اخلاق کی تعمیر قرآن کے سائے میں

اشہد شیرازی

اخلاق حسنہ کے ایسے حیرت انگیز اور دلآویز نمونے کہ جن سے آراستہ ہوکر قرن اول کے مسلمان دنیا کی مسندِ قیادت پر متمکن ہوگئے تھے۔

فلسفہ اخلاق اور اس کے تصور و ارتقاء کے بارے میں ابتداء سے لے کر اب تک لوگوں کی مختلف آراء  رہی ہیں اور یہ آراء  اپنے اپنے وقت میں رائج مذہب و فلسفہ ، تہذیب و تمدن اور اجتماعی انسانی شعور کے زیر اثر تبدیل بھی ہوتی رہی ہیں۔ لفظی طور پر دیکھیں تو اخلاق جمع ہے خلق کی ، جس کے معنیٰ ہیں انسانی عادت رویہ اور برتاؤ۔  اسلامی نقطہ نظر سے دیکھیں تو اخلاق دراصل نام ہے ان اچھائیوں اور بھلائیوں سے متصف ہونے کا ، جس  کا تقاضا اللہ نے اپنی کتاب قرآن مجید میں اپنے بندوں سے کیا ہے۔

قرآن کریم رہتی دنیا کے لیے کتاب ہدایت ہے، اس طور پر کہ انسانی زندگی کے ہر انفرادی و اجتماعی مسئلہ کے حل کے سلسلے میں اس میں الہٰی رہنمائی موجود ہے۔ انسانی عادات و رویہ اور اخلاق و معاملات کے ضمن میں جب ہم نبی کریم ﷺ کا اسوہ اپنے سامنے رکھتے ہیں اور اسوہ نبوی کے بارے میں حضرت عائشہؓ کا بیان “کان خلقه القرآن” پر غور کرتے ہیں تو قرآن کریم ہمارے سامنے  اخلاق حسنہ کے وہ بیش قیمت لعل و گہر بکھیرتا ہے کہ ان جواہر پاروں کی چمک دمک سے چشم و دل منور ہوجاتے ہیں۔ اخلاق حسنہ کے ایسے حیرت انگیز اور دلآویز نمونے کہ جن سے آراستہ ہوکر قرن اول کے مسلمان دنیا کی مسندِ قیادت پر متمکن ہوگئے تھے۔ جنہیں اپنی زندگی میں داخل کرکے عرب کے بادیہ پیما و صحرا نشین سطح ارض پر ایک خدا پرست تہذیب و تمدن کے نقشہ گر کے طور پر ابھرے تھے ۔ یہ اس وجہ سے ممکن ہوا تھا کہ ان کا ظاہر و باطن صبغۃ من اللہ کے رنگ میں رنگ چکا تھا، ان کی آنکھیں خدا کے نور سے روشن اور ان کے دل خدا کی محبت سے نرم اور گرم تھے، ان کے بازو توحید کی قوت سے قوی اور ان کے قدم ایمانی صبر و ثبات کی جڑوں میں پیوست تھے، دنیا میں جن کی چلت پھرت خلافت الٰہی کا زندہ ثبوت تھی ۔

بحیثیت مجموعی تو پورا قرآن اخلاقی مضامین کا حسین مرقع ہے لیکن اس مضمون میں میری نظر خصوصیت کے ساتھ صرف ان آیات پر مرکوز ہے جن میں وضاحت کے ساتھ انسانی اعضاء و جوارح سے متعلق اخلاقی ہدایات موجود ہیں ۔ گوکہ اخلاقی تعلیمات امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے دونوں پہلوؤں سے مل کر ہی اپنی نمایاں صورت میں جلوہ گر ہوتی ہیں مگر اختصار کی غرض سے  چند انہی آیات کو پیش نظر رکھا گیا ہے جن میں ایجابی طور پر حسن اخلاق کا درس پایا جاتا ہے۔  باالفاظ دیگر جن میں کسی عادت اور رویہ کو اختیار کرنے کا حکم دیا گیا اور جس کی روشنی میں ایک مثالی مومن کا نقشہ ابھر کر سامنے آتا ہے ۔

مطالعے کا ایک انداز تو یہ ہے کہ اخلاق کے معنوی مفاہیم جیسےرِفق،حلم،صبر،ایثار،قربانی، عفوو درگزر، عفت،اطاعت،شجاعت،سخاوت کو ڈسکس کرتے ہوئے ظاہر کو اس کے مطابق ڈھالنے کی کوشش کی جائے اور مطالعے کا ایک انداز یہ بھی ہے کہ انسانی وجود کے ظاہر پر بحث کرتے ہوئے معنی کو اس پر منطبق کرنے کی کوشش کی جائے۔ طریقۂ بحث جو بھی ہو نتیجہ بحث ایک ہے ۔ زیرِ نظر مضمون میں اسی مؤخر الذکر طریقہ کو اختیار کیا گیا ہے۔ظاہر ہے کہ یہ طریقۂ فکر انسانی اخلاق کی تعمیر کے حوالے سے قرآنی آیات پر غور و فکر کا محض ایک محدود انداز ہے جس کے اختصار میں قرآن کی تمام تر اخلاقی تعلیمات کا شامل ہونا مشکل ہے، اس طریقے میں ایک انسان کو سامنے رکھ کر محض اس کے سر سے پیر تک کے متعلق قرآنی احکام کے بیان کے ذریعہ یہ دیکھنے کی کوشش کی گئی ہے کہ ان احکامات کے سانچے میں ڈھل کراخلاق حسنہ سے مزین کیسا مرد مومن ہمارے سامنے آتا ہے۔

 چہرہ : چہرہ انسانی شخصیت کا سب سے نمایاں مظہر ہوتا ہے، بلکہ چہرے سے ہی انسان کی ظاہری شخصیت کی پہچان ہوتی ہے اور یہ چہرہ بھی آنکھ، کان، ناک منھ کی حسن ترتیب کا ایک قدرتی شاہکار ہے۔ یہ انسانی شخصیت کے لیے جتنی بڑی نعمت ہے اتنی ہی بڑی اس پر ذمہ داریاں بھی ہیں۔  درج ذیل آیتوں میں چہرے سے متعلق انہی چند قابل گرفت نزاکتوں اور ایمان کی رو سے اس کی مطلوبہ صفتوں کا بیان ہے۔

 اہل ایمان کے چہرے

مُحَمَّدٌ رَّسُوۡلُ اللّٰهِ ؕ وَالَّذِيۡنَ مَعَهٗۤ اَشِدَّآءُ عَلَى الۡكُفَّارِ رُحَمَآءُ بَيۡنَهُمۡۖ  تَرٰٮهُمۡ رُكَّعًا سُجَّدًا يَّبۡتَغُوۡنَ فَضۡلًا مِّنَ اللّٰهِ وَرِضۡوَانًاۖسِيۡمَاهُمۡ فِىۡ وُجُوۡهِهِمۡ مِّنۡ اَثَرِ السُّجُوۡدِ ؕ

‘محمدؐ اللہ کے رسول ہیں، اور جو لوگ ان کے ساتھ ہیں وہ کفار پر سخت  اور آپس میں رحیم ہیں۔ تم جب دیکھو  گے انہیں رکوع وسجود، اور اللہ کے فضل اور اس کی خوشنودی کی طلب میں مشغول پاؤ گے۔ سجود کے اثرات ان کے چہروں پرموجود ہیں جن سے وہ الگ پہچانے جاتے ہیں’۔ (الفتح: 29)

اہل ایمان دوسروں کے سامنے غرور سے گردن نہیں اکڑاتے۔

وَلَا تُصَعِّرۡ خَدَّكَ لِلنَّاسِ

‘اور لوگوں سے منہ پھیر کر بات نہ کر’۔ (لقمان : 18)

 آنکھیں : آنکھیں انسان کے جذبات و احساسات کا خوبصورت اظہار ہوتی ہیں، بسا اوقات آنکھوں سے وہ جذبات بڑی شائستگی سے ادا ہو جاتے ہیں جن کے بیان سے کبھی زبان بھی قاصر ہوتی ہے۔ ایمان والوں کی آنکھوں سے بھی خدا کی بارگاہ میں خود سپردگی جھلکتی ہے۔ اہل ایمان کی آنکھیں حب الہی اور خوف الہی کے احساس سے تر ہوجاتی ہیں۔

وَاِذَا سَمِعُوۡا مَاۤ اُنۡزِلَ اِلَى الرَّسُوۡلِ تَرٰٓى اَعۡيُنَهُمۡ تَفِيۡضُ مِنَ الدَّمۡعِ مِمَّا عَرَفُوۡا مِنَ الۡحَـقِّۚ يَقُوۡلُوۡنَ رَبَّنَاۤ اٰمَنَّا فَاكۡتُبۡنَا مَعَ الشّٰهِدِيۡنَ‏ ۞ (المائدہ : 83)

‘جب وہ اس کلام کو سنتے ہیں جو رسول پر اترا ہے تو تم دیکھتے ہو کہ حق شناسی کے اثر سے اُن کی آنکھیں آنسوؤں سے تر ہو جاتی ہیں وہ بول اٹھتے ہیں کہ “پروردگار! ہم ایمان لائے، ہمارا نام گواہی دینے والوں میں لکھ لے”۔ ‘

اہل ایمان اپنی آنکھوں کی حفاظت کرتے ہیں:

قُلْ لِّـلۡمُؤۡمِنِيۡنَ يَغُـضُّوۡا مِنۡ اَبۡصَارِهِمۡ وَيَحۡفَظُوۡا فُرُوۡجَهُمۡ ؕ ذٰ لِكَ اَزۡكٰى لَهُمۡ ؕ اِنَّ اللّٰهَ خَبِيۡرٌۢ بِمَا يَصۡنَـعُوۡنَ ۞

‘اے نبیؐ ، مومن مردوں سے کہو کہ اپنی نظریں بچا کر رکھیں  اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کریں،  یہ  اُن کے لیے زیادہ پاکیزہ طریقہ ہے، جو کچھ وہ کرتے ہیں اللہ اُس سے باخبر رہتا ہے’۔(النور: 30)

یہ سوچ کر وہ خدا کا خوف کھاتے ہیں کہ وہ آنکھوں کی خیانتوں کو جانتا ہے :

يَعۡلَمُ خَآئِنَةَ الۡاَعۡيُنِ وَمَا تُخۡفِى الصُّدُوۡرُ ۞

‘اللہ نگاہوں کی چوری تک سے واقف ہے اور وہ راز  تک جانتا ہے جو سینوں نے چھُپا رکھے ہیں'(غافر : 19)

 منھ سے نکلنے والی باتیں : مخاطب پر انسان کے منھ سے نکلنے والی باتوں کا بہت اہم اثر ہوتا ہے، باتیں دل کو توڑ بھی دیتی ہیں اور ٹوٹا ہوا دل جوڑ بھی دیتی ہیں، مشہور مقولہ ہے کہ تلوار کے زخم بھر جاتے ہیں مگر زبان کے دیے ہوئے زخم نہیں بھرتے۔

 اہل ایمان ہمیشہ منھ سے اچھی باتیں ہی نکالتے ہیں:

وَقُوۡلُوۡا لِلنَّاسِ حُسۡنًا

‘ اور لوگوں سے بھلی بات کہنا'(البقرہ : 79)

اہل ایمان اللہ سے ڈرتے ہیں اور درست بات پیش کرتے ہیں

 ۖفَلۡيَتَّقُوا اللّٰه وَلۡيَقُوۡلُوا قَوۡلًا سَدِيۡدًا‏ ۞

‘انہیں چاہیے کہ وہ اللہ سے ڈریں اور راستی کی بات کریں ‘(النساء : 4)

يٰۤـاَيُّهَا الَّذِيۡنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰهَ وَقُوۡلُوۡا قَوۡلًا سَدِيۡدًا ۞

‘اے ایمان لانے والو، اللہ سے ڈرو اور ٹھیک بات کیا کرو’۔ (احزاب:70)

 بندہ مومن اپنی آواز پست رکھتا ہے ،وہ دوسروں سے چیخ چلا کر بدتمیزی سے بات نہیں کرتا۔

وَاغۡضُضۡ مِنۡ صَوۡتِكَؕ اِنَّ اَنۡكَرَ الۡاَصۡوَاتِ لَصَوۡت اور ُ الۡحَمِيۡرِ  ۞

‘اور اپنی آواز ذراپست رکھ، سب آوازوں سے زیادہ بری آواز گدھوں کی آواز ہوتی ہے’۔  

انہیں ہمیشہ اس بات کا احساس رہتا ہے کہ وہ جو کچھ بھی اپنے منھ سے نکال رہے ہیں وہ سب خدا کے رجسٹر میں لکھا جا رہا ہے۔

مَا يَلۡفِظُ مِنۡ قَوۡلٍ اِلَّا لَدَيۡهِ رَقِيۡبٌ عَتِيۡدٌ ۞

کوئی لفظ اس کی زبان سے نہیں نکلتا جسے محفوظ کرنے کے لیے ایک حاضر  باش نگراں موجود نہ ہو۔(ق : 18)

دل:  دل انسانی اعضاء و جوارح کا نہایت بنیادی اور مرکزی پارٹ ہے ۔ ظاہری اور معنوی دونوں طور پر انسان کے دیگر اعضاء کی سلامتی کا انحصار بھی دل کی سلامتی پر ہے۔ اسی لیے وہ اپنے دل کی راست  روی کے سلسلے میں بھی بہت حساس ہوتے ہیں۔  

رَبَّنَا لَا تُزِغۡ قُلُوۡبَنَا بَعۡدَ اِذۡ هَدَيۡتَنَا وَهَبۡ لَنَا مِنۡ لَّدُنۡكَ رَحۡمَةً  ۚ اِنَّكَ اَنۡتَ االۡوَهَّابُالۡوَهَّابُ ۞

‘ وہ اللہ سے دعا کرتے رہتے ہیں کہ “پروردگار! جب تو ہمیں سیدھے رستہ پر لگا چکا ہے، تو پھر کہیں ہمارے دلوں کو کجی میں مبتلا نہ کر دیجیو ہمیں اپنے خزانہ فیض سے رحمت عطا کر کہ تو ہی فیاض حقیقی ہے”۔'( آل عمران : 8)

ان کے دلوں  کو  سکون ملتا ہے تو بس الله کی یاد سے۔

اَلَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡا وَتَطۡمَئِنُّ قُلُوۡبُهُمۡ بِذِكۡرِ اللّٰهِ ؕ اَلَا بِذِكۡرِ اللّٰهِ تَطۡمَئِنُّ الۡقُلُوۡبُ  ۞

‘اُن کے دلوں کو اللہ کی یاد سے اطمینان نصیب ہوتا ہے خبردار رہو! اللہ کی یاد ہی وہ چیز ہے جس سے دلوں کو اطمینان نصیب ہوا کرتا ہے(الرعد : 28)

ان کے دلوں میں اپنے بھائیوں کے لیے بغض اور کینہ نہیں ہوتا، ان کے دل اپنے ایمانی بھائیوں کے لیے نرم ہوتے ہیں ۔

فَبِمَا رَحۡمَةٍ مِّنَ اللّٰهِ لِنۡتَ لَهُمۡۚ وَلَوۡ كُنۡتَ فَظًّا غَلِيۡظَ الۡقَلۡبِ لَانْفَضُّوۡا مِنۡ حَوۡلِكَ ۖ …۞

‘(اے پیغمبرؐ) یہ اللہ کی بڑی رحمت ہے کہ تم اِن لوگوں کے لیے بہت نرم مزاج واقع ہوئے ہو ورنہ اگر کہیں تم تند خو اور سنگ دل ہوتے تو یہ سب تمہارے گردو پیش سے چھٹ جاتے۔’

ان کے دل میں اللہ کے سوا اور کسی کی ہیبت نہیں ہوتی، نصیحت اور یاد دہانی حاصل کرنے کے لیے ان کے دل ہمیشہ آمادہ رہتے ہیں، خدا کو یاد کرکے ان کے دل لرز اٹھتے ہیں۔

اِنَّمَا الۡمُؤۡمِنُوۡنَ الَّذِيۡنَ اِذَا ذُكِرَ اللّٰهُ وَجِلَتۡ قُلُوۡبُهُمۡ وَاِذَا تُلِيَتۡ عَلَيۡهِمۡ اٰيٰتُهٗ زَادَتۡهُمۡ اِيۡمَانًا وَّعَلٰى رَبِّهِمۡ يَتَوَكَّلُوۡنَ ۞

‘سچے اہلِ ایمان تو وہ لوگ ہیں جن کے دل اللہ کا ذکر سُن کرلرز جاتے ہیں اور جب اللہ کی آیات ان کے سامنے پڑھی جاتی ہیں تو ان کا ایمان بڑھ جاتا ہے، اور وہ اپنے ربّ پر اعتماد رکھتے ہیں'(الانفال: 2)

ہاتھ اور بازو : ان کے بازوؤں کی قوت اور ان کے شانوں کی مضبوطی ذاتی کبر و غرور کا سبب نہیں بنتی بلکہ طاقت و قوت کے یہ مراکز بھی حکم الہی کے سامنے سر بسجود ہوتے ہیں، وہ خدا کے خوف سے کسی پر دست درازی سے پرہیز کرتے ہیں۔

 لَئِنۡۢ بَسَطْتَّ اِلَىَّ يَدَكَ لِتَقۡتُلَنِىۡ مَاۤ اَنَا بِبَاسِطٍ يَّدِىَ اِلَيۡكَ لِاَقۡتُلَكَ ۚ اِنِّىۡۤ اَخَافُ اللّٰهَ رَبَّ الۡعٰلَمِيۡنَ‏ ۞

‘اگرتُو مجھے قتل کرنے کے لیے ہاتھ اُٹھائے گا تو میں تجھے قتل کرنے کے لیے ہاتھ نہ اُٹھاوٴں گا، میں اللہ ربّ العا لمین سے ڈرتا ہوں۔

وہ ہاتھوں کے سخی ہوتے ہیں اور اپنے ہاتھوں اپنے آپ کو نقصان پہنچانے والی عادت نہیں اختیار کرتے ۔

وَاَنۡفِقُوۡا فِىۡ سَبِيۡلِ اللّٰهِ وَلَا تُلۡقُوۡا بِاَيۡدِيۡكُمۡ اِلَى التَّهۡلُكَةِ ۖ۔۔۔۔۞

‘اللہ کی راہ میں خرچ کرو اور اپنے آپ کو ہلاکت میں نہ ڈالو’۔(البقرہ : 95)

لَا تَمُدَّنَّ عَيۡنَيۡكَ اِلٰى مَا مَتَّعۡنَا بِهٖۤ اَزۡوَاجًا مِّنۡهُمۡ وَلَا تَحۡزَنۡ عَلَيۡهِمۡ وَاخۡفِضۡ جَنَاحَكَ لِلۡمُؤۡمِنِيۡنَ ۞

‘تم اس متاعِ دُنیا کی طرف آنکھ اُٹھا کر نہ دیکھو جو ہم نے ان میں سے مختلف قسم کے لوگوں کو دے رکھی ہے، اور نہ اِن کے حال پر اپنا دل کُڑھاوٴ۔ انہیں چھوڑ کر ایمان لانے والوں کی طرف جُھکو’۔ (الحجر : 88)

مومن بھائیوں کی تواضع میں بھی ان کے بازو ہمیشہ جھکے ہوئے ہوتے ہیں۔

اوَاخۡفِضۡ جَنَاحَكَ لِمَنِ اتَّبَعَكَ مِنَ الۡمُؤۡمِنِيۡنَۚ‏ ۞

‘اور ایمان لانے والوں میں سے جو لوگ تمہاری پیروی اختیار کریں ان کے ساتھ تواضع سے پیش آؤ ‘۔(الشعراء : 215)

اپنے والدین کے لیے بھی وہ نہایت نرم خو ہوتے ہیں، ان کی محبت میں ان کے لیے اپنی باہیں ہمیشہ وا کیے ہوئے ہوتے ہیں۔

وَاخۡفِضۡ لَهُمَا جَنَاحَ الذُّلِّ مِنَ الرَّحۡمَةِ وَقُلْ رَّبِّ ارۡحَمۡهُمَا كَمَا رَبَّيٰنِىۡ صَغِيۡرًا ۞

اور نرمی و رحم کے ساتھ ان کے سامنے جھک کر رہو، اور دعا کیا کرو کہ “پروردگار، ان پر رحم فرما جس طرح اِنہوں نے رحمت و شفقت کے ساتھ مجھے بچپن میں پالا تھا” (الاسراء :24)

 پیٹھ اور پہلو : وہ محبت الہی سے سرشار ہوتے ہیں انہیں بستر سے زیادہ رب کے حضور سربسجود ہونے میں لطف ملتا ہے۔

تَتَجَافٰى جُنُوۡبُهُمۡ عَنِ الۡمَضَاجِعِ يَدۡعُوۡنَ رَبَّهُمۡ خَوۡفًا وَّطَمَعًا  وَّمِمَّا رَزَقۡنٰهُمۡ يُنۡفِقُوۡنَ ۞

اُن کی پیٹھیں بستروں سے الگ رہتی ہیں، اپنے ربّ کو خوف اور طمع کے ساتھ پُکارتے ہیں  ، اور جو کچھ رزق ہم نے انہیں دیا ہے اس میں سے خرچ کرتے ہیں۔ (السجدہ : 16)

 شرم گاہ کی حفاظت : وہ اسلام کے معاشرتی اصولوں کا سختی سے التزام کرتے ہیں،  وہ جنسی بے راہ روی کا شکار نہیں ہوتے کہ جنسی بے اعتدالیوں ہی کی وجہ سے معاشرے میں فساد پنپتا ہے۔

وَ الَّذِیْنَ هُمْ لِفُرُوْجِهِمْ حٰفِظُوْنَ * اِلَّا عَلٰۤى اَزْوَاجِهِمْ اَوْ مَا مَلَكَتْ اَیْمَانُهُمْ فَاِنَّهُمْ غَیْرُ مَلُوْمِیْنَ

وہ اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کرتے ہیں سوائےاپنی بیویوں کے اور ان عورتوں کے جو ان کے ملک یمین میں ہوں کہ ان پر ( محفوظ نہ رکھنے میں) وہ قابل ملامت نہیں ہیں- (المومنون :6-7)

وَيَحۡفَظُوۡا فُرُوۡجَهُمۡ ؕ ذٰ لِكَ اَزۡكٰى لَهُمۡ

اور یہ کہ اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کریں،  یہ  اُن کے لیے زیادہ پاکیزہ طریقہ ہے (النور :30)

 چلنے کا طریقہ : لوگوں کے چلنے کے انداز سے بھی ان کی شخصیت کا پتہ چلتا ہے، اہل ایمان کے چلنے میں بھی خدا کی بندگی کا اظہار ہوتا ہے، اللہ کے جاہ و جلال سے آشنا مرد مومن کبھی بھی خدا کی زمین پر تکبر کرتا ہوا،اتراتا ہوا اکڑ کر نہیں چل سکتا ۔

وَلَا تَمۡشِ فِى الۡاَرۡضِ مَرَحًا ‌ؕ اِنَّ اللّٰهَ لَا يُحِبُّ كُلَّ مُخۡتَالٍ فَخُوۡرٍۚ ۞

‘زمین میں اکڑ کر نہ چل ، اللہ کسی خود پسند اور فخر جتانے والے شخص کو پسند نہیں کرتا’۔ (لقمان :18)

وَعِبَادُ الرَّحۡمٰنِ الَّذِيۡنَ يَمۡشُوۡنَ عَلَى الۡاَرۡضِ هَوۡنًا وَّاِذَا خَاطَبَهُمُ الۡجٰهِلُوۡنَ قَالُوۡا سَلٰمًا ۞

‘رحمٰن کے (اصلی )بندے  وہ ہیں جو زمین پر نرم چال چلتے ہیں  اور جاہل ان کے مُنہ آئیں تو  کہہ دیتے ہیں کہ تم کو سلام’۔(الفرقان :63)

 اور آخر میں ہمیشہ ان کے دل اس دن کے احساس سے لرزہ براندام رہتے ہیں جس دن خود انسانوں کے جسم کے ایک ایک عضو کو بارگاہ رب میں اذن کلام حاصل ہوا ہوگا۔

يَّوۡمَ تَشۡهَدُ عَلَيۡهِمۡ اَلۡسِنَـتُهُمۡ وَاَيۡدِيۡهِمۡ وَاَرۡجُلُهُمۡ بِمَا كَانُوۡا يَعۡمَلُوۡنَ ۞

‘وہ اس دن کو بھُول نہ جائیں جبکہ ان کی اپنی زبانیں اور ان کے  اپنے ہاتھ پاوٴں ان کے کرتُوتوں کی گواہی دیں گے ‘۔(النور :24)

اَلۡيَوۡمَ نَخۡتِمُ عَلٰٓى اَفۡوَاهِهِمۡ وَتُكَلِّمُنَاۤ اَيۡدِيۡهِمۡ وَتَشۡهَدُ اَرۡجُلُهُمۡ بِمَا كَانُوۡا يَكۡسِبُوۡنَ‏ ۞

‘آج ہم اِن کے منہ بند کیے دیتے ہیں ، اِن کے ہاتھ ہم سے بولیں گے اور ان کے پاوٴں گواہی دیں گے کہ یہ دنیا میں کیا کمائی کرتے رہے ہیں’۔ (یٰس:  65)

حَتّٰٓى اِذَا مَا جَآءُوۡهَا شَهِدَ عَلَيۡهِمۡ سَمۡعُهُمۡ وَاَبۡصَارُهُمۡ وَجُلُوۡدُهُمۡ بِمَا كَانُوۡا يَعۡمَلُوۡنَ ۞

‘پھر جب سب وہاں پہنچ جائیں گے تو ان کے کان اور ان کی آنکھیں اور ان کے جسم کی کھالیں ان پر گواہی دیں گی کہ وہ دنیا میں کیا کچھ کرتے رہے ہیں’۔(فصلت :20)

قرآن کریم کی یہ وہ نمایاں آیتیں ہیں جن کے مطالعے سے ایک مرد مومن کے تعمیرِ اخلاق کا قرآنی نقشہ سامنے آتا ہے،ایک مثالی مومن کا دلکش و دلآویز سراپا نگاہوں میں کھنچ جاتا ہے ۔معاشرے میں قرآنی کردار کا چلتا پھرتا عکس نظر آتا ہے۔ یہی وہ صفات ہیں جو رب کو اپنے بندوں سے مطلوب ہیں، یہی وہ اخلاق ہیں جن میں خدا اپنے بندوں کو ڈھلا ہوا دیکھنا چاہتا ہے۔ یہی وہ کردار ہے جسے اختیار کر لینے کے بعد مومنوں پر آسمان و زمین کی برکتیں نازل ہوتی ہیں۔

حالیہ شمارے

عام انتخابات کے نتائج 2024 – مستقبل کی راہیں

شمارہ پڑھیں

براہیمی نظر پیدا مگر مشکل سے ہوتی ہے

شمارہ پڑھیں