آئی پی ایل:دولت و ثروت کا کھیل تماشہ

ایڈمن

آئی پی ایل کا جادو فی الحال سر چڑھ کر بول رہا ہے۔ سرمایہ دارانہ نجی کاری (پرائیویٹایزیشن) کے بعد کرکٹ کی جو درگت بنی ہے وہی حال سرمایہ کاروں کے عمل دخل سے ہندوستانی جمہوریت کا ہوا ہے۔ اس…

آئی پی ایل کا جادو فی الحال سر چڑھ کر بول رہا ہے۔ سرمایہ دارانہ نجی کاری (پرائیویٹایزیشن) کے بعد کرکٹ کی جو درگت بنی ہے وہی حال سرمایہ کاروں کے عمل دخل سے ہندوستانی جمہوریت کا ہوا ہے۔ اس سیاسی انقلاب کو سمجھنے کے لیے کرکٹ کی دنیا میں آئی پی ایل کے ذریعہ برپا ہونے والی تبدیلیوں کاادراک کافی ہے۔ چونکہ ان دونوں میدانوں میں آنے والی تبدیلیوں کے پس پشت کارفرما محرکات یکساں ہیں اس لئے نتائج میں بھی کوئی فرق نہیں ہے۔ یکے بعد دیگرے آئی پی ایل کے عہدیداران بدعنوانی کے سنگین الزامات کے تحت رسوا ہو رہے ہیں جس کا موازنہ صرف اور صرف سیاست کے گھناؤنے کھیل سے کیا جاسکتا ہے جو سر سے پیر تک گھوٹالوں کے گندے نالے میں غرق ہے۔ کیا یہ یکسانیت یا مشابہت چونکانے والی نہیں ہے؟
ایک زمانہ وہ تھا جب ایک قومی ٹیم ہوا کرتی تھی جو دوسرے ممالک کی قومی ٹیموں کے ساتھ سال میں دو چار سیریز یا دس بارہ میچ کھیل لیا کرتی تھی۔ اس کے علاوہ مختلف ریاستوں کی ٹیمیں ہوتی تھیں جن میں صوبائی حکومت کی سرپرستی میں کھلاڑیوں کی حوصلہ افزائی کی جاتی اور رنجیت ٹرافی و دلیپ ٹرافی جیسے ٹورنامنٹ ہوتے تھے تاکہ قومی سطح کے اہل کھلاڑیوں کا انتخاب کیا جاسکے۔ کچھ کھلاڑی بینکوں یا ریلوے وغیرہ میں ملازمت بھی کرتے تھے لیکن ان کا تشخص بہرحال ان کے اپنے صوبے یا قوم سے وابستہ تھا۔ لوگ ریڈیو پر کمنٹری سنتے تھے یا اسٹیڈیم میں جاکر میچ دیکھتے تھے۔ اس کے بعد ٹیلی ویڑن کا زمانہ آیا۔ جب تک کہ ایک سرکاری چینل ہوا کرتا تھا کوئی قابلِ ذکر تبدیلی نہیں آئی لیکن پھر نجی چینل میدانِ عمل میں آئے تو ان کی آمد کو بجا طور پرایک خوش آئند تبدیلی گردانا گیا اس لئے کہ ذرائع ابلاغ سرکارکے چنگل سے بظاہرآزاد ہورہے تھے۔
ابتداء میں نجی ٹی وی چینلس نے عوام کواحساس دلایاکہ خود ان کے ووٹ سے عالم وجود میں آنے والی جمہوری حکومت نہ صرف حقائق کی پردہ پوشی کرتی ہے بلکہ نت نئے انداز میں انہیں گمراہ بھی کرتی ہے۔ لوگوں نے سوچا کہ ان نئے چینلس کی بدولت وہ نہ صرف حقیقت سے آگاہ ہوسکیں گے بلکہ سرکاری گمراہی سے نجات پاجائیں گے لیکن عوام کی یہ خوش فہمی بہت جلد دور ہوگئی۔ نجی چینلس کے اوپر سرکار کا سا یہ نہیں تھا لیکن سرکار کا دباؤ ضرور تھا۔ کسی بھی صحافی یا چینل کو معتوب کرنا اور اسے اپنی اطاعت کے لیے مجبور کرنا حکومت کے لیے کوئی مشکل کام نہیں تھا۔ چینل کے مالک کو منہ بولی قیمت پر خرید کر اپنا آلۂ کار بنا لینے میں بھی کوئی دقت نہیں تھی بلکہ یہ حکومت اور سرمایہ داروں کے بائیں ہاتھ کا کھیل تھا۔ اس کام کو سہل بنانے کے لیے ٹی وی چینلس کی نشریات کو مہنگا کیا گیا اور اس کے مالکین کے اندر دولت کی حرص و ہوس کو ہوا دی گئی۔ اس کے بعد جب ان کے آگے دانہ ڈالا گیاتو اپنے آپ صیاد یعنی صحافی سمیت شکار یعنی ناظر دامِ فریب میں گرفتار ہوگیا۔ اس میں شک نہیں کہ یہ حربہ نہایت کامیاب رہا۔ اس کے ذریعہ حکومت کو نیک نامی و شہرت ملی ،سرمایہ دار دولت وثروت سے نوازے گئے اور ناظرین کے حصے میں نام نہاد تفریح ونشاط آئی ۔
اس طرح گویا خبریں اور ان پر ہونے والے تبصرے بھی سامانِ تفریح بن گئے۔ زیادہ سے زیادہ ناظرین کو اپنی جانب متوجہ کرنے کی تگ و دو نے خبروں کی نشریات اور ان پر ہونے والے مباحثوں میں ہیجانیت کے عنصر کو بڑھا دیا اس لئے کہ جس چینل کے ناظرین کی تعداد زیادہ ہوتی تھی اپنے آپ مشتہرین کے اندر اس کے تئیں کشش میں بھی اضافہ ہوجاتا تھا اور وہ کامیابی وکامرانی کے بلند مدارج طے کرتے چلے جاتے تھے۔ اب ذرائع ابلاغ سرکار کے علاوہ ان سرمایہ کاروں کے مفادات میں کام کرنے لگا جن کی دولت کا ایندھن اس گاڑی کو چلاتا تھا یا جن کے اشتہا رات سے یہ کاروبار چلتا تھا۔ اشتہارات کے ذریعہ عوام کے اندر صارفیت کے رحجان کو زیادہ سے زیادہ فروغ دیا گیا تاکہ صنعتی مصنوعات کوبڑی مقدار میں فروخت کیا جاسکے۔ جب یہ جنون بڑھا تو بینکوں کے بھی وارے نیارے ہوگئے اور عام آدمی سود کے سنہرے جال میں پھنستا چلا گیا۔
ایک ایسے دورِ پر فتن میں جہاں ذرائع ابلاغ کا مقصدِ وجودعوام کے اندر حرص و ہوس کی تپش کو ہوا دے کر شعلۂ جوالہ بنا دینا ہے تاکہ وہ کم از کم وقت میں زیادہ سے زیادہ سامانِ تعیش کے حصول کی خاطر پاگل ہوجائیں آئی پی ایل جیسے لہوو لعب کی ضرورت و اہمیت کو آسانی کے ساتھ سمجھا جاسکتا ہے۔ ۲۰۱۵ ؁ء میں یہ آٹھواں ٹورنامنٹ ہے جس میں کل ۶۰؍ میچ کھیلے جائیں گے۔ اگر ایک میچ کے لیے ۴؍ گھنٹوں کا وقت پکڑا جائے تو گویا ۲۴۰؍ گھنٹوں تک کروڑوں لوگ ٹی وی سے چپکے رہیں گے۔ اس سال اس ٹورنامنٹ کے حوالے سے ناظرین کی تعداد میں ۴۱؍ فیصد کا اضافہ ہوا ہے اور پہلے ۵؍ کھیلوں میں جو نسبتاً کم اہم تھے دس کروڑ سے زیادہ ناظرین اس کی جانب متوجہ ہوئے۔ان اعدادوشمار سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے کہ فائنل تک یہ جوش جنون کہاں تک پہنچے گا؟ اس پورے عرصے میں جو بھی کھلاڑی لوگوں کو نظر آئے گا اس کے لباس پر کسی نہ کسی کمپنی کا اشتہار ہوگا اور جو بھی مبصر ٹی وی کے پردے پر نمودار ہوگا اس کے عقب میں بھی کسی نہ کسی ادارے کا نام ضرور ہوگا۔
اس ٹورنامنٹ میں کھیلنے والے کھلاڑیوں کا تشخص نہ کسی ملک سے ہے نہ صوبے سے ہے۔ جغرافیائی حدود و قیود سے آزاد یہ کھلاڑی صرف اور صرف ان سرمایہ داروں کے غلام ہیں جنھوں نے منہ مانگے داموں میں ان لوگوں کو ایک مقررہ مدت تک کے لیے خرید لیا ہے۔ کسی زمانے میں لوگ دوسروں کو خریدا اور بیچا کرتے تھے اب لوگ خود اپنے آپ کو سرِ بازار نیلام کرتے ہیں۔ بڑے فخر سے کھلے عام ان کی بولیاں لگائی جاتی ہیں اور بڑی شان سے کھلاڑی اپنا سودا طے کرتے ہیں۔ اس سال ۱۶؍ فروری کو ہونے والی اس نیلامی میں یووراج سنگھ کو دہلی ڈیر ڈیولس کے مالک ایم جی آر گروپ نے ۱۶؍ کروڑ میں خریدا اور سارے ابلاغ میں اس کی خوب پذیرائی ہوئی۔ جملہ کھلاڑیوں کو خریدنے پر سرمایہ داروں نے کل ۶۰ء۸۷ کروڑ روپے خرچ کئے۔ ایک ایسے ملک میں جہاں کسان اس لئے خودکشی کرتا ہے کہ اس کی تباہ شدہ فصل پر سرکار مناسب نقصان کی بھرپائی نہیں دے پاتی، صرف ۶۷؍ کھلاڑیوں پر اس خطیر رقم کا خرچ اگر اصراف نہیں ہے تو اور کیا ہے؟ اور ایسا کرنے والے شیطان کے بھائی نہیں ہیں تو اورکون ہیں؟
خریدو فروخت کا سلسلہ یہاں پر ختم نہیں ہوتا بلکہ یہاں سے شروع ہوتا ہے۔ اس کے بعد ٹورنامنٹ کو نشر کرنے کے حقوق بیچے جاتے ہیں۔ اس کے بعد کھلاڑیوں پر لگائے جانے والے اور نشریات کے دوران دکھلائے جانے والے اشتہارات کا وقت بکتا ہے۔ آخر میں اسٹیڈیم کے ٹکٹ فروخت ہوتے ہیں اس طرح گویا جو سرمایہ کاری کی جاتی ہے اسے کئی گنا بڑھا چڑھا کر وصول کرلیا جاتا ہے۔ اس ہنگامے میں ہر کوئی کماتا ہے لیکن اگر کوئی گنواتا ہے تو وہ عام آدمی ہے جو نہ صرف اپنی محنت کی کمائی بلکہ قیمتی وقت بھی اس حماقت کی نذر کرتا ہے۔ بدذوق ناظرین کی توجہات کو مبذول کرنے کے لیے اخبارات میں ان کھیلوں سے متعلق جھوٹی سچی خبریں شائع کی جاتی ہیں یہاں تک کہ ان کی تسکینِ نظر کے لیے نیم برہنہ خواتین کو محو رقص رکھا جاتا ہے جو ہر چوکے اور چھکے پر اچھل کود کرتی ہوئی دکھائی دیتی ہیں۔ ان خواتین کے لیے ’’چیئر لیڈرس‘‘ کی خوبصورت اصطلاح وضع کی گئی تاکہ اس مذموم حرکت کی کراہت پر پردہ ڈالا جاسکے۔
مادہ پرست دنیا میں جہاں دولت کی ریل پیل ہو وہاں بدعنوانی کا سانپ لازمی ہے۔فی الحال یہ دنیا کا سب سے بڑا ٹورنامنٹ ہے جس میں ۲۴۰۰۰؍کروڑ روپیوں کا الٹ پھیر ہوتا ہے۔اس لیے بدعنوانی بھی اس کے شایانِ شان ہوتی ہے۔۲۰۱۰ ؁ء کے اندر یہ بدعنوانی آئی پی ایل کے سربراہ للت مودی کی برخواستگی کا سبب بنی۔ اْس سال کوچی اور پونے کی ٹیموں کو آئی پی ایل میں شامل کیا گیاتھا۔ پونے وارئیرس کے مالک سہارا گروپ کے اوپر کالے دھن کا استعمال کرنے کے سنگین الزامات عائد ہوئے ویسے بھی سہارا شری سبرت رائے فی الحال جیل کی ہوا کھارہے ہیں۔ مودی کے چکر میں سابق ریاستی وزیرخارجہ ششی تھرور کو بھی استعفیٰ دینا پڑا۔ للت مودی کے اوپر ۲۲؍ سنگین الزامات لگائے گئے تھے۔ ۲۰۱۳ ؁ء کے اندر بی سی سی آئی کی ایک سہ رکنی کمیٹی نے جس میں کانگریس کے جیوترادتیہ سندھیا اور بی جے پی کے ارون جیٹلی بھی شامل تھے ان میں سے کئی الزامات کی توثیق کردی اور اس کے بعد مودی پر تاحیات پابندی لگا دی گئی۔ ویسے مودی ان الزامات کی ہنوز تردید کرتے ہیں اور ان کے خیال میں یہ ممانعت بے معنی ہے اس لیے کہ اسے لگانے والی کمیٹی نے اپنے بے جا مفادات کے پیشِ نظر یہ فیصلہ کیا ہے۔
للت مودی سے چھٹکارہ پانے کے باوجود یہ کھیل بدعنوانی کی لعنت سے نجات نہیں حاصل کرسکا بلکہ ۲۰۱۱ ؁ء میں مرکزی حکومت کے ذریعہ اس ٹورنامنٹ پر عائد ہونے والے ۴۵؍ کروڑ تفریحی ٹیکس کے معاف کردیئے جانے پر تنازع پیدا ہوگیا۔ اس طرح گویا اس کھیل تماشے سے جو تھوڑا بہت عوامی فلاح و بہبود کا کام ہو سکتا تھا اس پر بھی پانی پھیر دیا گیا۔ ممبئی میں شیوسینا کے رمیش پربھو نے شرد پوار کی دشمنی میں اس کا پردہ فاش کیا۔چنئی میں واسن نامی ایک شخص نے عدالت سے رجوع کیا تو ہائی کورٹ نے اپنے فیصلے میں کہا کہ وہ آئی پی ایل ٹیکس کی رعایت کو درست تسلیم نہیں کرسکتے اس لئے کہ یہ سراسرتفریحی سرگرمی ہے۔ اس کے بعد سابق وزیر خزانہ پرنب مکرجی نے بدعنوانی کے الزامات کی تفتیش کا اعلان کیا اور پھر معاملہ ٹائیں ٹائیں فش ہو گیا۔ ہندوستان میں بدعنوانی کے پھلنے پھولنے کی بنیادی وجہ یہی ہے کہ یہاں کرپشن کے موضوع پر سیاست ہوتی ہے، شور شرابہ بھی ہوتا ہے لیکن کوئی ٹھوس اقدام نہیں ہوتا جس کے سبب سزا کا خوف لوگوں کے دل سے نکل چکا ہے۔ عوام کو یقین ہے کہ رشوت ستانی کے الزام سے جلد یا بدیر چھٹکارہ مل ہی جائے گا۔ مثل مشہور ہے ’’لے کے رشوت پھنس گیا تو دے کے رشوت چھوٹ جا‘‘۔
آئی پی ایل کی ایک خرید و فروخت تو وہ ہے جوعلی الاعلان ہوتی ہے اور دوسرے وہ رشوت خوری ہے جس کا لین دین اندرہی اندر خفیہ طور پر ہوتا ہے لیکن اس کا ایک تیسرا تاریک پہلو ان کھیلوں پر لگنے والا سٹہ ہے۔ اس بابت اندر کے آدمی للت مودی کا دعویٰ ہے کہ ہر میچ پر ۹؍ سے۱۰؍ ہزار کروڑ روپیوں کا جوا کھیلا جاتا ہے اس طرح کل ۶۰؍ مقابلوں میں۵۴۰؍ سے لے کر ۶۰۰۰۰؍کروڑ کا سٹہ اس ٹورنامنٹ میں کھیلا جائے گا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ہندوستان میں جہاں مختلف قسم کی لاٹری کو جائز قرار دے دیا گیا ہے یہ جوا ہنوز غیر قانونی ہے، اس کے باوجود آئی پی ایل کی آڑ میں یہ بازار زور شور کے ساتھ گرم ہے۔جیٹلی جی کے حالیہ بجٹ میں بنیادی اور اعلیٰ تعلیم کے لیے کل ملا کر قومی سطح پر ۶۹؍ ہزار کروڑ روپے مختص کئے گئے جو صرف ایک ٹورنامنٹ کے سٹے کی رقم کے برابر ہے۔ یہ رقم ویسے تو گزشتہ سال کی مختص شدہ رقم سے صرف ۲؍ فیصد کم ہے لیکن جو خرچ ہوا ہے اس کی بہ نسبت ۱۶؍ فیصد کی کمی ہے۔ جس قوم کی ترجیحات کا یہ عالم ہو کہ اُس کے لیے کھیل تماشہ تعلیم وتربیت سے زیادہ اہم ہوجائے اُس کے مستقبل کی بابت کیا کہا جاسکتا ہے؟
کروڑوں میں کھیلنے والے یہ سٹے باز اپنے وارے نیارے کرنے کے لیے کھیل کے نتائج پر بھی اثر انداز ہوتے ہیں۔ کھلاڑیوں کو رشوت دے کر خرید لیا جاتا ہے۔ ۲۰۱۲ ؁ء کے اندر چار ٹیموں کے پانچ کھلاڑیوں پر رشوت لینے کا الزام لگا جنہیں صدر راجیو شکلا نے فوراً معطل کردیا۔ ۲۰۱۳ ؁ء میں راجستھان رائیلس کے تین کھلاڑیوں پر یہ الزام لگا انہیں بھی معطل کیا گیا۔ بات یہاں تک پہنچی کہ ۲۰۱۴ ؁ء میں سپریم کورٹ نے بی سی سی آئی کے چیرمین سری نواسن کو استعفیٰ دینے پر مجبور کیا تاکہ غیر جانبداری کے ساتھ تفتیش کا کام کیا جاسکے۔ یہ انکشاف بھی ہوا کہ سری سنتھ نے ۴۰؍ لاکھ روپے رشوت لے کر آخری اوور میں ۱۳؍ رنز دے دئیے تھے جس سے اس کی ٹیم ہار گئی۔ حال میں وہی لوگ اس بات پر حیران تھے کہ سب سے نیچے کی سطح پر موجود دہلی ڈیر ڈیویلس نے اول نمبر کی ٹیم چنئی سپر کنگ کو کیسے شکست دے دی جو ان سٹے بازوں کی کارستانیوں سے ناواقف ہیں۔
عدالت نے ان میچ فکسنگ الزامات کی تحقیق کا کام جسٹس مدگل کمیٹی کے سپرد کیا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ بی سی سی آئی نے خود عدالت سے درخواست کی کہ جن لوگوں پر اس کی رپورٹ میں الزام ہے انہیں برسرعام نہیں کیا جائے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ انڈین کرکٹ بورڈ بدعنوان کھلاڑیوں کی پردہ پوشی کیوں کررہا ہے؟ کیا اس لیے کہ بورڈ کے اہلکار بھی اس گورکھ دھندے میں شامل ہیں اور وہ اپنے آپ کو بچانے کے لیے بدعنوان کھلاڑیوں کی پشت پناہی کررہے ہیں ؟ میچ فکسنگ کرکٹ کی دنیا میں ایک عام وباء بن گئی ہے۔ کئی مشہور کھلاڑیوں پر اس کے الزامات لگے۔ کئی لوگوں پر پابندی لگا دی گئی۔ کئی کھلاڑیوں نے ازخود اعتراف تک کرلیا اور جنوبی افریقہ کے ہینسی کرونی جیسے کھلاڑی کو اس چکر میں اپنی جان سے ہاتھ دھونا پڑا۔ پاکستان ٹیم کے کوچ باب وولمر کو سٹے بازوں نے بے رحمی کے ساتھ قتل کردیا اس کے باوجود یہ کھیل تماشہ بڑے زور شور کے ساتھ جاری و ساری ہے، اور اس کے لیے وہ شائقین بھی کسی نہ کسی حدتک ذمہ دار ہیں جو اس پر اپنا قیمتی وقت صرف کرتے ہیں۔ اگر وہ آج اپنا منہ پھیر لیں تو کل یہ ڈرامہ بند ہوجائے لیکن ان بھولے بھالے لوگوں کو بیدار کرنے کا کام جو ذرائع ابلاغ کرسکتا ہے وہ اپنے گوناگوں مفادات کے پیش نظرانہیں افیون پلا کر سلا رہا ہے اور جو سیاستداں اس پر قدغن لگا سکتے وہ اس میلی گنگا میں صرف ہاتھ نہیں دھورہے بلکہ ڈبکی لگا رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ معاشی استحصال کی چکی چل رہی ہے اور عوام اس میں پس رہے ہیں۔

ڈاکٹر سلیم خان، معروف سیاسی تجزیہ نگار، ای میل: [email protected]

حالیہ شمارے

براہیمی نظر پیدا مگر مشکل سے ہوتی ہے

شمارہ پڑھیں

امتیازی سلوک کے خلاف منظم جدو جہد کی ضرورت

شمارہ پڑھیں