کونسلنگ کے لیے اک ہندو لڑکا مجھ سے کچھ دنوں سے فون پر رابطہ میں تھا۔ ایک دن وہ300کلو میٹر کا سفر کرکے حاضر ہوا۔ وہ مجھ سے رہنمائی اس معاملہ میں چاہ رہا تھا کہ وہ ہم جنسیت سے نکل کر’’normal‘‘یا ’’Straight‘‘ بننا چاہ رہا تھا۔ لڑکے کی عمر20، 22سال ہوگی۔ دورانِ گفتگو پتہ چلا کہ وہ 10،12سال سے اس کا عادی بن چکا ہے۔ میں نے اس سے پوچھا کہ وہ کیوں اس مرض سے باہر آنا چاہتا ہے۔ اس نے بتایاکہ لڑکے کا لڑکی کی طرف رجحان اک فطری عمل ہے۔ میں نے پوچھا: فطری عمل کیا ہے۔ اس نے کہا کہ یہ اندر کی آواز ہے۔
ایک دن تجارتی کام سے میں لوٹ رہا تھا۔ میرے ساتھ ایک برہمن(شرما) ٹھیکیدار شریکِ سفر تھا۔ حسبِ معمول سفر کو ہلکا کرنے کے لیے ادھر ادھر کی باتیں ہورہی تھیں۔ باتوں بات میں ہندوستانی سیاست میں نفرت، تعصب اور کرپشن کے موضوعات پر گفتگو ہورہی تھی اور’’ماہرانہ عملی تجاویز‘‘ دونوں جانب سے پیش ہورہی تھیں۔شرما نے کہا کہ اصل بات یہ ہے سر، یہ لوگ اسی دن کو سب کچھ سمجھ بیٹھے ہیں، موت کے بعد بھگوان کے سامنے حاضر ہونے کا احساس اگر ہوتا تو ان جرائم سے وہ باز آجاتے۔
گھروں کی تعمیر میرا پیشہ رہا ہے۔ بارہا ایسا ہوا ہے کہ دونوں پڑوسی ہندو ہوا کرتے ہیں۔ میں ان سے اوّل دن ہی ملاقات کرکے معذرت چاہتا کہ ہمارے تعمیراتی کام کی وجہ سے آپ کو ضرور تکلیف ہوگی۔ دھول دھکّڑ، ٹھونک پیٹ اور گارا چونا وغیرہ سے آپ کے گھر کی دیوار اور آنگن خراب ہوسکتے ہیں۔ آخر میں ان سب کو ٹھیک ٹھاک کروادینے کا یقین دلاتا ہوں تو عموماً ان پڑوسیوں کا یہی جواب ہوتا تھا کہ:
’’انجینئر صاحب، ہم پر آپ کے پڑوسی ہونے کا اتنا تو حق ہے کہ ہم آپ کو کام کرنے کی آزادی دیں اور تکلیف کو برداشت کریں، ہمیں امید ہے کہ آپ آخر میں درودیوار صاف ستھری کردیں گے۔‘‘
مذکورہ بالا مثالوں سے یہ حقیقت عیاں ہوتی ہے کہ انسان جب اپنے اندرون کی آواز کو سنتا ہے تو اسے معلوم ہوتا ہے کہ اس کے لیے عمل کا صحیح رویہّ کیا ہے۔ ہوسکتا ہے کہ وہ ماحول کے اثرات اور گھر کی پرورش کے نتیجے میں ایسے مراسم کا عادی ہوگیا ہو جس کی بنیاد نہ وہ فطرت میں پاتا ہے اور نہ اس کے لیے وہ کوئی عقلی دلیل فراہم کرپاتا ہے۔ مگر سامنے والا جب دلائل و محبت کے ساتھ سمجھاتا ہے تو اس کی عقل حکم لگاتی ہے کہ بات تو صحیح ہے مگر سماج میں اپنی ساکھ اور چودھراہٹ کو باقی رکھنے کے لیے کبھی وہ مکر جاتا ہے جیسا کہ حضرت ابراہیمؑ نے پنڈتوں سے مکالمہ کیا اور کہا کہ یہ پتھر کے صنم بول نہیں سکتے۔ پنڈتوں کی انا نے ضمیر کی طرف لوٹ کر اس کا فیصلہ سننے کے باوجود مکرجانے پر مجبور کردیا۔
قَالُوا أَأَنتَ فَعَلْتَ ہَذَا بِآلِہَتِنَا یَا إِبْرَاہِیْم۔۔۔ تا۔۔۔ قُلْنَا یَا نَارُ کُونِیْ بَرْداً وَسَلَاماً عَلَی إِبْرَاہِیْمَ۔ ( سورہ انبیاء، آیت: ۶۲؍تا۶۹)
ابراہیم کے آنے پر انھوں نے پوچھا:’’کیوں ابراہیمؑ ، تونے ہمارے خداؤں کے ساتھ یہ حرکت کی ہے؟‘‘ اس نے جواب دیا:’’بلکہ یہ سب کچھ ان کے اس سردار نے کیا ہے ان ہی سے پوچھ لو اگر یہ بولتے ہوں۔‘‘ یہ سن کر وہ اپنے ضمیر کی طرف پلٹے اور اپنے دلوں میں کہنے لگے’’واقعی تم خود ہی ظالم ہو۔‘‘ مگر پھر ان کی مَت ماری گئی اور بولے: ’’تو تو یہ جانتا ہے کہ یہ بولتے نہیں‘‘ ،ابراہیم نے کہا:’’ پھر کیا تم اللہ کو چھوڑ کر ان چیزوں کو پوج رہے ہو جو نہ تمھیں نفع پہنچانے پر قادر ہیں نہ نقصان۔ تف ہے تم پر اور تمہارے ان معبودوں پر جن کی تم اللہ کو چھوڑ کر پوجا کررہے ہو، کیا تم کچھ بھی عقل نہیں رکھتے؟‘‘، انھوں نے کہا:’’جلا ڈالو اس کو اور حمایت کرو اپنے خداؤں کی اگر تمھیں کچھ کرنا ہے۔‘‘
خدا نے جب انسان کی تخلیق کی تو اسی وقت اس کے اندرون میں بھلے اور بُرے کی، خیر اور شرکی، روا اور ناروا سلوک کی تمیز القاء کردی (ڈال دی) اور نیکی اور بھلائی کی طرف طبعی رجحان کو مائل کردیا۔ انسان کے لیے آزمائش اس میں رکھی کہ آیا وہ اپنے پوشیدہ احساس اور غیبی شعور سے رہنمائی پاکر خدا کی طرف اور اچھے اخلاق کی طرف رجوع ہوتا ہے یا اِس فطری احساس اور صدائے اندرون کو دبا کر نفسِ امّارہ کے مطالبات کے آگے سر تسلیم خم کردیتا ہے۔
فَأَلْہَمَہَا فُجُورَہَا وَتَقْوَاہَا۔ قَدْ أَفْلَحَ مَن زَکَّاہَا۔ وَقَدْ خَابَ مَن دَسَّاہَا۔ ( سورہ الشمس:۸؍تا ۱۰؍)
(پھر اس کی بدی اور اس کی پرہیزگاری اس پر الہام کردی۔ یقیناًفلاح پاگیا وہ جس نے نفس کا تزکیہ کیا اور نامراد ہوا وہ جس نے اس کو دبا دیا۔)
مذکورہ بالاآیات سے معلوم ہوتا ہے کہ کسی دین وشریعت کی تعلیمات سے واقفیت سے پہلے ہی انسانی فطرت میں وہ باتیں ودیعت کردی گئیں جسے ہم اچھے اخلاق کہتے ہیں اور اسی طرح بعض چیزوں کو وہ قبیح تصور کرتا ہے اور اس سے بچنے کی کوشش کرتا ہے یہ بد یہی حقیقتیں اور یہ تصوّرات انسان کے لیے اجنبی نہیں ہیں بلکہ وہ ان سے آشنا ہے۔
قرآن اس بات کو دوسری جگہ اس طرح بیان کرتا ہے:
فَأَقِمْ وَجْہَکَ لِلدِّیْنِ حَنِیْفاً فِطْرَۃَ اللَّہِ الَّتِیْ فَطَرَ النَّاسَ عَلَیْْہَا لَا تَبْدِیْلَ لِخَلْقِ اللَّہِ ذَلِکَ الدِّیْنُ الْقَیِّمُ وَلَکِنَّ أَکْثَرَ النَّاسِ لَا یَعْلَمُون۔ (سورۃ الروم:۳۰)
(تو یکسو ہوکر اپنا رخ اس دین کی سمت میں جمادو۔ قائم ہوجاؤ اس فطرت پر جس پر اللہ نے انسانوں کو پیدا کیا ہے۔ اللہ کی بنائی ہوئی ساخت بدلی نہیں جاسکتی۔ یہی بالکل راست اور درست دین ہے مگر اکثر لوگ جانتے نہیں ہیں۔)
اس آیت میں فطرت سے متعلق 4بنیادی حقیقتوں کا اظہار کیا گیا ہے:
1۔ حنیف
2۔فطرت
3۔تبدیلی خلق
4۔ دینِ قیم
1) حنیف:
دین انسانی فطرت کا تقاضا ہے مگر انسان کی بدقسمتی یہ ہے کہ وہ فطرت کی آواز پر اپنی مکمل شخصیت کی تعمیر کے بجائے کبھی نفسِ امّارہ کی اُکساہٹوں کے آگے سپر ڈال دیتا ہے، تو کبھی شیطان کے احکام کی تعمیل میں لگ جاتا ہے، تو کبھی سماج میں چلے آرہے جاہلانہ رسوم ورواج کا تنقیدی جائزہ لیے بغیر ان کی اتباع میں لگ جاتا ہے، نتیجتاً وہ متفرق شخصیت (Fractured Personality) کا حامل ہوجاتا ہے۔ اس لیے ہم دیکھتے ہیں کہ انسان مختلف، متفرق اور متضاد شناخت اپنے اندر سمولیتا ہے۔ مابعد جدیدیت اسے سندِ جو از عطا کرتی ہے کہ اک شخص ہسپانویSpanishنسل کا امریکی شہری، عقیدے سے عیسائی، عمل سے بدھسٹ، ہم جنیست پسند اور نظریہ سے کمیونسٹ ہوسکتا ہے۔
اس کے برعکس اسلام اپنے اندر wholesome Personality یعنی یک رنگی کو دریافت کرنے اور اس پر جمے رہنے کی تعلیم دیتا ہے، اسی کا نام حنیفیت ہے۔ اسلامی تاریخ کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ جب اسلام کی صدا رسولؐ نے بلند کی تو حنفاء کو لگا کہ یہ تو ان کی فطرت کی آواز ہے لہٰذا بغیر کسی چون وچرا اور تاویل کے فوراً وہ حلقہ بگوش اسلام ہوگئے۔ جن میں ابوبکر صدیقؓ، خدیجہؓ، علی بن طالبؓ، عثمان غنیؓ، بلالؓ وزید بن حارثؓ وغیرہ کی ہستیوں کا نام لیا جاسکتا ہے۔ آج بھی اسلام کی تبلیغ کے لیے یہ طریقۂ کار بڑا ہی مؤثر ہے۔ مختلف مذاہب کے متفرق عقائد وعبادات ورسوم ورواج کا تنقیدی جائزہ پیش کرنے سے پہلے اس آسان ترین نسخے کو اپنا نا چاہیے، جس کا ذکر قرآن میں بھی ملتا ہے کہ لوگ بجائے رسول سے کسی معجزے کا مطالبہ کرنے کے وہ آسمان وزمین میں بکھری بے شمار نشانیوں اور فطرت کی آواز سنیں تو انھیں لگے گا کہ رسولؐ کی دعوت انسانی فطرت سے ہم آہنگ ہے۔ جو لوگ اس فطری راہ سے گمراہ ہوگئے ہیں ان کی زندگی یکسوئی اور طمانیت سے خالی ہوتی ہے۔ اور جب وہ یکسو ہوکر فطرت کی طرف چلتے ہیں تو انھیں لگتا ہے کہ زندگی کے ہر موڑ پر رونما ہونے والے واقعات وحالات، خوشی وغم، موت وحیات، مرض وشفا کا ایک ہی مالک ہے۔ حصولِ خیر اور دفعِ شر اس سے وابستہ ہوئے بغیر نا ممکن ہے۔ اس کی ایک چھوٹی سی مثال یہ ہے کہ وینز ویلاکے صدرHogo chavez کی موت کا وقت آیا تو اس نے کہا:
’’I don’t want to die, please don’t let me die‘‘
اس کے برعکس مولانا مودودیؒ کو قادیانی مسئلہ پر کتاب لکھنے کے جرم میں موت کی سزا سنائی گئی اور یہ احسان بھی ان پر کیا گیا کہ مارشل لاء کے تحت سزاؤں کے خلاف کوئی اپیل کا حق نہیں ہے۔ آپ چاہیں تو اپنی موت کی سزا کے خلاف سات دن کے اندر کمانڈر ان چیف سے رحم کی اپیل کرسکتے ہیں، تو مولانا نے فرمایا:
’’مجھے کسی سے کوئی اپیل نہیں کرنی ہے۔ زندگی اور موت کے فیصلے زمین پر نہیں آسمان پر ہوتے ہیں۔ اگر وہاں میری موت کا فیصلہ ہو گیا ہے تو دنیا کی کوئی طاقت مجھے موت سے نہیں بچاسکتی اور اگر میری موت کا فیصلہ نہیں ہوا ہے تو دنیا کی کوئی طاقت میرا بال بھی بیکا نہیں کرسکتی۔‘‘
2) فطرت:
اس آیت میں دوسری تاکید یہ کی گئی کہ انسان اپنی اس فطرت پر قائم ہوجائے جس فطرت پر اللہ نے انسان کو پیدا کیا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ کوئی شخص اس وقت تک دیندار نہیں ہوسکتا جب تک کہ وہ فطرت کی طرف نہ لوٹے۔ بہ الفاظ دیگر جو فطرت کی طرف لوٹے گا اس کا دیندار بننا نہایت آسان ہے۔ سوال یہ ابھرتا ہے کہ فطرت سے مراد کیا ہے؟ اس کا ایک عام فہم جواب آگے آرہا ہے۔
مولانا اشرف علی تھانویؒ لکھتے ہیں:’’تو(مخاطبین میں سے ہر ہر شخص سے کہا جاتا ہے کہ) تم (ادیانِ باطلہ سے) یکسو ہوکر اپنا رخ اس دین(حق) کی طرف رکھو(اور سب) اللہ کی دی ہوئی قابلیت کی اتباع کرو جس (قابلیت) پر اللہ نے لوگوں کو پیدا کیا ہے(مطلب فطرت کا یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہر شخص میں خلقتاًیہ استعداد رکھی ہے کہ اگر حق کو سننا اور سمجھنا چاہے تو وہ سمجھ میں آجاتا ہے اور اس کے اتباع کا مطلب یہ ہے کہ اس استعداد اور قابلیت سے کام لے اور اس کے مقتضی پر جو کہ ادراکِ حق ہے عمل کرے غرض اس فطرت کا اتباع کرنا چاہیے۔)
اس بات کو یوں بھی کہا جاسکتا ہے کہ ہر انسان دین کو آسانی سے سمجھ سکتا ہے اور اس پر عمل کرسکتا ہے۔ چونکہ یہ دین اس کی پیدائش میں ویسے ہی ودیعت کیا گیا ہے جیسا کہ بعض APPS، اسمارٹ فون خریدنے پرby default settingہوتی ہیں۔ مگر غلط استعمال سے کبھیVirusداخل ہوجاتے ہیں تو کبھیhacker attackکردیتے ہیں جس کے نتیجے میں فون کے functionsکبھیhang ہوجاتے ہیں تو کبھی الٹ پلٹ functionکرنے لگتے ہیں۔
3) تبدیل�ئخلق:
انسان پیدائشی طور پر دینِ حنیف پر پیدا ہوتا ہے مگر رفتہ رفتہ کبھی کبھی عملی طور پر فطرت سے ہٹ جاتا ہے۔ یہ دین عین فطرت انسانی کے مطابق ہے، اور فطرت بشری میں کوئی تبدیلی ممکن نہیں۔ اس لیے اس دین میں بھی کسی قسم کی ترمیم ممکن نہیں۔ یہ بات واضح ہوجانی چاہیے کہ فطرت میں تبدیلی نہیں ہوتی۔ ریاضت سے تعدیل ہوجاتی ہے۔ یعنی اعتدال کا رویہّ چھوڑ کر انسان کسی ایک انتہا کی طرف چلا جاتا ہے۔ اس بات کو احادیث میں اس طرح بیان کیا گیا ہے:
’’ہر بچہ جو ماں کے پیٹ سے پیدا ہوتا ہے انسانی فطرت پر پیدا ہوتا ہے۔ یہ ماں باپ ہیں جو اسے بعد میں یہودی یا عیسائی بنا دیتے ہیں۔‘‘ اس حدیث میں فطرت میں تعدیل کا سبب ماں باپ کو یا ماحول کو قرار دیا گیا ہے۔
ایک دوسری حدیث میں اس فطرت کوhack کرنے کا ذمہ دار شیطان کو قرار دیا گیا ہے۔ ایک روز نبیؐ نے اپنے خطبہ کے دوران فرمایا: ’’میرا رب فرماتا ہے کہ میں نے اپنے تمام بندوں کو حنیف پیدا کیا تھا پھر شیاطین نے انھیں ان کے دین سے گمراہ کیا، اور جو کچھ میں نے ان کے لیے حلال کیا تھا اسے انھوں نے حرام کیا اور انھیں حکم دیا کہ میرے ساتھ ان چیزوں کو شریک نہ ٹھہرائیں جن کے شریک ہونے پر میں نے کوئی دلیل نازل نہیں کی ہے۔
اس کو کچھ مثالوں سے سمجھا جاسکتا ہے:
* عورت کی فطرت اس کی ساخت کے مناسب بنائی کہ وہ بقائے نوع انسانی کے لیے وسیلہ ثابت ہو۔ دنیا میں عورتوں کی عظیم اکثریت اس پر قائم ہے۔ کچھ تحریکیں Feminismکے نام سے اٹھیں کہ عورت کو ماں کے روپ ہی میں کیوں دیکھا جانا چاہیے۔ جس طرح مرد اس ذمہ داری سے آزاد ہے اسی طرح عورت بھی اس ذمہ داری کو قبول نہ کرے اور جنسی تسکین کے لیے فطرت سے انحراف اور بغاوت کی راہیں نکالیں۔ نتیجہ یہ ہوا کہ ان ممالک میں شادی، گھر، خاندان، رشتے وغیرہ کے تصوّرات ہی مٹ گئے۔ دھیرے دھیرے ان اقوام نے بھی صفحۂ ہستی سے نیست و نابود ہونے کی راہ پر اپنے آپ کو ڈال دیا۔
آج ان کے درمیان فطرت کی طرف پلٹنے کی کوششیں ہورہی ہیں مثلاً خاندان بچاؤ، نسل بڑھاؤ، مخالفت قتل جنین، مخالفت ہم جنس پرستی کی چھوٹی چھوٹی تحریکیں ہر جگہ سرگرم عمل ہیں مگر ان کی حیثیت نقار خانے میں طوطی کی آواز کے برابر ہے۔
* نفسیات کی کتابوں میں بعض عمل اور رویوّں کو فطرت سے انحراف اور نفسیاتی امراض کی فہرست میں گزشتہ صدی کے اختتام تک شمار کیا جاتا رہا۔ مثلاً عریانیت، فحاشی، خود لذّتیت، قبل ازشادی جنسی عمل، قحبہ گری، ہم جنسیت اور تبدیلئ جنس۔
* اوپر درج کی گئی حدیث میں اس بات کا بھی ذکر ہے کہ توحید انسانی فطرت کا حصہ ہے مگر شیطان نے انھیں فطرت سے ہٹاکر شرک کی راہ پر ڈال دیا جس کے لیے نہ کوئی عقلی دلیل موجود ہے اور نہ ہی مذہبی کتابوں سے اپنے اس رویہ کے لیے سندِ جواز فراہم کرسکتے ہیں۔
خدا انسان کی فطرت کی آواز ہے۔ جب ہم فطرت کہتے ہیں تو اس کا مطلب کیا ہے؟ انسانی فکروعقیدہ، مزاج وعمل، رسوم ومعاملات میں کوئی بات ہر زمانے، ہر سماج اور ہر مذہبی گروہ اور تاریخ کے ہر دور میں یکساں پائی جائے تو اس عنصر کو ہم فطرت کہتے ہیں۔ یعنی انسان اس طرح سے سوچنے اور عمل کرنے پر پیدائشی طورپر اپنے آپ کو آمادہ پاتا ہے۔ ان امور کی انجام دہی کسی خارجی دباؤ سے نہیں بلکہ اندرونی تقاضوں کی تکمیل کی حیثیت سے انجام دیتا ہے۔ اس بات کو ایک مثال سے یوں سمجھ سکتے ہیں کہ دائیں ہاتھ سے کھانا کھانے کو پسند کرتا ہے، اور یہی طرزِ عمل ہر سماج کے لوگ کرتے ہیں۔ ہر زمانے کی تاریخ بتاتی ہے کہ انسان داہنے ہاتھ ہی سے کھاتا ہے۔ کسی بھی مذہبی گروہ کے کسی بھی اجتماعی طعام میں جاکر دیکھ لیں تو پتہ چلتا ہے کہ داہنے ہاتھ سے لوگ کھاتے ہیں۔ حتیٰ کہ انڈمان نکوبار کے جنگلی قبائلی انسان جنہیں تمدن کی ہوا تک نہیں لگی ہے، جو مادر زاد ننگے ہی جیتے ہیں، اِن کے ہاں بھی کھانا داہنے ہاتھ ہی سے کھاتے ہوئے وہاں کے میوزیم کی تصاویر میں دیکھا جاسکتا ہے۔ اِس طرح جو بات انسان کے Computer ProgrammingمیںBy default سیٹ کردی گئی ہیں، وہ فطری ہیں۔ انسان اپنی شرارت یا بغاوت سے بعض چیزوں کو”Replace”کردیتا ہے یا بسا اوقات”Delete” کردیتا ہے۔ اِس طرح خدا کا تصور بھی انسانی فطرت میں موجود ہے۔ بہت کم ہی لوگ ہیں جو خدا کا انکار کرتے ہوں۔ ماہر نفسیاتLewisکے بقول: ’’دنیائے انسانیت دو حصّوں میں تقسیم کی جاسکتی ہے۔ بڑی اکثریت وہ جو خدائے واحد یا دیگر خدا کو تسلیم کرتی ہے اور ایک اقلیت وہ ہے جو منکر خدا ہے۔‘‘ انکارِ خدا دراصل مذہبی رہنماؤں کی مذہب پر اجارہ داری سے بیزار ہوکر بغاوت کے ترنگ میں مذہب کے تشدد سے متنفر ہوکر مذہب کے بجائے خدا ہی کا انکار ہے۔ خدا کے انکار کی یہ روش مغرب میں شروع ہوئی۔ بعد میں زمانے کا فیشن بن گیا۔ کچھ لوگوں کو زندگی کے اوائل میں تلخیاں ہوئیں تو انہوں نے ضد کا رویہ اختیار کرلیا کہ خدا ہے تو اس نے ہماری مدد کیوں نہیں کی۔ اس لیے Frustratoinمیں وہ خدا کے انکاری ہوگئے۔ ورنہ جن لوگوں نے خدا کا انکار کیا خود ان کی تحریروں سے پتہ چلتا ہے کہ عقل سے وہ خدا کے عدمِ وجود کے دلائل لاتے تھے مگر قلب خود اِن کے دلائل سے مطمئن نہیں تھے۔ فطرت کے زور پر غیر شعوری طورپر خدا کے وجود کا احساس ان کی عملی زندگیوں اور ان کی تحریروں سے ہونے لگتا ہے۔ مثال کے طورپر سگمنڈ فرائڈ جس نے پورے فخر کے ساتھ خدا کے انکار کا اعلان کیا تھا’’کہ خدا صرف انسانی خواہشوں اور ضروریات کا تصوراتی گمان ہے‘‘۔
”That belief in God is merely a projectoin of powerful wishes and inner needs”
مگر اپنے دوستوں کو لکھے گئے خط میں تو وہ صدائے اندرون کو اِس طرح لکھتا ہے، جس سے اس کی اندرونی کشمکش کا اندازہ ہوتا ہے کہ’’(اس بحث کا) بڑا پہلو، بالخصوص میرے لیے، اس حقیقت میں پنہاں ہے کہ تمام چیزوں کی سائنس مطالبہ کرتی ہے کہ خدا کے وجود کو تسلیم کرو‘‘۔
”The bad part of it, especially for me, lives in the fact that the science of all things seems to demand the existence of God”
اس لیے خدا کا وجود اور اس کی حقیقت کو تسلیم کرنا ہی سائنٹفک رویہ ہے۔ البتہ سوال یہاں آکر رک جاتا ہے کہ خدا تو ہے مگر ہمیں اس کی ضرورت کیا ہے! اس ضرورت کو عقل سے سمجھانے کے بجائے، انسان کو اس کا اپنا تجربہ بتاتا ہے، جب وہ خدا کو اپنی عملی زندگی میںexperienceکرتا ہے۔ ورنہ خدا کی ضرورت کے بغیر انسان کی زندگی بے معنی ہے۔ اس کے وجود کا مقصد بے مطلب ہے۔ اور اس کے اندرون میں اخلاقی ضوابط کا احساس ایک غیر ضروری شے ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اس کی طرف پلٹے بغیر انسان سکون نہیں پاتا۔ اطمینان قلب انسان کی سب سے بڑی دولت ہے جو خدا سے وابستہ ہوئے بغیر ہاتھ نہیں آتی۔
خدائی روح کی مقدس چنگاری(Divine spark) انسان میں موجود ہونے کی دلیل ہی تو ہے کہ وہ خدا کو پانا چاہتا ہے، اس سے مدد طلب کرتا ہے، اس سے دعا کرتا ہے، اپنی کامیابی اس کے تعاون کے بغیر ناممکن سمجھتا ہے۔
’’ایورسٹ دنیا کی سب سے اونچی پہاڑی چوٹی ہے،…..تِن زِتگ نارگے نیپال کے ایک پہاڑی قلی اور نیوزی لینڈ کے سرایڈ منڈہلیری،۱۹۵۲ میں اس کی چوٹی پر پہنچنے میں کامیاب ہوگئے۔
۹ مئی ۱۹۸۶ کو تِن زنگ نار گے کا انتقال ہوگیا۔ ان کے انتقال پر سرایڈ منڈاہلیری نے ایک تعزیتی بیان دیا۔ اس بیان میں بتایا گیا تھا کہ تین زنگ جب ایورسٹ تک پہنچنے میں کامیاب ہوگئے تو اس وقت اپنی زندگی کے آخری نقطہ پر، وہ برف پر گھٹنوں کے بل جھک گئے۔ انھوں نے برف میں چھوٹا سا سوراخ بنایا اور اس کے اندر کچھ شیرینی رکھی۔ یہ خدا کے لیے ان کا اظہار عقیدت تھا۔
And then at the high point of his Life,Tenzing Knet in the snow, made a little hole and put sweets in to it, his gesture to god,
انسان عین اپنی فطرت کے زور پر چاہتا ہے کہ وہ اپنی کامیابیوں کو کسی برتر ہستی کے خانہ میں ڈالے۔‘‘ (عظمت اسلام، مولانا وحید الدین خان، صفحہ:۱۵)
ارادہ، قوت، فیصلہ، اقتدار، قانون سازی، تخلیق وغیرہ کی صفات کے بغیر خدا کا تصور ممکن نہیں ہے۔ جب انسان اُس کی روح سے سے تخلیق پایا ہے تو ان عناصر کا پرتو انسان میں بھی پایا جاتا ہے۔ انسانی تہذیب کے شاندار مظاہر، انسان کی تخلیقی صلاحیت کے اظہار ہیں۔ اور یہ امتیاز ایک روحانی وجود ہی کے ساتھ کیا جاسکتا ہے۔ دنیا کی کسی اور مخلوق سے تہذیب وتمدن کا ادراک ممکن نہیں۔ مگر جب انسان اپنی اس تہذیبی ترقی اور دنیا کے زمام کار کو سنبھالنے اور چلانے میں اپنی فطرت سے بغاوت کرتا ہے، وہاں سے اس کی زندگی کی گاڑی پٹری سے اتر کر پتھریلی زمین پر آجاتی ہے جہاں سے اس کا سفر ہلاکت خیز ہوجاتا ہے۔
4) دینِ قیم
دنیا کے دیگر مذاہب کا المیہ یہ ہے کہ رطب و یابس کو دین وشریعت کا حصہ بنالیا گیا جس کی تو جیہ نہ عقل سے کی جاسکتی ہے اور نہ ہی وہ سائنس کی کسوٹی پر پورے اترتے ہیں مگر ان بے بنیاد اور غیر معقول عقیدہ ورویہّ کو دین تسلیم کرکے ان سے وابستہ ہیں۔ عرب مشرکین کے ہاں حلال وحرام کی خود ساختہ شریعت میں بحیرہ، سائبہ، وسیلہ اور حام کی حرمت شامل تھی(بحیرہ وہ اونٹنی جس نے5بچوں کو جنم دیا ہو۔ سائبہ شکرانہ میں کسی اونٹ کو دیوی دیوتا کے نام پرپُن کرکے آزاد کردینا، وسیلہ بکری کا پہلا نر بچہ جسے ذبح کردیا جائے، حام وہ اونٹ جو دادا بن جائے۔) یہ تمام جانور ان کے ہاں حرام تھے۔ اسی طرح ہندو مذہب کے ایک عمل ’’ماڈے اسنانا‘‘ Made shananaکی رسم بھی نہ سائنسی معیار پر پوری اترتی ہے اور نہ ہی عقل اسے مانتی ہے۔ اس رسم میں چھوٹی ذات کے عقیدت مند کیلے کے ان پتّوں پر ننگے بدن لڑھکتے ہیں جنہیں برہمنوں نے کھانے کے بعد پھینک دیا ہو۔ جب عقیدت مند ان کھانوں میں لت پت ہوجاتے ہیں تو قریب کی ندی میں جاکر’’پوتر اسنان‘‘ کرتے ہیں۔اس عمل سے توقع کی جاتی ہے کہ ان کے گناہ معاف ہوجاتے ہیں اور جسمانی بیماریاں بشمول جلد کی بیماری سے دور ہوکر مغفرت یاب اور صحت یاب ہوکر وہ لوٹتے ہیں۔ اسی طرح عیسائیوں کی بہت سی ایسی عبادتیں ہیں جن کو عقل اور فہم وبصیرت سے دور کا واسطہ بھی نہیں، بلکہ لوگ انھیں دین سمجھ کر ان خرافات سے چمٹے ہوئے ہیں۔
اس کے برعکس اسلام ایک ایسا دین ہے جو انسانی فطرت کے تقاضوں سے ہم آہنگ ہے اس میں کوئی بات ایسی نہیں ہے جو غیر سائنسی اور غیر عقلی ہو، روایتوں میں ایک تمثیل کے ذریعہ سے یہی بات اس طرح سمجھائی گئی ہے کہ تم جس منزل تک پہنچنا چاہتے ہو اس کے لیے ایک سیدھا راستہ تمہارے سامنے ہے جس کے دونوں طرف دو دیوار کھینچی ہوئی ہیں دونوں میں دروازے کھلے ہیں جن پر پردے پڑے ہوئے ہیں۔ راستے کے سرے پرایک پکارنے والا پکار رہا ہے کہ اندر آجاؤ اور سیدھے چلتے رہو۔ اس کے باوجود کوئی شخص اگر دائیں بائیں کے دروازوں کا پردہ اٹھانا چاہے تو اوپر سے ایک منادی پکار کر کہتا ہے۔ خبردار! پردہ نہ اٹھانا اٹھاؤگے تو اندر چلے جاؤ گے۔ فرمایا کہ یہ راستہ اسلام ہے دیواریں اللہ کے حدود ہیں دروازے اس کی قائم کردہ حرمتیں ہیں اور اوپر سے پکارنے والا منادی خدا کا وہ واعظ ہے جو ہر بندۂ مومن کے دل میں ہے اور راستہ کے سرے پر پکارنے والا قرآن ہے۔
إِنَّ ہَذَا الْقُرْآنَ یِہْدِیْ لِلَّتِیْ ہِیَ أَقْوَمُ وَیُبَشِّرُ الْمُؤْمِنِیْنَ الَّذِیْنَ یَعْمَلُونَ الصَّالِحَاتِ أَنَّ لَہُمْ أَجْراً کَبِیْراً۔ (سورۃ الاسراء:۹)
(بے شک یہ قرآن اس راستے کی رہنمائی کرتا ہے جو بالکل سیدھا ہے اور اپنے ماننے والوں کو جو اچھے عمل کرتے ہیں اس بات کی بشارت دیتا ہے کہ ان کے لیے بہت بڑا اجر ہے۔)
انجینئر ایس امین الحسن، رکن مرکزی مجلس شوری جماعت اسلامی ہند
اسلام دین فطرت ہے
کونسلنگ کے لیے اک ہندو لڑکا مجھ سے کچھ دنوں سے فون پر رابطہ میں تھا۔ ایک دن وہ300کلو میٹر کا سفر کرکے حاضر ہوا۔ وہ مجھ سے رہنمائی اس معاملہ میں چاہ رہا تھا کہ وہ ہم جنسیت سے…