ایسا ہوتا ہے کہ دین میں گنجائش ہوتی ہے، لیکن خود اپنی نظر کی کوتاہی، علم کی کمی اور دل میں تنگی کی وجہ سے لوگوں کو لگتا ہے کہ دین میں تنگی ہے، اس کی ایک مثال اختلاف تنوع والے مسائل ہیں۔
شریعت کے کسی عمل کو مختلف لوگ الگ الگ طریقوں سے انجام دیتے ہوں، اور شریعت میں ان سب طریقوں کی اجازت اور گنجائش بھی موجود ہو تو اسے تنوع کا اختلاف کہتے ہیں۔ اختلاف تنوع کی صورت میں ہر ایک اپنے پسندیدہ طریقے پر عمل کررہا ہوتا ہے، مگر کوئی غلطی پر نہیں ہوتا ہے، بلکہ سب اپنی اپنی جگہ درست ہوتے ہیں، اور سب کے درست ہونے کو سب لوگ تسلیم کررہے ہوتے ہیں۔ بس اسی کیفیت کا نام اختلاف تنوع ہے۔
شریعت کے اندر یہ گنجائش لوگوں کی آسانی کے لیے ہوتی ہے، اس میں بڑی حکمتیں پنہاں ہیں، اور اس گنجائش کے برقرار رہنے میں ہی خیر وبرکت ہے، لیکن کبھی ایسا ہوتا ہے کہ کسی ایک طریقے سے آدمی مانوس ہوجاتا ہے اور پھر باقی طریقوں کے لیے اس کے دل میں گنجائش ختم ہوجاتی ہے، اس کے اپنے اسباب ہیں، عبرت کی بات یہ ہے کہ گنجائش آدمی کے دل میں نہیں ہوتی ہے، اور وہ یہ سمجھتا رہتا ہے اور اس کے سخت گیر رویے سے لوگ بھی یہ سمجھتے ہیں کہ دین میں گنجائش نہیں ہے، حالانکہ دین میں تو گنجائش ہوتی ہے مگر دل میں گنجائش نہیں ہوتی ہے۔
دل کی اس تنگی کی بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ آدمی کی نظر سے وہ دلیلیں اوجھل ہوجاتی ہیں جن سے وہ سارے طریقے ثابت ہوتے ہیں، اور سامنے بس وہ دلیل رہ جاتی ہے جس سے اس کا پسندیدہ طریقہ ثابت ہوتا ہے۔ افسوسناک بات یہ ہے کہ ہم نے اختلاف تنوع کے اہم ترین سبق کو یکسر بھلادیا ہے، اور تنوع والے اختلافات کو تضاد والا اختلاف بنا ڈالا ہے۔ ہم اس بارے میں سلف صالحین کی روش کو بھی یکسر بھول گئے ہیں، اور ان سے مختلف راستے پر چل پڑے ہیں، ہم یہاں علمائے سلف کے حوالے سے اختلاف تنوع کی کچھ مثالیں ذکر کریں گے، مقصد بھولے ہوئے سبق کو یاد دلانا ہے۔
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے پوچھا گیا کہ قنوت رکوع سے پہلے ہے یا رکوع کے بعد، آپ نے جواب دیا، ہم ان سب طریقوں پر عمل کیا کرتے تھے۔
حالت قیام میں ہاتھ ناف کے نیچے رکھنا ہیں یا ناف کے اوپر اس بارے میں امام احمد اور امام ابن المنذر کی رائے ہے کہ چاہیں تو ناف کے نیچے رکھ لیں اور چاہیں تو ناف کے اوپر رکھ لیں۔
رکوع کے بعد دونوں ہاتھ باندھنا ہیں یا چھوڑنا ہیں، اس کے بارے میں امام احمد بن حنبل نے کہا جو ہاتھ باندھنا چاہے وہ باندھ لے اور جو چھوڑنا چاہے وہ چھوڑ دے۔
سجدے میں جاتے ہوئے پہلے گھٹنے زمین پر رکھنے ہیں یا پہلے ہاتھ زمین پر رکھنے ہیں، اس کے بارے میں امام مالک، امام نووی اور امام ابن تیمیہ کہتے ہیں کہ دونوں عمل درست ہیں۔
اقامت ہو تو کب اٹھنا ہے، اس بارے میں امام مالک کہتے ہیں کہ اس کا کوئی متعین وقت نہیں ہے، جب جو چاہے اٹھ سکتا ہے۔
نماز میں بسم اللہ کیسے پڑھنا ہے، اس بارے میں امام اسحاق کی رائے ہے کہ چاہیں تو آواز کے ساتھ پڑھیں اور چاہیں تو بلا آواز کے پڑھیں۔
اذان اور اقامت کے الفاظ کتنی بار ادا کئے جائیں، اس بارے میں امت میں کئی عمل رائج ہیں، امام ابن سریج کی رائے ہے کہ یہ تمام عمل یکساں طور پر درست ہیں۔
رفع یدین اور آمین بالجہر کے سلسلے میں امام ابن قیم کی رائے ہے کہ یہ سب اختلاف تنوع کی قبیل سے ہے، اور انہیں کرنا اور نہیں کرنا دونوں درست ہے۔
تکبیر تحریمہ کے وقت ہاتھ کہاں تک اٹھائے جائیں اس بارے میں امام ابن سریج کہتے ہیں کہ چاہیں تو کندھوں تک اٹھائیں اور چاہیں تو کانوں کی لو تک لے جائیں۔
سجدے کی حالت میں ہاتھ کہاں رکھے جائیں اس بارے میں امام ابن المنذر کہتے ہیں کہ چاہیں تو دونوں ہاتھ کانوں کے مقابل رکھیں اور چاہیں تو کندھوں کے مقابل رکھیں۔
یہ تو چند مثالیں ہیں، ورنہ حقیقت یہ ہے کہ اختلاف تنوع کی بے شمار مثالوں سے پوری شریعت اس طرح آراستہ ہے، جیسے آسمان لاتعداد ستاروں سے جگمگ جگمگ کرتا ہے، فرض نمازوں کے طریقوں میں تو جس قدر اختلاف ہے، درحقیقت تنوع والا ہی اختلاف ہے۔
اختلاف تنوع، دراصل اختلاف نہیں ہے، بلکہ اتحاد واتفاق کی ایک کیفیت ہے، جس میں ایک کام کو کرنے کے متعدد طریقے ہوتے ہیں اور لوگوں میں اس بات پر اتفاق ہوتا ہے کہ یہ سب طریقے درست ہیں۔ اختلاف تنوع اختلاف کی عجیب وغریب قسم ہے، اس کو برقرار رکھیں تو اتحاد کی راہیں کھلتی ہیں، اور اسے ختم کرنے کی کوشش کریں تو افتراق بڑھتا ہے اور اتحاد کے راستے مسدود ہونے لگتے ہیں۔
اسلامی تاریخ کے ایک عظیم مجدد امام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ نے اختلاف تنوع والے مسائل میں کسی ایک رائے کو ہی درست قرار دینے اور اس پر اصرار کرنے کو ممنوع بتایا ہے اور ایسے امور میں شدت پسندی اور لڑائی جھگڑے کو عین حرام قرار دیا ہے۔
اختلاف تنوع دراصل اختلاف نہیں بلکہ اتحاد واتفاق کی ایک حسین شکل ہے، اختلاف تنوع کو قبول کرلینے کے ساتھ ہی ہم اختلاف وانتشار کی ایک بہت ضخیم فائل بند کرسکتے ہیں۔ افسوس کہ صدیوں سے امت کی بے شمار توانائیاں غیر حقیقی اختلافات کی بھاری فائلوں کو ڈھونے میں صرف ہورہی ہیں۔
از: ڈاکٹر محی الدین غازی