ڈائس کی مروجہ شکل دراصل ’’اونچ نیچ تہذیب‘‘ کی یادگار ہے، یہ اس سوچ کا اظہار ہے کہ پنڈال میں موجود کچھ لوگ باقی سب لوگوں سے زیادہ احترام کے مستحق ہیں، چنانچہ ان کو با ادب اور بالقب ڈائس پر بیٹھنے کی دعوت دی جاتی ہے۔ مقرر بھی اپنی تقریر کے آغاز میں ڈائس پر بیٹھے لوگوں کا نام لے کر ان کی عظمت وفوقیت کا اعلان کرتا ہے۔
ڈائس پر بیٹھے ہوئے لوگ عام طور سے خود کو تقریر کا مخاطب نہیں سمجھتے ہیں، اسی لئے مقرر اور لاوڈ اسپیکر دونوں کا رخ ان کی طرف نہیں ہوتا ہے، بلکہ صرف سامعین کی طرف ہوتا ہے، ڈائس کے لوگ تو تمام وقت سامعین سے آنکھیں چرانے یا آنکھیں چار کرنے کی کوشش میں لگے رہتے ہیں، جب وہ اس کام سے اکتا جاتے ہیں، تو آپس میں کھسر پسر شروع کردیتے ہیں، دیکھا دیکھی سامعین بھی آپس میں مصروف ہوجاتے ہیں۔ کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ ڈائس پر تشریف فرما کسی صاحب کو نیند آجاتی ہے، اور ان کی بند آنکھیں اور کھلا ہوا منھ سامعین کو پیغام دیتا ہے کہ وہ بھی نیند کی آغوش میں پناہ لے سکتے ہیں۔
ڈائس پر بیٹھے ہوئے لوگ چونکہ بہت اہم اور مصروف قسم کی مخلوق ہوتے ہیں، اس لئے موبائل فون کی مصروفیت بھی ساتھ رکھتے ہیں، ان کے پاس فائلیں بھی آتی رہتی ہیں، جن پر وہ دستخط فرمایا کرتے ہیں، بعض مطالعہ کے شوقین وقت گزاری کے لئے ڈائس پر کتابیں بھی لے کر آتے ہیں، اور مطالعہ کرتے ہوئے تقریر سے اپنی بے نیازی کا اظہار فرماتے ہیں، ایسا بھی ہوتا ہے کہ مقرر کی کسی بات سے اختلاف ہونے پر ناگواری کا ایک گہرا تاثر ڈائس پر بیٹھے کسی صاحب کے چہرے پر آتا ہے اور تمام سامعین میں پھیل جاتا ہے۔ غرض کافی غور وخوض کے بعد میں اس نتیجے پر پہونچا ہوں کہ ڈائس پر بیٹھے ہوئے لوگ مقرر اور سامعین کو ڈسٹرب کرنے کے سوا کچھ نہیں کرتے ہیں۔
ڈائس پر پانی کی بوتلیں رہتی ہیں اور چائے بسکٹ کا دور بھی گاہے بہ گاہے چلتا رہتا ہے، سامعین کی للچاتی نگاہوں اور پیاسے ہونٹوں سے بے پرواہ ہوکر ڈائس والے تھوڑی تھوڑی دیر میں چسکی بھی لیتے رہتے ہیں، یہ مزے دیکھ کر اگر کسی شخص کے دل میں ڈائس پر بیٹھنے کی خواہش پیدا ہوجائے تو وہ سراسر فطری خواہش قرار پائے گی، لیکن اس کا اختیار صرف منتظمین جلسہ کو ہوتا ہے کہ وہ کس کی خواہش کو تکمیل کا موقعہ دیں۔
ڈائس پر بیٹھ کر خود نمائی کے شوق کو کافی غذا ملتی ہے، ڈائس پر نہیں بیٹھ پانے اور وہاں بیٹھے ہوئے لوگوں کو مسلسل دیکھنے سے دل میں حسرت اور حسد کے جذبات پنپتے کا اندیشہ رہتا ہے۔ چونکہ ڈائس کتنا ہی بڑا ہو، جلسہ گاہ کے برابر نہیں ہوسکتا، اس لئے بہت سارے ’’قائدین‘‘ ناراض بھی ہوجاتے ہیں، کہ پنڈال میں سامعین کے درمیان بٹھاکر ان کی تذلیل کی گئی۔ اس کے لئے بڑے سے بڑا ڈائس بنانے کا تکلف کیا جاتا ہے، حالانکہ اگر ڈائس پر کسی کو نہیں بٹھایا جائے، تو کسی کو ناراضگی نہ ہو، اور بڑے ڈائس پر ہونے والی فضول خرچی سے بھی بچا جاسکے۔
اسلامی تہذیب میں لوگوں کے نفس کو متورم کرنے والے مواقع کی گنجائش نہیں ہوتی ہے، ہر ہر قدم پر خاص اور عام کا فرق جتاکر انسانی قدروں کو پامال نہیں کیا جاتا ہے، اسلامی تہذیب میں ڈائس کی شکل میں خواص کی نمائش نہیں ہوتی ہے، سادہ سا منبر ہوتا ہے، جمعہ کا خطبہ ایک فرد منبر پر کھڑے ہوکر دیتا ہے، اور باقی تمام صرف سامعین ہوتے ہیں، ان میں عام اور خاص کی تقسیم نہیں ہوتی ہے، جو پہلے پہونچتا ہے وہ پہلی صف کا حقدار ہوتا ہے، سب کی توجہ خطیب کی طرف ہوتی ہے، اور خطیب کی توجہ سب کی طرف ہوتی ہے۔ اس طریقے میں کوئی عیب نہیں ہے، اور یہ طریقہ اعلی انسانی اقدار کے مطابق ہے، یاد رہے کہ جدید تمدن نے بھی عام طور سے ’’ڈائس برائے مقرر‘‘ کے اصول کو اپنایا ہوا ہے۔
اس لئے ڈائس پر بیٹھے تمام معزز حضرات سے گذارش ہے کہ سامعین کے درمیان تشریف لائیں، سامعین آپ کا تہ دل سے استقبال کرتے ہیں۔ یا پھر وجہ بتائیں کہ آپ ڈائس پر کیوں بیٹھیں؟؟
ڈاکٹر محی الدین غازی