مسلمانوں کی بڑی بدقسمتی ہے کہ وہ اسلام کے لیے کام کرنے کو بار بار اٹھتے اور جمع تو ہوتے ہیں، لیکن ذرا ذرا سے اختلاف پر آپس میں ٹوٹ جاتے ہیں۔ پھر آگے چلتے ہیں، پھر اختلافات کی چھری ایک ٹکڑی کو کاٹ کر الگ کردیتی ہے۔ جماعتیں بن بن کر بکھر جاتی ہیں۔ اتحاد قائم ہوتے ہیں اور نیست ونابود ہوجاتے ہیں۔ قائم ودائم ہے تو وہ ہے تفرقہ!
مصیبت اصلاََ یہی ہے کہ ’’اختلاف کے باوجوداتحاد ‘‘ کی صف بنانا، اور اسے قائم رکھنا ہمیں نہیں آتا۔ ہم اختلافات سے عہدہ برآ ہونے کی صحیح ترکیب نہیں جان سکے ہیں۔ خدا اور رسولؐ کے جس دین کی سربلندی کا مشن لے کر اٹھے ہیں، اس نے آداب اختلاف اور طریقہ ہائے حل نزاع بھی ہم کو بتائے تھے۔ ان کو ہم جانتے بھی ہیں، مگر عملاََ جب اختلافات کی آزمائش پیش آتی ہے تو وہ طریقے فراموش ہوجاتے ہیں۔ ہمارے قریبی بزرگ اور ساتھی جن کو اختلافات ونزاعات کے حل کے لیے غیرجانبدارانہ انداز سے کام کرنے کو موجود ہونا چاہئے، وہ وقت پر خود جانبدار بن کر کھڑے ہوجاتے اور اپنے مرتبہ قیادت اور دانشوری کے باوجود خادمانِ دین کو اختلافات سے پیدا ہونے والے خطروں سے نہیں بچاسکتے۔
جس دن اس مسئلے کا حل مسلمانان عالم نے نکال لیا، اس دن کوئی مزاحمت ہمارے سامنے کھڑی نہ رہ سکے گی۔ اس مدعا کے لیے فکری اور عملی رہنمائی بہم پہنچانا تحریک اسلامی پر بدرجہ اشد لازم ہے۔ اس دور کا سب سے مشکل کام یہی ہے!
نعیم صدیقی مرحوم ، (تحریکی شعور، صفحہ:۳۰۶)
معروف اسلامی فقیہ مولانا خالد سیف اللہ رحمانی کا رفیق منزل کے لیے خصوصی بیان
خلافت عثمانیہ کے سقوط کے وقت سے ہی صہیونی اور صلیبی طاقتوں کا منصوبہ رہا ہے کہ مسلمانوں میں زیادہ سے زیادہ مسلکی اختلافات کو بڑھایا جائے۔ مسلم ملکوں کے زیادہ سے زیادہ ٹکڑے کردئیے جائیں، اور پھر مسلمانوں کے ہاتھ سے مسلمانوں کی خونریزی کرائی جائے۔ میرے خیال سے داعش اسی منصوبے کا ایک حصہ ہے۔ جس کو مغربی قوتوں کی جانب سے مہلک ہتھیار حاصل ہورہے ہیں۔ اور جو بے دردی کے ساتھ مسلمانوں کے تمام طبقوں کے قتل کی مرتکب ہورہی ہے۔ اس لیے اس کو اسلامی خلافت کا نام دینا ملت اسلامیہ کو دھوکہ دینے کی ایک کوشش ہے۔ اسلامی خلافت بطور خود اپنی خلافت کا اعلان کردینے سے وجود میں نہیں آتی۔ بلکہ جمہور کے انتخاب سے ہی خلیفہ کا انتخاب ہوتا ہے۔ اس لیے بغدادی کا اپنے طور سے، اپنی خلافت کا اعلان کردینا، اور نخالفین کے قتل عام کا ارتکاب کرنا ایک غیر شرعی اور غیرانسانی فعل ہے، اور مسلمانوں کو اس سے دھوکے میں نہیں آنا چاہئے۔
احرارِ غزہ کے نام بصد احترام
احرار نے عقبی کا خسارا نہ کیا
طاغوت کے سائے میں گزارا نہ کیا
کیا خوب ہے یہ شیوۂ اربابِ وفا
سر کاٹ لیا ،ظلم گوارا نہ کیا
رباعی
دلکش ہیں نرالے ہیں تماشے کیا کیا
دھوکے میں اٹھائے ہیں خسارے کیا کیا
آزادی، ترقی ہو، مساوات کہ علم
مغرب نے دکھائے ہیں تماشے کیا کیا
سید احمد مذکر، چنئی