اسلام اور نیشنلزم  (دو قومی نظریہ اور متحدہ قومیت کے تناظر میں)-قسط  اول

شبیع الزمان
مارچ 2025

جدید قومیت کا نظریہ یہ ہے کہ مشترکہ شناخت، ثقافت، زبان یا تاریخ رکھنے والے افراد کو ایک مربوط اور خودمختار قومی ریاست بنانا چاہیے۔

یورپ میں نشاۃ الثانیہ کے بعد مغربی ممالک میں کئی جدید نظریات نے جنم لیا۔ مغرب اور اسلام کی کشمکش جہاں ایک طرف جنگی اور سیاسی میدان میں جاری تھی وہیں دوسری طرف یہ کشمش نظریاتی میدان میں بھی جاری تھی بلکہ کہا جا سکتا ہے کہ اب بھی جاری ہے۔ ان نظریات میں ایک اہم نظریہ نیشنلزم کا تھا۔ جدید قومیت کا نظریہ یہ ہے کہ مشترکہ شناخت، ثقافت، زبان یا تاریخ رکھنے والے افراد کو ایک مربوط اور خودمختار قومی ریاست بنانا چاہیے۔ یہ ریاست ایک آزاد ریاست ہوگی جو اپنے معاملات بیرونی مداخلت سے آزاد ہو کر طے کرے گی۔ اس ریاست کی عوام کی مشترکہ قومی شناخت ہوگی اور وہ اس ریاست کے وفادار شہری ہوں گے۔ نیشن اسٹیٹ کا یہ تصور بنیادی طور پر جغرافیائی حدود پر مبنی قومیت کا تصورہے۔

نیشنلزم کے اس تصور نے یورپ کے ساتھ ایشیاء کو بھی متاثر کیا اور برصغیر میں قومیت کے اس جدید تصور پر مختلف رد عمل سامنے آئے۔ برصغیر میں یہ بحث ہندوستان کی آزادی کے تناظر میں ابھری۔ متحدہ قومیت کے تصور کو ہندو مسلم اتحاد کے طور پر دیکھا گیا جو آزادی کی لڑائی کے لیے لازمی تھا۔ اس کے بالمقابل دو قومی نظریہ تھا جس کے تحت آزادی کی لڑائی سے زیادہ اہمیت تہذیبی شناخت اور ملی تحفظ کی تھی۔ اس ضمن میں دینی حلقوں کے مباحث میں چار نام ابھر کر سامنے آئے۔ مولا نا حسین احمد مدنی، مولانا آزاد، علامہ اقبال اور مولانا مودودی۔ مجموعی طور پر انہیں کے افکار نے دیگر لوگوں کو متاثر کیا اور ان ہی کے افکار میں کمی بیشی کے ساتھ اس تصور قومیت پر گفتگو ہوتی رہی ہے۔ مولانا حسین احمد مدنی نے اپنی ایک تقریر میں کہا تھا کہ قومیں فی زمانہ اوطان سے بنتی ہیں، جس پر اخبارات میں ان کے خلاف خوب بازار گرم ہوگیا اور اسی تناظر میں علامہ اقبال نے غالباً اپنی شاعری کے سخت ترین اشعار کہہ دیے۔

عجم ہنوز نداند رموزِ دیں ، ورنہ

ز دیوبند حسین احمد! ایں چہ بوالعجبی است

سرود بر سر منبر کہ ملت از وطن است

چہ بے خبر زمقام محمد عربی است

بمصطفیٰ برساں خویش را کہ دیں ہمہ اوست

اگر بہ اُو نرسیدی، تمام بولہبی است

تین اشعار میں اتنی سخت باتیں کہہ دی گئی جو شاید کئی سو صفحات میں نہیں کہی جاسکتی تھی۔ کہا گیا کہ عجم آج تک دین کے راز نہیں سمجھ پایا، اگر سمجھ چکا ہوتا تو حسین احمد مدنی جن کا تعلق دیوبند جیسے دینی مرکز سے ہے ،برسر منبریہ بات نہ کہتے کہ ملت وطن سے بنتی ہے۔ یہ ان کے منہ سے کیا حیران کن بات نکلی ہے۔ حالانکہ تقریر کسی سیاسی جلسہ میں کی گئی تھی، مگر اسے “بر سر منبر” ٹھیرایا گیا اور اسے “سرود” (بہ معنی راگ) کا نام دیا گیا ہے۔ پھر حیرت کا اظہار کیا گیا ہے کہ یہ شخص محمد عربی ﷺ کے مقام سے واقف نہیں ہے اور آخر میں سخت نصیحت کی گئی ہے کہ دین تو تمام تر حضرت محمد مصطفیﷺ کو پہچاننے کا نام ہے، تم اگر ان کی ذات گرامی تک نہیں پہنچ پاتے تو اس سے ہٹ کر فکر و عمل کی کوئی دنیا بساوَ گے تو چاہے وہ دنیاوی اعتبار سے اور ظاہراً کتنی ہی دلکش کیوں نظر نہ آتی ہو، وہ (حقیقتاً) ابولہب کی دنیا ہو گی۔

علامہ اقبال قومیت کے مسئلہ کو ایک سیدھا سادہ نظری مسئلہ نہیں سمجھتے تھے بلکہ ان کے نزدیک یہ امت کی تہذیبی بقا کا مسئلہ تھا۔ ان اشعار کے بعد ان کے اور مولانا حسین احمد کے درمیان بلا واسطہ خط و کتابت میں لکھتے ہیں:

“مولوی صاحب کو میری طرف سے یقین دلائیے کہ میں ان کے احترام میں کسی اور مسلمان سے پیچھے نہیں ہوں البتہ اگر مذکورہ بالا ان کا مقصد وہی ہے جو میں نے اوپر لکھا ہے تو میں ان کے مشورے کو اپنی ایمان اور دیانت کی رو سے اسلام کی روح اور اس کے اساسی اصولوں کے خلاف جانتا ہو ں۔ میرے نزدیک ایسا مشورہ مولوی صاحب کے شایان شان نہیں اور مسلمانان ہند کی گمراہی کا باعث ہوگا۔ اگر مولوی صاحب نے میری تحریروں کو پڑھنے کی کبھی تکلیف گوارا فرمائی ہے تو انہیں معلوم ہو گیا ہوگا کہ میں نے اپنی عمر کا نصف، اسلامی قومیت اور ملت کے اسلامی نقطہ نظر کی تشریح و توضیح میں گزارا ہے۔ محض اس وجہ سے کہ مجھ کو ایشیا ء کے لیے اور خصوصا ًاسلام کے لیے فرنگی سیاست کا یہ نظریہ ایک خطرہ عظیم محسوس ہوتا ہے۔”

مولانا حسین احمد مدنیؒ نے اپنے خطوط میں لغت کی پیچیدہ بحثوں کے ذریعے قومیت کے مختلف معروف و غیر معروف معانی پر تفصیلی دلائل دیے، لیکن اقبال نے یہ کہہ کر انھیں رد کردیا:

قلندر جُز دو حرفِ لااِلہ کچھ بھی نہیں رکھتا

فقیہِ شہر قاروں ہے لغَت ہائے حجازی کا

اقبال وطنی قومیت کے سیاسی نظریہ کو شرک قرار دیتے ہیں۔ وہ نری شاعری نہیں ہے بلکہ ان کے نزدیک شرک کے جو منفی نقصانات انسانی سماج پر پڑتے ہیں وہی اثرات وطنی قومیت کے ہوتے ہیں۔ جس سے اقوامِ جہاں میں رقابت پیدا ہوتی ہے، جس کا مقصد تجارت پر قبضہ کرنا ہوتاہے، جس کی وجہ سے کمزور کا گھر غارت ہوجاتا ہے، مخلوقِ خدا اس سے تقسیم ہوجاتی ہے اور سیاست صداقت سے خالی ہوجاتی ہے۔ اس لیے ان کے نزدیک وطن بھی ایک بت ہے اوروطن کی پرستش کرنا بھی ویسا ہی شرک ہے جیسا کسی بت کی پرستش کرنا شرک ہے۔

ان تازہ خداؤں ميں بڑا سب سے وطن ہے

جو پيرہن اس کا ہے، وہ مذہب کا کفن ہے

اور اس امت کی وحدت کی بنیاد کوئی اور چیز نہیں بلکہ مذہب ہے۔

قوم مذہب سے ہے مذہب جو نہیں تم بھی نہیں

جذب باہم جو نہیں محفل انجم بھی نہیں

علامہ اقبال کے اس سخت موقف کے بعد مولانا حسین احمد نے “متحدہ قومیت” کے نام سے ایک کتابچہ لکھ کر اپنا موقف واضح کیا۔ مولانا کا موقف یہ تھا متحدہ قومیت کا تصور اسلام سے نہیں ٹکراتا ہے بلکہ مسلمان بیک وقت دونوں شناختو ں کے ساتھ یہاں رہ سکتے ہیں۔ وہ لکھتے ہیں:

“خلاصہ یہ ہے کہ مسلمانانِ ہند ہندوستان میں رہ کر اور یہاں کی غیر مسلم اقوام کے ساتھ ایک قوم ہندوستانی بن کر مسلمان بھی رہ سکتے ہیں اور اپنے مذہب، کلچر پرسنل لاء، زبان، حقوق کے محافظ بھی ہوسکتے ہیں اور ان کے تحفظ کے لیے ہرقسم کی تدابیر بھی عمل میں لاسکتے ہیں اور ان سب امور کے ساتھ ساتھ تمام عالم اسلامی کے ساتھ (خواو وہ افغانستان کے باشندے ہوں یا ایران، عراق، حجاز، یمن شام، فلسطین، مصر، ایشیائے کوچک وسط ایشیا، افریقہ، یورپ، امریکہ و غیرہ) سے اسلامی تعلقات قائم کر سکتے ہیں اور حسب ہدایات اسلامیہ تمام فرائض یگانگت و اتحادِ دینی ادا کر سکتے ہیں، ان میں آپس میں تعارض ہے ہی نہیں، اس کی بنا پر نہ ان کے آپس کے علائق اسلامیہ اور رشتہ یگانگت میں فرق پڑا ہے اور نہ دوسرے ملکوں کے مسلمانوں کے رشتہ یگانگت میں کوئی تصادم ہو سکتا ہے۔”

مولانا حسین احمد مدنی کے نزدیک انگریزوں کے ظلم سے نجات کا راستہ ہندو مسلم اتحاد تھا بلکہ ان کا کہنا ہی یہ تھا کہ اسلامی قومیت کا مسئلہ ہی انگریزوں کی پھوٹ ڈالو کی سازش کے تحت پھیلایا جارہاہے اور مسلمان اپنی سادہ لوحی کے سبب اس کا شکار ہو رہےہیں۔

متحدہ قومیت کے حق میں انھوں نے قرآن و سنت، عربی لغت اور سیرت رسولؐ کے میثاقِ مدینہ والے اقدام سے دلائل دیے۔ اسی کے ساتھ انہوں نے تفصیل سے واضح کیا کہ مسلمان کس طرح اپنی تہذیب و ثقافت کے ساتھ ملی وجود کی حفاظت کر پائیں گے۔

مولانا حسین احمد مدنی کا کتابچہ شائع ہونے تک اقبال اس دنیا سے تشریف لے جا چکے تھے لیکن ان کے کتابچے کے جواب میں مولانا مودودیؒ نےایک طویل تنقیدی مضمون لکھا جس میں انہوں نے مولانا حسین احمد مدنی کے سبھی دلائل کا ایک ایک کرکے سخت تنقیدی جائزہ لیا۔ مولانا مودودیؒ نے قرآن و سنت سے یہ واضح کیا کہ جدید نیشنلزم اور اسلام میں کوئی ہم آہنگی نہیں ہے۔ قومیت سے متعلق ان کے مضامین مسئلہ قومیت کے نام سے چھپے ہیں۔

مولانا مودودی نے قرآن و سنت کے دلائل سے واضح کیا کہ اسلام فرد کو بہ حیثیت انسان مخاطب کرتا ہے اور قومیت کو وہ “جاہلیت جدیدہ” قرار دیتے ہیں۔ مولانا کے نزدیک دونوں قومیتیں یعنی اسلامی اور وطنی، ایک ساتھ نہیں رہ سکتی ہیں۔

وہ مسئلہ قومیت میں لکھتے ہیں:

“بعض لوگ اس خام خیالی میں مبتلا ہیں کہ وطنی یا نسلی قومیت کا احساس پیدا ہونے کے بعد بھی اسلامی قومیت کا رشتہ مسلمانوں کے درمیان باقی رہ سکتا ہے اس لیے وہ اپنے نفس کو یہ کہہ کر دھوکہ دیتے ہیں کہ دونوں قسم کی قومیت ساتھ ساتھ چلے گی، ایک سے دوسری پر آنچ نہ آئےگی اور ہم ان دونوں کے فوائد جمع کر لیں گے۔ لیکن یہ محض جہل اور قلت فکر کا کرشمہ ہے ۔جس طرح خدا نے ایک سینے میں دو قلب نہیں رکھے اسی طرح ایک قلب میں دو قومیتوں کے متضاد اور متصادم جذبات کو جمع کرنے کی گنجائش بھی نہیں رکھی۔”

ان تینوں کے علاوہ ایک اور قد آور شخصیت اس بحث کا حصہ تھی۔ مولا نا آزاد کسی سے الجھے نہیں لیکن ان کا موقف متحدہ قومیت کے حق میں تھا۔ مولانا آزاد کا یقین تھا کہ مسلمان تنہا نہ تو اس ملک پر اقتدار پا سکتے تھے اور نہ الگ رہ کر اپنے قومی وجود کو تحفظ دے سکتے تھے۔ ان کے نزدیک دنیا قدامت کے سانچوں کو توڑ کر ایک نئے فکری سانچے میں ڈھل رہی تھی اور جدید سیاسی دھارے قدیم سے نظریاتی طور پر بہت مختلف ہونے والے تھے۔ ہندوستان کی آزادی کا صحیح نقشہ ہندوؤں اور مسلمانوں کے اتحاد ہی سے ابھر سکتا تھا۔ ایسا نہیں تھا کہ وہ اسلام کے ملی اتحاد کے تصور سے واقف نہ تھے جبکہ وہ خود ایک زمانے تک پین اسلام ازم کے داعی رہ چکے تھے۔

مولانا آزاد ہندوستان میں متحدہ قومیت کے سب سے بڑے مبلغ ہیں اور اس کے لیے وہ آخر وقت تک جدوجہد کرتے رہے۔ تاہم، عملی جدوجہد کے آغاز میں، خاص طور پر الہلال کے دور تک، مولانا ابوالکلام آزاد نظریاتی طور پر ایک زبردست ملی و اسلامی تحریک کے علمبردار رہے۔

اجتماعی معاملات میں مذہب کی کارفرمائی اور اسلام کی آفاقیت کے معاملے میں وہ اقبال سے متفق نظر آتے ہیں۔ ایک سوال کے جواب میں الہلال کے مقاصد اور سیاسی تعلیم کی وضاحت کرتے ہوئے، مولانا مسلمانوں کے اجتماعی معاملات میں مذہب کی اہمیت یوں بیان کرتے ہیں:

” ہم نے تو اپنے سیاسی خیالات بھی مذہب ہی سے سیکھے ہیں۔ اسلام انسان کے لیے ایک جامع اور اکمل قانون لے کر آیا ہے۔ انسانی اعمال کا کوئی ایسا گوشہ نہیں جس کے متعلق اس میں حکم موجود نہ ہو۔ وہ اپنی توحیدی تعلیم میں نہایت غیور ہے اور کبھی پسند نہیں کرتا کہ اس کی چوکھٹ پر جھکنے والے کسی دوسرے دروازے کے سائل بنیں۔ مسلمانوں کی اخلاقی زندگی ہو یا علمی، سیاسی ہو یا معاشرتی، دینی ہو یا دنیاوی، حاکمانہ ہو یا محکومانہ، وہ ہر زندگی کے لیے ایک اکمل ترین قانون اپنے اندر رکھتا ہے۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو وہ دنیا کا آخری اور عالمگیر مذہب نہ ہو سکتا تھا”۔

مولانا مزید الہلال کے مقصد کو بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں:

“الہلال کا مقصد اس کے سوا کچھ نہیں کہ وہ مسلمانوں کو ان کے تمام اعمال و معتقدات میں صرف کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ ﷺ پر عمل کرنے کی دعوت دے۔ خواہ تعلیمی مسائل ہوں، تمدنی یا سیاسی یا کسی اور نوعیت کے معاملات، الہلال ہر جگہ مسلمانوں کو صرف مسلمان دیکھنا چاہتا ہے۔ “

مولانا آزاد کے نزدیک بھی رنگ، نسل اور وطن کی حد بندیاں کوئی حقیقت نہیں رکھتیں۔ وہ اسلام کے آفاقی کردار اور مسلمانوں کے بین الاقوامی اتحاد کے متعلق یوں لکھتے ہیں:

 “درحقیقت اسلام کے نزدیک وطن و مقام اور رنگ و زبان کی تفریق کوئی حیثیت نہیں رکھتی۔ رنگ و زبان کی تفریق کو اسلام ایک الٰہی نشان ضرور تسلیم کرتا ہے، لیکن اسے انسانی تقسیم و تفریق کی بنیاد نہیں مانتا۔ انسان کے تمام دنیوی رشتے خود انسان کے بنائے ہوئے ہیں، لیکن اصلی رشتہ صرف ایک ہے، اور وہی رشتہ انسان کو اس کے خالق اور پروردگار سے متصل کرتا ہے۔ خدا ایک ہے، پس اس کے ماننے والوں کو بھی ایک ہونا چاہیے، چاہے سمندروں کے طوفان، پہاڑوں کی بلند چوٹیاں، زمین کے دور دراز گوشے یا نسل و جنس کی تفریق انہیں ایک دوسرے سے جدا کر دیں۔ یہ برادری خدا کی قائم کردہ برادری ہے۔ ہر انسان جس نے کلمہ لا الہ الا اللہ کا اقرار کیا، وہ اس برادری کا حصہ بن گیا، خواہ وہ مصری ہو، نائجیریا کا وحشی ہو یا قسطنطنیہ کا تعلیم یافتہ ترک۔ اگر وہ مسلم ہے، تو وہ خاندانِ توحید کا رکن ہے، جس کا کوئی خاص وطن یا مقام نہیں، بلکہ پوری دنیا اس کا وطن ہے اور تمام قومیں اس کے لیے عزیز ہیں۔”

اوپر کی تمام تر گفتگو سے یہ واضح ہوتا ہے کہ اسلام میں مسئلہ قومیت اور ملی شناخت کی حیثیت ان سب پر بالکل واضح تھی۔ تاہم، جدید نیشن اسٹیٹ کے تناظر میں، ہندوستان میں ایک عملی مسئلہ ان کے سامنے کھڑا تھا اور ان چاروں نے اپنے سیاسی فہم اور حالات کے مطابق اس مسئلے کا حل تجویز کیا۔

 

(مضمون نگار معروف مصنف اور سیاسی و سماجی تجزیہ نگار ہیں)

[email protected]

حالیہ شمارے

جدید تہذیب اور اسلامی اخلاق

شمارہ پڑھیں

عام انتخابات کے نتائج 2024 – مستقبل کی راہیں

شمارہ پڑھیں