محمد فراز احمد
انسانی زندگی کا ہر پہلو انتہائی خوبصورت انداز پیش کرتا ہے، قدرت نے انسان کی تخلیق انتہائی احسن انداز میں کی ہے نہ صرف انسان بلکہ کائنات کی ہر شئے سجاوٹ و بناوٹ کے آلات سے مزین ہے۔ پہاڑوں کے اشکال، سمندر کا پانی، پانی کے جانور، ان کی رنگارنگیٔ اقسام، ہواؤں کی مہک اور چہچہاتے میٹھی آواز والے پرندے، زمینی جاندار؛گویا کائنات مختلف النوع طریقہ سے انسان کے لیے بنائی گئی ہے۔ قرآن نے بھی مختلف مقامات پر اس کی خوبصورتی کا برملا اظہار کیا ہے۔ سورہ رحمن خاص طور سے اس کا مظہر ہے۔
قدرت نے جب کائنات کی ہر شئے کو بنایا ہے تو وہ اسی لیے کہ انسان اس سے فیض یاب ہو سکے ’’اسی نے تمہاری خاطر زمین کی ساری چیزیں تخلیق کی ہیں۔‘‘ (البقرہ 27) اس لیے انسان کو بھی چاہیے کہ وہ ان تمام چیزوں سے لطف اندوز ہو۔ بعض اوقات اسلام کو تنگ نظر پیش کیا جاتاہے، لیکن اسلام نے تو’’سیر و فی الارض‘‘ا ور’’یتفکر و ن فی خلق السمٰوات والارض‘‘ وغیرہ جیسی آیتیں نازل کرتے ہوئے انسان کو وسعت نظری عطا کی، لیکن افسوس کہ تنگ نظری نے اس وسعت نظری کو مغلوب کردیا۔
یہی معاملہ سیر و تفریح کے ذرائع میں بھی خاص طور سے اپنایا گیا۔ حضرت علیؓ فرماتے ہیں کہ دلوں کو تھوڑی دیر کے لیے تفریح پہچایا کرو کیونکہ دلوں میں اکتاہٹ آجائے تو دل اندھے ہوجاتے ہیں۔ نبیؐ کی سیرت مبارکہ سے بھی تفریح کے واقعات سامنے آتے ہیں کہ مسجد نبوی کے صحن میں کھیل وغیرہ کا انعقاد، آپ ؐاور حضرت عائشہ ؓ کا دوڑ لگانا وغیرہ، گویا تفریح میں بھی اسلام نے کوئی پابندی نہیں لگائی، اس کی ایک قسم شعروسخن اور موسیقی وغیرہ بھی ہیں۔ اس زمرہ میںاکثر علماء نے شدت پسندی اختیارکی، لیکن یہ اسلام کی راہ اعتدال سے موافقت رکھنے والا رویہ نہیں ہے۔ بعض لوگ نغمہ وغیرہ کے سننے پر تحریم کے فتوے بھی صادر کردیتے ہیں۔ قرآن مجید نے جو حرام قرار دیا ہے اس میں کسی کو شک نہیں ہونا چاہیے کہ آیا وہ حرام ہے یا حلال، اور یہی معاملہ حلال کردہ چیزوں پر بھی آتا ہے۔ لیکن گیت و نغمہ کے سلسلہ میں ایسا کوئی حکم نہیں ملتا کہ آیا یہ حرام ہے یا حلال،اس سے یہ نہ سمجھ لیں کہ اللہ سے نعوذ باللہ بھول ہوگئی، اللہ تو ہر شئے کا خالق ہے، ہر چیز کا تخلیق کار اللہ ہے اور ہر چیز اسی لیے تخلیق کی گئی ہے کہ انسان فائدہ اٹھا سکیں۔
موسیقی میں جائز اور ناجائز کا سوال ضرور ہے کہ کونسی جائز ہے اور کونسی ناجائز !حرام حرام کی رَٹ لگانے والوں سے گزارش ہے کہ قاسم بن محمد بن ابوبکر سے جب پوچھا گیا تھا کہ کیا موسیقی حرام ہے ، تو آپ نے تین بار سوال کرنے والے سے منہ موڑ لیا تھا اور چوتھی دفعہ سوال کرنے کے بعد انتہائی غصے سے فرمایا تھا کہ’’ حرام وہی ہے جس کو اللہ اور اس کے رسولؐ نے حرام کے لفظ کے ساتھ حرام کہا ہے‘‘ اس کے بعد جائز ، ناجائز ، مکروہ باقی رہ جاتا ہے ۔ اس سلسلہ میں علامہ یوسف القرضاوی صاحب کا نقطہ نظر معتدل نظر آتا ہے، موصوف نے گیت اور نغمہ کو الگ زمرے میں رکھا ہے جس کے بارے میں قرآن نے خاموشی اختیار کی اور جس کے بارے میں جوابدہی بھی نہیں ہے۔ لیکن بعض نے شدت پسندی کو بھی اختیار کیا،یوسف القرضاوی فرماتے ہیں کہ کسی بھی چیز کو حرام قرار دینا آسان کام نہیں ہے اور موسیقی کے بارے میں جو احادیث آئی ہیں وہ سب ضعیف ہیں اور ضعیف احادیث کو لیکر کسی بھی چیز کو حرام نہیں کہا جاسکتا،اس کا تفصیلی جائزہ لینے کے لیے فتاوی یوسف القرضاوی کا مطالعہ بہتر ہوگا۔
اس موقع پر مولانا ابولکلام آزاد کا موسیقی کے متعلق خیال بھی پیش کرنا ضروری سمجھتا ہوں۔
مولانا آزاد کو موسیقی سے جو دلچسپی تھی اس کا حال ’’غبارِ خاطر‘‘ سے معلوم ہوتا ہے۔ ایک خط میں لکھتے ہیں ’’شاید آپ کو معلوم نہیں ایک زمانے میں مجھے فنِ موسیقی کے مطالعہ اور مشق کا بھی شوق رہ چکا ہے، اس کا اشتغال کئی سال تک جاری رہا، ابتدا اس کی یوں ہوئی کہ 1905 میں جب میں تعلیم سے فارغ ہو چکا تھا اور طلباء کو پڑھانے میں مشغول تھا تو کتابوں کا شوق مجھے اکثر ایک کتب فروش خدا بخش کے یہاں لے جایا کرتا تھا جس نے ویلزل اسٹریٹ میں مدرسہ کالج کے سامنے دکان لے رکھی تھی اور زیادہ تر عربی و فارسی کی قلمی کتابوں کی خرید و فروخت کا کاروبار کیا کرتا تھا۔ ایک دن اس نے فقیر اللہ سیف خاں کی راگ درپن کا ایک نہایت خوش خط اور مصور نسخہ بھی دکھایا اور کہا کہ یہ کتاب فنِ موسیقی پر ہے۔‘‘
مولانا آزاد نے کتاب لے لی اور گھر آ کر اول تا آخر پڑھی۔ سمجھ میں نہ آئی اس لیے کہ موسیقی کی اصطلاحوں سے واقفیت نہ تھی۔ باپ کے ایک مرید سے جو اس کوچہ سے آیا تھا خفیہ طریقے سے علم و عمل کا سلسلہ جاری کیا، مگر ’’پھر کوشش کی اپنے طریقے سے خود سمجھوں۔ موسیقی کے آلات میں زیادہ تر توجہ ستار پر ہوئی اور بہت جلد انگلیاں آشنا ہو گئیں‘‘۔ مولانا کی ستار کی مشق چار پانچ سال جاری رہی۔ بین سے بھی انگلیاں نا آشنا نہیں رہیں، لیکن زیادہ دل بستگی اس سے نہ ہو سکی اور پھر ایک وقت آیا کہ یہ مشغلہ یک قلم متروک ہو گیا۔ لیکن موسیقی کا ذوق اور تاثر زندگی بھر دل سے نہ نکل سکا۔ لکھتے ہیں ’’میں آپ سے ایک بات کہوں، میں نے بار ہا اپنی طبیعت کو ٹٹولا ہے، میں زندگی کی احتیاجوں میں ہر چیز کے بغیر خوش رہ سکتا ہوں لیکن موسیقی کے بغیر نہیں رہ سکتا۔ آوازِ خوش میرے لیے زندگی کا سہارا، دماغی کاوشوں کا مداوا اور جسم و دل کی ساری بیماریوں کا علاج ہے۔‘‘
اپنے اس زمانے کا، جب ابوالکلام آزاد موسیقی کے عملی سحر میں گرفتار تھے، ایک واقعہ لکھتے ہیں۔’’آگرہ کے سفر کا اتفاق ہوا، اپریل کا مہینہ تھا اور چاندنی کی ڈھلتی ہوئی راتیں تھیں۔ جب رات کا پچھلا پہر شروع ہونے کو ہوتا تو چاند پردئہ شب ہٹا کر یکایک جھانکنے لگتا۔ میں نے خاص طور پر کوشش کر کے یہ انتظام کر رکھا تھا کہ رات کو ستار لے کر تاج محل چلا جاتا اور اس کی چھت پر جمنا کے رخ بیٹھ جاتا، پھر جونہی چاندنی پھیلنے لگتی ستار پر کوئی گیت چھیڑ دیتا اور اس میں محو ہو جاتا، کیا کہوں اور کس طرح کہوں کہ فریبِ تخیل کے کیسے کیسے جلوے انہیں آنکھوں کے آگے گزر چکے ہیں۔ رات کا سناٹا، ستاروں کی چھاؤں، ڈھلتی ہوئی چاندنی اور اپریل کی بھیگی ہوئی رات، چاروں طرف تاج کے ستارے سر اْٹھائے کھڑے تھے، بْرجیاں دم بخود بیٹھی تھیں، آپ یاد کریں یا نہ کریں مگر یہ واقعہ ہے کہ اس عالم میں، میں نے بارہا بْرجیوں سے باتیں کی ہیں۔‘‘
اس موضوع پر حرمت اور حلت کے متعلق بہت گفتگو ہوگئی ہے، لوگوں نے اس کی مخالفت میں بہت کچھ لکھا ہے لیکن وہ سب فطرت کے عین مخالف ہے اور اسلام دین فطرت ہے، نبی ؐنے شادی بیاہ، خوشی و عید کے مواقع پر موسیقی کی اجازت دی، سننے والوں کو روکا نہیں ، غور کریں کہ کیا ایک چیز ایک موقع پر حلال ہوگی تو دوسری طرف وہی چیز حرام کیسے ہوگی؟ موسیقی اور اس جیسے ثقافتی طرز پر مبنی پروگرامز کو حرام کہہ کر اسلام کو تنگ نظر ثابت کیا جاتا ہے۔ دور حاضر جو کہ ثقافتی عروج کا دور ہے، ٹکنالوجی اور ذرائع ابلاغ کا دور ہے اس میں ضروری ہے کہ اسلام کی وسعت النظری کو پیش کریںاور ان کے ذریعہ دین اسلام کی ترویج کا کام کریں اور جائز حدود میں تفریح کا سامان بھی مہیا کریں۔