیضیاب ہورہے تھے۔ دانشوروں کے زیراقتدار اسکول سے تعلیم نامکمل چھوڑ کر نکلنے والے طلبہ کا تناسب ۷۸؍ فیصد یعنی بہار سے بھی گیا گزرا تھا۔ بچوں کا اسکول جانے کے بجائے مزدوری کرنامعاشی بدحالی کی ایک علامت ہے اوریہ تعلیمی پسماندگی غربت و افلاس کی ضمانت بھی ہے۔
ایسے میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ ان ناکامیوں کے باوجود کمیونسٹوں کو یکے بعد دیگرے انتخابات میں کامیابی کیوں کر حاصل ہوتی رہی؟ اس کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ زمینداری کا خاتمہ کرنے کے بعد زمین کی تقسیم سے ابتداء میں دائیں بازو کو عوام کے ایک طبقہ کی حمایت حاصل ہوئی، لیکن آگے چل کر پارٹی مقامی سطح پر ایک مافیا میں تبدیل ہوگئی۔ غنڈہ عناصر اپنے تحفظ اور مفاد کی خاطر پاٹی میں شامل ہوگئے۔ پارٹی ان کی دہشت کے سہارے انتخاب میں کامیابی حاصل کرتی تھی۔ وہ سماج دشمن عناصرپارٹی کی مددسے سرکاری اثرو رسوخ حاصل کرتے رہے اور عوام کا استحصال ہوتا رہا۔ یہ باہمی اشتراک دونوں کے مفاد میں تھا۔
جیوتی باسو کے بعدجب بدھ دیو بھٹا چاریہ نے اقتدار سنبھالاتو ان پر ریاست میں پروردہ پسماندگی کو ختم کرنے کیلئے دباؤ بڑھنے لگا۔ نوجوانوں کے اندر روز افزوں بڑھنے والی بیروزگاری سے وہ پریشان ہوگئے اور انہوں نے اس مسئلہ کو حل کرنے کیلئے نہ صرف قومی بلکہ عالمی سرمایہ داروں کے ساتھ ہاتھ ملا لیا۔ جن غریب کسانوں میں زمین کے ٹکڑے بانٹ کر برسوں ان سے ووٹ لئے گئے تھے انہیں اپنی زمین سے بے دخل کیا جانے لگا۔ نندی گرام کے کاشتکاروں نے اس کے خلاف احتجاج کیا تو پارٹی کے غنڈے پولس کے شانہ بشانہ غریب کسانوں پر ٹوٹ پڑے۔ اس ساز باز کو ذرائع ابلاغ نے بے نقاب کردیا اور سارے ملک میں اس کے خلاف غم و غصہ پھیل گیا۔ ریاستی حکومت کے خلاف ماؤوادی اور ترنمول دونوں میدان میں کود پڑے، اوپر سے ان کومرکزی کانگریسی حکومت کی سرپرستی بھی حاصل ہوگئی۔
اس تبدیل شدہ صورتحال سے مقامی غنڈہ عناصر گھبرا گئے۔ ان کا اعتبار بائیں بازو کی حکومت سے اٹھ گیا۔ چونکہ پارٹی سے ان کا کوئی نظریاتی تعلق نہیں تھا اس لئے جومفاد انہیں سرخ پرچم تلے لایا تھا، وہی فائدہ ان لوگوں کو ممتا کے سبز جھنڈے کے سائے میں لے گیا۔ ان لوگوں کے پالا بدلنے کا نتیجہ یہ ہوا کہ مغربی بنگال کا سیاسی افق تبدیل ہو گیا۔ ترنمول کے سبز پرچم پر بنے دو عدد پتوں نے اشتراکی سرخی کو نگل لیا، اس لئے کہ درانتی کندہو چکی تھی ،اس کے پیٹ میں موجود ہتھوڑا نرم اور غلہ سوکھ گیا تھا۔سونیا اور ممتا کی لڑائی میں دائیں بازو نے جن پتوں پر تکیہ کیاتھا، انہیں پتوں نے ایسی ہوا دی کہ بالآخر سرخ سورج غروب ہو گیا۔ ترنمول کانگریس نے پارلیمنٹ سے لے کرپنچایت تک ہر انتخاب میں اشتراکیوں کو دھول چٹادی۔۲۰۰۶ ء میں دائیں محاذ کے ارکانِ اسمبلی ۲۳۵؍ تھے جبکہ ۲۰۱۱ ء میں یہ تعداد تقریباً ایک چوتھائی یعنی۶۲؍ ہوگئی اس کا سہرہ انہیں غنڈہ عناصر کے سرہے جو کبھی کمیونسٹ پارٹی کی ریڑھ کی ہڈی ہوا کرتے تھے۔
ایک وقت ایسا بھی تھا جب کہ سرزمین ہند پر مغربی بنگال کووہی اہمیت حاصل تھی جو عالمی نقشے پرسوویت یونین کی تھی۔دونوں مقامات پر سرخ پرچم کچھ اس طرح لہراتا تھا گویایہ کبھی بھی سرنگوں نہیں ہوگا، لیکن پھر سوویت یونین میں میخائیل گوربا چیف نے اقتدار کی باگ ڈور سنبھالی اورآہنی دیوار کے اندرپریسٹوئیکا نامی ایک باریک دراڑ ڈال کر باہر کی دنیا میں جھانکنے کی کوشش کی، لیکن ہوا یہ کہ کھلی منڈی کا ایسا زوردار جھونکا اندر داخل ہوا جس سے اس دیوار کے پرخچے اڑ گئے۔ دھماکہ اس قدر تیز تھا کہ وہ اپنے ساتھ گورباچیف کو اٹھا کر امریکہ لے گیا۔ بدھ دیو بھٹاچاریہ مغربی بنگال کے گورباچیف ثابت ہوئے۔
اس موقع پر ایک سوال پیدا ہوتا کہ آخر ایک نظریاتی اور انقلابی تحریک کی آج یہ حالت کیوں ہوگئی کہ وہ ابن الوقت اور موقع پرست علاقائی جماعتوں کا بغل بچہ بن گئی؟ اس انحطاط کی وجہ معلوم کرنے کیلئے ہندوستان میں اشتراکی تحریک کی تاریخ پر ایک نظر ڈالنی ہوگی۔ کمیونسٹ پارٹی کا قیام ہندوستان میں ۱۹۲۰ ء کے اندر عمل میں آیا۔ اس وقت سے یہ تحریک گوناگوں وجوہات کی بنا پر خلطِ مبحث (کنفیوژن) کا شکار رہی۔اول تو آزادی کی تحریک سے اس نے اپنے آپ کو دور رکھا لیکن پھر ۱۹۳۴ ء میں اس نے تحریک آزادی کی تعریف وتوصیف شروع کردی۔ گویا نظریاتی سطح پر جنھیں سرمایہ دار اور استحصال کرنے والا کہا جاتا تھا ان کوعملاً قومی ہیرو کے طور پر تسلیم کرلیا گیا یہ فکری انتشار کی ابتداء تھی۔
مسلم لیگ نے مذہبی بنیاد پر ۱۹۳۹ ء میں جب پاکستان کا مطالبہ کیا تو اس لادینی تحریک نے اس کو تسلیم کرلیا اور حق خوداختیاری کی حمایت کردی۔ اس کے بعد جب کانگریس اور مسلم لیگ اس مسئلہ پر آمنے سامنے ہوگئے اور ملک کے عوام دو قطب پر جمع ہوگئے، تو ان لوگوں نے کانگریس لیگ اتحاد کا فلک شگاف نعرہ بلند کردیا جس سے لوگوں کے لیے یہ فیصلہ کرنا مشکل ہوگیا کہ آخر یہ کہاں کھڑے ہیں؟ ۱۹۴۲ ء میں دوسری جنگ عظیم کے دوران سارا ملک برطانوی سامراج کے خلاف کھڑا تھا مگر اشتراکی سبھاش چندر بوس جیسے انقلابیوں کوفسطائیت نواز قراردے کر مخالفت کررہے تھے اوران لوگوں نے اپنی ناعاقبت اندیشی کا ثبوت دیتے ہوئے انگریزوں کے ساتھ بدنامِ زمانہ جوشی میکسویل معاہدہ کرلیاجس سے عوام کا اعتماد بری طرح مجروح ہوا۔
آزادی کے بعد ہندوستان میں قائم ہونے والا نظام کامل جاگیردارانہ یا نیم سرمایہ دارانہ ہے اس پر خوب بحث و مباحثہ ہوا۔اس نظام کو بدلنے کیلئے استعمال کی جانے والی حکمت عملی مسلح ہو یا انتخابی یہ موضوع زیر بحث آیا۔ اس کو بدلنے کیلئے انقلاب کی ضرورت ہے یا انتخاب کی، اس پر اختلاف ہوگیا۔ ہندوستان کیلئے سوویت یونین کو نمونہ بنایا جائے یا چین کو؟ اس سوال پر بھی اتفاق نہ ہوسکا جس کے نتیجے میں پہلی پھوٹ پڑی اور۱۹۶۴ ء میں سی پی ایم الگ ہوگئی۔ مسلح جدوجہدکی بنیادپر نکسلوادی تحریک کا جنم ہوا۔ آج صورت واقعہ یہ ہے نکسلی تحریک نہ صرف نظری حیثیت سے بلکہ اپنے قوت و تاثیر کے لحاظ سے بھی تمام انتخابی کمیونسٹ پارٹیوں پر سبقت رکھتی ہے۔اس کے بارے لوگ اس لئے کم جانتے ہیں کہ وہ پسماندہ قبائلی علاقوں میں کام کرتی ہے اور سرمایہ داروں کے اشارے پر چلنے والا ذرائع ابلاغ یا تو ان سے صرفِ نظر کرتا ہے یا انہیں بدنام کرنے کی سعی میں لگا رہتا ہے۔
قومی شخصیتوں کے تعلق سے بھی اشتراکی تحریک کا اونٹ پہلو بدلتا رہا ہے۔ ولبھ بھائی پٹیل کی مخالفت میں ان لوگوں نے جب پنڈت نہرو کی حمایت کی تو ان کیلئے کانگریس کی سرمایہ دارانہ پالیسی کی مخالفت کرنا مشکل ہوگیاجس سے پارٹی کی ساکھ کو نقصان پہنچا۔ جب کانگریس تقسیم ہوئی تو ان لوگوں نے اندراگاندھی کے بنکوں کو قومیانے اور نوابوں اور راجاؤں کا جیب خرچ بند کردئیے جانے سے خوش ہوکر ان کی حمایت کردی حالانکہ وہ ایک ڈرامہ تھا لیکن یہ اس کے فریب میں آگئے۔ آگے چل کر جب اندراجی نے ایمرجنسی نافذ کردی تو ان لوگوں کو بھی صعوبتوں کا شکار ہونا پڑا۔
منموہن سنگھ بجا طور پرہندوستان میں سرمایہ دارانہ نظام کے جنک کہلائے جاتے ہیں۔ اس لئے کہ وزیرخزانہ کی حیثیت سے کھلے بازار کا دروزہ انہیں کے دستِ مبارک سے کھلا۔وزیر اعظم بننے کے بعد انہوں نے نجی کاری کی مددسے سرمایہ دارانہ نظام کو ملک میں پوری طرح جاری و ساری کردیا،اس کے باوجود فسطائیت دشمنی کی آڑ میں اشتراکیوں نے۲۰۰۴ ء سے لے کر ۲۰۰۸ ء تک منموہن کی بھرپور حمایت کی، اس طرح گویا خود اپنے ہاتھوں سے اپنے نظریہ کو زندہ درگور کردیا۔ انتخاب سے قبل نیوکلیائی معاہدے کا بہانہ بناکرحمایت واپس لینا ان کے کام نہ آیا۔ عوام نے انہیں ابن الوقتی کی قرار واقعی سزا دی اور ممبران پارلیمنٹ کی تعداد کو ۵۹؍ سے گھٹا کر۲۴؍ پر پہنچا دیا۔
خلاصہ کلام یہ ہے کہ انتخابی سیاست کے نتیجے میں پیدا ہونے والے انتشار فکر نے نہ صرف اشتراکی بلکہ ہندوستان کی بیشتر نظریاتی تحریکوں کوان کی امتیاز ی شان سے محروم کرکے انہیں مفاد پرست سیاسی جماعتوں کے ہم پلہ کھڑا کردیا ہے۔ بظاہر سب کچھ روشن اور چمکدار نظر آتا ہے لیکن انتخابات میں کامیابی حاصل کرنے کیلئے دولت و طاقت کی روز افزوں ضرورت اورانتخابی کامیابی کو مفید تر بنانے کی خاطر کی اختیار کی جانے والی مصلحت و مصالحت انہیں اندر ہی اندر گھن کی طرح چاٹ کر کھوکھلا کررہی ہے۔
انتخابی سیاست اور اشتراکی تحریک سرنگوں سرخ پرچم پشیمان ہے
ڈاکٹر سلیم خان قومی سطح پر فی الحال الیکشن کا جادو سرچڑھ کر بول رہا ہے۔انتخابی کرشمہ سازیاں بامِ عروج پر ہیں۔ اس بیچ پلاننگ کمیشن نے دعویٰ کردیا کہ ۲۰۰۴ ء سے لے کر ۲۰۱۲ ء کے درمیان غربت…