ابوسعد اعظمی
عصر حاضر میں تقابل ادیان کاایک طویل سلسلہ ہے،مذاکرہ بین المذاہب کی کوششیں ہورہی ہیں اور بعض روشن خیال اور مذہب بیزار افراد انسانیت کو سب سے بڑے مذہب کی حیثیت سے متعارف کرانے میں لگے ہوئے ہیں۔ان کا خیال ہے کہ انسانیت کی خدمت ہی فی الواقع سب سے بڑا مذہب ہے ،اور انسانیت کی بنیاد پر مختلف مذاہب کے ماننے والے افراد کو ایک پلیٹ فارم پرجمع کیا جا سکتا ہے۔اس ضمن میں بعض افراد حلف الفضول کے اس تاریخی واقعے کو بھی بطور دلیل کے پیش کرتے ہیں جس میں اللہ کے رسول ؐنبوت سے قبل شریک ہوئے تھے اور نبوت کے بعد بھی اس طرح کے کسی معاہدے میں شرکت کی خواہش کا اظہار کیا تھا۔اس سے وہ یہ نتیجہ اخذکرتے ہیں کہ دین کو بالائے طا ق رکھ کرصرف انسانیت کی خدمت بھی ان کی نجات اخروی کا ذریعہ بن سکتی ہے۔گویا وہ دین اور انسانیت کودو الگ الگ خانوں میں تقسیم کرکے ایک کو دوسرے سے جدا حیثیت عطا کردیتے ہیں ۔
حالانکہ مذاہب کی تاریخ اور ان کی بنیادی تعلیمات کا جائزہ لیا جائے تو تقریبا دنیا کے تمام مروجہ ادیان میں انسانیت کی تعلیم قدر مشترک نظر آتی ہے۔ظالم کی گرفت،مظلوم کی دادرسی،جھوٹ سے نفرت ،صدق ووفا سے محبت،عدل وانصاف کا قیام،مکر وفریب،بد عہدی وبدکلامی سے دوری،حقوق کی ادائیگی،بڑوں کا احترام،چھوٹوں سے شفقت ومحبت،والدین ،رشتہ دار اوردینی ومذہبی پیشواکے ساتھ حسن سلوک وغیرہ یہ وہ انسانی تعلیمات ہیں جن کا علمبردار دنیا کا ہر مذہب رہا ہے۔ البتہ اسلام کو یہ امتیاز حاصل ہے کہ پیغمبر آخرنبی کریم ؐنے اپنی بعثت کا مقصد ہی ان الفاظ میں واضح کیا ہے کہ’’مجھے مکارم حسنہ کی تکمیل کے لئے مبعوث کیا گیا ہے‘‘۔اور قرآن کریم میں آپ کی ذات مقدسہ کی تصویر کشی یوں کی گئی ہیں: ’’ہم نے آپ کو سارے عالم کے لئے رحمت بنا کر بھیجا ہے‘‘۔دوسرے الفاظ میں اس کی تفسیر یوں ہے کہ اسلام نے انسانیت کی تکمیل کی ہے اور اس کی تعلیمات انسانیت کا اعلیٰ ترین مظہر ہیں۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایک شخص جو انسانیت کا علمبردار ہے،انسانی فلاح وبہبود اور رفاہ عامہ کے کاموں کے لئے اپنے آپ کو وقف کئے ہوئے ہے۔وہ اللہ کی وحدانیت کا بھی قائل ہے،لیکن نبی کریم ؐکی رسالت کو تسلیم نہیں کرتا۔کیا انسانی فلاح وبہبود اور رفاہ عامہ کے یہ کام اس کے لئے نفع بخش ثابت ہوں گے،اور اس کی نجات اخروی کا ذریعہ بن سکیں گے؟یا اسلام ہی اخروی نجات کا واحد سہارا ہے،اور اسلام کے بغیراخروی نجات کی آرزو محض خام خیالی اور اپنے آپ کو فریب دینا ہے۔مقالہ ہذا میں اسی پہلو کو اجاگر کرنے اور اسلام کے مقابلہ میں دیگر ادیان کی حیثیت واضح کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔
سورہ بقرہ آیت ۶۲اور مائدہ۶۹ــــ۔۔۔۔ کے حوالے سے بعض اہل مغرب نے یہ تأثر دینے کی کوشش کی ہے کہ اخروی نجات کے لئے اللہ کے رسول ؐپر ایمان لانا ضروری نہیں ہے ۔اس لئے کہ آیت مذکورہ میں اس بات کی صراحت ہے کہ اہل ایمان،یہود،نصاری اور صابئین میں سے جو شخص بھی اللہ اور یوم آخرت پر ایمان لے آئے اور عمل صالح کرے وہ اس کی اخروی نجات کے لئے کافی ہوگا۔مولانا امین احسن اصلاحی ؒ نے ان کی اس غلط فہمی کی نشاندہی کرتے ہوئے لکھا ہے :
’’اس زمانہ کے بعض متکلمین اورمنکرینِ سنت اس غلط فہمی میں مبتلا ہیں کہ جو اہل کتاب اپنے اپنے صحیفوں کی تعلیمات پر نیک نیتی کے ساتھ عمل کر رہے ہیں ،قرآن مجید ان کی نجات کے لئے رسولؐ پر ایمان لانا ضروری نہیں ٹہراتا۔ان کے خیال میں ایسے اہل کتاب کی نجات کے لئے یہ کافی ہے کہ وہ اپنے اپنے صحیفوں اور نبیوں کی تعلیم پر نیک نیتی کے ساتھ عمل کریں۔ان لوگوں نے اپنے اس خیال کی تائید میں جن چیزوں سے استدلال کیاہے ان میں بقرہ کی یہ آیت(۶۲) بھی شامل ہے‘‘۔
آگے نجات کے لئے ضروری چیزوں کی وضاحت کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
’’نجات کے لئے جس طرح دوسروں کے لئے نبی کریم ؐپر ایمان لانا ضروری ہے اسی طرح اہل کتاب کے لئے بھی ضروری ہے۔اور اس معاملہ میں قرآن مجید نے اچھے اہل کتاب اور برے اہل کتاب میں کوئی فرق نہیں کیا ہے۔۔۔۔اگر اہل کتاب کے صالح لوگوں کی قرآن کریم نے جگہ جگہ تعریف کی ہے تو اس کے معنی یہ نہیں ہیں کہ ان کی یہ نیکی ان کی نجات کے لئے کافی تھی،بلکہ اس کی وجہ یہ ہے کہ ان لوگوں کا رویہ ان کی حق پسندی کے سبب سے اسلام اور مسلمانوںکے ساتھ اچھاتھا۔اور اس قسم کے سارے لوگ آہستہ آہستہ حلقہ بگوش اسلام ہوگئے‘‘۔
حافظ محمدادریس کاندہلوی ؒ نے مذکورہ آیت کی تفسیر میں لکھا ہے:
’’آیت کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ فقط اللہ اور یوم آخرت پر ایمان لانا نجات کے لئے کافی ہے،انبیاء اور ملائکہ وغیرہ پر ایمان لانا ضروری نہیں ۔قرآن کریم کی صاف نصوص اس بات پر صراحۃ دال ہیں کہ جو شخص انبیاء اور ملائکہ کا انکار کرے وہ قطعا کافر ہے۔۔۔۔اللہ اور یوم آخرت پر ایمان لانا اس وقت تک ممکن نہیںکہ جب تک انبیاء ،ملائکہ اور صحف سماویہ پر ایمان نہ لائے۔اس لئے کہ اللہ تعالیٰ کی ذات وصفات اور آخرت کے احوال کی معرفت کا ذریعہ انبیاء اور صحف الٰہیہ ہی ہیں اور وحی و صحیفۂ ربانی کا نزول فرشتہ کی وساطت سے ہوتا ہے‘‘۔
مذکورہ تفصیل سے واضح ہوتا ہے کہ اہل مغرب اور موجودہ دور کے متکلمین اور منکرینِ سنت نے آیت مذکورہ سے جس مقصود ومنشا کو حاصل کرنے کی کوشش کی ہے ،خود آیت کریمہ ہی سے اس کی نفی ہوتی ہے ۔ قرآن کریم کی اس کے علاوہ اوربہت سی ایسی آیات ہیں جن میں اس بات کی صراحت کی گئی ہے کہ نجات کے لئے اسلام ہی واحد راستہ ہے۔ذیل میں اسلام کی حقیقت اور اس کے بالمقابل دیگر ادیان کی حیثیت کو واضح کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔اس سے یہ بات مبرہن ہوجاے گی کہ جو لوگ اسلام کے علاوہ کہیں اور راہِ نجات کی تلاش میں ہیںو ہ سخت گمرہی میں پڑے ہوئے ہیں۔اس لئے کہ نجات کے لئے ایمان اور عمل صالح ضروری ہے ،اور عمل صالح کا ایک لازمی عنصر تو خود ایمان ہی ہے۔بغیر تصحیحِ ایمان کے کوئی عمل ،عملِ صالح کی تعریف میں آہی نہیں سکتا۔
اسلام ایک آفاقی مذہب ہے وہ انسانی معاشرہ کے لیے ضابطۂ حیات فراہم کرتا ہے اور پوری انسانی زندگی کو حکم الٰہی کے تابع بنادینے کی تاکید کرتا ہے، ایک خدا کی بندگی اور زندگی کے تمام دائروں میں اس کی بے لاگ اطاعت یہی چیز اس کی جملہ تعلیمات کا مغز اور جوہر ہے، اس کا مطالبہ ہے کہ جسے بھی اس قافلہ میں شامل ہونا ہے وہ بہ ہمہ وجوہ شامل ہو اور اپنے جملہ معاملاتِ زندگی میں اس کی لائی ہوئی شریعت اور اس کے عطا کردہ احکام کی دل و جان سے پیروی اختیار کریں، اس سے ہٹ کر کسی دوسرے راستے کی پیروی، شیطان کی پیروی ہے جو انسان کو ضلالت و گمرہی کی طرف لے جاتی ہے، فرمان خداوندی ہے:یَا أَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُواْ ادْخُلُواْ فِیْ السِّلْمِ کَآفَّۃً وَلاَ تَتَّبِعُواْ خُطُوَاتِ الشَّیْْطَانِ إِنَّہُ لَکُمْ عَدُوٌّ مُّبِیْنٌ ، فَإِن زَلَلْتُمْ مِّن بَعْدِ مَا جَاء تْکُمُ الْبَیِّنَاتُ فَاعْلَمُواْ أَنَّ اللّہَ عَزِیْزٌ حَکِیْمٌ (بقرہ:۲۰۸-۲۰۹)!
اے ایمان والو! اسلام میں پورے کے پورے داخل ہوجائو اور شیطان کی پیروی نہ کرو، وہ تمہارا کھلا دشمن ہے، اب اگر تم پھسلتے ہو جب کہ تمہارے پاس (جملہ معاملات زندگی سے متعلق) واضح تعلیمات آچکی ہیں تو جان لو کہ اللہ غالب اور حکمت والا ہے۔
قرآن کریم نے بار بار اس بات کی تاکید کی ہے کہ اس کے عطا کردہ پورے مجموعہ قانون اور اس سے ابھرنے والی پوری شریعت کی پیروی میں انسان کی نجات مضمر ہے،آخری شریعت کے آجانے کے بعددوسرے تمام طریقے منسوخ ہو چکے ہیں ۔صداقت سے عاری محض خواہشاتِ نفس کے مظہر ان طریقوں کی جو لوگ اتباع کریں گے دنیا میں نہ سہی تو آخرت میں وہ کسی صورت خدا کی گرفت سے نہ بچ سکیںگے، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:ثُمَّ جَعَلْنَاکَ عَلَی شَرِیْعَۃٍ مِّنَ الْأَمْرِ فَاتَّبِعْہَا وَلَا تَتَّبِعْ أَہْوَاء الَّذِیْنَ لَا یَعْلَمُونَ إِنَّہُمْ لَن یُغْنُوا عَنکَ۔ پھر اے نبی! ہم نے تمہیں ایک مستقل ضابطہ دیں پر قائم کیا ہے تو تم (پوری پوری) اس کی پیروی کرو، اور ان لوگوں کی خواہشات
مِنَ اللَّہِ شَیْئاً وإِنَّ الظَّالِمِیْنَ بَعْضُہُمْ أَوْلِیَاء بَعْضٍ وَاللَّہُ وَلِیُّ الْمُتَّقِیْنَ
کی پیروی نہ کرو جو نہیں جانتے، اللہ تعالیٰ کے مقابلہ میں وہ تمہارا کچھ بھلانہ کرسکیںگے، اور یہ بے انصاف ایک دوسرے کے دوست ہیں اور اللہ ان لوگوں کا دوست ہے جو اس کا ڈر رکھتے ہیں۔
حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل کی جانے والی یہ وحی یعنی قرآن اور آپ ؐملنے والی یہ شریعت ایک مکمل ضابطہ حیات ہے جس کے اندر انسان کی انفرادی و اجتماعی زندگی کے جملہ امور و مسائل کے سلسلے میں تفصیلی ہدایات فراہم کی گئی ہیں، زندگی کے چھوٹے سے چھوٹے مسئلے سے لے کر انسان کے اخلاق، تمدن، معاشرے، معیشت، سیاست، حکومت وغیرہ جملہ معاملات زندگی کے سلسلے میں اس کتاب عزیز کے اندر اصولی طور پر واضح ہدایات دی گئی ہیں، اس نے اپنی خصوصیت ہی یہ بیان کی ہے کہ وہ علی الاطلاق کتاب ہدایت ’’ھدی للناس‘‘ روشنی، نور اور حق و باطل کے درمیان فیصلہ کن چیز ہے۔
قرآن کریم نے متعدد آیات میں اس بات کی صراحت کی ہے کہ سلسلۂ نبوت کے آغاز سے لے کر خاتم الانبیاء حضرت محمد ؐ تک تمام انبیاء کرام کا دین ایک ہی رہا ہے، اور یہی وہ دین ہے جسے ہر نبی کو قائم رکھنے کی تلقین کی گئی ہے، ارشاد خداوندی ہے:
مِّنَ الدِّیْنِ مَا وَصَّی بِہِ نُوحاً وَالَّذِیْ أَوْحَیْْنَا إِلَیْْکَ وَمَا وَصَّیْْنَا بِہِ إِبْرَاہِیْمَ وَمُوسَی وَعِیْسَی أَنْ أَقِیْمُوا الدِّیْنَ وَلَا تَتَفَرَّقُوا فِیْہِ کَبُرَ عَلَی الْمُشْرِکِیْنَ مَا تَدْعُوہُمْ إِلَیْْہِ اللَّہُ یَجْتَبِیْ إِلَیْْہِ مَن یَشَاء ُ وَیَہْدِیْ إِلَیْْہِ مَن یُنِیْبُ(شوریٰ:۱۳)
اس نے تمہارے لیے وہ دین ٹھہرایا جس کی اس نے تاکید کی نوح کو، اور جس کی ہم نے وحی کی تم کواور جس کی ہم نے تاکیدکی ابراہیم، موسیٰ اور عیسیٰ کواور وہ یہ کہ تم سب دین کو قائم رکھو اور اس کے معاملہ میں ٹکڑیوں میں نہ بٹو، مشرکوں کے لیے وہ چیز بڑی بھاری ہے جس کی طرف تم انھیں بلاتے ہو۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قرآن کریم کے بنیادی مخاطبین مشرکین عرب، یہود و نصاریٰ کے سامنے بار بار اس بات کا اعلان بھی کیا ہے کہ میں تمہیں کسی نئے دین کے اتباع کی دعوت نہیں دے رہا ہوں، بلکہ یہ در حقیقت وہی دین ہے جس کی دعوت تمہارے جدامجد ابراہیم ؑ نے دی تھی، یہ حقیقت واضح رہے کہ حضرت ابراہیم ؑ کی شخصیت قرآن کے ان تینوں بنیادی مخاطبین کے نزدیک مسلم تھی اور وہ سب اپنے آپ کو حضرت ابراہیم کا پیروکار ہونے کا دعویٰ کرتے تھے اور اس پر انھیں یک گونہ فخر بھی تھا، آپؐ کو اس بات کے اعلان کا حکم ہوا کہ:قُلْ إِنَّنِیْ ہَدَانِیْ رَبِّیْ إِلَی صِرَاطٍ مُّسْتَقِیْمٍ دِیْناً قِیَماً مِّلَّۃَ إِبْرَاہِیْمَ حَنِیْفاً وَمَا کَانَ مِنَ الْمُشْرِکِیْن(انعام: ۱۶۱)
کہو کہ میرے رب نے مجھے سیدھے راستہ پر لگایا ہے ٹھیک دین ابراہیم کا طریقہ جو یکسو تھا اور شرک کرنے والوں میں سے نہ تھا۔
صراط مستقیم اور ملت ابراہیم کی حقیقت واضح کرنے کے بعد قرآن کریم نے اہل کتاب کی برمحل گرفت کی ہے اور ان کی دکھتی رگ پر ہاتھ رکھا ہے، یہود و نصاریٰ نے ملت ابراہیمی کو پوری طرح پامال کر رکھا تھا اور جس چیز کی انھیں دعوت دی گئی تھی، اس میںبھی وہ تحریف کے مرتکب ہوئے تھے، چنانچہ یہود حضرت عیسیٰ ؑ اور ان کی لائی ہوئی کتاب انجیل کے منکر تھے اور نصاری حضرت موسیٰ ؑ اور توراۃ کے ماننے سے انکار کرتے تھے اور ہر ایک اپنے سلسلے میں اس خوش گمانی کا شکار تھاکہ تنہا اسے ہدایت کا سرٹیفکیٹ حاصل ہے اور راہ یاب ہونے اور خدا کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے اس کی جماعت میںشامل ہونا ضروری ہے، قرآن نے ان کے اس عقیدہ باطل کی تردید کی اور صاف لفظوں میں اعلان کیا کہ جب تک یہ دونوں ہی لوگ پورے سلسلہ نبوت اور خدا کی اتاری ہوئی تمام آسمانی کتابوں کا اقرار کرکے اپنے تمام گروہی اور قومی تعصبات کا رنگ اتار کر صر ف خدائی رنگ میں اپنے کو رنگ نہیں لیتے ان کا دعوائے ایمان و اسلام بالکل باطل ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: وَقَالُواْ کُونُواْ ہُوداً أَوْ نَصَارَی تَہْتَدُواْ قُلْ بَلْ مِلَّۃَ إِبْرَاہِیْمَ حَنِیْفاً وَمَا کَانَ مِنَ الْمُشْرِکِیْنَ قُولُواْ آمَنَّا بِاللّہِ وَمَا أُنزِلَ إِلَیْْنَا وَمَا أُنزِلَ إِلَی إِبْرَاہِیْمَ وَإِسْمَاعِیْلَ وَإِسْحَاقَ وَیَعْقُوبَ وَالأسْبَاطِ وَمَا أُوتِیَ مُوسَی وَعِیْسَی وَمَا أُوتِیَ النَّبِیُّونَ مِن رَّبِّہِمْ لاَ نُفَرِّقُ بَیْْنَ أَحَدٍ مِّنْہُمْ وَنَحْنُ لَہُ مُسْلِمُونَ فَإِنْ آمَنُواْ بِمِثْلِ مَا آمَنتُم بِہِ فَقَدِ
اور انھوں نے (اہل کتاب) نے کہا کہ تم یہودی یا نصرانی ہو جائو تو صحیح راستہ پر ہوگے، کہو(انھیں) بلکہ ابراہیم کا طریقہ بر حق ہے جو یکسو تھا اور شرک کرنے والوں میں سے نہ تھا، کہو ہم ایمان لائے اللہ پر اور اس چیز پر جو اتاری گئی ہم تک اور جو اتار ی گئی ابراہیم و اسماعیل پر اور اسحاق پر اور یعقوب پر اور اولاد یعقوب پر اور جو دی گئی موسیٰ اور عیسیٰ کو اور جو دی گئی دوسرے تمام نبیوں کو
دوسری جگہ فرمایا گیا کہ اللہ، رسول ، کتاب (قرآن مجید) اور سابقہ رسل اور ان پر نازل کردہ کتابوں پر ایمان ہی در حقیقت اسلام کا راستہ ہے، اس راستہ کو چھوڑ کر دوسرا جو راستہ بھی اپنایا گیا وہ گمرہی کے سوا کچھ نہیں ہوگا۔
یَا أَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُواْ آمِنُواْ بِاللّہِ وَرَسُولِہِ وَالْکِتَابِ الَّذِیْ نَزَّلَ عَلَی رَسُولِہِ وَالْکِتَابِ الَّذِیَ أَنزَلَ مِن قَبْلُ وَمَن یَکْفُرْ بِاللّہِ وَمَلاَئِکَتِہِ وَکُتُبِہِ وَرُسُلِہِ وَالْیَوْمِ الآخِرِ فَقَدْ ضَلَّ ضَلاَلاً بَعِیْداً (سورہ نساء:۱۳۶)
اے لوگو! جو ایمان لائے ہو ٹھیک طرح سے ایما ن لائو اللہ پر ، اس کے رسول پر اور اس کتاب پر جو اس نے اپنے رسول پر اتاری اور اس کتاب پر جو اس نے اس سے پہلے اتاری اور جو کوئی انکار کرے اللہ کا اور اس کے فرشتوں کا اور اس کی کتابوں کا اور اس کے رسولوں کا اور آخرت کے دن کا تو وہ دور کی گمرہی میں جا پڑ۔
جہاں تک شرک و بت برستی کا تعلق ہے تو ان کی ضلالت و گمرہی واضح ہے، ان کا دین ابراہیم اور ملت ابراہیمی سے دور کا بھی واسطہ نہیں ہے اس لیے کہ اس تصور کی بنیادی ہی یہی ہے کہ اس کائنات کے اندر ایک نہیں بلکہ بہت سے خدائوں کی کارفرمائی ہے، چنانچہ اس کا ہر گروہ اپنی پسند کے کچھ بت رکھتا ہے، انھیں سے وہ ڈرتا اور انھیں سے لو لگاتا ہے اور اپنی زندگی میں جو کچھ کرتا ہے انھیں معبودان باطل کی خوشی یا ناخوشی کے جذبہ سے کرتا ہے، اپنی پوری زندگی میں من مانے طریقوں پر عمل پیرا ہوتا ہے اور پوری ڈھٹائی سے اس خود ساختہ پوری شریعت کو اپنے انہیں معبودوں کے کھاتے میں ڈال دیتا ہے، ہر گروہ بس اپنے آپ میں مگن ہوتا ہے کہ اس نے جو راستہ اپنا رکھا ہے وہی سب سے اچھا اور عمدہ راستہ ہے، اور بقیہ دوسرے تمام لوگ بے راہ رو اور ادھر اُدھر کے ٹھوکریں کھانے والے ہیں جبکہ حقیقت یہ ہوتی ہے کہ ان کا ہر گروہ گمرہی میں ایک دوسرے سے بڑھا ہوا اور جادۂ مستقیم سے بہت دور ہوتا ہے، یہی وجہ ہے جو قرآن نے اپنے ماننے والوں کو اہل کتاب یہود و نصاری کے تفریق دین کے طریقہ سے اجتناب کی تلقین کے ساتھ اہل شرک کی اس روش سے بھی اسی طرح اجتناب کی تلقین کی ہے، اس وضاحت کے ساتھ کہ اس نے جس دین کا راستہ دکھایا ہے وہ اللہ کی بتائی ہوئی فطرت سے عین ہم آہنگ ہے۔
فَأَقِمْ وَجْہَکَ لِلدِّیْنِ حَنِیْفاً فِطْرَۃَ اللَّہِ الَّتِیْ فَطَرَ النَّاسَ عَلَیْْہَا لَا تَبْدِیْلَ لِخَلْقِ اللَّہِ ذَلِکَ الدِّیْنُ الْقَیِّمُ وَلَکِنَّ أَکْثَرَ النَّاسِ لَا یَعْلَمُونَ مُنِیْبِیْنَ إِلَیْْہِ وَاتَّقُوہُ وَأَقِیْمُوا الصَّلَاۃَ وَلَا تَکُونُوا مِنَ الْمُشْرِکِیْنَ مِنَ الَّذِیْنَ فَرَّقُوا دِیْنَہُمْ وَکَانُوا شِیَعاً کُلُّ حِزْبٍ بِمَا لَدَیْْہِمْ فَرِحُون(روم:۳۰-۳۲)
سو تم اپنے رخ کو سیدھا کرلو دین کے لیے یکسو ہو کر، یہ اللہ کی ٹھہرائی ہوئی فطرت ہے، جس پر اس نے تمام انسانوں کو پیدا کیاہے، اس کی بناوٹ میں کوئی تبدیلی نہیں، یہی سیدھا راستہ ہے، لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے۔اس کی طرف جھکے ہوئے رہو اوراس سے ڈرو اور نماز قائم کرو اور شرک کرنے والو ںمیں سے نہ ہو۔ ان لوگوں میں سے جنھوں نے اپنے دین کے حصے بکھرے کیے، اور ٹکڑیوں میں بٹ گئے، جبکہ ہر جتھا اس پر خوب مگن ہے جو اس کے پاس ہے۔
یہی دین حنیف ازآدم تا خاتم الانبیاء حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم تمام انبیاء کا دین رہا ہے، جب جب بھی اس میں کجی پیدا ہوئی اللہ نے اسے دور کرنے کے لیے انبیاء کرام مبعوث کیے، جو وقفہ وقفہ سے اس دنیا میں آ کر لوگوں کی رہنمائی کا فریضہ انجام دیتے رہے، بعد کے ادوار میں خاص طور پر اہل کتاب یہود و نصاری کے یہاں آپسی بغض و حسد اور باہمی آویزشوں اور چپقلشوں کے نتیجہ میں یہ اختلاف نسبتاً زیادہ شدت اختیار کرگیا تو اللہ تعالیٰ نے آخری نبی کے ذریعہ طالبین حق کے لیے اس گھٹا ٹوپ اندھیرے سے نکلنے کا سامان کیا، اور قیامت تک کے لیے تنہا یہی وہ راستہ ہے جس پر چل کر آدمی ازل میں دکھائے ہوئے اللہ تعالیٰ کے سیدھے راستے پر گامزن ہوسکتا ہے۔
کَانَ النَّاسُ أُمَّۃً وَاحِدَۃً فَبَعَثَ اللّہُ النَّبِیِّیْنَ مُبَشِّرِیْنَ وَمُنذِرِیْنَ وَأَنزَلَ مَعَہُمُ الْکِتَابَ بِالْحَقِّ تمام لوگ ایک طریقے پر تھے سو اللہ نے اپنے بندوں کو بھیجا خوشخبری سنانے والا اور ڈرانے والے بنا کر
لِیَحْکُمَ بَیْْنَ النَّاسِ فِیْمَا اخْتَلَفُواْ فِیْہِ وَمَا اخْتَلَفَ فِیْہِ إِلاَّ الَّذِیْنَ أُوتُوہُ مِن بَعْدِ مَا جَاء تْہُمُ الْبَیِّنَاتُ بَغْیْاً بَیْْنَہُمْ فَہَدَی اللّہُ الَّذِیْنَ آمَنُواْ لِمَا اخْتَلَفُواْ فِیْہِ مِنَ الْحَقِّ بِإِذْنِہِ وَاللّہُ یَہْدِیْ مَن یَشَاء ُ إِلَی صِرَاطٍ مُّسْتَقِیْمٍ (بقرہ:۲۱۳)
اور اس کے ساتھ کتاب کو اتاراحق کے ساتھ تاکہ وہ لوگوں کے درمیان فیصلہ کرے اس معاملہ میں جس میں وہ جھگڑ پڑے ہیں اور اب جو اس میں جھگڑے میں وہ جنھیں وہ کتاب دی گئی اس کے بعد کہ ان کے پاس کھلی نشانیاں آئیں، آپس کی عداوت اور دشمنی کی بنا پر، تو وہ حق جس کے معاملے میں ان لوگوں کا جھگڑا تھا اللہ نے اس کے سلسلے میں اپنے حکم سے ان لوگوں کو سیدھی راہ دکھادی، جو آج ایمان لائے، پس اللہ جسے چاہتا ہے سیدھے راستے کی طرف رہنمائی کرتا ہے۔
ایک دوسرے مقام پر قرآن کریم میں اس بات کی صراحت ہے کہ اگر پہلے سے اللہ تعالیٰ کا یہ فیصلہ نہ ہوچکا ہوتاکہ دنیا میں قبو لِ حق کے لیے انسانوں کو ایک خاص مدت تک مہلت دی جاتی رہے گی تو ان کے اس شرک کی بنا پر ان کا کام تمام کردیا جاتا۔
وَمَا کَانَ النَّاسُ إِلاَّ أُمَّۃً وَاحِدَۃً فَاخْتَلَفُواْ وَلَوْلاَ کَلِمَۃٌ سَبَقَتْ مِن رَّبِّکَ لَقُضِیَ بَیْْنَہُمْ فِیْمَا فِیْہِ یَخْتَلِفُون (یونس :۱۹)
اور تمام لوگ جو تھے بس ایک راستہ پر تھے پھر ان کے جھگڑے شروع ہوئے اور اگر تیرے رب کی طرف سے ایک بات (مہلت دئے جانے کی) نہ گزر چکی ہوتی تو اس کے درمیان فیصلہ کردیا جاتا، اس معاملہ میں جس میں کہ یہ جھگڑتے ہیں۔
دین اسلام کا یہی وہ بنیادی پیغام تھا جسے دنیا میں ہر رسول بلا استثناء اپنی اپنی قوم تک پہنچاتا رہا، یہ الگ بات ہے کہ اپنی بدقسمتی سے لوگوں نے حق کی اس سیدھی اور سچی شاہ راہ کوچھوڑ کر انحراف کی صورتیں اپنائیں اور مختلف پگڈنڈیاں نکال لیں، قرآن نے ان الفاظ میں ان کو انذار کیا ہے، آخر میں سب ہماری ہی طرف پلٹنے والے ہیں اس وقت انھیں ان کے شامت اعمال سے باخبرکیاجائے گا۔
إِنَّ ہَذِہِ أُمَّتُکُمْ أُمَّۃً وَاحِدَۃً وَأَنَا رَبُّکُمْ فَاعْبُدُونِ وَتَقَطَّعُوا أَمْرَہُم بَیْْنَہُمْ کُلٌّ إِلَیْْنَا رَاجِعُونَ (انبیاء: ۹۲-۹۳)
ضرور یہ تمہاری امت ہے ایک طریقہ کی اور میں تمہارا رب ہوں سو تم میری بندگی کرو، لیکن انھوں نے اپنے معاملہ کو ٹکڑے کر ڈالا، حالاں کہ سب ہم تک پلٹنے والے ہیں۔
قرآن کریم نے اس بات کی بھی صراحت کردی ہے کہ نبی آخر الزماں کے آجانے کے بعد سلسلۂ نبوت اب ختم ہوچکا اب آپؐ کا لایا ہوا دین اپنی تکمیلی شریعت کے ساتھ خدائی تعلیمات کا آخری ایڈیشن ہے جس نے گزشتہ تمام شریعتوں کو منسوخ کردیا ہے، قرآن کریم کا اعلان عام ہے کہ:
الْیَوْمَ أَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَیْْکُمْ نِعْمَتِیْ وَرَضِیْتُ لَکُمُ الإِسْلاَمَ دِیْناً (مائدہ:۳۰)
آج کے دن میں نے تمہارے لیے تمہارے دین کو مکمل کردیا اور تمہارے اوپر اپنی نعمت تمام کردی اور تمہارے لیے دین کی نسبت سے اسلام کو پسند کیا۔
دوسری جگہ ارشاد ہے:إِنَّ الدِّیْنَ عِندَ اللّہِ الإِسْلاَمُ وَمَا اخْتَلَفَ الَّذِیْنَ أُوْتُواْ الْکِتَابَ إِلاَّ مِن بَعْدِ مَا جَاء ہُمُ الْعِلْمُ بَغْیْاً بَیْْنَہُمْ وَمَن یَکْفُرْ بِآیَاتِ اللّہِ فَإِنَّ اللّہِ سَرِیْعُ الْحِسَابِ(آل عمران: ۱۹)
اللہ کے نزدیک دین صرف اسلام ہے اور اہل کتاب نے اختلاف نہیں کیا مگر بعداس کے کہ ان کے پاس جانکاری آچکی تھی، آپس کی دشمنی اور عداوت کی بنا پر اور جو کوئی اللہ کی آیتوں کا انکار کرے تو معلوم ہو کہ اللہ جلد حساب چکانے والا ہے۔
قرآن کریم نے اس حقیقت کو دو ٹوک انداز میں بیان کردیا ہے کہ اسلام کی آمد کے بعد اہل کتاب یہود و نصاریٰ کی نجات بھی اب اسی اسلام سے وابستہ ہے،ان کے لیے بھی راہِ نجات صرف اور صرف یہی ہے کہ وہ اس کی دکھائی ہوئی روشنی پر عمل پیرا ہوں اور اس آخری شریعت کو بتمام و کمال اپنا لیںجو کہ قرآن کریم کے صفحات میں موجود ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
یَا أَہْلَ الْکِتَابِ قَدْ جَاء کُمْ رَسُولُنَا یُبَیِّنُ لَکُمْ کَثِیْراً مِّمَّا کُنتُمْ تُخْفُونَ مِنَ الْکِتَابِ وَیَعْفُو عَن کَثِیْرٍ قَدْ جَاء کُم مِّنَ اللّہِ نُورٌ وَکِتَابٌ مُّبِیْن (مائدہ: ۱۵-۱۶)
اے اہل کتاب! تمہارے پاس میرا رسول آگیا ہے جو تمہارے لیے کھول رہا ہے ان بہت سی چیزوں کو جو تم کتاب کی چھپاتے تھے اور بہت سے صرف نظر کرتا ہے، تمہارے پاس اللہ کی طرف سے روشنی اور کھلی ہوئی کتاب آگئی ہے، اس کے ذریعہ اللہ سمجھاتا ہے جو اس کی خوشنودی کی پیروی کریں سلامتی کے راستوں کو اور انہیں تاریکیوں سے نکال کر روشنی میں لاتا ہے، اپنے حکم سے اور ان کی ٹھیک راستے کی طرف رہنمائی کرتا ہے۔
اسی طرح سورہ مائدہ میں پوری انسانیت کو خطاب کرکے آپ کو اس اعلان کا حکم ہوا کہ اب قیامت تک کے لیے تمام انسانو ںکی نجات اس سے وابستہ ہے کہ وہ اس آخری رسول پر ایمان لائیں اور کسی تحفظ اور چوں چرا کے بغیر جملہ معاملات زندگی میں اس کی اطاعت و پیروی کو اپنے لیے لازم پکڑ لیں۔
قُلْ یَا أَیُّہَا النَّاسُ إِنِّیْ رَسُولُ اللّہِ إِلَیْْکُمْ جَمِیْعاً الَّذِیْ لَہُ مُلْکُ السَّمَاوَاتِ وَالأَرْضِ لا إِلَـہَ إِلاَّ ہُوَ یُحْیِـیْ وَیُمِیْتُ فَآمِنُواْ بِاللّہِ وَرَسُولِہِ النَّبِیِّ الأُمِّیِّ الَّذِیْ یُؤْمِنُ بِاللّہِ وَکَلِمَاتِہِ وَاتَّبِعُوہُ لَعَلَّکُمْ تَہْتَدُون (اعراف: ۱۵۸)
کہو کہ اے لوگو! میں تم سب کی طرف اللہ کا رسول ہوں جس کے آسمانوں اور زمین کی بادشاہی ہے، اس کے سوا کوئی بندگی کے لائق نہیں، وہ جلاتا اور مارتا ہے، سو تم اللہ پر ایمان لائو اور اس کے رسول ، اس کے نبی پر جو ایمان رکھتا ہے اللہ پر اور اس کی باتوں پر اور اس کی پوری طرح پیروی کرو امید کہ تم راہ یاب ہو۔
مذکورہ بالا تفصیل سے یہ حقیقت آشکارا ہوگئی کہ اسلام کے مقابلہ میں سابقہ ادیان کی حیثیت منسوخ مذاہب کی ہے جو اپنے وقت کے انبیاء کے زمانے تک خاص تھی، ہر نبی کے ذریعہ ان سے پہلی قوم کے اندر رائج شریعت میں تبدیلی کی گئی ہے۔ اور آخری نبی کی آمد نے اپنے سے پہلے کے تمام ادیان کو منسوخ کردیا۔ قرآن کریم سے اس بات کی تائید ہوتی ہے کہ دین اپنے مجموعی لحاظ سے تمام انبیاء کے درمیان مشترک رہا ہے جیسا کہ آیت کریمہ’’ شرع لکم من الدین …‘‘الآیۃمیں بیان کیا گیا ہے ، البتہ شریعت میں جزوی ترمیم ہوتی رہی ہے، اسلام سے پہلے کے سابقہ تمام آسمانی مذاہب میں توحید، نبوت اور معاد کو بنیادی حیثیت حاصل رہی ہے اور تقریباً ہر نبی نے اپنی قوم کو ایک رب وحدہ لاشریک لہ کی عبادت و پرستش کی دعوت دی ہے، اختلافات بعد کی پیداوار ہیں، جیسا کہ متعدد آیات کے ذریعہ واضح کیا گیاہے، اور اس حقیقت پر بھی روشنی ڈالی گئی ہے کہ اسلام کی آمد کے بعد گزشتہ رسالتوں کا دور ختم ہوچکا اور اب کفار و مشرکین اور اہل کتاب، یہود و نصاریٰ کی نجات کا ایک ہی راستہ ہے کہ وہ اس نبی آخر الزماں کی رسالت کو تسلیم کرلیں اور اس کی لائی ہوئی کتاب کے مطابق اپنی زندگی بسر کریں، اسی میں ان کی دنیا و آخرت کی کامیابی ہے۔اس لئے کہ اللہ کے یہاں کسی کو کوئی درجہ ومرتبہ کسی گروہ کے ساتھ نسبت کی بنا پر حاصل نہیں ہوتا ،بلکہ ایمان باللہ ،ایمان بالآخرت اور عمل صالح کی بنا پر حاصل ہوتا ہے۔اگر یہ چیزیں حاصل نہ ہوں تو ہر چند کوئی شخص مسلمانوں ہی کے گروہ سے وابستہ ہونے کا مدعی ہو،خدا کے یہاں اس کی بھی کوئی حیثیت نہیں ہے۔