اسلام ، ماحولیات اور ہم

ایڈمن

سید احمد مذکرتمہیدآج جب ہم اپنے گردوپیش میں پھیلی ہوئی دنیا کا جائزہ لیتے ہیں تو دیکھتے ہیں کہ ہمارے ماحول میں کس قدر آلودگی پیدا ہوچکی ہے۔ہوا سے لے کر پانی تک، غذا سے لے کر مٹی و زمین…

سید احمد مذکر

تمہید

آج جب ہم اپنے گردوپیش میں پھیلی ہوئی دنیا کا جائزہ لیتے ہیں تو دیکھتے ہیں کہ ہمارے ماحول میں کس قدر آلودگی پیدا ہوچکی ہے۔ہوا سے لے کر پانی تک، غذا سے لے کر مٹی و زمین تک شاید ہی کوئی چیز ہو جو آلودگی سے محفوظ ہو۔آلودگی کی وجہ سے آج ایک سنگین ماحولیاتی بحران پیدہوچکا ہے۔ یہ بحران اتنا شدید ہے کہ اس نے کرہ ارض کے مستقبل پر ہی سوالیہ نشانات لگادیے ہیں۔تاہم حیرت و استعجاب کی بات یہ ہے کہ دنیا کے بیشتر انسان اس ماحولیاتی بحران کی زد میں ہونے کے باوجود اس سے بے خبر و غافل ہیں۔ہم اس بات سے بے خبر ہیں کہ آئندہ پانچ سالوں میں ہمارے ملک کے اکثر شہروں میں پینے کے پانی کی شدید قلت پیدا ہوجائے گی۔


ماحولیاتی بحران ایک وسیع موضوع ہے ۔اس مضمون میں اس سے متعلق چند بنیادی معلومات سے واقف کرانا اور کچھ عملی اقدامات کی طرف توجہ مبذول کرانا مقصود ہے۔یہ مضمون تین نکات کا احاطہ کرتا ہے۔ پہلے میں ماحولیاتی بحران کو سمجھنے کی غرض سے فکری و نظریاتی گفتگو کی گئی ہے۔ دوسرے میں ماحولیاتی بحران کے اثرات اور اس کی وسعت کو پیش کیا گیا ہے۔ جب کہ تیسرے نکتے کے ذیل میں ماحولیات کے تحفظ کے حوالے سے اسلامی تعلیمات اور ماحولیاتی بحران سے نبردآزما ہونے کے لیے ہم یعنی طلبہ و نوجوانوں کے ممکنہ کردار پر روشنی ڈالی گئی ہے۔


ماحولیاتی بحران کیا ہے؟


قرآن مجید میں اللہ تعالی کا ارشاد ہے کہ انسان کو کمزور پیدا کیا گیا ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ مختلف اعتبارات سے انسان دیگر مخلوقات کی بہ نسبت کمزور ہے۔ انسان لباس کے بغیر سرد و گرم موسموں کی شدت کا متحمل نہیں ہوسکتا۔ انسانی بچہ اپنی ولادت کے بعد اپنی بنیادی ضروریات کے لیے ایک طویل مدت تک اپنے والدین پر منحصر ہوتا ہے۔ بے شمار درندے ایسے ہیں جن کامقابلہ کرنے کی انسان جسمانی طاقت و صلاحیت نہیں رکھتا۔لیکن انسان کی یہ تمام کمزوریاں ایک طرف، دوسری طرف اللہ تعالی نے انسان کو بلا کی عقل سے نوازا ہے۔ یہ عقل ایک ایسی نعمت خداوندی ہے جو انسان کومذکورہ بالا تمام کمزوریوں کے علی الرغم دیگر تمام مخلوقات پر فوقیت عطا کرتی ہے۔انسانی عقل ہی انسان کی وہ قوت وہ صلاحیت ہے جس کی بنا ء پر وہ دنیا اور اسباب دنیا کو مسخر کرسکتا ہے۔ محض ظاہری اسباب و وسائل ہی نہیں بلکہ انسان اُن اسباب و وسائل کو بھی مسخر کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے جو خلا اور فضا میں موجود ہیں، جو سطح زمین پر ظاہر و باہر ہیں، جو زیر زمین پوشیدہ ہیں اور جو سمندر کی گہرائیوں میں موجزن ہیں۔
ماحولیاتی بحران کا صحیح فہم پیدا کرنے کے لیے ضروری ہے کہ ایک نظر انسان اور ماحول کے باہمی ربط اور تعامل کی تاریخ پر بھی ڈال لی جائے۔ اس کے لیے یہ ان نظریات کو سمجھ لینا بھی مفید ہوگا جو ربط اور تعامل کی بنیاد اور محرک رہے ہیں۔


انسان اور ماحول کے باہمی ربط کی تاریخ دلچسپ ہے۔قدرتی ماحول اور انسان کی تاریخ کافی دلچسپ ہے۔انسانی تاریخ میں ایک طویل عرصہ ایسا گزرا ہے جس میں انسان غیر مہذب اور غیر متمدن تھا۔یہ وہ زمانہ تھا جب انسان خانہ بدوشی کی زندگی بسر کرتا تھا۔انسان چھوٹے چھوٹے قبیلوں کی شکل میں رہتے تھے۔ان قبیلوں میں سارے لوگ ایک دوسرے سے نسلی رشتہ رکھتے تھے۔تعداد کے لحاظ سے یہ قبیلہ کافی چھوٹے ہوتے تھے۔اس زمانے کا انسان خوردونوش کے لیے اپنے ماحول پر منحصر اور مربوط ہوتا تھا۔وہ یا تو شکار کرتا تھا یاپھر پھول پودوں پرمنحصر ہوتا تھا۔انسان کی تاریخ میں شاید یہی وہ دور تھا جس میں انسان کا ماحول اور قدرت سے رشتہ سب سے مضبوط رہا کیوں کہ اس دورمیں میں بقا کا انحصار اس بات پر تھا کہ انسان اپنے آپ کو ماحول اور قدرت سے مربوط اور ہم آہنگ کر لے۔یہی وہ دور تھا جس میں انسان نے قدرت پرستی (Worship of Narure) شروع کی۔قدرتی طاقتوں اور آفتوں مثلا ًبارش، طوفان، موسمیاتی تبدیلیاں، آندھی، سیلاب وغیرہ، اس کے علاوہ مہلک بیماریاں اس غیرمتمدن انسان کے لیے حیران کن تھیں۔ان آفات کے سامنے انسان کی بے بسی نے اس غیر متمدن انسان کے اندران کی پرستش کے جذبات پیدا کردیے۔یہیں سے مختلف دیو مالائی قصے کہانیوں کا وجود ہوا اور دیوی دیتاؤں کی پرستش کی ابتدا ہوئی۔


اس شکاری دور میں انسان کی تخلیقی صلاحیتیں اسی قدر پروان چڑھ سکی تھیں کہ وہ بہت ہی بنیادی قسم کے آلات اور ہتھیار بنا سکے۔یہ حالات اور ہتھیار بہت معمولی تھے اور پتھر کو تراش کر بنائے جاتے تھے۔ انسان کی غذا کا انحصار اتفاق پر ہوتا تھا۔ اتفاقاً کوئی جڑی بوٹی، پیڑ پودا یا پھل وغیرہ مل جاتا تو انسان اسے اپنی غذا کے طور پر استعمال کر لیتا اور اگر ایسی کوئی شے نہ ملتی تو اسے فاقہ کرنا پڑتا۔ لیکن اس شکاری دور کے بعد رفتہ رفتہ مختلف تجربات و اتفاقات سے گزرتے ہوئے انسان نے اس حقیقت کو دریافت کرلیا کہ مختلف پیڑ پودوں کے بیجوں کو اگر فلاں موسم میں اور فلاں قسم کی زمین میں بو دیا جائے اور ان کی آبیاری کی جائے تو وہ اگنے لگتے ہیں۔ پھر انسان اس بات کا محتاج نہیں رہتا کہ اگر کوئی پیڑ پودا اتفاقاً مل جائے تبھی وہ اپنا پیٹ بھر سکے ورنہ بھوکا رہے اور فاقہ کرے۔ اس غیر معمولی دریافت نے اس وقت کے انسان کی زندگی میں ایک انقلاب پیدا کردیا۔


اب انسان خانہ بدوشی کی زندگی سے ایک جست لگا کر متمدن دنیا کی طرف گامزن ہو چکا تھا۔ انسانی زندگی میں یہ تبدیلی بھی آئی کہ اپنے گزراوقات کے لیے وہ صرف جانوروں کے شکار کرنے اور جڑی بوٹیوں کو جمع کرنے پر منحصر نہ رہا بلکہ اس نے کاشت کاری شروع کر دی۔ کاشت کاری کے آغاز کے بعد انسانی آبادیاں مختلف ندی، نالوں اور آبی ذخائر کے آس پاس آباد ہونا شروع ہوگئیں۔آلات کی صنعت میں بھی تبدیلی آنے لگی۔ پتھر کے آلات کاشت کاری کے لیے موزوں نہیں تھے اس لئے وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ مختلف دھاتوں سے بنے آلات بھی ایجاد ہونے لگے۔یہ آلات پتھر کے آلات کے مقابلے میں زیادہ پائیدار تھے۔متمدن زندگی کے تقاضوں کے پیش نظر انسانی زندگی کو منظم اور منضبط کرنے کی کوششیں شروع ہوگئیں۔ باہمی معاملات طے کرنے اور تنازعات کو حل کرنے کے لیے مختلف ضابطے اور اصول وضع کیے گئے۔


اب تک انسان نے ماحول سے محض استفادہ کیا تھا ،ماحول میں کوئی دخل اندازی نہیں کی تھی۔ لیکن مہذب اور متمدن زندگی کے آغاز کے بعد اور کاشت کاری کے پیشے سے منسلک ہونے کے بعد انسان نے قدرتی ماحول میں دخل اندازی شروع کر دی۔ وہ قدرتی وسائل اور قدرتی عمل میں بھی خلل انداز ہونے لگا۔ اگر چہ کہ دخل اندازی کا یہ عمل اسی صلاحیت ِتسخیر سے عبارت تھا جو اسے خود اللہ تعالی نے عطا کی تھی تاہم اس صلاحیت کے بڑے دوررس اور منفی اثرات سامنے آنے لگے۔


اس دوران انسان کا تمدنی سفر بھی مختلف ادوار اور مراحل سے گزرا۔متمدن طرز زندگی کو اختیار کرنے کے نتیجے میں انسان آبادیوں کی شکل میں بسنے لگے۔یہ خانہ بدوش طرز زندگی سے زیادہ محفوظ طرز زندگی تھا۔ ماضی میںآبادیاں ایک ہی نسل کے قبیلے پر مشتمل ہوتی تھیں۔پھر جب یہ قبیلے بڑھنے لگے تو آبادیاں بھی بڑھنے لگیں۔ تمدنی اور صنعتی ضروریات کے پیش نظر انسانوں کے مابین تقسیم کار (Division of Labour) عمل میں آیا۔ اس طرح ایک ہی نسل سے تعلق رکھنے والے انسان مختلف خطہ ارض میں پھیلنے لگے۔ عموماً ان کا نسب ، زبان اور ثقافت مشترک ہی ہوا کرتی تھی۔ مسلسل بڑھتی ہوئی انسانی آبادی کے نتیجے میں مختلف نسلی، لسانی اور تہذیبی شناختوں کے حامل انسان آپس میں خلط ملط ہونے لگے۔ اس کے نتیجے میں ایک متنوع انسانی سماج وجود پذیر ہونے لگا۔ارتقاء پذیر تمدنی تقاضوں کے سبب سیاسی، سماجی اور اقتصادی شعبوں میں بھی تنوع اور ارتقاء ہونے لگا۔مختلف طرز ہائے حکومت ، سماجی رسوم و رواج ، اقتصادی اصول و ضوابط وغیرہ وجود میں آتے گئے۔تقریباً پانچ صدی پہلے انسانی تاریخ میں وہ انقلاب برپا ہوا جسے صنعتی انقلاب (Industrial Revolution) کے نام سے جانا جاتا ہے۔ صنعتی انقلاب کے بعد علوم و فنون اور تکنالوجی میں جو انفجار (Explosion)رونما ہوا اس نے بہت کم عرصے میں دنیا کا رخ بدل دیا۔صنعتی انقلاب کے جو بھیانک منفی اثرات ماحولیات پر پڑے ہیں،اس کی تاریخِ عالم میں کوئی نظیر نہیں ملتی۔ان اثرات کو سمجھنے کے لیے مناسب ہو گا کہ پہلے صنعتی انقلاب کی پشت پر موجود فکر و نظریہ کو بھی سمجھ لیا جائے۔


صنعتی انقلاب کی ابتدا یورپ سے ہوئی۔اس کے پیچھے استشراق (Enlightenment)کا نظریہ موجود تھا۔یہ دراصل ایک علمی اور نظریاتی انقلاب تھا۔اس انقلاب نے تحویل شاکلہ (Paradigm Shift) برپا کردیا۔یہ ایک انوکھا اورتاریخی طور پر بے نظیر تغیر تھا۔ اس کی بنیاد پر محض علوم و فنون ہی نہیں بلکہ نظر یہ حیات (World View)میں بھی بنیادی نوعیت کی تبدیلیاں واقع ہوگئیں۔اس انقلاب کو سمجھنے کے لیے بھی استشراق کے وقت یورپ میں رائج سماجی ، سیاسی اور اقتصادی عوامل کو سمجھنا ضروری ہے۔سماجی طور پر یورپ ایک طویل مدت تک عیسائی پاپائیت کے زیر سایہ تھا۔ پاپائیت نے یورپ کے مختلف شاہی خانوادوں سے اپنے آپ کو اس طرح وابستہ رکھا تھا کہ سیاسی اقتدار تو شہنشاہوں کے ہاتھوںمیں رہا اور مذہبی اجارہ داری پادریوں کے پاس۔ اقتصادی اعتبار سے یہ شہنشاہیت جاگیردارانہ نظام پر قائم تھی۔ عوام جو مذہبی تھی ،کلیسا کے زیر اثر تھی۔کلیسا نے اپنے مفادات کے حصول کے لیے اپنے آپ کو شہنشاہیت سے وابستہ کرلیا۔اب شہنشاہیت اپنے تسلط کی بقا کے لئے جو بھی کرے اسے کلیسا کی تائید حاصل ہوتی تھی۔
مزید یہ کہ جاگیردارانہ نظام نے جاگیرداروں کو بااختیار بنا دیا اور عوام کو ان کے آگے بالکل بے بس کر کے رکھ دیا۔مجموعی طور پر اس ظالمانہ گٹھ جوڑ کا نتیجہ یہ نکلا کہ عوام کی حیثیت مویشی کی طرح ہوگئی۔جاگیرداران کا بھرپور استحصال کرتے تھے۔ دادرسی کے لیے وہ بادشاہوں کے پاس بھی نہیں جاسکتے تھے کیوں کہ بادشاہوں کے مفاد خود جاگیرداروں سے وابستہ تھے۔ چاہے وہ باج کی شکل میں بادشاہوں کی خود اپنی دولت ہو جو وہ جاگیرداروں سے وصول کرتے تھے یا پھر فوج اور اسلحہ کی شکل میں جسے بوقت جنگ جاگیردار بادشاہوں کے لئے مہیا کرتے تھے۔ اس صورتحال میں صرف ایک کلیسا کا باقی رہ گیا تھا جسے عوام انصاف کے حصول کے لیے کھٹکھٹاسکتے تھے ۔لیکن کلیسا کا کردار بھی کافی مایوس کن رہا۔چوں کہ بادشاہ سے ان کی ساز باز تھی جس کی بناء پر کلیسا شہنشاہوں کی حکومتوں کا منجانب خدا ہونا ٹھہراتا تھا اور اس کے عوض بادشاہوں کی طرف سے کلیسا کو جاگیریں اور دعوت و تبلیغ اور مذہبی پیشوائی کی کھلی چھوٹ ملتی تھی۔ کلیسانے شہنشاہیت کے تئیں جو رویہ اختیار کیا اور اس کے جواز اور بقا کے لئے مذہب کو استعمال کرتے ہوئے جو پٹی پڑھائی وہ تاریخ کا ایک سیاہ باب ہے۔ علاوہ ازیں خود عیسائیت کے اندر جو انحرافات در آگئے تھے مثلاً دنیا بے زاری، فطرت کشی، علم دشمنی وغیرہ اس نے لوگوں کے اندر رفتہ رفتہ ایک گہری نفرت پیدا کرنی شروع کردی۔ علم و تعلیم کا رجحان تو ویسے ہی نہیں تھا لیکن کلیسا نے اس نظام کے تسلط کی بقا کے لیے علم دشمنی کا جو رویہ اختیار کیا اس سے بہت ہی سنگین تاریخی اثرات مرتب ہوئے ۔


قسطنطنیہ عیسائی مذہب کا ایک اہم دینی اور علمی مرکز تھا۔ 1453ء میں فتح قسطنطنیہ کے بعد عیسائی علماء نے یورپ کی جانب ہجرت کی اور اپنے ساتھ اپنا علمی ذخیرہ بھی لے آئے۔ ساتھ ہی اہل یورپ کا ایک طبقہ ایسا بھی تھا جس نے ہسپانیہ کی مسلم جامعات سے تعلیم حاصل کی تھی اور اس کے ان پر بہت گہرے اثرات پڑے تھے۔ اسلامی تعلیمات میں نہ دنیا بے زاری تھی، نہ فطرت کشی اور نہ علم دشمنی بلکہ مسلمانوں میں علمی رجحان اور زندگی کے تئیں ایک مثبت رویہ پایا جاتا تھا۔ یہ یورپ کے نوجوان طلبہ کے لیے ایک انوکھا تصور اور شاندار تجربہ تھا۔ ان افکارات سے متعارف ہونے اور ان کے تئیں مسلم معاشروں میں دوران تعلیم زندگی بسر کرنے کی وجہ سے یورپی نوجوانوں کی ذہنیت اور خیالات تبدیل ہونے شروع کر ہوگئے۔ ان دونوںتاریخی واقعات نے خود یورپ کا اور پھر دنیا کا مستقبل بدل یا۔ علمائے قسطنطنیہ اور ہسپانوی جامعات سے تعلیم یافتہ طلبہ کی یورپ آمد اس سامراجی نظام زندگی کے لیے چیلنج تھا۔ اس نظام پر سوالات ہونے لگے۔ اس کے خلاف علمی دلائل پیش کیے جانے لگے۔ ان تنقیدوں کا براہ راست ہدف کلیسا بنا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ اصل حکمرانی توکلیسا ہی کی تھی کیوں کی لوگ اسی کے نظریہ حیات کی پیروی کرتے تھے اور اسی کو تشریعی قوت کے طور پر مانتے تھے جسے کلیسا پیش کرتا تھا۔ خود شہنشاہیت کو بھی کلیسا ہی سے تائید حاصل ہوتی تھی۔


یورپ میں تبدیلی اور بیداری کی اسی لہر کو استشراق کہتے ہیں۔ طویل جدوجہد کے بعد بالآخر استشراق کی روایت کے خلاف کامیاب ہوگئی۔ شہنشاہیت نے گھٹنے ٹیک دیے اور حکومت اور سیاست میں عوام کی شمولیت کو تسلیم کرلیا گیا۔ اس سے پہلے عالم یہ تھا کہ لوگوں کے حقوق تو کجا ان کو بااختیار اور باعزت انسان بھی نہیں مانا جاتا تھا۔ عوام بادشاہ کی رعیت (Sbjects) تھے۔ بادشاہ جس کے ساتھ جو چاہے سلوک کرسکتا تھا۔ چوں کہ کوئی دستور نہ تھا اور بادشاہ کے الفاظ ہی قانون ہوتے تھے تو عوام کی حیثیت بھی ایک ریوڑ سے زیادہ کی نہیں تھی۔ لیکن استشراق کے بعد جو انقلاب برپا ہوا اس میں وہ مشہور زمانہ طرز حکومت وجود میں آیا جسے ہم آج جمہوریت کے نام سے جانتے ہیں۔ اس سے جوتحویل شاکلہ (Paradigm Shift) ہوئی اس کے نمایاں نکات ذیل میں پیش کئے جارہے ہیں:
1) عوام محکوم رعیت سے آزاد شہری بن گئے۔ جس میں سب یکساں اور مساوی درجہ رکھتے تھے۔ نہ کوئی بادشاہ تھا نہ کوئی اشرافیہ یا جاگیردارجو ماضی میں عوام سے الگ اور بہتر درجہ رکھتے تھے۔
2 ) قومی ریاستیں(Nation States) وجود میں آئیں۔ جن کی بنیاد شہریوں پر تھی نہ کہ کسی بادشاہ یا شاہی خاندان کی ملکیت پر۔ ریاست شہریوں کی باہمی رضامندی اور معاہدے کے نتیجے میں وجود میں آتی تھی نہ کہ بادشاہ کی ملکیت کے طور پر۔
3) حکومت پر کسی خاندان یا طبقے کی اجارہ داری کے بجائے عوام کا حق تسلیم کیا گیا اور حکومت عوام یا ان کے منتخب کردہ نمائندوں کے ذریعے وجود میں آنے لگی۔
4) اقتصادی میدان میں جاگیرداری ختم ہوئی اور اب سب کواقتصادی عمل میں یکساں مواقع اور آزادانہ طور پر شرکت کرنے کا موقع ملنے لگا۔


جہاں تک سماجی دائرہ اور بالخصوص مذہب کا تعلق تھا، معاملہ سب سے زیادہ یہاں بگڑا۔ چوں کہ کلیسا نے استشراق کی مخالفت کی اور سامراجیت کے حق میں مذہب کو استعمال کیا اور عوام کو یہ باور کرانے کی کوشش کی کہ استشراق کے جو بھی لوازمات اور اقدار ہیں وہ خدا اور فطرت کے خلاف ہیں اور استشراقی روایت سے وابستگی گویا کہ خدا کو چیلنج کرنا ہے۔ اس طرح عقل انسانی کو خدا کے مقابل اور خلاف لا کھڑا کیا گیا۔ استشراقی اقدار مثلاً حریت، اخوت، مساوات اور علم دوستی وغیرہ کو صفاتِ خبیثہ تصور کیا گیا اور استشراق کو شیطانی تحریک قرار دیا گیا۔ جب تک کلیسا باختیار رہا تب تک اس نے استشراق کے خلاف پوری قوت لگائی۔ استشراقی مفکرین کو نذر زنداں کیا گیا، اذیتیں دی گئیں اور عبرت ناک سزائیں سنائی گئیں۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ عوام کے اندر بالعموم اور مفکرین کے اندر بالخصوص عیسائیت کے خلاف نہایت شدید نفرت پیدا ہوگئی اور یہ نفرت بڑھتے بڑھتے نفس مذہب تک پہنچ گئی۔ پھر تو استشراقی روایات نے مذہب ہی کی نفی کرنا شروع کر دیا۔ نتیجے کے طور پر ایک ایسا نظریہ حیات وجود میں آیا جو نہ صرف یہ کہ مذہب بے زار تھا بلکہ تصور خدا ہی کا منکر تھا۔ پھر اس کی کوکھ سے جنم لینے والے مختلف افکار و نظریات پہلے یورپ پر اور پھر نو آبادیاتی (Colonial) قوتوں کے ذریعے دنیا بھر میں چھا گئے۔
دور حاضر کا پورا نظام زندگی بھی اسی نظریہ حیات پر مبنی ہے۔ چاہے علمی، فکری، اخلاقی، سماجی اور سیاسی کوئی بھی شعبہ ہو ہر شعبے کی بنیاد اسی نظریہ پر مبنی ہے۔ اسی کے نتیجے میںوہ سب کچھ ہوا ہے جو صنعتی انقلاب کے بعد سے گزشتہ کئی صدیوں سے چلا آ رہا ہے اور جس کے خطرناک اور مہلک نتائج آج تک دنیا بھگت رہی ہے۔


اس مقالے کی اس قدر طویل تمہید باندھی گئی ہے کہ قاری ضرور حیران ہوگا کہ موضوع میں اور مضمون میں کافی فرق ہے۔ لیکن یہ اس لیے ضروری تھا کہ اس کی بنیاد سمجھے بغیر حقیقت نفس الامری تک رسائی اور اس کا صحیح ادراک ممکن نہیں تھا۔ یہ نظریہ حیات ہے کیا اور اس سے پیدا ہونے والے افکار و نظریات نے کس طرح وہ اثرات مرتب کیے ہیں جس سے دنیا پریشان ہے۔ اس کی تفصیل آگے آئے گی۔خدا بے زاری کے نتیجے میں نظریہ حیات میں جو تحویل شاکلہ (Paradigm Shift)عمل میں آئی تھی، اس کی چند اہم خصوصیات حسب ذیل تھیں:
1) خدا اور مذہب کی کوئی معروضی حقیقت نہیں ہے۔یہ دونوں غیر متمدن انسان کے تحفظات اور لاعلمی کی پیداوار ہیں۔کائنات میں معروضی حقیقت صرف ان ہی چیزوں کو حاصل ہے جو حواس خمسہ سے اخذ کی جا سکتی ہیں اور عقلی طور سے ان کا وجود ثابت کیا جاسکتا ہے۔
2) انسان تمام جانوروںمیں امتیازی خصوصیت رکھتا ہے۔ یہ امتیازی مقام اسے اپنی عقل و دانش کی بنیاد پر حاصل ہے۔ چنانچہ سب سے اہم ترین چیز عقل ہی ہے۔
3) چوں کہ نہ کوئی خدا ہے اور نہ کوئی مذہب اس لئے تمام مذہبی عقائد فرضی اور انسان کے تخیل کی پیداوار ہیں۔حقیقت صرف مادی چیزوں کو حاصل ہے۔
4) اس مادی دنیا میں انسانی زندگی کی اہمیت صرف اس وقت تک ہے جب تک کہ وہ زندہ ہے۔ نہ پیدائش سے

پہلے کچھ ہے اور نہ مرنے کے بعد۔ اس لئے انسان کے لیے سب سے اعلی قدر اس کی اپنی حسی تسکین ہے۔ انسان کو چاہیے کہ وہ اپنی حسی تسکین کے حصول کے لیے زیادہ سے زیادہ کوشش کرے۔ اس مقصد سے کیا جانے والا ہر عمل جائز ہے۔ چوں کہ انسان سب سے زیادہ باشعور مخلوق ہے اس لئے اس کی تسکین سب سے اہم اور مرکزی حیثیت کی حامل ہے۔ اسی نظریہ حیات کا نام ہیومنزم یا سیکولر ہیومنزم قرار پایا۔ سیکولر ہیومنزم کے اثرات افکار ونظریات سے لے کر علوم وفنون اور دیگر تمام شعبہ ہائے زندگی پر پڑے۔ یہاں بہت ہی اختصار کے ساتھ ان کے اثرات کو نکات کی شکل میں پیش کیا جارہا ہے:


1) نظریہ حیات میں تبدیلی: اب فرد اور معاشرے نے خدا پر مرتکز تصور کائنات سے ہٹ کر انسان اور انسان کی حسی تسکین پر مرتکز نظام حیات کو اپنا لیا۔
2) خدا کا انکار اور اسی مناسبت سے مذہب اور وحی کے انکار کے نتیجے میں سماج میں مادیت کو غلبہ حاصل ہوتا چلا گیا۔
3) اب صرف حواس خمسہ یا عقل ہی علوم و فنون یا علم المعرفہ (Epistemology) کی بنیاد قرار پائے۔ اس کے نتیجے میں تجربیت اور وضعیت کا غلبہ تمام علوم و فنون پر ہوگیا۔ اب محض وہی علوم و فنون قابل اعتناء رہے جو تجریبی اوروضعی طور پر ثابت ہوتے یوں اور ان میں بھی چیزوں کو جانچنے کا زاویہ ان ہی تک محدود رکھا گیا ہو۔
4) علم الاخلاق کی بنیاد مذہب سے ہٹا کر سیکولر ہیومنزم پر رکھی گئی گی اور حسی تسکین قدر اعلی قرار پائی۔
5) سماجی طور پر انفرادی سطح پر بھی اور اجتماعی سطح پر خود مختاری کے تصور نے جڑ پکڑا۔ سماج میں رائج طبقاتی فرق و تفاوت کو ختم کیا گیا۔ اسی طرح نہ سب کے لئے حریت، اخوت اور مساوات کی قدروں کو یکساں طور پر تسلیم کیاگیا۔ یہیں سے لبرلزم کی شروعات ہوئی۔
6) اقتصادی طور پر خود مختاری کے تصور نے اول تو زمینداری کا خاتمہ کیا پھر بلا تفریق سب کے لیے حق ملکیت کو تسلیم کیا گیا۔ ساتھ ہی سب کے لیے اقتصادی عمل کی آزادی کو بھی تسلیم کیا گیا۔ جب کہ اس سے پہلے لوگ پیشوں کے اعتبار سے مختلف طبقات میں منقسم تھے اور پیشہ بدلنے یا اقتصادی عمل کی آزادی انہیں حاصل نہیں تھی۔ یہیں سے سرمایہ داریت کی شروعات بھی ہوئی
7) سیاسی سطح پر عوام جو اس سے پہلے محکوم رعیت سمجھے جاتے تھے، اب آزاد اور برابر کا درجہ رکھنے والے شہری بن گئے۔ حکومت کسی فرد واحد یا خاندان یا طبقے کی بجائے شہریوں کا اجتماعی حق تسلیم کرلیا گیا۔ جمہوری طرز حکومت کو اختیار کیا گیا۔


صنعتی انقلاب کے اثرات اور ماحول


علوم و فنون تجریبی اور وضعی بنیادوں پر ترقی کرنے لگے۔ کسی بھی علم یا فن پر کوئی قید نہیں رہی۔ اس نے علوم و فنون کا شرح نمو اضافی انداز میں بڑھا دیا۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ٹیکنالوجی جو پہلے کئی ہزار سال میں تبدیل ہوتی تھی، اب محض دہائیوں بلکہ چند سالوں میں تبدیل ہونے لگی۔ ٹیکنالوجی کے اس انفجار (Explosion)نے صنعت و حرفت، آمدورفت اور ذرائع ابلاغ میں کرشماتی تبدیلیاں پیدا کردیں۔ٹیکنالوجی نے بڑے پیمانے پرپیداوار کو ممکن بنادیا۔اس سے صنعت کاری(Industrialization) وجود میں آئی۔ پہلے جو افراد پشتینی پیشوں میں جکڑے ہوئے تھے، اب آزادی کے ساتھ پیداواری عمل میں شرکت کرنے لگے۔ بڑے پیمانے پر پیداواری عمل نے اشیاء کی قیمت کم کر دی۔ لوگ بڑی آسانی سے چیزوں کو خریدنے کے قابل ہوگئے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ منڈیاں بڑھنے لگیں۔ بڑے بڑے صنعتی اداروں کے اردگرد آبادیاں بڑے پیمانے پر بسنے لگیں۔ اس میں مزدور بھی شامل تھے اور صارف بھی۔ اس سے شہر نشینی (Urbanization) کا سلسلہ شروع ہوا۔


بڑھتی ہوئی شہری آبادی کے ساتھ ساتھ لوگوں کی طرز زندگی میں تبدیلیاں رونما ہوئیں۔ اب لوگ زندگیاں اکٹھے خاندانوں کی شکل میں گزارنے کے بجائے چھوٹی چھوٹی فیملیوں کی شکل میں گزارنے لگے۔ اشیاء کی فراوانی اور قوت خرید نے صارفیت (Consumerism) کو فروغ دیا۔ مادیت نے ان سب کو مزید بڑھاوا دیا۔ چوں کہ حسی تسکین کو سب سے زیادہ اہمیت دی جانے لگی اس لیے افادیت پسندی (Utilitarianism) بڑھنے لگی۔ سرمایہ دار اپنے مفادات کی خاطر پیداوار میں مسلسل اضافہ کرتے چلے گئے۔ انہوں نے اس بات کا لحاظ نہ کیا کہ اس کا اثر وسائل قدرت اور ماحول پر کیا پڑے گا۔ ایسے طرز پیداوار اپنائے گئے اور ایسی ٹیکنالوجیاں اختیار کی گئیں جو ماحول کے لیے لئے ضرر رساں تھیں۔ سرمایہ داری کے جنون نے جارحانہ سرمایہ داری(Predatory Capitalism) کو جنم دیا۔ مادیت کے زیر اثر لوگوں میں نمائشی طرز زندگی (Ostentatious Living) کا رجحان ان پیدا کیا۔ نمائشی کلچر نے لوگوں میں بیہودہ صارفیت(Vulgar Consumarism) کو فروغ دیا۔ جس میں لوگ ضرورت کے بغیر محض سماج کو دکھانے کے لیے شاپنگ کرنے کی عادت بنا لی۔


ان سب کا اثر یہ ہوا کہ ایک ایسا نظام زندگی وجود میں آیا جس میں لوگ خود کو مرکز کائنات سمجھنے لگے اور حسی تسکین کو سب سے زیادہ اہمیت دی گئی۔ یہ نظام خدا کا منکر بھی ٹھہرا۔ چنانچہ اب حسی تسکین کا حصول ہی مقصد زندگی بن گیا۔ نتیجتاً علوم و فنون کو تسکین کے حصول کے لیے اندھا دھند استعمال کیا جانے لگا، اس امر کا لحاظ کیے بغیر کہ وسائل اور ماحول پر اس کے کیا اثرات مرتب ہورہے ہیں۔
یہ مادہ پرست نظام اپنے رو میںاس قدر اندھا ہوگیا کہ رفتہ رفتہ اس نے جارحانہ مزاج اپنا لیا۔ اس جارحانہ مادہ پرستی کا نتیجہ یہ نکلا کہ دو تین صدیوں کے اندر کرہ ارض اپنے وجود و بقا کی جنگ لڑنے پر مجبور ہوگیا ہے۔ اس ماحولیاتی بحران کی ہولناکی کس قدر خطرناک ہے، اس کا مفصل بیان انشاء اللہ اس مضمون کی اگلی قسطوں میں ہوگا۔ (جاری)

SYED AHMED MUZAKKIR
Director
Centre for Educational Research
and Training (CERT)
New Delhi.

حالیہ شمارے

براہیمی نظر پیدا مگر مشکل سے ہوتی ہے

شمارہ پڑھیں

امتیازی سلوک کے خلاف منظم جدو جہد کی ضرورت

شمارہ پڑھیں