کتاب الہٰی ہمارا اصل مرجع ہے تمام مہمات امور ہیں۔ بدیہی طور پر سنت اس کی شارح ہے۔ قرآن کی رو سے حصول علم کے تین ذرائع ہیں، آفاق و انفس (فصلت ۵۳: ۴۱) اور ایام اللہ یعنی تاریخ (ابراہیم 14:5)۔ ان ذرائع کو اگر سامنے رکھا جائے تو نظر یۂ تعلیم کی طرف بڑھنا آسان ہو جاتا ہے۔ آفاق، انفس اور تاریخ کے ذریعہ ذہن کو بیدار کرنا اور انتہائی ممکن حد تک اس کی پر ورش کر لے جانا یہی تعلیم کا مقصود ہے۔ یہ تینوں ذرائع مل کر کتنا و سیع کینوس دیتے ہیں، یہ ایک واضح امر ہے۔ ذرہ سے آفتاب تک ہر شئے ان تینوں ذرائع علم اور وسائل تعلیم میں سما گئی ہے۔ یہیں سے یہ بھی طے ہوجاتا ہے کہ اسلامی اور غیر اسلامی کی تقسیم کس قدر بجا یا بے جا ہے۔ علوم کی تقسیم عملی ضرورت اور اس کے پھیلاؤ کے باعث جس قدر بھی کی جائے، اگر اس کا مقصود انسانیت کی بھلائی اور بہتری ہے تو اسے غیر اسلامی قرار دینا قرآنی مقصد کے خلاف قرار پائے گا۔ یوں بھی اسلام میں اصل اہمیت محرک کی ہے، ظاہری اعمال سے بڑھ کر۔ بنا بریں اسلامی اور غیر اسلامی کی تفریق پر نظر ثانی کرنی ہوگی، اور یہ بھی دیکھنا ہوگا کہ ہماری تاریخ کے اولین ادوار میں آیا یہ تقسیم رائج تھی یا علم کو ایک ناقابل تجزیہ حقیقت مانا جاتا تھا، بشمول تمام شعبہ جات کے۔ ظاہرہے اگر تمام علوم کو اسلام کے وسیع تر دائرہ میں نہیں سمجھا جاتا تو زندگی کے بے شمار میدانوں اورشعبۂ ہائے علوم میں وہ ترقیات نہ حاصل ہو پا تیں جو ہوئیں۔ قرآن کی اجتماعی روح نے ہی وہ توانائی فراہم کی تھی جس نے مؤسسین علوم پیدا کیے۔ انسانی ہاتھ جب باد بانی کشتیاں بناکر تیار کرتا ہے تو خدا اُسے اپنی نشا نیوں میں سے گر دانتا ہے۔ (الرحمن (55:24
فی زمانہ وہ علوم و فنون جو اسلامی علوم کے زمرے سے علیحدہ گر دانے جاتے ہیں، ان کے سلسلے میں معدودے چند مسلم ماہرین غیر شعوری اور نفسیاتی طور پر بالعموم ایک تشکیک کا شکار رہتے ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ غالباً وہ روحانیت سے دور ہوتے جارہے ہیں۔ اگر یہ دوئی ختم اور یہ ادراک عام ہوکہ یہ تمام علوم بھی اسلامی ہیں تو ان علوم میں فتوحات کا عالم دوسرا ہوگا۔ رو حا نیت ایک توانائی ہے جوہر مشکل امر کی انجام دہی میں ایندھن کا کام کرتی ہے۔
قصۂ آدم میں تسمیۃ الأشیاء ( البقرہ 2:53 ) کا جز ء مزید ہماری رہنمائی کرتا ہے، اشیاء کے نام بتالے جانے سے مقصود ہے ان کا تصور قائم کرلے جانا اور تصور قائم کرلے جانے کا مطلب ہے ان اشیاء کو اپنے مقاصد کے لیے مسخر کر لینا۔ یہی مفہوم ہے تسخیر کا ( الجاثیہ (45:13 یہ تسخیر بڑی حد تک بالقوۃ ہے، اور محض ایک امکان کی طرف اشارہ کرتی ہے۔ اسے واقعہ بنانے کے لیے غایت درجہ کی ذہنی کاوش اور حریت فکر کی ضرورت ہوگی، اور اس کے لیے تعلیم ایک وسیلہ ہے اور مہمیز۔ کتاب و سنت اس تمدنی سفر میں رصد گاہیں ہیں۔ اسی لیے صلوٰۃ اور صبر سے استمداد کی ضرورت ہے(2:45-2:153)
ان زر یں اصولوں کا انطباق عملی زندگی کے تمام شعبوں میں ایک ضرورت ہے، اختیار سے بڑھ کر۔ اسی لیے یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ بقول سر سید احمد خان’ اگر دین ہاتھ سے گیا تو صرف دین جائے گا دنیا رہ جائے گی، اور اگر دنیا ہاتھ سے چلی گئی تو دین بھی جائے گا اور دنیا بھی جائے گی‘۔ ایمان اور عمل میں جو رشتہ ہے وہی دین اور دنیا میں ہے، وسیع تر مفہوم میں۔ تعلیم سے مقصود اسی ہمہ گیر زندگی کے لیے تمام قوائے فکر و عمل کو بیدار اور تیار کر نا ہے۔ نہ صرف سماج کے لیے ایک صالح عنصر بنانے کی خاطر بلکہ ہر ہر شعبۂ زندگی میں سیادت کے لیے تاکہ حیات قومی کا بالحضوص اور حیات انسانی کا بالعموم صحیح رخ متعین ہوسکے۔
اسی لیے تعلیم کا مقصود ہے کہ آدمی جو دماغی قوتیں لے کر پیدا ہوا ہے ان میں ترقی کا جتنا امکان ہو وہ اسے حاصل کرلے، اور اس کے ذہن کی پوری پوری پرورش ہو۔ اس کے اندر ایک ملکہ اور ذہن میں ایک جودت پیدا ہو تاکہ اپنی استعداد کے مطابق تمدنی زندگی کے مختلف شعبوں میں حصہ لے سکے۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ کوئی تمدنی نصب العین بھی ہو۔ دو ٹوک الفاظ میں وہ نصب العین یہ ہے کہ اہل اسلام کو دو بارہ وہ درجہ حاصل ہو جائے جو بارہویں صدی میں علوم و فنون کے مربی ہونے کی حیثیت سے انہیں حاصل تھا۔ تاکہ وہ اس دنیا کو جنت نظیر بناکر عملی طور پر یہ ثابت کرلے جائیں کہ آخرت کی جنت میں انہیں واقعی دلچسپی ہے، اور تاکہ وہ اپنی موجودہ ’ما نگنے والوں‘ کی حیثیت سے ہٹ کر ’دینے والوں‘ کے زمرے میں داخل ہوسکیں۔ یہیں سے وہ عزت و احترام بھی ملے گا، ایک عالَم کی نگاہ میں، جو ہم کسی اور طریقے سے حاصل کرنا چاہتے ہیں۔
اس مقام تک پہنچنے کے لیے خود علم کا مفہوم طے کرنا پڑے گا۔ بظاہر یہ محسوس ہوتا ہے کہ علم سے مراد محض معلوم کو جان لینا ہے۔ ایسا متبادر ہوتا ہے کہ اس تصور علم پر ہم نے اجماع کر لیا ہے۔ حالانکہ قرآنی طرز فکر اس سے مختلف ہے۔ اس لیے کہ اس کی نظر ’با لغیب‘ پرہے۔ وہ اس بات کے لیے مہمیز کرتا ہے کہ ابتکار کے ساتھ غیر معلوم تک پہنچا جائے۔ سر بستہ رازوں کے انکشاف کا نام ہے علم، جس سے روح میں اہتزاز اور فرد میں ثقہ بالذات پیدا ہو۔ قرآن کا یہی تو منہج ہے کہ چھوٹے چھوٹے حقائق سے بڑی بڑی حقیقتوں اور بالآخر حقیقۃ الحقائق تک پہنچا جائے۔ اس کے لیے صبر در کار ہوگا( الروم 40:55 – العصر (103:3۔ اس لیے کہ یہ طویل مدتی کام ہے۔ خالق نے کائنات میں کوشش کے عمل کو ضروری قرار دیا ہے اور اسباب پر پردہ رکھ چھوڑا ہے۔ وہ تمام حقائق جو بعد محنت کے حاصل ہوں انہیں اگر بلا کوشش کے مہیا کر دیا جائے تو ان کی قدر و قیمت کا صحیح اندازہ نہیں لگایا جاسکے گا، اور محنت کا داعیہ بھی کمزور پڑ جائے گا۔ اسی لیے نظام تعلیم اور تصور تعلیم میں کوشش کے عنصر کا بھر پور خیال ایک ضروری امر ہے۔ سب سے بڑی کوشش تفکیر ہے، تحفیظ سے بڑھ کر، اور اسی کے لیے تیار کرنا فریضہ ہے تعلیمی عمل کا۔
دوسرا مسئلہ ہے نصاب تعلیم کا، تقاضائے عصر میں اس کا درجہ بہت آگے ہے، باعث حیرت ہے کہ بہت سی وہ کتابیں جو بہت پہلے متداول تھیں وہ آج بھی داخل نصاب ہیں۔ حیرت اس وقت بڑھ جاتی ہے جب یہ معلوم ہوتا ہے کہ تجدیدکاری کا ادراک بھی زمانے سے موجود ہے۔ درسیات کے ایک ایک جزو کا جائزہ لینا ہوگا۔ اس کے لیے کمیٹیوں کی تشکیل اور تحدید وقت کے ساتھ آغاز کار کی ضرورت ہوگی۔ راقم الحروف کو اس ضمن میں کسی خاطر خواہ پیش رفت کا اندازہ نہیں ہے، بدقسمتی سے، البتہ اصولی طور پر یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ نصاب تعلیم کو حالیہ زمانے کی ضرورتوں کے عین مطابق ہونا چاہیے بلکہ اس کے اندر یہ روح ہونی چاہیے کہ وہ حالات کو صحیح رخ دے سکے، نظر ثانی کا کام ایک مسلسل عمل ہے۔ جدید دانش گاہوں میں نصاب تعلیم پر اسی ضرورت کو سامنے رکھ کر ہمہ آن غور و خوض جاری رہتا ہے اور ایک ہی تعلیمی سال کے اندر ایک سے زائد بار تبدیلیاں لے آئی جاتی ہیں۔ ہمیں بھی انھیں خطوط پر کام کرنا ہوگا کہ تاکہ خاطر خواہ نتائج حاصل ہوسکیں۔ یہ یوں بھی ضروری ہے کہ وسائل اور وقت کا صحیح صحیح اور پورا پورا استعمال بھی اسی کا تقاضا کرتا ہے۔ طالب علم کی شخصیت کے ہمہ گیر ارتقاء کے لیے مزید عمومی مضامین کو داخل نصاب کرنا اور انھیں بھی اسی دقت نظر سے پڑھانا فائدہ سے خالی نہ ہوگا۔
نظریۂ و نصاب تعلیم سے بڑھ کر کلیدی کردار معلم کا ہے۔ اسی پر منحصر ہے نظریہ اور نصاب تعلیم کی افادیت اور اس کی ترسیل۔ وہ تمدنی اہداف جن کی طرف اوپر اشارہ کیا گیا ضروری ہے کہ معلم کا بھی مقصود اور منتہائے نظر ہوں۔ اس لیے ان اہداف پر شرح صدر یا ان سے اعلی اور بہتر مقاصد پر خود معلمین کا اتفاق تعلیمی عمل کا پہلا قدم ہے۔ ضروری نہیں کہ نصب العین معین الفاظ میں قلم بند ہو۔ تعلیم دینے والوں، تعلیم کا انتظام کرنے والوں اور تعلیم دلانے والوں کے ذہن میں اس کا ہونا اور ان کے عمل سے اس کا اظہار کافی ہے۔‘‘ (ڈاکٹر ذاکر حسین)
معلم کا یہ فرض ہے کہ وہ یہ معلوم کرے کہ طالب علم میں کون سی صلاحیت بالخصوص پائی جاتی ہے، جو اس کی شخصیت کی تشکیل کے بے شمار امکانات میں سے کسی امکان کی تکمیل واقعتا بن سکتی ہے۔ معلمین کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ طالب علم کو موضوع تدریس سے قریب تر لے جائیں۔ کتاب کے ماوراء اور مواد تدریس کی خارج کی عملی زندگی سے تطبیق کرکے دکھائیں۔ تاکہ نظریہ اور عمل کے درمیان فاصلہ کم ہو اور اسلام کی حقیقی روح، جس کا اظہار ابھی باقی ہے، اس کا راستہ آسان ہوسکے۔ مواد تدریس کی یہ تطبیقیت زندگی کے تمام شعبوں کی جزئیات سے واضح کی جانی چاہیے، تاکہ طالب علم بآسانی سمجھ سکے اورتفکیرو تعمیل میں آسانی ہو۔ علاوہ ازیں یہ بھی فریضہ ہے معلم کا کہ وہ تجربات زندگی کا نچوڑ پیش کرے اور طلبہ کو یہ باور کرائے کہ ہر نسل کو اپنے مسائل خود حل کرنے ہوں گے۔ یہ اگر نہیں ہوا تو ترقی کا عمل بند ہوجائے گا، جیسا کہ درحقیقت ہوا ہے۔
اس سلسلے کی آخری کڑی خود دانش گاہ ہے، بقول ذاکر حسین’’ذہنی اور اخلاقی زندگی کا مرکز ہوتی ہیں۔ اور ذہنی اور اخلاقی زندگی آزادی ہی میں پھلتی پھولتی ہے، نہیں آزادی اس کے لیے شرط حیات ہے۔ آزادی کے بغیر کوئی دانش گاہ نہ تمدنی سرمایہ کو نئی نسلوں تک صحیح طور پہنچانے کا کام کرسکتی ہے نہ اس کی صحت مند تنقید و تطہیر کا، نہ جہالت اور توہمات اور تعصبات کے لشکروں کو پسپاکر کے علم و دانش، اخلاق حسنہ اور حیات صالحہ کے گڑھ سر کر سکتی ہے۔ نہ اچھی سیرت کی تعمیر کا کام کرسکتی ہے۔ نہ اسے شخصیت کے مقام بلند تک پہنچانے کا‘‘۔ تلاش حق کا پودا ایک آزادانہ فضا میں ہی پنپ سکتا ہے۔
دانش گاہیں ایک چھوٹی سی تجربہ گاہ ہوتی ہیں وسیع تر سماج کے لیے، تربیت گاہ ہوتی ہیں خارج کی عملی زندگی کے لیے، یہیں ہر طالب علم صحت مند تعامل اور بقائے باہم کے اصول سیکھتا اور برتتا ہے، ایک محدودپیمانے پر، تاکہ باہر کی دنیا میں وہ اجنبی نہ لگے۔ یہیں اس کی شناسائی سماج کے تمام صحت مند رنگوں سے ہوجاتی ہے، جنھیں چہار دیواری سے باہر دیکھ کر وہ ٹھٹھک نہ جائے۔ یہ ضروری ہے وسیع تر انسجام کے لیے، اگر یہ ہمارا مقصود ہے۔ مختلف ادیان و ثقافات کے ساتھ ابلاغ شروع ہوگا تو یہیں سے ورنہ شاید تاحینِ حیات نہ ہوپائے۔ تجربہ اسی پر شاہد ہے۔ البتہ یہاں شائد ایک خوف کی نفسیات کارفرما ہے۔ ذہن کے کسی گوشے میں ایک خدشہ ہے مختلف ثقافتوں اور عقائد کے افراد کے ساتھ شریک ہونے میں، خود اپنی ثقافت اور عقائد کے محو ہونے کا، اگر ایسا ہے تو یہ اسلام کا صحت مند تصور نہیں ہے، اسے بہت کمزور خیال کیا جارہا ہے۔ بظاہر جس قوت کا اظہار کیا جاتا ہے یہ خدشہ اس کی نفی کرتا ہے۔ اسلام جس کے عقائد اور بنیادیں کائناتی سچائی پر مبنی ہیں اس کے حاملین کو اس منفی اور خوف زدہ نفسیات سے باہر نکلناہوگا۔ وسیع تر مقاصد کے حصول کے لیے طلبہ میں بہتر مسابقت کا جذبہ بھی یہیں سے پروان چڑھے گا۔ یہیں سے وہ پورے وطن کو اپنی جولانگاہ سمجھیں گے۔ یہی تقاضا ہے عصر حاضر کا، یہیں سے علیحدگی پسندی کا الزام بھی رفع ہوگا، اور شفافیت کا بھی بھرپور فائدہ اٹھایا جاسکے گا۔
دانش گاہ کی اندرونی فضا کا محور طالب علم کی ذات ہو، فرداً فرداً، دیگر تمام اعتبارات بمنزلہ صفر کے ہوں۔ گروہی نسبتوں پر نگاہ غلط انداز بھی نہ پڑتی ہو۔ تاکہ طالب علم کی انفرادیت کا پورا پورا اظہار ہوسکے اور اس کے اندر احترام بدرجہ اتم پیدا ہو۔ اسے یہ محسوس ہو کہ وہ فی نفسہ مطلوب ہے۔ اس راستہ کی مزاحمتیں کیا کیا ہیں ان کا جائزہ لینا ہوگا۔ تعلیم کے ان چاروں عناصر پر بیک وقت نگاہ اور ان پر مزید غور و خوض ایک خوش آئند مستقبل کی طرف سفر کے آغاز کے ہم معنی ہے۔
ڈاکٹر وسیم احمد،یو اے ای
اسلامی نظریہ ونصاب تعلیم اور معلم ودانش گاہ
کتاب الہٰی ہمارا اصل مرجع ہے تمام مہمات امور ہیں۔ بدیہی طور پر سنت اس کی شارح ہے۔ قرآن کی رو سے حصول علم کے تین ذرائع ہیں، آفاق و انفس (فصلت ۵۳: ۴۱) اور ایام اللہ یعنی تاریخ (ابراہیم…