نوید السحر صدیقی
تاریخ کی بصارت نے دیکھا ہے کہ ترقی، عزت ،تکریم و شہرت اس قوم کا مقدر بنی جس نے علم کو سرمایہ حیات بنا لیا ہو۔ دنیا کی ہر قوم کو اس قوم کے آگے اپنا سر خم کرنا پڑا جس غور و فکر، تحقیق اور علم کی دنیا میں عرق ریزی کی، باوجود اس کے ترقی یافتہ اور علم کی علمبردار قومیں بھی انسانی زندگی کے خلاءکو آج تک نہیں پاٹ سکیں جو خود اسی نے مذہب اور علم کے درمیان پیدا کیا تھا۔ انسانی نفسیات یہ کہتی ہے کہ مذہب اور علم انسانی زندگی کے دو اہم پہلو ہیں جن میں سے ایک کو بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ ایک پہلو انسان کی روحانی تسکین و تکمیل کا باعث ہے اور ایک پہلو اس کی ذہنی و عقلی تسکین و تکمیل کا۔ لیکن اس حقیقت کو تسلیم کرنے کے بجائے مذہب اور علم کو ہر دفعہ دو انتہائی مختلف تصورات کے طور پر پیش کیا گیا۔ جو شخص علم اور غور و فکر کے میدان میں اترا، اسے مذہب سے دور کیا گیا اور جس نے مذہب کی راہ چُنی وہ علم کی تجلی سے محروم رہا۔ گویا علم اور مذہب وہ دو علیحدہ علیحدہ ، مختلف مدار ٹہرے جو چاہے اس پر محورِ گردش ہوجائے، جو چاہے اس پر محو گردش ہوجائے جب کہ دونوں ہی مدار اسے اپنی اپنی جانب کھینچ رہے ہوں بھلا یہ کیوںکر ممکن ہو کہ ایک ہی انسان بیک وقت دو مختلف مداروں پر گردش کرسکے؟ اس طرح تو نظامِ زندگی درہم برہم ہوجائے اور ہوتی رہی ہے۔انسانی زندگی کی اس پیچیدہ گتھی کو اسلام سلجھاتا ہے۔ یہ علم کا ایک ایسا وسیع تصور دیتا ہے جو انسان کے ذہن و دل کومطمئن کرتا ہےAppeal کرتا ہے۔
۱۔ مقصدِ علم:
نفس انسانی کے لئے کسی بھی کام کا مقصد ناگزیر ہے ، بے مقصد زندگی انسان کو کاہل ، خود غرض ، عیش پسند بنادیتی ہے نیز جو مقصد جتنا بلند ہوگا وہ اتنا ہی شخصیت کو سنوارے گا۔ دنیا کی کوتاہ نظری ہے کہ اس کے نزدیک علم جیسی عظیم نعمت کے حصول کے مقاصد انتہائی قلیل مدتی اور ادنیٰ ہوتے ہیں۔ ایک عام انسان کے علم حاصل کرنے کا مقصدروزگار کا حصول ، عزت کا حصول یا اپنے شوق / خواہش کی تکمیل ہوتاہے اس کے برعکس اسلام اسے ایک بہت ہی عظیم مقصد عطا کرتا ہے۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے انسان کو اپنا نائب بنا کر اس جہاں میں بھیجا ہے، یعنی اس کی زندگی کا مقصد اللہ کے نظام کو زمین پر نافذ کرنا ہے۔ جب اللہ نے آدم ؑ کی تخلیق کی اور فرشتوں سے عرض کیا کہ زمین پر میرا نائب ہوگا تب فرشتوں نے عرض کیا: ”انھوںنے عرض کیا”کیا آپ زمین میں کسی ایسے کومقرر کرنے والے ہیں جو اس کے انتظام کو بگاڑ دےگا اور خونریزیاں کرے گا؟ آپ کی حمد و ثنا کے ساتھ تسبیح اور آپ کے لئے تقدیس توہم کر ہی رہے ہیں“ (البقرة : ۹۲) ۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ”میں جانتا ہوں ، جو کچھ تم نہیں جانتے“۔ ۔۔۔”اس کے بعد اللہ نے آدم کو ساری چیزوں کے نام سکھائے (علم دیا)۔
گویا خلافت کے میدان میں اترنے کاہتھیار یعنی تسبیحات و عبادات نہیں تھے بلکہ علم تھا۔ گویا علم ہی وہ وجہ امتیاز تھا جس کی بناءپر انسان کو فرشتوں سے افضل قرار دیا گیا تھا، علم ہی وہ چیز تھی جو انسان کو درجہ کمال پر پہنچایا تھا۔ چنانچہ علم کے حصول کا یہ وہ عظیم مقصد ہے جو انسان کی ہمہ وقت یکسوئی و توجہ چاہتا ہے۔
۲۔ علم ، ایمان وعقیدے کی بنیاد:
اسلام ، مذہب وعلم کو ایک سکے کے دو پہلوﺅکی طرح پیش کرتا ہے یہ ایک دوسرے سے اس طرح جڑے ہیں کہ ایک ،دوسرے کو محور عطا کرتا ہے تو دوسرا پہلے کو۔ علم ، ایمان ، یقین و عقیدے کی بنیاد ہے اور ایما علم کی بنیاد ہے۔ قرآن میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں: ”پڑھو ! (ائے نبی) اپنے رب کے نام کے ساتھ جس نے پیدا کیا“۔ (العلق۔۱)
گویا کہا جارہا ہے کہ علم حاصل کرو لیکن اس طرح کہ وہ تمہیں اللہ سے قریب کردے، علم حاصل کرو اور اس حقیقت کو قبول کرو کہ بے شک یہ علم اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے عطا کیا ہے۔اسی طرح اگر اس کو اُلٹا کہا جائے تو اسلام ایمان کی بنیاد و علم پر رکھتا ہے کہ غور و فکر کرو اور اللہ پر ایمان لاﺅ۔ اندھا دھند ہر کسی کی پیروی نہ کرو اور اپنی عقل لڑاﺅ۔ پڑھو، غور و فکر کرو تو ایمان لاﺅ، اللہ کی قدرت سے آنکھیں نہ مینچو۔ تمہارا علم حاصل کرنا اللہ کی معرفت کے لئے ہو اور ایمان لاﺅ تو غور و فکر کے بعد لاﺅ، تمہارے عقیدے اور یقین کی بنیاد علم و غور و فکر پر ہو۔
۳۔ علم کے ساتھ تربیت کا تصور:
انسان کی شخصیت کے مختلف پہلو ہیں ، یہ اپنے آپ میں ایک مکمل کا ئنات ہے۔ اس کی شخصیت کے یہ تمام پہلو صرف علم ہی کے محتاج نہیں بلکہ انھیں ایک خاص تربیت کی بھی ضرور ت ہوتی ہے۔ دنیاوی نظریہ علم میں علم کے ساتھ تربیت کا کوئی تصور نہیں ملتا جب کہ اسلام میں تعلیم و تربیت لازم و ملزوم کی حیثیت رکھتے ہیں۔
انسانی زندگی کا بلند و بالا مقصد اگر صرف علم سے مکمل ہوتا تو اللہ سبحان و تعالیٰ کا کتاب کا نازل کردینا ہی کافی تھا اس کے ساتھ ایک مربی کو انسانوں کی تربیت پر معمور کرنا دراصل اسی ’تربیت‘ کے تصور کو واضح کرتا ہے ۔ قرآن میں ہے کہ ”جس طرح میں نے تمہارے درمیان خود تم میں سے ایک رسول بھیجا جو تمہیں میری آیات سناتا ہے ، تمہاری زندگیوں کو سنوارتا ہے ، تمہیں کتاب اور حکمت کی تعلیم دیتا ہے اور تمہیں وہ باتیں سکھاتا ہے جو تم نہ جانتے تھے“۔ (البقرة۔ ۱۰۱)
غرض یہ کہ علم کا اسلامی تصوراتنا وسیع و مکمل ہے کہ یہ کسی پہلو کو تشنہ نہیں رکھتا باوجود اس کے ہم ہی وہ قوم ہیں جس کی علم سے غفلت حد سے بڑھی ہوئی ہے۔ ہم خود علم کو اس لئے حاصل کرتے ہیں کہ کوئی روزگار حاصل کرلیں کجا کہ ہم لوگوں کو اس عظیم تصور سے روشناس کروائیں۔