اقلیتی تعلیمی اداروں

ایڈمن

اگر ہندوستان کے دستور کو دیکھا جائے تو اس میں بنیادی حقوق والا حصہ کافی مثالی ہے۔ خاص کر ہندوستان جیسے ملک کے لئے جو کہ ایک متنوع و منفرد حیثیت رکھتا ہے۔ مگر افسوس کہ حکومت یا ریاستی عوامل…

اگر ہندوستان کے دستور کو دیکھا جائے تو اس میں بنیادی حقوق والا حصہ کافی مثالی ہے۔ خاص کر ہندوستان جیسے ملک کے لئے جو کہ ایک متنوع و منفرد حیثیت رکھتا ہے۔ مگر افسوس کہ حکومت یا ریاستی عوامل اپنی اصل طاقت و قوت کا استعمال کرکے ان اقدار کو عمل میں لانے کے بجائے ان کی دھجیاں اڑاتے ہیں۔ ہندوستانی اقلیتی طبقہ کو دستور کی دفعہ 29 اور 30 میں چند مخصوص حقوق حاصل ہیں جو کہ سیاسی طاقتوں کی نظر میں ہمیشہ کھٹکتے ہیں۔ یہ سیاسی طاقتیں اپنے اس تنقیدی نظریات کے زیر اثر عدالت میں بارہا ردخواست ڈالتے رہتے ہیں۔ کبھی کسی ادارے کے اقلیتی درجہ کو ختم کرنے کی درخواست یا پھر RTE Act 2009 میں دیے گئے استثنیٰ کو منسوخ کرنے کی درخواست۔ آرٹیکل 15/ جو کہ اقلیتی ریزرویشن کے حوالے سے ہے، اسے ختم کرنے کی اپیل بھی جاری ہے۔ یوں سرکاری مدرسوں، مختلف اقلیتی اسکول، کالجوںاور مدرسوں وغیرہ کے تقدس کو پامال کرنے کی، ان کے تشخص کو ختم کرنے کی کوششیں کی جا رہیں ہیں۔
آئین ساز اسمبلی کے مباحثے اور اقلیتوں کے حقوق
اقلیتوں کی تعلیم پر جاری حملوں کو سمجھنے سے پہلے اس کے پس منظر کو سمجھنا اشد ضروری ہے کہ ہندوستان میں اقلیتی حقوق کی بحث آئی کہاں سے ہے؟ جب ہندوستان کا دستور ابھی زیرِ بحث تھا تب دستور سازوں کے ذہن میں یہ نکتہ اہمیت کا حامل تھا کہ کیسے تعلیم کو فروغ دیا جائے اور تعلیم کو کس طرح آفاقی بنایا جائے۔ ایک طویل مباحثے کے بعد آرٹیکل 45 direct principal of state) (policy عمل میں آیا جس کے مطابق “ریاستی حکومت اس آئین کے نفاذ کے دن سے لے کر دس سال کی مدت تک، بچوں کو مفت اور لازمی تعلیم فراہم کرنے کی کوشش کرے گی جب تک کہ وہ 14 سال کی عمر کو پہنچ جائیں۔”
تعلیم کے بعد اب یہ سوال پیدا ہوا کہ سماج کے کمزور و اقلیتی طبقات کو کیسے تعلیم اور دیگر محاذ پر مزید مضبوط و مستحکم بنایا جائے؟ لہذا 23 نومبر 1948ء کو یہ بات ہدایتی اصول میں شامل کی گئی کہ “کمزور طبقہ کے معاشی و تعلیمی ضرورتوں کو پورا کیا جائے گا، خصوصاً ایس ٹی اور ایس سی طبقہ سے منسلک افراد۔” جس کے بعد لسانی اور مذہبی اقلیتوں کو حاصل حقوق پر خصوصی بحث بھی ہوئی۔ اس میں ایک اہم بحث اقلیتوں کے تعلیمی اداروں کے قیام اور انتظام و انصرام سے متعلق رہی۔ 8 دسمبر 1948ء کے مباحثے میں دامودر سواروپ سیٹھ نے اس بحث میں کہا کہ “اقلیتی برادری کو یہ حق حاصل ہو کہ وہ اپنے تعلیمی اداروں کے قیام، نگہداشت اور ان پر مکمل اختیار رکھتے ہوئے اپنی زبان و ادب کو فروغ دے سکیں۔ ساتھ ہی ساتھ اپنی زبان میں اپنے بچوں کے لیے پری پرائمری اور پرائمری تعلیم کا نظم کرسکیں۔” اس کے بعد یہ بھی کہا گیا کہ “اقلیتوں کو مذہب یا برادری کی بنیاد پر تسلیم کرنا سیکولرزم کے خلاف ہے۔” زیڈ ایچ لاری، قاضی سید کریم الدین اور بیگم عزیز رسول نے اس معاملے کو مادری زبان سے جوڑ کر دیکھنے کی کوشش کی اور کہا کہ “کسی بھی اقلیت کو ایک الگ زبان اور رسم الخط رکھنے کا حق حاصل ہونا چاہیے کہ وہ اپنے بچوں کو اس زبان اور رسم الخط کے ذریعہ پرائمری تعلیم فراہم کرائے، جس کے تحت ایسے طلبہ کی ایک قابل لحاظ تعداد کو یہ سہولت مہیا کی جاسکے۔”
اس پوری بحث کے نتیجے میں آج ہمارے سامنے آرٹیکل 29، اقلیتیوں کو اپنے مخصوص امور زبان، رسم الخط، اور ثقافت کی حفاظت کا حق فراہم کرتا ہے اور آرٹیکل 30 اقلیتوں کو اپنے تعلیمی ادارے قائم کرنے اور مکمل آزادی کے ساتھ چلانے کا حق دیتا ہے۔
اقلیتی تعلیمی ادارے
آج ہندوستان میں 6 تسلیم شدہ مذہبی اقلیتیں ہیں جن میں مسلم، سکھ، عیسائی، بدھ، جین اور پارسی کا شمار ہوتا ہے۔ ان تمام طبقات میں سب سے بڑا طبقہ مسلمانوں (٪73)کا ہے۔ مذکورہ بالا حقوق کو سامنے رکھ کر آج اقلیتیں اپنے اسکولوں، کالجوں، یونیورسٹیوں اور اپنے مذہبی ادارے قائم کرتے ہیں۔ اسکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں کے حوالے سے آرٹیکل 30 کے پس منظر میں کئی سرکاری فیصلے ہیں جو بتاتے ہیں کہ کونسے اقلیتی ادارے ہیں اور انہیں کن شرائط کی بنا پر اقلیتی ادارہ مانا گیا ہے۔ عموما ًدو شرائط ہوتی ہیں جو مختلف ریاستوں میں الگ الگ بھی ہیں جس پر بحث کے لیے الگ مضمون کی ضرورت ہوگی۔ فی الحال، یہ دو شرائط اس طرح ہیں:
1) ادارے کی انتظامیہ میں 2/3 ٹرسٹی یا پھر انتظامی کمیٹی کے ممبران کا تعلق اوپر بتائے گئے 6گروہوں میں سے ہوں۔
2) طلبہ کی 50فیصد تعداد اقلیتی طبقہ سے تعلق رکھنے والی ہو۔
آرٹیکل 29 اور 30 کا بھر پور فائدہ اٹھاتے ہوئے اقلیتیں اسکول، کالجز، یونیورسٹیاں اور اپنے مذہبی ادارے جیسے دینی مدارس، بدھوں کے گومپاس اور عیسائیوں کے اپنے مخصوصی تعلیمی نظریہ پر مشتمل ادارے وغیرہ، بھی قیام کرتے آرہے ہیں۔
تعلیمی اداروں پر حملہ
جیسا کہ اوپر آرٹیکل 45 کا ذکر آیا، اس آرٹیکل کے نفاذ کی خاطر آرٹیکل 21a کو 2002 میں 86 ویں ترمیمی ایکٹ کے ذریعے شامل کیا گیا۔ یہاں یہ بات بھی ذہن نشین رہے کہ آئین ساز اسمبلی نے آرٹیکل 30 کو تعلیم کی عالمگیریت(Universalisation) کے حوالے سے بھی دیکھا تھا۔ آرٹیکل 21aکو نافذ کرنے کے لیے بعد میں RTE Act 2009 عمل میں آیا۔ آر ٹی ای ایکٹ کے زمرہ 12 (1) (c)کہتا ہے کہ پرائیویٹ اسکولوں کی 25 فیصد سیٹیس معاشی طور پر کمزور طبقات طلبہ و طالبات کے لئے مختص ہوں گی۔
اسی طرح 2005ء کے 93ویں ترمیم میں آرٹیکل 15(5)کو لایا گیا۔ جو یہ کہتا ہے کہ پچھڑے یا ایس سی ایس ٹی طلبہ کو تعلیمی اداروں میں داخلے پر خصوصی رعایت حاصل ہوگی چاہے وہ نجی، نیم سرکاری یا غیر سرکاری ادارے ہی کیوں نہ ہوں۔ اس شق کو اس رعایت کے ساتھ شامل کیا گیا کہ “وہ اقلیتی ادارے جن کا ذکر آرٹیکل 30 کی شق (1) میں ہے، اس شرط سے باہر ہوں گے۔” بقیہ تمام اداروں پر ریزرویشن نافذ ہوگا۔ یہ رعایت چند سیاسی قوتوں کو ہضم نہیں ہوئی جس کی بنا پر یہ طاقتیں مستقل حملہ کرتی ہیں اور اس بات کی کوشش میں رہتی ہیں کہ کس طرح ان رعایات کو ختم کیا جائے۔ یہ حملے تین طرح سے کیے جاتے ہیں:
پہلا، سرکار خود یہ کوشش کرتی ہے کہ ان کے حقوق کو محدود کردیا جائے۔ مثلاً مولانا آزاد ایجوکیشن فاؤنڈیشن کو ختم کرنا۔ مولانا آزاد ایجوکیشن فاؤنڈیشن اقلیتی اداروں کو فنڈ کرتا تھا۔ دوسری مثال آسام کے مدرسہ بورڈ کے تحت مدارس کی ہے جنہیں SCERT اسکولوں میں تبدیل کر دیا گیا۔ یہاں پر آرٹیکل 28 کے حوالے سے یہ بات کہی گئی کہ سرکار مذہبی اداروں کو فنڈ نہیں کرسکتی اور مدرسوں کو علاقائی بنا دیا گیا۔ جب کہ ان مدرسوں کا ‘قیام’ اور ‘انتظام و انصرام’ کمیونٹی کررہی تھی اور سرکار صرف ایڈ اور اساتذہ کی تنخواہ دیکھ رہی تھی۔
دوسرا، کورٹ میں اپیل دائر کرنا ہے۔ گزشتہ سال دو مخصوص سیاسی پارٹیوں کے قائدین نے دہلی ہائی کورٹ میں یہ درخواست دائر کی کہ آر ٹی ای ایکٹ سے اوپر بتایا گیا سیکشن 12(1) (C) کو ختم کیا جائے۔ حالانکہ اس درخواست کو آرٹیکل 30 کے تحت خارج کیا گیا۔ اپیل دائر کرنے کا یہ سلسلہ ہنوز جاری ہے۔
تیسرا، ڈسکورس کے ذریعہ حملہ کیا جارہا ہے۔ سال 2021ء کی National Commission for protection of child rights کی رپورٹ کے مطابق مدرسوں کو انجان ذرائع سے فنڈ موصول ہوتا ہے۔ یہ طلبہ عصری تعلیم سے محروم ہیں جس کی وجہ سے آرٹیکل 21(a)کی خلاف ورزی ہو رہی ہے۔ساتھ ہی رہائشی اسکولوں میں پڑھ رہے طلبہ کے لیے بنائے گئے حقوق اور معیارات کو بھی پورا نہیں کیا جارہا ہے۔ اسکولوں کے متعلق کہا کہ یہاں اقلیتوں سے زیادہ غیر اقلیت موجود ہیں۔ ان تمام باتوں کی بناء پر یہ مطالبہ کیا جارہا ہے کہ آر ٹی ای ایکٹ اور آرٹیکل 15 (5) کے تحت حاصل شدہ رعایت کو ختم کیا جائے۔
آگے کی راہیں
اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ ہر پہلو سے اقلیتی اسکولوں، کالجوں، یونیورسٹیوں اور مذہبی اداروں پر حملہ ہو رہا ہے جس کا سامنا اقلیتی طبقات بہت بہتر انداز میں کرسکتے ہیں۔ اس ضمن میں درج ذیل نکات پیش کیے جارہے ہیں:
1) اپنے تعلیمی اداروں کی حفاظت کے لئے مذکورہ 6 اقلیتی طبقات کے قائدین کو مل کر محاذ قائم کرنا چاہیے جو آرٹیکل 30 کے تحت آنے والے اداروں کی رہنمائی بھی کرے کہ کس طرح اقلیتی اداروں کو چلایا جائے۔ ساتھ ہی قانونی طور ہر پیش آنے والے پیچیدگیوں اور سیاسی چیلنجز کا سامنا کرنے کی جدوجہد کریں۔
2) اقلیتی تعلیمی ادارے اپنے انفراسٹرکچر کو مزید مضبوط و مستحکم بنائیں۔ جہاں ہاسٹل میں رہنے والے طلبہ کے حقوق کا تحفظ کا اچھا انتظام ہو۔ ہم دیکھتے ہیں کہ دینی اداروں کے کمرہ جماعت، رہائشی جگہیں اور بیت الخلا وغیرہ خستہ حال نظر آتے ہیں۔ طلبہ کی بڑی تعداد وہاں زیر تعلیم ہوتی ہے لیکن نسبتا ًبہت کم بیت الخلا پائے جاتے ہیں۔ ساتھ ہی بچوں کے تحفظ کے لیے مناسب انتظام کی کمی بھی محسوس ہوتی ہے۔
3) اقلیتی ادارے یہ کوشش کریں کہ ان کے یہاں زیادہ سے زیادہ اقلیتی طبقہ اور غریب طبقہ کے طلبہ داخلہ لے سکیں جس کے لیے مناسب پالیسی اختیار کی جائے۔
4) اقلیتی تعلیمی ادارے و مدارس اپنے مالیات میں خصوصی طور پر شفافیت کو یقینی بنائیں اور مناسب طریقہ سے وقت پر اکاؤنٹس کا حساب کتاب کیا جائے۔
5) ہر ادارے میں قانونی رائے مشورے کے لیے بورڈ قائم ہو جو تمام طرح کے قانونی مشکلات و پیچیدگیوں کا سامنا کرنے کے لیے تیار ہو۔
6) مدرسے ہوں یا اسکول دونوں جگہ ہمہ جہت اپروچ اختیار کیا جائے۔ طلبہ کی ہمہ جہت تربیت یعنی ایک طرف سائنسی علوم سے واقفیت، دین سے واقفیت اور شخصیت سازی کو یقینی بنایا جائے، اس طرح کہ آرٹیکل 29 کا مقصد پورا ہو۔

(مضمون نگار جواہر لال نہرو یونیورسٹی، دہلی میں ریسرچ اسکالر ہیں۔)
[email protected]

حالیہ شمارے

براہیمی نظر پیدا مگر مشکل سے ہوتی ہے

شمارہ پڑھیں

امتیازی سلوک کے خلاف منظم جدو جہد کی ضرورت

شمارہ پڑھیں