اسلامی نظام کا قیام وقت کی ایک اہم ترین ضرورت بھی ہے اور مسلمانوں کا فریضہ بھی ۔ اسلامی نظام کا قیام دور حاضر میں انسانیت کو در پیش جملہ مسائل و مشکلات کے حل کا ضامن اور تحریک اسلامی کا نصب العین ہے ۔ اسلامی نظام ہی دنیا و آخرت کی کامیابی و کامرانی کا واحد راستہ اور ذریعہ ہے۔
لیکن اسلامی نظام ہے کیا؟ اس کی بنیاد کیا ہے؟ اس کی خصوصیات کیا ہیں؟ اس کے امتیازات کیا ہیں؟ اس کی جزئیات و تفصیلات کیا ہیں؟ موجودہ ترقی یافتہ اور نئے نئے مسائل اور چیلنجز سے بھرپور اس دنیا میں اس کی تعلیمات اور توجیہات کی عملی شکل کیا ہے؟ وہ حیات انسانی کے جملہ شعبہ جات میں انفرادی ، اجتماعی ، سیاسی اور معاشی مسائل کا کیا حل پیش کرتا ہے ؟ اور وہ انسانیت کی مکمل اور ہمہ جہت رہنمائی کن معنوں میں اور کس حد تک کرتا ہے؟
اس طرح کے بہت سے سوالات ہیں جن کا جواب اسلامی نظام کے علمبرداروں کو علمی اور عملی شکل میں پیش کرنا ہوگا۔ جبکہ صورت حال یہ ہے کہ خود مسلمانوں کے ذہن و دماغ میں اسلامی نظام کی حقیقت واضح نہیں ہے ۔
چنانچہ ایک طبقہ ان لوگوں کا ہے جن کے نزدیک اسلامی نظام کاقیام صرف چند شرعی قوانین و حدود کے عملی نفاذ کا نام ہے، گویا ان کے نزدیک اسلام زندگی کی ہمہ جہت رہنمائی کرنے کا اہل نہیں ہے اور اسلامی نظام ایک جامد ، محدود اور ناقص چیز کا نام ہے ۔
ایک گروہ ان لوگوں کا ہے جو اسلامی نظام کا یا تو انکار کرتے ہیں، یا اس کو موجودہ نظریات کا محتاج قرار دیتے ہیں۔ وہ اسلام کی ہمہ گیریت اور آفاقیت پر شک کرتے ہیں۔ وہ جدید فلسفوں اور نظریات سے اس قدرمرعوب ہوتے ہیں کہ اسلام کو موجودہ مسائل کے حل کے لئے ناکافی خیال کرتے ہیں ۔
اس کے بالمقابل تحریک اسلامی کا یہ یقین ہے کہ اسلام ایک مکمل نظام حیات اور قرآن ایک مکمل دستور حیات ہے ، اوریہ تا قیامت انسانیت کے جملہ مسائل و مشکلات کے حل کا ضامن، اور انسانیت کی مکمل فلاح و بہبود کا واحدراستہ ہے۔ انسان کی دنیوی ترقی اور اخروی سرخروئی اسی سے وابستہ ہے۔
البتہ اسلامی نظام کسی مخصوص ڈھانچے اور کسی جامدشکل و صورت کا نام نہیں ہے، جسے لاکر لوگوں کے سامنے رکھ دیا جائے ،اور ہر زمانے اور ہر جگہ پر اٹھا کر فٹ کردیا جائے ، اس کے برعکس اسلامی نظام ایک لچکدار اور فطری نظام ہے، جوانسانی سماج کی ترقی اور بہتری کے لیے کچھ بنیادیں فراہم کرتا ہے، ان ہی بنیادوں پر غور و فکر کرکے ہر زمانے اور ہرجگہ کے موافق ایک خوبصورت ، قابل عمل اور بے مثال نظام وجود میں آئے گا۔ گویا جمود و تعطل کے بجائے ایک زندہ ،متحرک ،فطری اور دلائل پر مبنی اسلامی نظام کے ہم علمبردار ہیں۔ ہمارے پاس بہت ہی منتخب اور نتیجہ خیز خام مال موجود ہے، اب ہماری یہ ذمہ داری ہے کہ زمانے اور حالات کو سامنے رکھتے ہوئے اس کو عملی شکل دیں ، اور اس سے رہنمائی حاصل کریں۔
لیکن صرف دعوؤں سے اب کام چلنے والا نہیں ۔ اب دنیا دعوؤں سے اوپر اٹھ کر دلائل اور حقائق کی بنیاد پر چیزوں کو قبول کرنے کی خوگر بن چکی ہے ۔وہ علمی ، تحقیقی اور منطقی و عقلی بنیادوں پر اسلامی نظام کو دیکھنا اور پرکھنا چاہتی ہے ۔ وہ ایسے نظام کی متلاشی ہے جو اس دور میں جو ما قبل دور سے بہت حدتک مختلف ہے ، اس کی بھر پور رہنمائی کرے۔ وہ ایسے نظام کی طالب ہے جو دعوؤں سے اٹھ کر عملی طور پر اس کی ضرورتوں اور تقاضوں کی تکمیل کرے ۔ جو موجودہ نظریات و فلسفہا ئے زندگی سے تحقیقی اور عملی بنیادوں پر بے نیاز کردے۔
سید قطب شہید ؒ نے اس سلسلے میں اپنا موقف ان لفظوں میں واضح کیا ہے: ’’بلا شبہہ اسلامی حکومت اور اسلامی نظام بس اسی وقت قائم ہوسکتا ہے جب لوگوں کی اکثریت اس کے عملی نتائج سے مطمئن ہوجائے۔ اور اس بات سے بخوبی واقف ہو جائے کہ اسلامی نظام میں ان کی زندگی ، ان کے معاملات ، ان کے حقوق اور ان کی ذمہ داریاں کیا ہو ں گی۔
ایسا کبھی نہیں ہوسکتا کہ ہم ان کو دعوؤں کے ذریعے اسلامی نظام کی دعوت دے کر اسلامی نظام قائم کردیں۔ کیونکہ موجودہ دور نظریات کا دور ہے جس میں متعدد نظریات اپنے مخصوص فلسفہائے حیات کا مفصل خاکہ پیش کرتے ہیں ،اور اسلامی نظام کے مد مقابل کھڑے ہوتے ہیں، حالانکہ اسلامی نظریہ اور اسلامی فلسفہ تمام نظریات زندگی ، او ر تمام فلسفہائے حیات سے بے حد بلند ، ترقی یافتہ اور ممتاز ہے، تو کیوں نہ ہم اسلامی نظام کو علمی اور تحقیقی شکل میں موجودہ زمانے کی ضرورتوں ، تقاضوں اور معاملات کے حل کے طور پر پیش کریں‘‘۔
موجودہ صدی میں اس سلسلے میں ایک عظیم بیداری آئی ہے اوروسیع پیمانے پر اس میدان میں کام شروع ہو ا ہے ۔ چنانچہ اس سلسلے میں عالمی شہرت یافتہ اسلامی مفکر اور تحریکی قائد ڈاکٹر یوسف قرضاوی ایک انفرادی حیثیت کے مالک ہیں ، انہوں نے اس موضوع پر نئے نئے زاویوں سے غور و فکر کرنے اور اسلامی نظام کو زندہ شکل میں پیش کرنے کی کو شش کی ہے ۔
زیر نظر کتاب (اسلامی نظام ۔ایک فریضہ ، ایک ضرورت )آپ کی گراں قدر تصنیف (الحل الاسلامی فریضۃ و ضرورۃ )کا اردو ترجمہ ہے جو من جملہ ان کتابوں کے ہے جس میں ڈاکٹر قرضاوی نے اسلامی نظام کو موجودہ دنیا کے سامنے ایک بدل اور بے مثال بدل کے طور پر پیش کرنے کی کوشش کی ہے ۔
کتا ب میں نہایت جامع انداز میں اسلامی نظام کی خصوصیات، اس کے خدوخال،اس کی ماہیت و کیفیت اور پھر موجودہ زمانے میں اسلامی نظام کے قیام کی موثر ترین اور عملی راہیں پیش کی گئیں ہیں جو پڑھنے سے تعلق رکھتی ہیں ۔خصوصا آخری فصل بہت قیمتی ہے جس میں اسلامی نظام کے تئیں موجودہ دور میں ہونی والی کاوشوں کا بے لاگ تجزیہ کرکے ایک ہمہ گیر تحریک کا خاکہ پیش کیا ہے جو وابستگان تحریک کے لئے خاصی اہمیت کا حامل ہے ۔
البتہ یہ بندۂ نا چیز جو شریعہ کا ایک طالب علم ہے، اس کتاب کے تعلق سے چند پہلوؤں کی طرف توجہ دلانے کی جسارت کرتا ہے۔کتاب میں اسلامی نظام کے شرائط کے ضمن میں مذکور ہے : ( اگر کوئی مسلمان نماز سے انکار کرتا ہے یا اس کو عمدا ترک کردیتا ہے تو حاکم وقت اس سے توبہ کا مطالبہ کرے گا، اگر وہ توبہ نہ کرے تواس کی گردن اڑادی جائے گی)
اس سلسلے میں مصنف نے چاروں ائمہ کے مسالک بھی پیش کیے ہیں جو محل نظر ہیں۔ بلاشبہہ شرعی حدود و قوانین کا نفاذ اسلامی نظام کا ایک اہم حصہ ہے جس سے کسی کو انکار نہیں ہو سکتا لیکن اس کے باوجود یہ ایک حقیقت ہے کہ اس سلسلے میں ہماری موجودہ فقہ کے متعدد ایسے مسائل ہیں جو نظر ثانی بلکہ از سر نو بحث و تحقیق کے طالب ہیں ، مثال کے طور پر تارک نماز کا قتل ، مرتد کا قتل ، زانی کو رجم وغیرہ ۔
اس سلسلے میں ناچیز کی رائے یہ ہے کہ تحریکات اسلامی میں جس طرح اسلامی نظام کے دوسرے معاشی،سیاسی اور معاشرتی شعبوں کے تعلق سے علمی اور تحقیقی کاوشیں ہو رہی ہیں، اسی طرح شرعی قوانین اوراسلامی حدود کے تعلق سے محققین اور علماء کا ایک فورم تشکیل دیاجاناچاہئے جو ان جیسے اہم ترین فقہی مسائل پر نئے اور ترقی یافتہ علمی معیار پر بحث و تحقیق کرے ،تاکہ اسلامی نظام کو بالکل خالص اور علمی شکل میں پیش کرنے اور اسے زمین پر نافذ کرنے کی بے لاگ جد و جہد کی جاسکے۔
کتاب میں ایک جگہ مذکور ہے کہ حضرت نوح بڑھئی تھے، اور حضرت داؤد لوہار تھے ، جو محل نظر ہے ۔
ان سب باتوں کے باوصف کتاب اپنے مشمولات کے اعتبار سے بہت ہی جامع اور وقت کی ایک اہم ترین ضرورت ہے، گرچہ اس پر مزید کام کی ضرورت ہے۔
کتاب کا اردو ترجمہ جناب طفیل انصاری صاحب نے کیا ہے جس کی طباعت منشورات کے تحت عمل میں آئی ہے۔ ترجمہ میں ترجمہ کی غلطیاں بہت ہیں، زبان و بیان اور اسلوب کی غلطیاں اس کے علاوہ ہیں۔ عربی اشعار جہاں جہاں آئے ہیں عموما بے سر پیر کا ترجمہ ہوا ہے، بلکہ بعض مقامات پر ترجمے اور شعر کا کوئی تعلق ہی نہیں ہے، ملاحظہ ہوصفحہ ۲۲۵ ؍، ۲۲۶؍ وغیرہ ۔
الفاظ کا استعمال بعض جگہوں پر بہت ہی بے ڈھب اور بے محل ہوا ہے مثلا موثر مہمیز ۱۸؍، مکمل حرمت فکر ۲۱؍، صفحہ ۳۳ کا پہلا پیرا گراف پورا خلاف عبارت ہے، لیلائے حریت کا وصال ۲۰۹؍، صفحہ ۲۱۱؍ کی آخری سطریں ، اسی طرح الکتب الدوریۃ و غیرالدوریۃ کا ترجمہ ملکی و غیر ملکی کتابیں کیا ہے ، ہم اس نسل کی صحیح اسلامی اور ہمہ گیر تعمیر ایک تحریک برپا کریں گے، کامیابی سے کنارہ ہونا، حکومت سے برطرف کرنے کامسند اقدار سے ہٹھانا۔ علمی اعتکاف، مطمع نظر ، صا حب فضل واعظین وغیرہ۔ پروف ریڈنگ کی غلطیاں بھی شمار سے باہر ہیں۔ واقعہ یہ ہے کہ کتاب کا ترجمہ از سر نو محنت چاہتا ہے ۔
مصنف: علامہ یوسف القر ضاوی
مترجم: طفیل انصاری
ناشر: منشورات۔ نئی دہلی
مبصر: ذوالقرنین حیدر سبحانی