اگر کسی صبح آپ کی آنکھ کھلے اور کروڑوں روپیوں سے بھرے تھیلے کو آپ اپنے سامنے پڑا پائیں جس پر آپ کا نام بھی لکھا ہو تو آپ کیا کریں گے؟ اس دولت کا استعمال کس طرح کیا جائے؟ یہ دوسرا سوال ہے۔ پہلا سوال اس دولت سے متعلق ہوگا کہ یہ دولت کس نے دی ہے؟ کیوں دی ہے؟ آپ ہی کو کیوں دی ہے؟ اور وہ اس دولت کے بدلے آپ سے کیا چاہتا ہے؟ یا اس کو یوں سمجھئے کہ آپ سے یہ کہا جائے کہ تمہارے لئے ایک نوکری کا آفر ہے۔ جس میں تمہاری تنخواہ ایک لاکھ ماہانہ ہوگی۔ تو آپ بتائیے کہ آپ کا رد عمل کیا ہوگا۔ آپ تو یہی پوچھیں گے کہ صاحب بہت شکریہ، پر یہ تو بتائیے کہ آخر کمپنی کون سی ہے؟ وہ کیا بناتی ہے؟ میری حیثیت وہاں کیا ہوگی؟وغیرہ، یہ بنیادی سوالات ہیں۔ ٹھیک اسی طرح کا معاملہ Idea of Development کا ہے۔ آپ کا Idea of Development کیا ہے؟ یہ دوسرا سوال ہے۔ پہلا اور بنیادی سوال یہ ہے کہ اس دنیا کو آپ کس طرح دیکھتے ہیں؟ آیا اس کا کوئی مالک ہے یا یہ اندھی تخلیق ہے؟ اس دنیا کے بعد کیا کوئی اور دنیا بھی ہے؟ انسان کی اس کائنات میں کیا حیثیت ہے؟ کائنات سے اس کا کیا رشتہ ہے؟ آسان الفاظ میں پوچھا جائے کہ آپ کا World View کیا ہے؟ آپ کا World View ہی بتائے گا کہ آپ کا Idea of Development کیا ہوسکتا ہے؟ دنیا میں آج جتنے مذاہب، ادیان ونظریات اور گروہ پائے جاتے ہیں ان میں اساسی اور بنیادی فرق اسی World Viewکو لے کر ہے۔ آئیے یہ جاننے کی کوشش کریں کہ اسلام کیا World View دیتا ہے اور اس کا Development سے کیا رشتہ ہے؟
اس World View کو ہماری زندگی میں وہی حیثیت حاصل ہے جو کسی پیڑ میں بیج کو حاصل ہوتی ہے۔ جیسا بیج ہوگا ویسا ہی پیڑ ہوگا۔ ویسے ہی پھل اس میں لگیں گے۔ اسی طرح جیسا انسان کا World Viewہوگا اسی طرح اسے Development کے پھل ملیں گے۔ وگرنہ انسان اور انسانی سماج مجموعہ ضدین ہوجائیں گے اور فکر و قلب اضطراب اور بے سمتی کی آماجگاہ بن جائیں گے۔
اسلام کا راستہ اعتدال اور میانہ روی کا راستہ ہے۔ وہ انسان کا مادی و عقلی ارتقاء بھی چاہتا ہے۔ اخلاقی بلندی بھی چاہتا ہے اور روحانی پاکیزگی بھی۔ موجودہ زمانے کے نظریات نے انسان کو سمجھنے میں ایک بنیادی غلطی کی ہے۔ وہ انسان کو صرف ایک مادی اور عقلی وجود سمجھتا ہے۔ بندر کے بچے سے اور کیا توقع کی جاسکتی ہے۔ بندر کا صرف مادی وجود ہوگا۔ ڈارون کا بندر صرف مادی وجود ہی تو رکھ سکتا ہے۔ اس کم خیالی، کم نگاہی اور مشاہدے کی کمی کو کیا کہیے گا۔
کیا آپ سکونِ قلب نہیں چاہتے؟ کیا آپ اپنے آس پاس امن کی پاسداری اور قانون کی بالا دستی نہیں چاہتے؟ کیا آپ اپنے ماں باپ سے محبت نہیں کرتے؟ کیا اپنی بہنوں کا احترام نہیں کرتے؟ کیا اپنے چھوٹوں کی بھلائی نہیں چاہتے؟ کیا آپ کا دل انسانوں کی مجبوریوں، اور مریضوں کی کراہوں پر نہیں تڑپتا؟ کیا اچھے اور نیک خیالات آنے پر آپ خوش نہیں ہوتے؟
جی ہاں آپ ایک اخلاقی وجود ہیں، اور آپ کی روح نیکیوں سے خوش اور بالیدہ ہوتی ہے۔ اسلام نے جتنا زور انسان کے مادی اور عقلی وجود پر دیا ہے اتنا ہی زور یا اس سے زیادہ اخلاقی و روحانی وجود پر دیا ہے۔ اسی لئے اسلام ایک ہمہ جہت، ہمہ پہلو Developmentکا تصور رکھتا ہے۔ آئیے اسلام کے World View کو سمجھنے کی کوشش کریں کہ اسلام کیا ورلڈ ویو دیتا ہے اور انسانی Development پر اس کے کیا اثرات مرتب ہوتے ہیں؟اس ذیل میں اسلام کے World Viewسے متعلق چار اہم تصورات نکات کے تحت پیش کئے جاسکتے ہیں:
(1)توحید
کیا یہ کائنات کسی کی بنائی ہوئی ہے؟ یا خود بخود وجود میں آگئی یا یہ متعدد خداؤں کی تخلیق ہے؟
جیسے آنکھ الگ ماں کے پیٹ میں بنی، پیر دوسری ماں کے پیٹ میں، کان تیسری ماں کے پیٹ میں، جیسے متعدد ماؤں نے جنم دے کر اسے انسان بنادیا ہے۔ اگر آپ صحرا سے گزر رہے ہیں اور آپ کو وہاں اچھا سا موبائیل فون پڑا نظر آئے اور آپ کا ساتھی آپ سے یہ کہے کہ صحرا کی مٹی میں وہ تمام معدنیات اور کیمیکلس موجود ہوتے ہیں جو موبائیل بنانے کے لئے مطلوب ہوتے ہیں، اس طرح ان کے ملاپ سے یہ فون خود بخود بن گیا ہے۔ تو آپ کیا کہیں گے؟ اگر آپ یہ نہیں مان سکتے کہ ایک چھوٹا سا موبائیل، گھڑی یا اس طرح کی چھوٹی سے چھوٹی چیز بھی خود بن سکتی تو پھر آپ یہ کیسے کہہ سکتے ہیں کہ یہ حسین کائنات اور ہم انسان خود بخود وجود میں آگئے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ کوئی نہ کوئی خالق تو ضرور موجود ہے جس نے ہمیں، اس کائنات کو اور یہاں موجود ہر ایک شئے کو بنایا ہے۔ یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ ایک ہی وقت میں ایک گاڑی کو متعدد ڈرائیور چلائیں۔ ایک انسان کئی ماؤں کے پیٹوں سے آئے۔ ایک پینٹنگ کئی پینٹرس بنائیں۔ ایک انسان کے کان کا خدا کوئی اور، آنکھوں کا خدا کوئی اور، دماغ کا خدا کوئی اور۔ کوئی بارش کا خدا، کوئی سورج اور کوئی چاند کا۔
یہ حسین و جمیل کائنات، اور اس کی ہم رنگی و یگانگی چیخ چیخ کر کہہ رہی ہے کہ ہم سب کا مالک صرف اور صرف ایک خدا ہے۔
اب ایک اہم سوال یہ اُٹھتا ہے کہ ایک خدا کو مان لینے سے Developmentکا کیا رشتہ ہے؟ اس چیز کو تین بنیادی نکات کے تحت سمجھا جاسکتا ہے۔
(۱) مساوات: اس کائنات کا خالق صرف ایک خدا ہے باقی سب اس کی مخلوق۔ اس کائنات کا مالک ایک خدا، اور باقی سب اس کے غلام۔ کیا ماں باپ اپنے بچوں میں تفریق کرسکتے ہیں؟ کیا کوئی بچہ اونچا ہے اور کوئی شُدر ہے۔ ایک خدا کو ماننے سے یہ لازم آتا ہے کہ سارے انسان برابر ہیں۔ اسلام انسانی مساوات پر مبنی ایک ایسا معاشرہ تشکیل دیتا ہے جس کی مثال حج اور نماز ہے۔ وہ نہ کوئی امیر، غریب کی تفریق کرتا ہے، نہ شُدر اور برہمن کی۔ وہ ایسا معاشرہ بناتا ہے جس میں سارے انسان ایک ہی صف میں آجاتے ہیں۔ ایسی اخوت اور بھائی چارگی کو جنم دیتا ہے جس میں ایک انسان دوسرے انسانوں سے تمام حقوق میں مساوی ہو۔ اس طرح ایک خدا کا اقرار ہر قسم کی تفریق کو یک قلم ختم کردیتا ہے۔ جب ایک خدا، ایک انسانیت، (One God One Humanity) کے اصولوں پر کوئی معاشرہ قائم ہوتا ہے تو اس میں ظلم و زیادتی، نفرت اور دھوکہ بازی کے لئے کوئی جگہ نہیں ہوتی۔ ایک خدا کا تصور تمام مخلوقات کو محبت و اخوت کی ایک کڑی میں پرو دیتا ہے۔ کیا انسانی اخوت و مساوات کی اور کوئی بنیاد ہوسکتی ہے؟ جی نہیں یہی ایک بنیاد اس بات کی ضا من ہے کہ مخلوق اللہ کا کنبہ ہے اور یہی چیز انسانی محبت کا سرچشمہ ہے۔ محبت کے چشمے اسی سے اُبلتے ہیں ورنہ انسانیت، ظلم و نا انصافی، Holocaust ، World Wars کے واقعات بھی رکھتی ہے۔
(۲) عدل: یہی توحید عدل و انصاف کی بنیاد ہے۔ اللہ تعالیٰ نے یہ کائنات عدل و میزان پر بنائی ہے۔ جب تمام افراد اپنے آپ کو ایک ہی خدائے واحد کا بندہ اور ایک ہی خاندان کا حصہ سمجھیں گے تو ان کے تعلقات کی بنیاد اخوت اور محبت ہوگی۔ وہ آپس میں عدل کی بنیاد پر معاملات کریں گے۔ جس طرح اللہ نے ہر چیز کو عدل کی بنیاد پر قائم کیا ہے اس کے نتیجہ میں فرد کی انفرادی زندگی میں بھی اور پورے معاشرے میں بھی امن قائم ہوگا جو کسی بھی فرد اور معاشرے کی ترقی کے لئے لازمی ہے۔ عدل، امن اور ترقی کے اس رشتہ کو اس مثال کے ذریعہ بھی سمجھا جاسکتا ہے کہ اگر باپ اپنی جائیداد کو اپنے بچوں میں عدل کے ساتھ تقسیم کرے تبھی اس کے بچے امن و سکون کے ساتھ ایک دوسرے کے ساتھ رہیں گے۔ اور ان میں سے ہر ایک اپنی حاصل کردہ میراث کے ذریعہ ترقی کرسکے گا۔ اسلام جہاں سماجی عدل چاہتا ہے،وہیں معاشی و سیاسی عدل بھی چاہتا ہے۔
(۳)آزادی: اسلام انسان کو ایک خدا کی بندگی میں دے کر تمام مخلوقات کی بندگی سے آزاد کرادیتا ہے۔ یہی وہ بنیادی نظریہ ہے جو انسان کو فکر و تحقیق کے لئے آزاد کردیتا ہے۔ ایک انسان جب سورج، چاند اور اس کائنات کو اپنی ہی طرح ایک مخلوق سمجھتا ہے تو اس پر آزادی کے ساتھ غور کرتا ہے۔ نئے علوم وجود میں آتے ہیں اور کائنات کے بہت سے رازوں پر سے پردہ اٹھتا ہے۔ کیا سورج کا بندہ سورج پر تحقیق کرسکتا ہے؟ مخلوقات کو خدا بنالینے کے بعد انسان اپنی آ زادی کھو دیتا ہے
یہ ایک سجدہ جسے تو گراں سمجھتاہے
ہزار سجدوں سے دیتا ہے آدمی کو نجات
آج آپ اپنے اطراف جو سائنسی ترقی دیکھتے ہیں اس کی بنیاد یہی نظریہ ہے۔
سقراط سے پوچھا گیا کہ عورت کے منہ میں کتنے دانت ہوتے ہیں۔ اس نے برملا جواب دیا 28۔ اس سے پوچھا گیا کہ کس طرح؟ تو اس نے کہا عورت کمزور ہے اس لئے دانت کم ہوتے ہیں۔ یہ Deductive Logicتھی۔ جس میں مشاہدہ کی کوئی اہمیت نہ تھی۔ اسلام ابراہیمؑ کے قصہ کو بڑی تفصیل کے ساتھ پیش کرتا ہے۔ جس کے اندر انھوں نے سورج کا مشاہدہ الگ کیا، چاند کا الگ، اور ستاروں کا الگ۔ اور یہی چیز Inductive Logic کی بنیاد بنی اور اس کو فروغ ملا۔ اور مشاہدہ کو مرکزی حیثیت دی گئی۔ مشاہدات ہی سائنسی دریافت کی بنیاد ہوتے ہیں۔ مسلمانوں نے اس کو پروان چڑھایا اور یہی چیز مغربی سائنس اور ترقی کی بنیاد بنی۔ یہی معاملہ آزادئ اظہار رائے کا ہے، اسلام اظہارِ رائے کی آزادی کو انسان کا بنیادی حق سمجھتا ہے۔ سارے انسان آزاد پیدا ہوئے اور انہیںآزاد ہی رہنا چاہئے۔ انسان کی آزادی کی حد یہ ہے کہ وہ دوسرے انسان کی آزادی نہ چھینتا ہو، اور یہی تہذیب کی بنیادہے۔
(2) خلیفہ
انسان کی دنیا میں کیا حیثیت ہے؟ اور اس دنیا کی کیا حقیقت ہے؟
اسلام کا World View یہ کہتا ہے کہ اس کائنات کے خالق نے اپنی روح انسان میں پھونکی ہے۔ یا یہ انسان چاہے کالا ہو، چاہے گورا ہو۔ چاہے چھوٹا ہو، چاہے موٹا ہو۔ چاہے کسی مذہب سے اس کا تعلق ہو۔ یہ خدا کا بندہ ہے۔ اس کی روح پاکیزہ ہے۔ وہ بلندی اور ارتقاء چاہتی ہے۔ کیا اس سے بڑھ کر بھی انسان کے لئے عزت اور شرف کی کوئی بات ہوسکتی ہے۔ انسان کوئی گناہوں کی پوٹلی لے کر اس دنیا میں نہیں آیا۔ بلکہ وہ تو ایک قدوسی روح لے کر اس دنیا میں بھیجا گیا کہ اسلام کی نظر میں تمام انسان آدم کی اولاد ہیں۔ یعنی ایک نبی کی اولاد ۔ وہ کوئی بندر کی اولاد نہیں۔ تمام انسان ایک ہی ماں باپ کی اولاد ہیں۔ اخوت، محبت اور بھائی چارگی کا کیا حسین و دلفریب احساس یہ نظریہ پیش کرتا ہے۔ پھر یہ کہا گیا کہ انسان اشرف المخلوقات ہے۔ یہ تمام کائنات اس کے لئے بنائی اور مسخر کی گئی ہے۔ ذرا سوچئے تو سہی کہ خدا کی ذات کا حصہ ہونے کی وجہ سے انسان کی خودی کو کیسی بلندی اور رفعت عطا کی گئی۔ اور ہر انسان کو بہترین وبے کنارہ صلاحیتوں سے نوازا گیا ہے۔ نبی کی اولاد ہونے میں کیا اخلاقی شان اس میں پیدا کی گئی اور سارے انسانوں کے ایک ماں باپ کی اولاد ہونے کے نتیجہ میں کیسی محبت انسان کے دل میں دوسرے انسانوں کے تئیں پیدا کی گئی۔ انسان خدا کا خلیفہ ہے Vicegerentاور کائنات اور انسان اللہ کی ملکیت ہے اور انسانوں کو اس کائنات کا امین بنایا گیا ہے۔ اس دنیا کو اسلام انسان کے لئے ایک آزمائش یا Testگردانتا ہے جو انسان اس آزمائش کو کامیابی اور اللہ کے تئیں کامل سپردگی کے ساتھ گزاریں گے وہی خدا کے سچے خلیفہ ہوں گے اور میراث میں جنت پائیں گے۔یہ دنیا اپنے خاتمہ کی طرف بڑھ رہی ہے۔ اور سارے انسانوں کو فرداً فرداً روز قیامت اپنے اعمال کا حساب پیش کرنا ہے۔
انسان بڑی حیرت سے سوال کرتا ہے کہ کیامیں مرنے کے بعد دوبارہ زندہ کیا جاؤں گا؟
اس سے کہا گیا کہ جب تو پہلی بار پیدا کیا گیا تو کس چیز سے پیدا کیا گیا؟
کیا تو ماں کے پیٹ میں مردہ نہ تھا؟ پھر تجھے زندگی دی گئی پھر تجھے موت آئے گی۔تو کیا جس نے پہلی بار تجھے زندگی دی تھی وہ دوسری بار زندگی نہیں دے سکتا ؟
کہا گیا کہ اس کائنات کو دیکھ کہ تیری نگاہیں اس کا احاطہ بھی نہیں کرسکتیں۔ آئن اسٹائن یہ کہتا ہے کہ سمندر کے کنارے جتنے ریت کے ذرات ہیں اس سے زیادہ اجسام میں فلکی ستارے و سیارے ہیں ۔ تو کیا اس عظیم الشان کائنات کا خالق انسان کو دوسری زندگی نہیں دے سکتا؟
کہا گیا کہ کیا تم نے گرمیوں میں نباتات کو نہیں دیکھا کہ وہ مر جاتے ہیں لیکن جیسے ہی بارش برستی ہے وہ یکایک لہلہا اٹھتے ہیں اوردوبارہ زندہ ہو جاتے ہیں۔
کیا آپ سمجھتے ہیں کہ ہٹلر جس نے لاکھوں انسانوں کا قتل کیا اس کا انجام اس دنیا میں ہی پورا ہوسکتا ہے ؟انبیاء آئے جنہوں نے تمام انسانوں کی بھلائی کے لیے جدوجہد کی، کیا اس کا پھل یہ دنیا انہیں دے سکتی ہے؟لا محالہ یہ چیز اس بات کا تقاضا کرتی ہے کہ ایک ایسی دنیا کا قیام ہوجہاں سارے انسانوں کو انصاف ملے ۔
سورج اور چاند اور ستارے ہزاروں سال سے روشن اور قائم ہیں۔تو انسان جو اشرف المخلوقات ہے اس کی زندگی اتنی چھوٹی کیسی؟ بے شک ایک ایسی دنیا کا وجود ہوگا جہاں کوئی موت نہ ہوگی اور جیسے عمل انسان نے کئے ہوں گے اس کا بدلہ اس کو دیا جائے گا اور اس دنیا کی آزمائش سے جو انسان کامیابی سے گزریں گے ان کا بدلہ ابدی اور کبھی نہ ختم ہونے والی جنت ہوگی جس کی نعمتیں بے شمار اور جس کے ثمرات لازوال ہیں۔
خلافت اور دنیا کی حقیقت کو جان لینے کے بعد Development کس طرح ہوگا؟
* احساس جوابدہیAccountability /: خلیفہ اور Vicegerent ہونے کے نتیجہ میں جہاں ایک طرف انسان کو اتھارٹی یا آزادئ عمل کا اختیار دیا گیا وہیں پر دنیا کو اس کے لئے دارالامتحان بناکر اس کو ذمہ دار بھی بنایا گیا۔ اس کے اندر احساس جواب دہی پیدا کیا گیا۔ یہ تصور ایسے انسانوں کو جنم دیتا ہے جو رات کے اندھیرے میں اور تنہائی میں بھی گناہ سے بچتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کے آگے اپنے آپ کو جواب دہ سمجھتے ہیں۔ ایک پُر سکون رات میں ماں اپنی بیٹی سے کہتی ہے کہ بیٹی دودھ میں پانی ملادو۔ بیٹی کہتی ہے ماں کوئی نہیں دیکھ رہا تو کیا ہوا، اللہ تعالیٰ تو ہمیں دیکھ رہا ہے۔ یہ جواب دہی کا احساس انسانوں کو اتنا مہذب بنا دیتا ہے جہاں پر کسی قانون کی رسائی نہیں ہوسکتی ۔
* تصور امانت:اس کائنات کا مالک اللہ تعالیٰ ہے اور یہ کائنات انسان اور اس کا سارا مال و اسباب اللہ کی ملکیت ہے اور انسان کے پاس بطورِ امانت قرآن کہتا ہے: ’’اس مال میں سے دو جو اللہ نے تمہیں دیا ہے۔‘‘ اسلام امانت کے Concept کے ذریعہ اس کے Sustainable Development کو یقینی بناتا ہے۔ ایسا Development جس میں ماحولیات کا تحفظ بھی ہو۔ غریبوں اور ناداروں کی کفالت بھی ہو اور آنے والی نسلوں کی بقاء بھی ہو۔ اس کے نتیجے میں ایسے مالدار جنم لیتے ہیں جو دولت کو اپنی اجارہ داری نہیں سمجھتے۔ خرچ کرتے ہیں اور بانٹتے ہیں۔ انسانوں کی ضروریات اپنے مال و متاع سے زیادہ مقدم رکھتے ہیں۔ دولت Capitalize نہیں ہوتی بلکہ Rotate ہوتی رہتی ہے۔ یہاں ایسا معاشرہ نہیں ہوتا جہاں کچھ لوگ تو سونے کے چمچوں سے کھاتے ہیں اور انسانوں کا سوادِ اعظم کوڑے کرکٹ میں اپنا کھانا ڈھونڈتا ہے۔ یہاں انسانوں کو صرف Consumers نہیں سمجھا جاتا بلکہ ہر انسان کو ترقی کے اور رزقِ حلال کمانے کے یکساں مواقع میسر ہوتے ہیں۔ وہ مومن نہیں ہوسکتا جو خود تو پیٹ بھر کھائے اور اس کا پڑوسی بھوکا سوئے۔ Consumerismاور Selfishness کے بجائے تمام انسانوں کی ضروریات زیادہ اولیت حاصل کریں گی، نیز اس Concept of Development کا مرکز انسان ہوگا۔
*انسانی جان کی حفاظت: اسلام میں انسانی جان کا بے انتہا احترام کیا گیا، جس کے مطابق کہا گیا کہ جس نے ایک انسان کا نا حق قتل کیا گویا اس نے انسانیت کو ختم کردیا، اور جس نے ایک انسان کو بچایا اس نے ساری انسانیت کو بچایا۔ اس تکریم انسانیت میں ایک ایسا معاشرہ اسلام وجود میں لاتا ہے جہاں انسانی جان کی حفاظت ایک مقدم فریضہ کی حیثیت اختیار کرجاتی ہے۔ یہاں انسانی جانوں میں تفریق کی کوئی گنجائش نہیں۔ چاہے ہندو ہو، سکھ ہو، عیسائی ہو، بلالحاظ مذہب و ملت انسان کی حفاظت ایک اہم فریضہ ہے، تاکہ ایک پر امن معاشرہ وجود میں آئے۔ مالکِ کائنات کے نزدیک سب سے برا فعل فساد و قتل و غارت گری ہے۔
*رواداری: دنیا کو دارالامتحان قرار دینے پر یہ چیز لازم ہے کہ انسان کو عمل کی آزادی دی جائے ۔ اسلام کے نزدیک جبر و اکراہ کسی صورت جائز نہیں۔ ہر انسان کو اپنے مذہب پر چلنے کی آزادی دی گئی۔ بے شک اس میں Healthy Discussion کی گنجائش ہے لیکن کسی پر کوئی زورزبردستی نہیں۔
(3)ربوبیت
جب ہم انسان کو اللہ کا نائب اورخلیفہ مانتے ہیں جسے اس زمین کے نظم و نسق کو عدل و قسط کی بنیاد پر چلانے کی ذمہ داری دی گئی ہے تو خود بخود ایسے رہنما اور حاکم کی ضرورت محسوس ہوتی ہے جس کے احکامات کے تحت انسان اس کائنات کے نظم کو چلائے۔ وہ رہنما اور حاکم یعنی رب اللہ تعالیٰ ہے جو اکیلا ربوبیت کی تمام صفات سے متصف ہے۔ رب کا مطلب پالنے پوسنے والا۔ پرورش کرنے والا۔ ارتقاء اور نشو و نما کے سارے اسباب فراہم کرتے ہوئے نقطۂ کمال تک پہنچانے والاہے۔ رب کا یہ مفہوم کہ فوق الفطری طور پر وہ مخلوقات کی پرورش، خبر گیری، حاجت روائی ا ور نگہبانی کا کفیل ہوتا ہے۔ زمین و آسمان کے مالک کا دستر خوانِ ربوبیت اپنی پوری وسعت، فراخی، تنوع، ہمہ گیری اور ہمہ پہلو خصوصیات، رزق رسائی کے ساتھ کائنات گیر سطح پر ہر طرف اور ہر جگہ بچھا ہوا ہے۔ جس سے کائنات کی ہر مخلوق اپنی ضرورت اور حیثیت کے مطابق مستفید ہورہی ہے اور ہر مخلوق کو رزق پہنچ رہا ہے۔ اگر انسان خدا نے جو غذا کا انتظام مخلوقات کے لئے کیا ہے صرف اسی پر غور کرے تو شکر و امتنان کے وفور سے اس کا دل جھک جھک جاتا ہے۔ جنگل کے جانوروں ہی کو لیجئے جو Millionsمیں ہیں۔ ہر ایک کی غذا الگ الگ، اور ذوق الگ الگ ہے۔ ہر ایک کو رزق پہنچ رہا ہے۔ ہوائی مخلوقات کو لیجئے۔ کروڑوں پرندے ہیں۔ لاتعداد بیکٹیریا ہیں جو برابر اپنی غذا حاصل کررہے ہیں۔اس چیز کو مان لینے سے Developmentکس طرح ہوگا؟
* کفالت: اب اگر انسان ایسے کفیل رب کا نائب اور خلیفہ ہے تو خود بخود یہ ذمہ داری اس پر عائدہو جاتی ہے کہ وہ بھی اپنے ساتھ بسنے والی تمام مخلوقات بشمول انسان، حیوان، چرند، پرند ہر کسی کی اپنی سکت اور حیثیت کے مطابق کفالت کی کوشش کرے۔ کفالت کی ذمہ داری کا یہ احساس انسان کو ہر وقت، اور ہر لمحہ اس بات کا احساس دلاتا ہے کہ اس کے مال میں سائل اور محروم کا حق ہے۔ غرباء، فقراء، مساکین، بیوہ، مسافر، کمزور، پڑوسی، ہر ایک کا حق ہے۔ اور یہ حق صرف انسانوں ہی تک محدود نہیں ہے، بلکہ اس کا دائرہ تمام مخلوقات کا احاطہ کرتا ہے۔ ربوبیت اور کفالت کا یہ احساس ہی حضرتِ عمرؓ جیسے افراد تیار کرتا ہے جو خلیفہ وقت ہوتے ہوئے اور ایک بہت بڑی ریاست کے نظم و نسق کو کامیابی کے ساتھ چلاتے ہوئے بھی یہ کہتے نظر آتے ہیں کہ اگر دریائے دجلہ کے کنارے ایک بکری بھی بھوک سے مر جائے تو میں اس بارے میں اللہ رب العزت کو کیا جواب دوں گا۔ ایک طرف ربوبیت کے اس تصور کو اپنے دل ودماغ میں اتار لینے والے حضرتِ عمرؓ کے اس قول کو اور دوسری طرف ہماری آج کی صورتِ حال کو آپ دیکھیں تو بآسانی ربوبیت اور کفالت کے تصور کی اہمیت سمجھ سکتے ہیں۔ UNICEF کی رپورٹ کے مطابق ہر روز دنیا میں 21ہزار بچے بھوک کی وجہ سے مر جاتے ہیں۔ یونیسیف کی آشکار کی ہوئی یہ تلخ حقیقت ہمیں ایک بار پھر اسلام کے تصورِ ربوبیت کو قبول کرنے کی دعوت دیتی ہے۔اللہ رب العزت کے کفیل اور رازق ہونے پر ایمان لانے کا ایک فائدہ یہ بھی ہے کہ وہ Female Foeticideکے مسئلے کی بنیاد ہی کو جڑ سے اکھاڑ پھینک دیتا ہے کہ جب رازق اللہ رب العزت ہے جو سمندر کی گہرائی، اور آسمان کی بلندی میں بسنے والی مخلوق کو بھی رزق فراہم کرتا ہے تو وہ ہر نوزائدہ بچہ یا بچی کو بھی رزق فراہم کرے گا۔ اس وقت ہمارے ملک بھارت میں ہر منٹ میں ایک لڑکی کا رحم مادر میں قتل اس کی کفالت کے خوف سے کردیا جاتا ہے۔ اللہ رب العزت کو رب اور کفیل جاننے اور حقیقی معنوں میں اس بات کو ماننے کے علاوہ کوئی اور چیز اس مسئلے کو مکمل طورپر ختم نہیں کرسکتی۔
اس کفالت ہی کا دوسرا پہلو یہ بھی ہے کہ اللہ صرف اپنی مخلوقات کا پیٹ ہی نہیں بھرتا بلکہ عدل کے ساتھ انہیں کامیاب زندگی گزارنے کے وسائل بھی فراہم کرتا ہے۔ کیا کبھی آپ نے کوئی گدھا ایسا بھی دیکھا ہے جسے خدا نے اس کی بد صورتی کی وجہ سے رزق سے محروم کردیا ہو۔ یاکسی کوے کو اس کی آواز یا کسی چیونٹی کو اس کی کمزوری کی وجہ سے وسائلِ زندگی سے محروم کردیا ہو۔ نہیں ناں! اگر آپ کے قادر المطلق رب نے اپنی تمام طاقت اور قوت کے باوجود کسی مخلوق کو اس کی کمزوری یا خامی کی وجہ سے وسائل سے محروم نہیں کیا ہے، تو آخر اس خدا کا نائب اور خلیفہ کس طرح ان وسائل پر غاصبانہ قبضہ کرکے اس کا نجی کرن اور تجارتی کرن کرکے خلقِ خدا کی اکثریت کو اس کے فیض سے محروم کرسکتا ہے۔ جب انسان اللہ کو اپنا رب اور اپنے آپ کو اس کا خلیفہ مانتا ہے تو وہ خود بخود مخلوق خدا کی کفالت کی ذمہ داری کو اپنے اوپر محسو س کرتا ہے۔ وسائل کی عادلانہ تقسیم اس کی ترجیح بن جاتی ہے، تاکہ نامساوی تقسیم کے سبب کوئی مخلوقِ خدا متأثر نہ ہو اور نائب کی حیثیت سے اسے خدا کے حضور اس معاملے میں جواب دہی کرنی پڑے۔ جب اس طرح انسان ایک معتدل اور Balanceانداز میں وسائل کا استعمال اور اس کی تقسیم کرتا ہے تو اس کا Development مکمل معاشرے اور معاشرے کے ہر عنصر کے لئے خیر کا سبب بنتا ہے۔ نہ تو اس کا مادی Development ماحول کا دشمن بنتا ہے نہ ہی ماحولیات کی محبت اس کو جائز مادی ترقی سے روکتی ہے۔ نہ ہی اس کی انفرادی ترقی معاشرہ کے نقصان کا سبب بنتی ہے، نہ کسی ایک معاشرہ کی ترقی اور خوشحالی کسی فرد یا افراد کی تباہی کا سبب بنتی ہے۔ یعنی فرد، معاشرہ، ماحول اور معاشیات یکساں طور پر اعتدال کے ساتھ ترقی کرتے ہیں، اور اسی چیز کا نام Sustainable Development ہے۔ جو موجودہ Idea of Development کی بنیادی ضرورت ہے۔
*قانون سازی: رب کا دوسرا مفہوم جس کی تفہیم قائم کرنے کے لئے انبیاء آتے رہے اور جس میں قومیں زیادہ گمراہی کا شکار رہیں، وہ یہ ہے کہ رب تعالیٰ ہی امر و نہی کا مختار، اقتدارِ اعلیٰ کا مالک، ہدایت و رہنمائی کا منبع و قانون ساز ہے۔ اللہ رب العزت اپنی لا تعداد مخلوقات کو مستقل رزق پہنچا رہا ہے۔ آپ صرف دودھ پر غور کیجئے۔ گوبر اور خون کا ایک چھینٹا بھی آپ کو دودھ میں نظر نہ آئے گا۔ اب خود سوچئے جس خدا نے انسان کے لئے اپنی نشانیاں اور رزق کے لئے ایسے لطیف انتظامات کئے ہوں کیا وہ انسان کے لئے نہ بتائے گا کہ زندگی کس طرح گزاری جائے؟ نہیں ایسا کبھی ممکن نہیں کہ وہ آپ کے مادی وجود کی تو کفالت کرے لیکن اخلاقی اور روحانی وجودکی ضروریات پوری نہ کرے۔ قانون اور ضابطہ حیات سے آپ کو محروم رکھے۔ انسان زندگی کس طرح گزارے اس بات کی رہنمائی کے لئے اللہ نے اپنا ہدایت نامہ قرآن کی شکل میں نازل کیا ہے۔ جس طرح اللہ کے فراہم کردہ مادی و سائل مخلوق ہی کی بھلائی و منفعت کے لئے ہیں۔ اسی طرح اللہ کا دین اور اس کی یہ ہدایت بھی انسانوں ہی کی بھلائی کے لئے ہے۔ اللہ کے قانون ہی کی پابندی میں انسان کی حقیقی ترقی چھپی ہوئی ہے اور یہی چیز اس کو حقیقی امن و سکون فراہم کرسکتی ہے۔ انسانوں کو چھوڑ کر تمام مخلوقات مکمل طور پر اللہ کے قانون کی پابند ہیں۔ اسی قانون کی پاسداری کے نتیجہ میں آپ کو ان مخلوقات کے اندر امن اور بقائے باہمی کی فضا نظر آئے گی۔ یہ خدا کے قانون کی پاسداری ہی ہے جو سورج کو چاند اور چاند کو سورج سے ٹکراجانے سے روکتی ہے۔ یہ قانونِ فطرت پر عمل ہی ہے جو سورج کو مشرق کے بجائے مغرب سے طلوع ہونے اور سیب کو پیڑ سے زمین کے بجائے آسمان کی طرف جانے سے روکتا ہے۔ اب انسان صرف عمل کی آزادی کے نتیجہ میں تمام مخلوقات کے برخلاف فطرت اور خدائی قانون سے بغاوت کرے گا تو وہ خود اپنا ہی نقصان کرے گا۔ مثال کے طور پر کوئی کمپنی ایک کمپیوٹر بنائے اور آپ اس کمپیوٹر کے موجد کی رہنمائی کے بغیر اپنی کم علمی کے باوجود اس کمپیوٹر کا اپنی مرضی کے مطابق استعمال کریں، اس کے پرزے غلط جگہوں پر فٹ کریں۔ وائرس سے پاک کرنے کے لئے اسے واشنگ مشین میں دھوئیں، تو آپ اس کمپیوٹر کو بھی خراب کردیں گے اور اپنا بھی نقصان کریں گے۔ بالکل یہی معاملہ آج ہمارے ساتھ بھی ہورہا ہے۔ ہم بغیر جانے بوجھے، بغیرسوچے سمجھے، قانون سازی کے تمام اختیارات کو اپنے ہاتھوں میں لے کر اس دنیا کو بھی برباد کررہے ہیں اور انفرادی و اجتماعی زندگیوں کو بھی ۔ یہ تصورِ خدا اور خدائی قانون سے انحراف ہی کا نتیجہ ہے کہ اس دنیا میں ہر منٹ میں ایک لڑکی اپنی جنس کی بنیاد پر قتل کردی جاتی ہے۔ ہر چار سیکنڈ میں ایک بچہ غریبی کی وجہ سے موت کا شکار ہوجاتا ہے۔ ہر منٹ میں ایک لڑکی کا ریپ ہوتا ہے۔ ہر نیا کرپشن اور گھوٹالہ سابقہ گھپلوں اور Scams کا ریکارڈ توڑتا نظر آتا ہے۔ اس کے مقابلے میں اللہ کا قانون انسان کو خلیفہ بناکر اپنی سکت کے مطابق معاشرہ کی کفالت اور اس کی بھلائی کے لئے جدوجہد کی ذمہ داری انسانوں پر ڈالتا ہے۔ جس کے نتیجہ میں انسانوں کی بنیادی ضروریات کی تکمیل فرد کے ساتھ ساتھ ریاست اور معاشرہ کی بھی ذمہ داری بن جاتی ہے اور بیشتر جرائم کا جواز ہی ختم ہوجاتا ہے۔ اس جواز کے خاتمہ کے ساتھ ساتھ اسلامی قانون ایک ایسا معاشرہ تشکیل دیتا ہے جس میں بھلائیوں کا انجام دینا انتہائی آسان و پسندیدہ اور برائیوں اور گناہوں کا ارتکاب انتہائی مشکل اور کریہہ عمل بن جاتا ہے۔ اسلام کا تصور قانون صرف یہیں پر رک نہیں جاتا بلکہ ان تمام کوششوں کے باوجود بھی اگر فرد جرائم میں ملوث ہو، تو اسے سزا دے کر پورے معاشرہ کے لئے نمونۂ عبرت بناتاہے اور معاشرہ کے اجتماعی امن و سکون اور مستقبل کی حفاظت و ترقی کو یقینی بناتا ہے۔
(4)تزکیہ
تزکےۂ نفس: اس دنیا کو برتنے کا صحیح طریقہ کیا ہے؟ انسان کے لئے کامیابی کا راستہ کون سا ہے؟ کامیابی اور ناکامی کا معیار کیا ہو؟ نیز ایک فرد کی تربیت کا کیا پروگرام اسلام رکھتا ہے؟
ایک بنیادی فرق کو اچھی طرح سمجھ لینا چاہئے جو کہ اسلام اور دیگر نظریات میں ہے کہ اسلام اور قرآن کا مخاطب ایک فرد ہے۔ جوChangeاور Development اسلام لانا چاہتا ہے اس کی اکائی ایک فرد ہے۔ اسلام کے نزدیک ہمہ جہت ترقی باہری دنیا سے زیادہ ایک فر دکواندر سے بدل دینے کے ذریعہ ہوسکتی ہے۔ فرد کی اس ترقی کو اسلام فلاح سے تعبیر کرتا ہے۔ فلاح سے مطلب دونوں جہاں کی کامیابی ہمیشہ ہمیشہ کی کامیابی ہے۔ ہر پہلو سے کامیابی۔ ایسی کامیابی جس کا کوئی کنارہ نہیں۔تزکیہ کا ایک مطلب تو ہے پاک صاف کرنا۔ اس کے لئے اسلام پہلی شرط ایمان کی لگاتا ہے۔
(۱)ایمان: ایمان کا مادہ امن ہے۔ انسان کو یہ بنیادی سوالات درپیش ہیں جیسے کیا اس کائنات کا کوئی خدا ہے؟ اس کی حیثیت کیا ہے؟ نیز اسلام نے جو World View پیش کیا ہے اور ان سوالات کے جوابات دےئے ہیں اسی سے ایک فرد کو امن نصیب ہوسکتا ہے اور حقیقی طمانیت نصیب ہوسکتی ہے اور اسی کا نام ایمان ہے۔ اسلام ایک فرد سے اس بات کا تقاضا کرتا ہے کہ اللہ پر ایمان لائے اور توحید کے جو تقاضے اسلام نے دےئے ہیں ان کو دل سے مانے۔ اپنے عمل کا محور آنے والی دنیا کی کامیابی کو ٹھہرائے اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنا نبی مانے ۔ ایمان صرف ایک قولی شہادت ہی کا نام نہیں ہے بلکہ وہ دل سے قبول کرنے، زبان سے اقرار کرنے اور اللہ تعالیٰ نے جو عبادتیں بتائی ہیں ان کو شعور کے ساتھ ادا کرنے کا نام ہے۔ اس شخص کے ایمان کا کیا اعتبار جو زبان سے اقرار توکرتا ہو لیکن عملاً عبادات انجام نہ دیتا ہو۔ اسلامی عبادات کا یہ نظام جہاں ایمان کی آ بیاری کرتا ہے وہیں گناہوں سے اور فساد سے انسان کو بچاتا ہے۔ کوئی شخص ایمان کی حالت میں ہو اور زنا کرے، کوئی شخص ایمان کی حالت میں ہو اور چوری کرے، کوئی شخص ایمان کی حالت میں ہو اور قتل کرے یہ ناممکن ہے۔
(۲) تقویٰ: تقویٰ اس جذبہ کا نام ہے کہ انسان صرف خدا سے ڈر کر تمام گناہوں سے اپنا دامن بچائے۔ جیسے جھوٹ، غیبت، چغل خوری، قتل، زنا، چوری، ریا، پورنوگرافی وغیرہ سے اپنا دامن بچائے۔
(۳)احسان؍اللہ سے محبت:انسان کا ہر اچھا عمل صرف اور صرف اللہ کی محبت کی وجہ سے ہے۔ وہ اپنے جائز حق سے کم لینے پر راضی ہوجائے۔ حق پر ہونے کے باوجود جھگڑے سے بچے، خلق خدا سے ایسی محبت کرے جیسی اپنی اولاد سے کرتا ہے۔ اپنا مال اللہ کی راہ میں لٹائے۔ عدل وانصاف اور امن و آشتی کے لئے اپنا وقت، اپنی صلاحیتیں سب کچھ قربان کردے اور یہ صرف اللہ کی محبت میں ہو۔
تزکیہ کادوسرا مطلب یہ ہے کہ جو امکانات اللہ تعالیٰ نے ایک فرد کی شخصیت میں رکھے ہیں اُسے واقعات میں بدلنا، اللہ تعالیٰ یہ کہتا ہے کہ اس نے انسان کو بہترین صلاحیتوں کے ساتھ پیدا کیا اور ہر انسان ایک غیر معمولی Geniusاپنے اندر رکھتا ہے۔اسلامی عبادات کا یہ نظام جہاں یہ چاہتا ہے کہ فرد کی ذات کی تکمیل ہو، اس کے علم میں اضافہ ہو اور وہ معاشرہ کے لئے نفع بخش ثابت ہو۔ اللہ تعالیٰ جس نے انسان کو پیدا کیا وہ انسان کی ہر لحاظ سے یعنی عقلی و مادی اور روحانی و اخلاقی تربیت چاہتا ہے جہاں وہ انسان کے دل سے خطاب کرتا ہے وہیں عقل سے خطاب کرتا ہے۔ دل کی دنیا جہاں ایمان سے بساتا ہے وہیں عقل سے مطالبہ کرتا ہے کہ ایمان کی روشنی میں کائنات کے نئے علوم کی دریافت کرے۔ Knowledge Production اور انسا نیت کے لئے نفع ہی نفع ہو۔ اسی لئے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ ارشاد فرمایا کہ خیرالناس من ینفع الناس۔ ’’لوگوں میں سب سے اچھا وہ ہے جو سب کے لیے نفع بخش ہو۔‘‘ اسلام نے جہاں عقل کوایمان کا تابع بنایا ہے وہیں علم کو نافعیت و معرفتِ الٰہی کا پابند بنایا ہے۔ وہ ایسی بے مہار ترقی کو پسند نہیں کرتا جہاں کروڑوں انسان تو سطح غربت کے نیچے زندگی گزار رہے ہیں اور ملکوں کا پیسہ بغیر کسی حساب کے ہتھیاروں پر خرچ ہوتا ہو۔ اسلام معاشرہ میں ایسی مسابقت چاہتا ہے جہاں لوگ خیر میں ایک دوسرے سے بڑھنے کے لئے کوشاں رہیں نہ کہ مال سمیٹنے اور جمع کرنے کے لئے کوشاں رہیں۔ وہ ایک دوسرے کی مدد کرنے کے لئے ہر وقت تیار ہوں یہاں تک کہ ایک انسان دوسرے انسان کی خواہشات تک کا احترام کرتا ہو۔ دنیا کی زندگی کو بہت ہی حقیر جانتا ہو اور دنیا کو ایسے برتتا ہو کہ اپنی آخرت کے اکاؤنٹ میں زیادہ سے زیادہ جمع کرنے کی کوشش کرے۔ آخرت کے مقابلہ میں اس دنیا کا حقیر تصور بھی وہ چیز ہے جو انسانوں کو نفع بخش بناسکتی ہے۔ اور ان میں اچھائی کے لئے مسابقت کو پروان چڑھا سکتی ہے۔ اسلام تزکےۂ نفس کے ذریعہ ایسے ہی انسان پروان چڑھانا چاہتا ہے جو معاشرہ کے لئے خیر ہی خیر ہوں، سلامتی ہوں، جن کا علم، جن کا عمل و قول، تحریر و تقریر غرض ہر چیز سے خیر ہی خیر اور سلامتی ہی سلامتی جھلکتی ہو۔
خلاصۂ کلام یہ ہے کہ جس طرح اللہ تعالیٰ کی اور نعمتیں جیسے ہوا، روشنی، حرارت وغیرہ سارے انسانوں کے لئے ہیں اسی طرح اسلام سارے انسانوں کے لئے ہے۔اور جس طرح یہ نعمتیں Timeاور Space دونوں سے پرے ہیں اسی طرح اللہ تعالیٰ کی سب سے بڑی نعمت یعنی اسلام ایک لا زوال اور عالمگیر مذہب ہے۔
ڈاکٹر سلمان مکرم، صدرحلقہ ایس آئی او مہاراشٹرساؤتھ