احسن فیروز آبادی
فرقہ پرست سیاست ہندوستانی مسلمانوں کو تنگ کرنے اور انہیں آزمائش میں ڈالنے کا جو نیا حربہ استعمال کررہی ہے اس میں یوگا بھی ہے جس کے نام پر مسلمانوں ہی نہیں بلکہ دیگر حلقوں میں بھی یوگا کو لے کر بحث جاری ہے ۔ ایسا نہیں ہے کہ یوگا بی جے پی کا کوئی نیا ایجنڈا ہے بلکہ جب جب اور جہاں جہاں بھی بی جے پی کی حکومت رہی ہے وہ یوگا کو عام کرنے کی ہمیشہ کوشش کرتی رہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ماضی میں بھی بی جے پی کی ریاستی حکومتیں اپنے یہاں اسکولوں میں یوگا کو لازم قرار دیتی رہی ہیں ۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ مرکزی حکومت مسلمانوں پر ہی نہیں دیگر سبھی مذاہب پر اپنے مشرکانہ فیصلےکو زبردستی نافذ کرنے کی تیاری کر چکی ہے ۔نریندر مودی نے وزیر اعظم بننے کے بعد ہندوتو تہذیب و ثقافت کو فروغ دینے اور اس کے دائر ہ کار کو ہندوستان کی حدود سے نکال کر پوری دنیا تک پہچانے کی جوکوشش کی ہے اسی کا ایک حصہ یوگا ہے ۔یوگا کو اقوام متحدہ سے منظو ر کرا کر اس کے لئے ایک دن کی تخصیص ہندوتو کلچر کو بڑھانے کے سمت میں ایک بڑی کوشش ہے۔یو گا کا مقصد کیا ہے اس سلسلے میں پہلے کوئی بحث نہیں ہوتی تھی بلکہ اسے ہندو مذہب کے رہنماؤں اور سادھوسنتوں کا خاص عمل سمجھا جاتا رہا ہے لیکن اب یومِ ہوگا منائے جانے سے صرف ہندومت ہی نہیں بلکہ اسے ہندوستانی کلچر بھی مانا جائے گا ۔اس سے بھی ایک قدم آگے بڑھ کر21 جون کو دنیا کے مختلف علاقوں میں یوگا ڈے اس حیثیت سے منایا گیا کہ یہ ایک ہندوستانی کلچر ہی نہیں بلکہ ایک بہتر عمل بھی ہے۔
یوگا کا مقصد
ہندوستانی کلچر اور ایک بہتر عمل بتا کر ہندو ، مسلم ، سکھ ، عیسائی ، بدھشٹ ، جین ، پارسی ، یہود پر مشتمل ہندوستان کی ایک سو پچیس کروڑ آبادی پر مودی حکومت نے اپنےفیصلے کونافذ کر دیا ۔کہنے کو تو یوگا ایک ورزش ہے اور اس کا تعلق کسی مذہب سے نہیں ہے لیکن حقیقتاً یہ ایک دکھاوا ہے اور غیر ہندوں کے لئے صرف ایک دھوکا ۔در اصل اس کے پس پردہ ہندتو اور ایک خاص کلچر کو عالمی پیمانے پر فروغ دینے کی ایک منظم سازش ہے۔ہندومت کے ماننے والے اسے اچھے دن کے پیغام کا آغازتصور کر رہے ہیں ۔اس لئے کہ ان کا مذہبی کلچر جو ہندوستان اور نیپال تک محدود تھا اب اس کی یہ علامت دنیا کے ہرخطے میں نظر آئےگی ۔یوم یوگا کی تاریخ یعنی 21 جون پر بھی غور کیا جانا چاہئے۔مودی حکومت نے یوگا Day کی جو تاریخ رکھی ہے وہ بھی بہت کچھ اپنے دامن میں سمیٹے ہوئے ہے۔ دراصل آج ہی کے دن آر ایس ایس کے رہنما ہیڈگوار کی برسی منائ جاتی ہے۔آر ایس ایس ان کے اصولوں کو ہی رہنما اصول اور ان کو ہی اصل رہنما مانتی ہے۔ اس لئے آر ایس ایس اوّل روز سے ہی ہیڈگوار کے اصل مشن हिन्दू राष्ट्र کے سپنے کو ساکار کرنے کی جدوجہد میں کوشاں رہی ہے۔ اپنے اس مقصد یعنی हिन्दू राष्ट्र کی خاطر اور اسے پورا کرنے کے لئے آر ایس ایس نے ہر وہ کام کیا جو اسے صحیح لگا یہاں تک کہ آر ایس ایس نے تمام انسانی قدروں کو پامال کرنے میں کوئ کسر نہیں چھوڑی ۔ ہندو راشٹر کے خواب کو پورا کرنے کے لئے اس کی ذیلی تنظیموں نے اس کا ساتھ دیا مگر عوام کے درمیان سب سے زیادہ کام وشو ہندو پرشد، شیوسینا، بجرنگ دل اور آر ایس کی سیاسی پارٹی بی جے پی نے کیا ہے۔ یہاں تک کہ ہندو مسلم فسادات کرانے اور قتلِ عام وغیرہ سے بھی ان تنظیموں نے کوئی گریز نہیں کیا۔ یہی وجہ ہے کہ گاندھی جی کے خون کی چھیٹیں اب بھی آر ایس ایس کے دامن پر لگی ہوئی ہیں جنہیں وہ آج تک نہیں دھو پائی ہے۔ 21 جون دراصل آر ایس ایس کے رہنما ہیڈگوار کی برسی کا دن ہے اور ایس ایس یہ پیغام دینا چاہتی ہے کہ ہیڈگوار کے ادھورے سپنوں کو پورا کرنے میں وہ آج بھی کوشاں ہے۔
یوگا کی حقیقت
اصل لفظ یوگا نہیں بلکہ یوگ ہے ۔ہندو دھرم گرنتھوں میں لفظ یوگ کاذکر بہ کثرت ہوا ہے ۔ ان گرنتھوں کے مطالعہ سے پتا چلتا ہے کہ ہندوستانی کلچر میں یوگ صدیوں سے رائج رہا ہے اور ہندوازم میں یوگ ایک ایسا مذہبی فلسفہ ہےجس کے ذریعہ ایشور کو یاد کیا جانا چاہئے لہذا یوگ کو آتمہ سے پرماتہ کا ملن مانا گیا ہے۔ اس لئے یوگ میں خاص قسم کےمذہبی کلمات کی ادایگی کو ضروری مانا گیا ہے جس میں سوریہ نمسکار کو افضلیت حاصل ہے ۔ چوں کہ یہ ایک مذہبی عمل ہے اس لئے ہندوازم میں اس کی باقاعدہ دھارمک کتاب “یوگ سوتر” کے نام سے پائی جاتی ہے۔ مسلمانوں کو یوگ کا پتا پہلی بار اارہویں صدی میں چلا جب مسلم سائنٹسٹ ابو ریحان البیرونی ہندوستان میں آئے اُنہوں نے یہاں کے سادھو سنتوں کو دیکھا جو ایک خاص قسم کا عمل بہ کثرت کیا کرتے ہیں، البیرونی نے یوگ سوتر کا ترجمہ کیا ۔تاریخ سے یہ بھی پتا چلتا ہے کہ رسول اللّہؐ کی دنیا سے رحلت کے بعد جب صوفی ازم وجود میں آیا اور صوفی ازم کےماننے والے اسلام کے پیغام کو لے کر ہندوستان آئے تو انہوں نے بھی اس قسم کے عمل کو یہاں کے سادھو سنتوں میں دیکھا۔ کہا جاتا ہے کہ بعض صوفیا کرام نے یوگ میں استعمال ہونے والے کلمات کو نکال کر یوگ کو اپنایا۔
کچھ تاریخی حوالوں سے معلوم ہوتا ہے کہ مغل بادشاہ اکبر نے یوگ میں دلچسپی دکھاتے ہوئے اس کی سربراہی کی تھی مگر اس وقت کےعام مسلمانوں نے اسے اسلام مخالف مانتے ہوئے یوگ کا انکار کردیا تھا۔ مذہبی گرنتھوں اور تاریخ سے یہ بھی پتا چلتا ہے کہ یہ عمل خاص مذہبی لوگوں تک ہی محدود ہو کر رہ گیا تھا اس لئے یوگ ہندوستانی تاریخ کے مطابق کئی بار دم توڑ چکا تھا- بیسویں صدی کے ہندوازم کے رہنماؤں نے کئی مرتبہ یوگ کو عام کرنے اور ہندوستانی عوام میں مقبولیت دلانے کی کوشش کی ہے۔معروف آریہ سماجی رہنما سوامی ویویکا نند نے بھی یوگ کو عام کرنے کی تحریک چلائی تھی۔ ہندوستان کو ہندو راشٹر بنانے میں سرگرم آر ایس آیس کےایجنڈے میں یوگ کو ہمیشہ ایک خاص مقام حاصل رہا ہے۔ذہنی طور پر پریشانیوں کےشکار مغرب کے سامنے ہندو رہنماؤں نے یوگ کو ایک سکون کی پناہ گاہ کے طور پرپیش کیا جسکا مغرب نے خلوصِ دل سے اس کا خیرمقدم کیا۔ یہی وجہ ہے کہ مودی حکومت UNO کو اس معاملہ متاثر کرنے میں کامیاب رہی ہے۔
یوگا ہندوستانی مذاہب کی کتابوں میں
بھگوت گیتا میں یوگ لفظ کا ذکر بہ کثرت ہوا ہے۔ ہندوستانی مذہبی کتابوں کے اندر یوگ کی کوئی خاص تعریف نہیں ملتی ہے لیکن سبھی اس نتیجہ پر پہونچتی ہیں کہ ظاہری طور پر یوگ سمادھی لگانے کو کہا گیا ہے ۔اس کے معنی یوگ فل یا جوڑ کے بھی ہوتے ہیں۔
گیتا میں کہا گیا ہے کہ” योग कर्मशु कौशलम् (कर्मो मैं कुशलता को योग कहते हैं )”دیکھا جائے تو یہ یوگ کی مکمّل تعریف نہیں ہے۔
پتنجلی میں یوگ کے تعلق سے یوں کہا گیا ہے کہ” युगशिचत्त वर्त्ति निरोध:”( पूरी तरह रुक जाने का नाम योग है)
وشنوں پران میں کہا گیا ہے کہ “योग:संयोग इत्युक्त :जीवात्म परमात्मने” जीवात्मा और परमात्मा का पूर्णत: मिलन ही योग हैं!)बौद्ध धर्म कहता है “कुशल चैतग्गता योग”(कुशलचित्त की एकाग्रता योग है(कुशल चित्त की एकाग्रता योग है) بھاگوت گیتا میں بھی کہا گیا ہے کہ ” सिद्ध्यसिद्द्यो समोभूत्वा समात्वंयोगच्चते”(2/48)
لہٰذا یوگ کی مستند کتابوں میں شو سں نہتا اور گورچھ شتک کے مطابق چار طرح کے یوگ کا ذکر ملتا ہے:
मंत्रयोगों हष्ष्चैव लययोगस्तृतीयकः।
चतुर्थो राजयोगः (शिवसंहिता , 5/11)
मंत्रो लयो हठो राजयोगन्तर्भूमिका क्रमात्
एक एव चतुर्धाऽयं महायोगोभियते॥ (गोरक्षशतकम् ) ”
یعنی 1-منتر یوگ 2- ہٹھ یوگ 3- راج یوگ 4- لیع یوگ
چونکہ ہمارا موضوع یوگ کو سمجھانا نہیں ہے اس لئے ہم انکی تفصیل میں نہ جاتے ہوئے ان کا ایک ایک حوالہ سامنے رکھتے ہیں تتووپنشد میں منتر یوگ کے بارے میں کہا گیا کہ” योग सेवन्ते साधकाधमाः।”۔ہٹھ پرادیپکہ میں ہٹھ یوگ کے بارے میں کہا گیا کہ ” हकारेणोच्यते सूर्यष्ठकार चन्द्र उच्यते।सूर्या चन्द्रमसो र्योगाद्धठयोगोऽभिधीयते॥”
اسی طرح ایک مثال یوگتووپشد میں لیع یوگ کی یہ ملتی ہےکہ ” गच्छस्तिष्ठन स्वपन भुंजन् ध्यायेन्त्रिष्कलमीश्वरम् स एव लययोगः स्यात (22-23)” )۔
پتنجلی میں راج یوگ کے بارے میں کہا گیا ہے کہ ” योगाडांनुष्ठानाद शुद्धिक्षये ज्ञानदीप्तिरा विवेक ख्यातेः (1/28)” )۔ مہا رشی پتنجلی راج یوگ کے آٹھ انگوں کا بھی ذکر کرتے ہیں ۔ اس کے علاوہ کٹھوپ نشد، مہابھارت بدھ ازم اور دیگر ہندو مذاہب کی کتابوں میں بھی یوگ کا ذکر ملتا ہے۔ مختصر یہ کہ ہندو دھرم گرنتھ یہی بتاتے ہیں کہ یہ ایشورکو یاد کرنے کا ایک خاص عمل ہے۔
یوگا ایک سنگین مسئلہ
ہندوستان میں یوگا ایک مسئلہ ہے۔ بالخصوص مسلمانوں کے لئے ایک مذہبی مسئلہ بن کر کھڑا ہو گیا ہے، یوگا کے ذریعہ سے بعض حضرات مسلمانوں میں ہندو مسلم ایکتا کا جذبہ اور دیش پریم کی بھاونا جانچنے اور مسلمانوں کو بدنام کرنے کی کوششوں کو انجام دینا چاہتے ہیں ۔اگر دیکھا جائے تو یہ معاملہ بھی وندے ماترم جیسے مسئلے سے الگ نہیں ہے۔ اس لئے مسلم قیادت کے لئے یوگا پر فیصلہ کرنا ایک نیا چیلنج سمجھا جا رہا ہے۔آپ کو یاد ہوگا کہ اس سے قبل جب وندے ماترم کے مسئلہ پر مسلمانوں کو گھیرنے اور زبردستی اس کا پابند بنانے کی کوشش کی گئ تھی تو مسلم قیادت نے ایک آواز ہو کر اس مشرکانہ عمل کی تردید کی تھی مگر اب ماجرا ہی کچھ اور ہے ۔ کچھ نام نہاد مسلم رہنما اسے محض ورزش کا نام دے رہے ہیں تو کچھ لوگ اسے مکمّل طور پر شریعت مخالف قرار دے رہے ہیں تو کچھ حضرات یوگا میں استعمال ہونے والے کفریہ اور شرکیہ کلمات کو مستثنٰی کرنے کے بعد ا س کے جواز کے قائل ہیں ۔
وگا اسلامی نقطۂ نظر سےایک مسلمان کلمۂ طیبہ کا حامل ہوتا ہے یعنی وہ ہر حال میں اللّہ کو اپنا معبودِ برحق اور محمّد رسول اللّہؐ کواس حیثیت سے اللّہ کا پیغمبر مانتا ہے کہ آپ کی لائی ہوئی شریعت ہی مکمّل اور قابلِ اتباع ہے۔ اس تعلق سے ایمان کی دو کیفیتیں ہیں۔1- باطنی ایمان ۔2- ظاہری ایمان ۔
باطنی ایمان یہ ہے کہ انسان دل سے تسلیم کرے کے اللہ ہی عبادت و پرستش کے لائق ہے اس نے انسان کو صرف اپنی عبادت کے لئے پیدہ کیا ہے۔ ” ہم نے انسان اور جن کو صرف اس غرض کے لئے پیدہ کیا کہ وہ صرف ہماری ہی عبادت کریں “(قرآن، الزاریات-56 )۔ اللہ ہی حاجت روا ہے، وہی مشکل کشا ہے اور وہی اس کائنات کا تنہا بادشاہ و مالکِ برحق ہے ۔ اسکی مرضی کے بغیر کوئی پتہ بھی نہیں ہل سکتا ۔ اسی کو یہ اختیار ہے کہ وہ انسانوں کی ہدایت و رہنمائی کا سامان فراہم کرے اور صرف اسی کو یہ اختیار ہے کہ وہ سماجی، سیاسی ،اخلاقی و معاشی قانون بنائے۔ گویا اسے اس بات کو تسلیم کرنے میں کوئی قباحت نہیں ہونی چاہئے کہ خدا کے پیغمبر ؐ کا لایا ہوا دین مکمّل ہے۔” آج میں نے تمہارے لئے تمہارا دین مکمّل کر دیا ہے اور اپنی نعمت تم پر تمام کر دی اور تمہارے لئے اس بات کو پسند کیا کہ تمہارا دین اسلام ہو ” ( قرآن، المائدا، 44 )۔
ظاہری ایمان یہ ہے کہ اس نے جو کچھ سمجھا، جانا اور مانا ہے اور جو کچھ اس نے خدا اور اس کے رسول کی لائی ہوئی شریعت کے تعلق سے تسلیم کیا ہے لہذا اس کے قول و فعل سے اس کی تصدیق ہونی چاہئے۔اسلام صرف لفظی جمع خرچی کا نام نہیں ہے بلکہ اس حرکت و عمل کا نام ہے جس کی بناء پر وہ اللہ رب العزت کے یہاں جوابدہ ہے۔ اس لئے اللہ نے اسلام کے ماننے والوں کو ایسے عمل سے بھی دور رکھا جس کے کرنے پر شرک کی کوئی گنجائش نکالی جا سکے۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ کے سامنے پانچ وقت جھکنے والا مسلمان جب جنازہ کی نماز پڑھتا ہے تو رکوع و سجود ادا نہیں کرتا مطلب یہ کہ نمازِ جنازہ میں میت کو نمازئیوں کے سامنے رکھا جاتا پھر نماز پڑھی جاتی ہے، اس نماز میں سے رکوع و سجود کو اس لئے نکال دیا گیا کہ دیکھنے والا یہ نہ سمجھے کہ مسلمان میت کو سجدہ کر رہے ہیں۔اسلام اپنے مانے والوں کو شرک ہی سے نہیں بلکہ شرک کے شبہ تک سے دور رکھنا چاہتا ہے اور عبادت کو خالص اللہ ہی کے لئے قرار دیتا ہے۔ “اللہ کی عبادت کرو اس کے سوا تمہارا کوئی الٰہ نہیں ہے۔ آخر تم پرہیزگاری کیوں اختیار نہیں کرتے؟”( الاعراف 65)۔ صرف اللہ ہی جو زمین اور آسمان کا حقیقی مالک ہے اور صرف اللہ کی عبادت کی جانی چاہئے۔ ” وہی ایک آسمان میں بھی معبود ہے اور وہی ایک زمین میں بھی معبود ہے اور وہ حکمت والا اور علم والا ہے”(زخرف )
یوگا میں سوریہ نمسکار کا عمل خاص ہے اس لئے بی جے پی گورمینٹ تمام ہی اسکولوں میں سوریہ نمسکار کو لازم کروانے میں دن رات ایک کر رہی ہے آر ایس ایس کے منصوبے اس حد تک کامیاب ہوچکے ہیں کہ جہاں جہاں بی جے پی اور آر ایس ایس اور اس ذیلی تنظیموں کا اچھا رسوخ ہے وہاں وہاں اسکولوں میں سوریہ نمسکار کو لازم کر دیا گیا ہے۔ یہ سیکولر ہندوستان میں پنپ رہی ایک ایسی سازش ہے جس کے ذریعہ سے ہندو تشدد پسند مشنریز کو تقویت حاصل ہو اور مسلم قوم کے بچّوں کو عملی اور ظاہری طور پر غیر دینی عمل میں ملوث کیا جا سکے اور آگے چل کر کسی خطرناک کاروائی کو انجام دیا جا سکے جسے مسلم رہنماؤں کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ سوریہ نمسکار کے قائل حضرات یہ جان لیں کہ سورج چاند وغیرہ کو کسی بھی درجہ میں پوجنے نمن کرنے کی اجازت اسلام میں نہیں ہے اس تعلق سے قرآن صاف فرماتاہے۔” اور اس کی(اللہ کی ) نشانیوں میں سے رات اور دن سورج اور چاند ہیں ، نہ سورج کو سجدہ کرو ،ْنہ چاند کو ، سجدہ کرو اس خدا کو جس نے ان کو پیدا کیا اگر تم اسی کی بندگی کرتے ہو” (حم السجدہ -37 ) ۔ لہذاجو نام نہاد مسلمان اس بات کے قائل ہیں کے سوریہ نمسکار کےکرنے میں کوئی حرج نہیں بس مخصوص کلمات نہ دوہرائے جائیں تو سراسر گمراہی پر ہیں کیونکہ قرآن کی روح سے یہ ایک شرک ہے ۔یہی وجہ ہے کہ نبی نے سورج کے غروب اور طلوع ہونے کے وقت نماز نہ پڑھنے کی سختی سے ممانعت فرمائی ہے کیونکہ دنیا کی بہت سی قومیں ان ہی اوقات میں اپنے معبودوں کی عبادت کیا کرتی ہیں۔
اگر سوریہ نمسکار اور دیگر کفریہ کلمات کو وہاں سے ہٹابھی دیا جائے تو بھی ایک مسلمان کو زیب نہیں دیتا کہ وہ یوگا کرے کیوں کہ بہر صورت یہ ہندو مذہب کی عبادت سے وابستہ ایک خاص عمل ہےجس میں استعمال ہونے والے الفاظ شرکیہ اور کفریہ ہیں ایسے میں اس یوگا کا پابند اگر ہر ایک کو بنایا جاتا ہے تو پھر یہ ہندوستان کے سیکولزم کے لئے بدنما داغ ہوگا جہاں اپنی ذہنیت اور مذہبی عمل کو مسلمانوں پر جبراً لادنے اور ان کے دین پر حملہ کرنے کے متارادف قرار پا ئےگا کیوں کہ اسلام کی نظر میں یہ شرک اور کفر ہے ۔جو اسے محض ورزش کا نام دے رہے ہیں اور وہ مسلمان جو ان کے فریب میں آرہے ہیں وہ غلطی پر ہیں کیوں کہ یہ ایک ایسا عمل ہے جس میں ایشور کے دھیان کے ساتھ ساتھ جسمانی قواعد کا بھی دخل حاصل ہے اگر یوگ اس عمل کا نام ہے تو ایک مسلمان دن میں پانچ وقت کی نماز پڑھتا ہےجس میں خدا کی یاد کے ساتھ ساتھ جسمانی قواعد کا بھی دخل رہتا ہے۔تمام مسلم رہنما جماعتوں کو چاہئے کہ وہ اس غیر اسلامی عمل کی کسی بھی صورت میں حمایت نہ کریں اور یہ ا علان کریں کہ ہندوستان میں مسلمان توحید پر عمل کرتے ہوئے زندگی گزاریں گے۔