نام کتاب : اقامت دین کا اغوا
مصنف : خان یاسر
صفحات : 38
زبان : اردو
ناشر : اِلِاکسیَر پبلیکیشن
مبصر : عبیدالرحمان نوفل
اقامت دین ایک دینی فریضہ ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ ‘ہر مسلمان پرفرض ہے کہ وہ کسی تفریق و تقسیم کے بغیر پورے دین کی مخلصانہ پیروی کرے اور اسے انسانی زندگی کے انفرادی اور اجتماعی تمام شعبوں میں نافذ کرنے کی حتی المقدور کوشش کرے۔ اس کتاب میں اقامت دین سے ہی متعلق دو حکایتیں سنائی گئی ہیں جن کی ابتداء ایک ہے،کہ ایک ‘مسلمان جس کے بیٹے ‘اقامت دین کو ‘جاہلیت اس وقت اغوا کر لیتی ہے جب مسلمان دنیا وما فیھا کے چکر میں پڑ کر ‘اقامت دین سے غافل ہو گیا تھا.ایک ہی ابتدا سے شروع ہونے والی دونوں حکایتیں دو مختلف انجام کی طرف جاتی ہیں.
پہلی کہانی میں ‘مسلمان اپنے بیٹے کے اغوا ہوجانے کے بعد روتا چیختا ہے، اس کے دوست ‘مفکر ، ‘بزرگ اور ‘خیر خواہ اسے تسلی دیتے ہیں، ‘جاہلیت سے سمجھوتہ کرنے تو کبھی بیٹے پر صبر کرنے کی نصیحت کرتے ہیں۔ کبھی مسلمان کے بیٹوں کے مشکل نام پر اعتراض کرتے ہیں تو کبھی اس بات پر بحث کرتے ہیں کہ آیا مسلمان کو اپنے بیٹے کو بچانے کے لیےجاہلیت سے لڑ جانا چاہیے تھا یا نہیں۔ جب کہ مسلمان کا عمل پسند دوست ‘رضا کار اقامت دین کو بھولنے کے بجائے اس کو پانے کے لئے اپنی سی کوشش کرتا ہے، لیکن اس کی اکیلے کی کوشش زیادہ مفید ثابت نہیں ہوتی، کبھی وہ جاہلیت کے خلاف احتجاج کرتا ہے تو کبھی اپنے دوستوں کو اقامت دین کو پانے کے لیے کچھ کرنے پر آمادہ کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ بالکل اسی طرح جس طرح کہ دین کے قائم نہ ہونے کی صورت میں تحریک اسلامی کے افراد دین کی اقامت کی کوشش کرتے ہیں۔
درحقیقت پہلی حکایت اقامت دین کے تئیں مسلمانوں کے موجودہ رویہ کو ظاہر کرتی ہے کہ جہاں کوئی خیر خواہ مسلم جاہلیت سے مداہنت کی طرف دعوت دیتا ہے تو کسی مسلم مفکر کو اس بات پر ہی اعتراض ہے کہ مسلمان امر بالمعروف و نھی عن المنکر اور شہادت حق کی باتیں کیوں کرتے ہیں، وہ کیوں اقامت دین کو اپنا مقصد بتاتے ہیں، کیوں نہ وہ سوشل سروس، لبرٹی اور پیس (peace) کی باتیں کرتے۔ تو کہیں امت کے بزرگ حضرات یہ نصیحت کرتے ہوئے نظر آتے ہیں کہ مسلمانوں کو امر بالمعروف اور شہادت حق ہی تک محدود رہنا چاہیئے اور آج کے جاہلیت زدہ دور میں اقامت دین جیسے ناممکن کام کا خیال بھی اپنے ذہن سے کھرچ کر نکال دینا چاہیے۔ نتیجہ یہ ہوتا ہے کی ہم اس دور کے مسلمانوں کی پالیسی اور دستور العمل میں لفظ اقامت دین لکھا ہوا بھی نہیں پاتے۔ دوسری حکایت کی بھی ابتدا ‘اقامت دین کے اغوا سے ہوتی ہے لیکن اس کا انجام مختلف ہوتا ہے کیونکہ اس میں ‘مسلمان اپنے بیٹے ‘اقامت دین پر رونے چیخنے اور اس کو بھول جانے کی کوشش کرنے کے بجائے اس کو جاہلیت سے چھیننے کے لیے دوڑ پڑتا ہے۔ اس کے احباب بھی اپنی اپنی جگہ ‘اقامت دین کو پانے کے لیے مختلف کوششیں کرتے ہیں اور پھر اللہ کی مدد ان کے شامل حال ہوتی ہے اور وہ ‘اقامت دین کو پانے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔
یہ حکایت اقامت دین کے تئیں ہمارے مطلوبہ رویہ کو ظاہر کرتی ہے کی دین کے قائم نہ ہونے کی صورت میں مطلوب یہ ہے کی سماج کا ہر شخص اپنے اپنے میدان میں ہی دین کی اقامت کے لیے کوشش کرے۔ سماج کے بزرگ حضرات دعوت دین اور خدمت خلق کے ذریعہ غلبہ دین کے لیے کوشاں ہوں تو وہیں مفکرین ملت حکم خداوندی (اَنْ اقیموا الدین) کی بجاآوری کے لیے پلاننگ اور لوگوں کی رہنمائی کریں اور بالخصوص تحریک اسلامی کے افراد اپنے میدان کار سماج میں اعلاءکلمۃاللہ کے لیے کوشش کریں، جس کے لیے وہ فوراً سیاست کی بھیڑ میں کودنے کے بجائے ایکٹوزم کے لمبے اور مشکل راستے کو طئے کرنے بعد سیاست میں قدم رکھیں۔ اس کے بعد ہی اللہ کی موعودۃ مدد آئے گی اور دین کا قیام ممکن ہوگا۔ اقامت دین کے تئیں مسلمانوں کے موجودہ رویے سے مطلوبہ رویے تک سفر لمبا اور دشوار کن ہے اور یہ دشواری اس وقت اور بڑھ جاتی ہے جب ہم دیکھتے ہیں کہ امت کے صرف چند لوگ ہی اپنے مقصد کو حاصل کرنے کی کوشش کررہے ہیں اور بقیہ دو طبقے، جن میں سے ایک کا خیال تو یہ ہے کی دین صرف پرائیویٹ معاملے تک ہی محدود ہے، تو دوسرا طبقہ اسلام کو مکمل نظام حیات تو مانتا ہے لیکن اس کے قیام کی کوشش کو ضروری نہیں سمجھتا۔ اب تیسرے طبقے، (جن کا اس پر مکمل یقین ہے کہ دین اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے اور اس کے قیام کی کوشش ہر مسلمان پر فرض ہے) کی ذمہ داری ہے کی وہ سماج کے بقیہ دو طبقوں کو اپنا ہم خیال بنائے، انہیں ان کا بھولا ہوا فرض یاد دلائے تاکہ سماج کا ہر فرد اپنے اپنے میدان کار میں غلبہ دین کی کوشش کرے اور ایک بار پھر اللہ کا دین غالب ہو جائے۔ زیر تبصرہ کتاب برادر خان یاسر کی ہے۔ انہوں نے یہ کتاب بالکل نئے اور جداگانہ انداز میں تحریر کی ہے جس کے لیے وہ مبارکباد کے مستحق ہیں، اس کتاب کو پڑھنے کے بعد احساس ہوتا ہے کہ اس کا ایک ایک لفظ بہت معنی خیز اور بڑے غور و فکر کے بعد استعمال کیا گیا ہے۔ امید ہے کہ یہ تحریک اسلامی کے افراد کے لیے ایک قیمتی تحفہ ثابت ہو گی اور منزل سے ناامید یا کسی تھکے ہارے مسافر کے دل میں پھر سے دوڑ پڑنے اور دوڑتے رہنے کا خیال پیدا کرے گی۔