رمضان المبارک کے آتے ہی فضا میں خوشی کی ایک لہر دوڑ جاتی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ مہینہ نیکیوں کی بہار کا مہینہ ہے۔ یہ مہینہ ہماری تربیت کے لیے آتا ہے۔ اس مہینہ میں اگر اپنی تربیت کی طرف پوری توجہ دی جائے تو پھر اس کے اچھے اثرات سال بھر نمایاں طور پر باقی رہیں گے۔
اس دنیا میں انسان کے بھٹکنے اور بے راہ روی اختیار کرنے کے مواقع ہر جگہ پائے جاتے ہیں۔ اس کی اشد ضرورت ہے کہ آدمی اپنی تربیت اور تعمیر سیرت کی طرف خصوصی توجہ صرف کرے۔ اور وہ اس کی طرف سے ہرگز غافل نہ ہو۔ اس تربیت کی اہمیت کے پیش نظر قرآن نے رمضان کا پورا ایک مہینہ اس کے لیے مخصوص کردیا ہے، قرآن مجید میں ہے: یَا أَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُواْ کُتِبَ عَلَیْْکُمُ الصِّیَامُ کَمَا کُتِبَ عَلَی الَّذِیْنَ مِن قَبْلِکُمْ لَعَلَّکُمْ تَتَّقُون۔ترجمہ: ’’اے ایمان لانے والو! تم پر روزے فرض کیے گئے ہیں جیسے تم سے پہلے لوگوں پر فرض کیے گئے تاکہ تم تقوی حاصل کرو‘‘۔
اس سے معلوم ہوا کہ قرآن سے پہلے بھی لوگوں پر روزہ رکھنا فرض کیا گیا تھا۔ یہ روزہ جہاں ایک مقدس عبادت ہے وہیں یہ ہماری اخلاقی وروحانی تربیت کا بہترین ذریعہ بھی ہے۔
روزہ سے مقصود یہ ہے کہ ہمارے اندر تقوی کی صفت پیدا ہو۔ ہم بے لگام نہ ہوں۔ خدا کی عظمت ہمارے پیش نظر رہے۔ ہم خود کو غیر ذمہ دار نہیں بلکہ خدا کے آگے جوابدہ سمجھنے لگ جائیں۔ اور زندگی کے کسی معاملہ میں بھی ہم وہ رویہ اختیار نہ کریں جو غلط،بے انصافی اور ظلم پر مبنی ہو۔ صاحب تقوی کا مطلب ہے: God Conscious یعنی جس کا دل کسی آن اپنے خالق ومالک کے احساس وخیال سے کبھی خالی نہ ہو، بلکہ یہ خیال واحساس بڑھتا ہی چلا جائے۔
اپنی زندگی میں آدمی کوئی نہ کوئی اچھا یا برا کردار لازماََ ادا کرتا ہے۔ ہماری زندگی کس کردار کی حامل ہو اور ہماری سیرت کیسی ہو؟ اس سلسلے میں قرآن پاک نے ہماری پوری رہنمائی کی ہے۔ اعلی کردار کے بغیر شخصیت کی تکمیل (Perfection of Personality) ممکن نہیں۔ قرآن کے مطالعہ سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ شخصیت کی تکمیل یا روح کی بالیدگی ہی مذہب کی تعلیمات اور شریعت کے احکام کا اصل مقصد ہے۔ اسی چیز کو قرآن نے تزکیہ سے تعبیر کیا ہے۔ اور بتایا ہے کہ رسول کی اصل ذمہ داری یہ ہے کہ وہ تلاوت آیات الٰہی اور احکام وحکمت کی تعلیم کے ذریعے سے لوگوں کا تزکیہ کرے۔ یعنی ان کی شخصیتوں کو نکھارے اور بالیدگی عطا کرے۔ خدا کے رسولؐ نے خود بھی صاف لفظوں میں فرمایا: انما بعثت لاتمم مکارم الاخلاق، یعنی ’’میں صرف اس لیے بھیجا گیا ہوں کہ اخلاقی خوبیوں کو درجۂ تکمیل تک پہنچا دوں‘‘۔
آدمی اخلاق وکردار کے لحاظ سے بلند نہیں ہوسکتا جب تک کہ وہ یہ نہ سمجھ لے کہ مادہ اور مادی افادیت ہی زندگی میں سب کچھ نہیں ہے، بلکہ اس کی نگاہ اصلاََ خدائے بزرگ وبرتر کی اس ذات پر ہو جس نے مادی ضروریات کا سامان بھی فراہم کیا ہے ۔ لیکن وہ نہیں چاہتا کہ ہم عیش چند روزہ کو اتنی زیادہ اہمیت دینے لگ جائیں کہ زندگی کی اعلیٰ حقیقتوں اور زندگی کی اعلیٰ ضرورتوں سے بالکل بے خبر ہوکر رہ جائیں۔
روزے میں آدمی سحر کے وقت سے لے کر سورج غروب ہونے تک کھانے پینے اور جنسی خواہشات کے پورا کرنے سے رُکا رہتا ہے۔ لیکن اپنی روح کے لحاظ سے جس چیز کا نام روزہ ہے وہ یہ ہے کہ آدمی اس حقیقت کو دیکھ لے جس کو دنیا پرست لوگوں کی نگاہیں دیکھنے سے قاصر رہتی ہیں۔ اسے اپنی خواہشات پر قابو ہو۔ روزہ کے لیے عربی میں صوم کا لفظ آتا ہے۔ صوم کے اصل معنیٰ کسی کام سے رُک جانے کے ہیں۔ تھمی ہوئی ہوا، اور دوپہر کے وقت کو بھی صوم کہتے ہیں، اس تصور کے ساتھ کہ سورج وسط آسمان میں رُک جاتا ہے۔ روزہ سے مطلوب صرف یہی نہیں ہے کہ روزے کی حالت میں کھانے پینے اور جنسی خواہشات کو پورا کرنے سے اپنے کو روکے رکھے۔ کھانے پینے سے تو صرف روزے کی حالت میں باز رہے لیکن گناہ اور ہر ناپسندیدہ طرز عمل سے ہمیشہ کے لیے باز آجائے۔ کھانے پینے کی طلب اور جنسی خواہش کوئی نامحمود خواہش نہیں ہے۔ یہ طلب اور خواہش تو خدا نے خود ہمارے اندر رکھی ہے۔ ان کو ختم کردینا، یا ان کا استیصال مقصود نہیں ہے۔ مقصود صرف یہ ہے کہ ان خواہشات کو بے قید نہ رکھا جائے بلکہ ان کو حدود اور ضابطے کا پابند بنایا جائے۔ ورنہ سوسائٹی فساد اور بگاڑ سے بھر جائے گی اور انسان خود اپنی قدروقیمت کو فراموش کربیٹھے گا۔ روزے کی حالت میں آدمی حلال کھانے بھی نہیں کھاتا، عام حالات میں وہ کھانا کھائے مگر وہ حرام کمائی کا نہ ہو۔ اس کے اندر توانائی تو ہو مگر زندگی کی ہوسناکیوں کی نذر ہوکر نہ رہ جائے۔ منہ میں زبان تو ہو مگر وہ دروغ گو نہ ہو۔ اس کے پاس آنکھیں تو ہوں مگر عفیف ہوں۔ زندگی سے فرار تو اختیار نہ کرے مگر زندگی اس کی پاکیزگی کی آئینہ دار ہو۔
روزہ بتاتا ہے کہ صرف جسمانی ضرورتوں سے ہی زندگی وابستہ نہیں ہے۔ زندگی میں اور بھی کچھ چیزیں ہیں جو ہماری توجہ کی مستحق ہیں۔ روزہ بندے کو خدا کی طرف اور زندگی کے اعلی مقاصد اور اعلی کیفیات کی طرف متوجہ کرتا ہے، جن کے حصول کے بغیر عام حیوانات اور انسانوں کے درمیان حقیقی امتیاز قائم نہیں ہوسکتا۔
روزے دار ایک طرح سے اپنے آپ کو خدا کے لیے زیادہ سے زیادہ فارغ کرتا ہے۔ وہ کامل طور پر خدا کی طرف متوجہ ہونے کی کوشش کرتا ہے۔ اس لحاظ سے اعتکاف اور روزے کے درمیان بڑی مناسبت اور مشابہت پائی جاتی ہے۔ اسی لیے رمضان کے آخری دنوں میں اعتکاف کو پسند فرمایا گیا ہے، خود نبی صلی اللہ علیہ وسلم رمضان کے آخری دس روز اعتکاف میں گزارتے تھے۔
پھر روزے کے ذریعے سے آدمی کے اندر ایک خاص صفت پیدا ہوجاتی ہے، جسے ہم صبروعزیمت کی صفت کہتے ہیں۔ اس صفت کے بغیر کسی اعلیٰ کردار کا تصور نہیں کیا جاسکتا۔ اور نہ اس کے بغیر دنیا میں کوئی بڑا کارنامہ انجام دیا جاسکتا ہے۔ رمضان میں مسلسل ایک مہینہ تک صبروضبط اور خدا کی اطاعت وفرمانبرداری کی عملی مشق کرائی جاتی ہے۔ اسی لیے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے رمضان کے بارے میں فرمایا: ھو شہر الصبر۔یعنی وہ صبر کا مہینہ ہے۔
روزہ ہمیں غریبوں کی تکلیف اور ان کی بھوک اور بے بسی کا احساس دلاتا ہے۔ اور ہمیں اس بات پر ابھارتا ہے کہ ہم کسی کو پریشان حالی میں نہ چھوڑیں۔ ضرورتمندوں کے ساتھ ہمدردی سے پیش آئیں۔ غمزدہ لوگوں کی غم خواری کو اپنا فرض سمجھیں۔ اسی لیے رمضان کے بارے میں آپ کا یہ ارشاد بھی ہے: ھو شہر المواساۃ۔ یعنی وہ غم خواری اور ہمدردی کا مہینہ ہے۔
روزہ اظہار شکر بھی ہے۔ روزہ رکھ کر بندہ اس بات کا اظہار کرتا ہے کہ وہ خدا کو فراموش نہیں کرسکتا۔ وہ دنیا کی ساری ہی لذتوں کو فراموش کرسکتا ہے لیکن کسی حال میں بھی اپنے محسن حقیقی کو فراموش نہیں کرسکتا۔ ہم جانتے ہیں کہ زندگی کی آبرو تعلق باللہ ہے۔ خدا سے تعلق نہ ہو تو زندگی بے وقعت اور بے نور وبے رونق ہوجاتی ہے۔ جس طرح دین آفاقیت کے بغیر ناقص رہتا ہے ٹھیک اسی طرح حیات دوام کے تصور کے بغیر بے معنی ہو کر رہ جاتی ہے۔ خدا سرچشمۂ حیات ہے۔ وہ ہمیں حیات دائمی کی بشارت دیتا ہے۔ خدا کا سب سے بڑا احسان انسانیت پر یہ ہے کہ اس نے سارے انسانوں کی رہنمائی کے لیے قرآن جیسی کتاب اُتاری۔ قرآن کے نزول کا مقصد یہ ہے کہ انسان خدا کی بڑائی تسلیم کرے۔ روزے کا بھی ایک اہم مقصد یہ ہے: لتکبروا اللہ، ’’تاکہ تم اللہ کی بڑائی کرو‘‘۔ روزہ رکھ کر بندہ خدا کی بڑائی کے آگے سر جھکا دیتا ہے۔ دنیا میں خدا کی بڑائی قائم ہو، وہ اس کا خواستگار ہوتا ہے۔ روزہ دار شخص بھوک پیاس برداشت کرلیتا ہے لیکن خد اکے حکم کی خلاف ورزی نہیں کرتا۔ وہ جانتا ہے کہ وہ اپنے کسی فعل وحرکت کو خدا سے نہیں چھپا سکتا۔
اس طرح روزہ رکھ کر وہ اس احساس کو زندہ رکھتا ہے کہ اس کا خدا اس سے کہیں دور ہرگز نہیں ہے۔ اس کی موجودگی کا شعور اس کے اندر کتنے ہی نازک احساسات کو بیدار کرتا ہے اور اس کا دل خشیت الٰہی سے معمور ہوجاتا ہے۔
رمضان کا مہینہ روزے کے لیے مخصوص کردینے کی وجہ سے سب کو ایک ساتھ روزہ رکھنا پڑتا ہے۔ اس طرح ایک ساتھ مل کر روزہ رکھنے سے پورے ماحول کی فضا بدل جاتی ہے۔ ساری فضا روحانی ہوجاتی ہے۔ کم ہمت اور کمزور ارادے کے آدمی کے لیے بھی نیکی کی راہ اختیار کرنی آسان ہوجاتی ہے۔
حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات اور اسلام کی تعلیمات پر غوروفکر کرنے سے جو چیز ہمارے سامنے آتی ہے وہ یہ ہے کہ خدا کے غضب یا جہنم کی آگ سے آزاد ہونے اور انسان کے نجات یافتہ ہونے کی پہچان اگر کوئی ہے تو یہ ہے کہ آدمی برائیوں سے نجات پالے۔ ظلم وستم سے اپنا ہاتھ روک لے۔ خودغرضی کی لعنت سے اپنے کو دور رکھے۔ خدا کے بندوں کے لیے اس کے اندر نفرت کے بجائے محبت ہو۔ وہ لوگوں کا یارومددگار اور ہمدرد ہو۔ ساری انسانیت کی بہی خواہی اس کے پیش نظر ہو۔ ہر طرح کی تنگ نظری اور تنگ دلی سے اپنے کو پاک رکھے۔ یہی ثبوت ہوگا کہ خدا سے اس کا رشتہ مضبوط ومستحکم ہے۔ اور تقوی اور خداترسی کی زندگی اسے حاصل ہے۔ جو رمضان کی آمد کا خاص مقصد ہے۔
یہ رمضان ہر سال آتا ہے تاکہ ہم اپنی کوتاہیوں کی تلافی کرسکیں اور اپنے اندر تقوی کی صفت زیادہ سے زیادہ پیدا کریں۔ ہم میں سے ہر ایک کو اس کا حریص ہونا چاہئے کہ ہم خدا ترس اور بہترین انسان بن سکیں۔ حسن اخلاق میں جو حسن پایا جاتا ہے وہ کسی پھول میں نہیں پایا جاتا، اور حسن کردار اور حسن عمل میں جو کشش اور جاذبیت پائی جاتی ہے اسے کہیں اور تلاش نہیں کیا جاسکتا۔ قرآن کی اصطلاح میں یہی الحسنۃ ہے۔ اللہ کا ہم سے اصل مطالبہ بھی اسی کا ہے۔ اس کی پاکی اور قدوسیت کا تقاضا ہم سے یہی ہونا بھی چاہئے تھا۔ رمضان کا مہینہ اسی لیے آتا ہے کہ اس مہینے میں اس مطلوب شئے کے حصول کے لیے ہم خاص طور سے کوشش کریں۔
مولانا محمد فاروق خاں، معروف اسلامی دانشور ومفسر قرآن