اسلام کی سیاسی فکر اور مفکرین

ایڈمن

اسلام کی سیاسی فکر اور مسلم مفکرین کی ارتقائی تاریخ پر ماضی میں قابل قدر کام ہوا ہے۔ مسلمان دانشوروں کے ساتھ ساتھ مستشرقین نے بھی اس موضوع پر خاصہ مواد فراہم کیا ہے۔ اسلام کی سیاسی فکر جس پربیشترمسلم…

اسلام کی سیاسی فکر اور مسلم مفکرین کی ارتقائی تاریخ پر ماضی میں قابل قدر کام ہوا ہے۔ مسلمان دانشوروں کے ساتھ ساتھ مستشرقین نے بھی اس موضوع پر خاصہ مواد فراہم کیا ہے۔ اسلام کی سیاسی فکر جس پربیشترمسلم مصنفین، اوردانشوروں نے قلم اٹھایا ہے، اس میں ادارۂ خلافت اور اس کی خصوصیات، فرائض اور حقوق و اختیارات کی بحثوں کو ہمیشہ محوری مقام حاصل رہا ہے۔ خلافت راشدہ سے لے کر آج کی جدید جمہوری حکومتوں کے دور تک تمام مفکرین نے اس امر سے بطور خاص بحث کی ہے، کیونکہ اس کی جڑیں قرآن وسنت کے نصوص میں موجود ہیں اور ان نصوص سے کوئی بھی نظریہ ساز بے نیاز نہیں ہوسکتا ہے۔
یہ کتاب ڈاکٹر عبیداللہ فہد فلاحی کی ہے، اس کتاب میں مصنف نے چار ابواب قائم کیے ہیں۔ پہلے باب میں مغرب کے ایک مغالطہ کو بیان کیا گیا ہے، جس میں انھوں نے بعض مغربی مصنفین و مستشرقین کی مغالطہ آمیزحرکتوں سے پردہ اٹھایا ہے جنھوں نے اسلامی سیاست کا انتہائی ناقص مطالعہ کرکے اس کی روشن تصویر پر داغ دھبے لگانے کی ناپاک جسارت کی ہے، اور دوسرے باب میں اسلامی سیاست سے متعلق تفصیلی گفتگو کی ہے، تیسرے باب میں مصنف مسلم مفکرین کو زیر بحث لاتے ہیں جس میں تدوین علوم کے آغاز اور سیاسی و سماجی رویوں کی تشکیل کے تعلق سے بھی گفتگو ہے، اور آخری باب میں اسلامی سیاست کا مختصر جائزہ پیش کیا گیا ہے۔
خاص بات یہ ہے کہ مصنف نے اپنی کتاب میں افراط و تفریط کے درمیان اعتدال کی راہ اختیار کی ہے، ہر موضوع اور ہر باب میں موصوف کا یہ رویہ نمایاں ہے، کتاب میں کل ۵۶؍ مفکرین کے افکار پر گفتگو کی ہے۔ زمانی ترتیب کے اعتبار سے عبد الحمید کاتب پہلے مفکر اور ادیب ہیں جن کی سیاسی فکر کو اس کتاب میں زیر بحث لایا گیا ہے، اور آخری مفکر شاہ ولی اللہ محدث دہلوی ہیں جن کی سیاسی تصانیف اور افکار کا تذکرہ کیا گیا ہے۔
اسلام کے سیاسی فکر سے دلچسپی رکھنے والوں کے لیے یہ ایک بہترین کتاب ہے۔ مصنف نے اس میں بہت اختصار سے کام لیا ہے، چند جملوں میں مفکرین کے عہد اور ضروری سوانح کا ذکر کیا ہے، اور اس کے بعد ان کی تصانیف اور ان کے مرکزی موضوع اور فکر کا جائزہ پیش کیا ہے، اور اس پر کسی تفصیلی تبصرہ یا تجزیہ سے گریز کیا گیا ہے۔ مصنف نے اس بات کی پوری کوشش کی ہے کہ جن مفکرین کا اس کتاب میں ذکر کیا گیا ہے ان کی فکر پر کوئی لیبل نہ لگایا جائے تاکہ قارئین خود فیصلہ کریں کہ مفکر پر کسی طرز فکر کا غلبہ ہے۔
ڈاکٹر عبید اللہ فہد فلاحی کی یہ کتاب زبان وبیان اور مودا کے لحاظ سے ایک شاندار پیش کش ہے، ضرورت ہے کہ اس موضوع پر گفتگو کو اور آگے بڑھایا جائے ۔

 

تعارف وتبصرہ:
اسعد مظہر فلاحی، نئی دہلی

حالیہ شمارے

براہیمی نظر پیدا مگر مشکل سے ہوتی ہے

شمارہ پڑھیں

امتیازی سلوک کے خلاف منظم جدو جہد کی ضرورت

شمارہ پڑھیں