ہندوستان میں نفرت انگیز بیانات کا انکشاف

مستقیم اریب

یوں تو ہندوستان ایک سیکولر ملک ہے جہاں ریاست کا کوئی مذہب نہیں ہے۔ مذہبی تنوع اورمذہبی اعتدال، اس ملک کی طویل تاریخی ثقافت کا ایک اہم جز رہا ہے اور یہی وجہ ہے کہ اس ملک کا آئین مذہبی آزادی کو فرد کا بنیادی حق قرار دیتا ہے۔ لیکن موجودہ ہندوستان کی سیکولر تصویر پر زعفرانی رنگ غالب آتا نظر آرہا ہے۔ جہاں ایک طرف نفرت و انتشار اپنے بام پر پہنچ چکا ہے تو دوسری طرف بغض و عناد کی فضا عام کی جا رہی ہے۔ اس تنفر آلود ماحول میں نفرت انگیز بیانات (Hate Speech) مسلمانوں کے خلاف فرقہ وارانہ تشدد کو فروغ دینے کا ایک اہم آلہ بن گئے ہیں۔ ہر وہ بیان ہیٹ اسپیچ کہلاتا ہے جو سامعین میں مخصوص گروہوں کے خلاف نفرت و انتقام، بیر و تشدد اور بغض وعناد کے جذبے کو پروان چڑھائے۔ عوامی تقریبات، سیاسی جلوس اور مذہبی اجتماعات میں اس قسم کے بیانات کا بڑھتا رجحان، ڈیجیٹل میڈیا کے ذریعے مواد کی وسیع تر تشہیر، نہ صرف ایک متنوع سماج میں اختلاف و نفاق کے بیج بورہے ہیں بلکہ اس سے بڑھ کر اسے ہندتوا جیسے مضر و متشدد نظریہ کی طرف راغب کر رہے ہیں۔ ہندوستان میں بگڑتے جمہوری توازن کی طرف نشاندہی کرتے ہوئے، انڈیا ہیٹ لیب نے ہندتوا واچ کے اشتراک سے، 2023ء میں نفرت پر مبنی ان تمام واقعات، بیانوں اور سازشی نظریات(Conspiracy Theories)کا تجزیاتی مطالعہ پیش کیا ہے۔
اس مضمون میں اسی تجزیہ Report 2023: Hate Speech Events in Indiaکے کچھ اہم نکات کا خلاصہ پیش کیا جارہا ہے۔
انتشار کی صدائیں: جغرافیائی تجزیہ
ہندوستان ایک وسیع اور کثیر الرقبہ ملک ہے لہٰذا متنفر بیانات کے تجزیہ سے پہلے ان کی جغرافیائی تقسیم کا سمجھنا ضروری ہے، جو ان بیانات کی عامیت میں علاقائی فرق کو ظاہر کرتی ہیں۔ مندرجہ بالا نقشہ میں ہندوستان کی 18/ ریاستوں، 3/ یونین ٹیریٹریس اور دار الحکومت دہلی میں ہونے والی سرگرمیوں کو درجہ بند کیا گیا ہے۔ 2023ء میں جملہ 668 متنفر بیانات کی شکایتیں درج ہوئی ہیں جن میں سے سال کے پہلے حصے میں 255 اور دوسرے حصے میں 413 (26 فیصد بڑھوتری کے ساتھ) واقعات پیش آئے ہیں۔

اس نقشہ کا مطالعہ، رونما واقعات کے پیچھے منتظمین، بیانات کی نوعیت اور ان کے وسیع معاشرتی نظریات کی تفصیلی سمجھ کے لئے ایک بنیادی خاکہ تیار کرتا ہے۔
تقسیم کے معمار: ہندوستان میں متنفر تقاریر کے پس پردہ عوامل
اس منظر نامے کا گہرائی سے مطالعہ کیا جائے تو دو چیزیں پتہ چلتی ہیں۔ پہلی یہ کہ نفرت کی اس پیچیدہ منصوبہ بندی کے پیچھے سیاہ چہروں کی حقیقت کیا ہے اور دوسری، ان تمام منصوبہ بند حملوں کا مرکزی نشانہ کون ہیں۔ جہاں تک مرکزی نشانہ کی بات ہے وہ بنیادی طور پر مسلمان ہیں۔ اگر کوئی شخص، مسلمانوں کے خلاف منافرت آمیز ان تقاریر کو محض بےربط بیانات، غیر منصوبہ بند سازشیں یا بغض و عناد کی وجہ سےانفرادی سطح پر لیا جانے والا انتقام سمجھنے کی غلطی کرے تو وہ سراسر ایک نادان ہے۔ مقامی تنظیموں سے لے کر قومی تحریکات، اس سیاہ مقصد کے اجزائے لاینفک ہیں۔ ان تحریکات میں ،وشوا ہندو پریشد 216 تقاریر کے ساتھ سر فہرست ہے، جبکہ اس سے راست اور بالراست منسلک، سنگھ پریوار کے وسیع دائرے میں آنے والی تنظیموں ‘بجرنگ دل’، ‘بھارتیہ جنتا پارٹی’، ‘سکل ہندو سماج’ اور’ہندو جاگرن ویدیکے’کی جانب سے مجموعی طور پر 307 یعنی 46فیصدتقریریں دی گئیں۔ یہ بڑا حصہ ان کے ملک بھر میں نفرت انگیز بیانیہ پھیلانے میں مرکزی کردار کو اجاگر کرتا ہے۔

متنفر تقاریر میں ہندوستان کی دس بڑی تنظیموں کے درمیان مسابقت
ان واقعات کے ذریعے نہ صرف نفرت کو پھیلایا گیا بلکہ ان میں مخصوص کاروائیوں کی ترغیب دی گئی اور ساتھ ہی ان روایتی اور من گھڑت تصورات (dangerous stereotypes)کو بار بار دوہرا کر باقی رکھنے کی کوشش کی گئی۔ ان بیانات میں کہیں مسلمانوں کے اقتصادی بائیکاٹ یعنی مسلم اساتذہ، ڈرائیوروں اور دکانداروں کے بائیکاٹ کی اپیل کی گئی تو کہیں حلال و ذبیحہ سے متعلق نظری مفروضے پیش کئے گئے۔ کبھی مسلمانوں کو غیر قوم پرست (Anti-Nationals or Pseudo Nationals) کہا گیا تو کبھی گائے کے نام پر معصوموں کو موت کے گھاٹ اتار نے (cow vigilantism) کے دعوئے کئے گئے۔ یہ ساری مثالیں اس بات کی دلیل ہیں کہ کس طرح مسلمانوں کو امتیازی سلوک اور تشدد کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ ایسی شعلہ بیانی کسی عام فرد کو بھی تشدد پر آمادہ کرنے کے لئے کافی ہے مثلا ً”جب ملے کاٹے جائیں گے، رام رام چلائیں گے۔”

متنفر تقاریر میں زیر اقتدار پارٹی کا کردار
خاکہ کی مدد سے یہ آسانی سے سمجھا جاسکتا ہے کہ بی جے پی اور ان متنفر واقعات کے درمیان راست تعلق ہے جس سے اس مسئلے کی سنگینی اور اس کے سیاسی زاویے مزید واضح ہوتے ہیں۔اگر دیگر ریاستوں کا، بی جے پی کے زیر انتظام ریاستوں میں نفرت انگیز تقاریر کے واقعات سے موازنہ کیا جائے تو بی جے پی کا تناسب ٪68نظر آتا ہے۔ جو سیاسی قیادت اور توڑنے والی سیاست (متنفر تقاریر کے واقعات) کے درمیان پریشان کن تعلق کو ظاہر کرتا ہے۔ یہ ربط اس بات کی دلیل ہے کہ ایک سیاسی ادارہ سماج کو کس حد تک متاثر کر سکتا ہے۔
نفرت کا طوق: تعصب کی مختلف شکلوں کا تجزیہ
ان تقاریر کو گہرائی سے سمجھنے کے لئےضروری ہے کہ ان میں استعمال کئے جانے والے ان مخصوص فقروں، کہانیوں، الزامات اور کھوکھلے تصورات کا باریک بیں تجزیہ کیا جائے۔ ان تقریروں میں کبھی تشدد، کبھی ہتھیار، کبھی بائیکاٹ، کبھی بین الاقوامی سطح پر مسلمانوں پر کئے جانے والے استبداد و ظلم پر استہزا، تو کبھی مذہبی عبادت گاہوں کی تہدیم کے نام پر عام عوام کو مشتعل کیا گیا۔ لیکن ان تمام میں مسلمانون کو نشانہ بنانے کے لئے سب سے بڑا ہتھیار من گھڑت تصورات (Conspiracy theories) کا استعمال ہے۔

مواد کے اعتبار سے متنفر تقاریر کی درجہ بندی
ان تقاریر میں کسی غلط تصور کو حقیقت کا ڈھانچہ پہنا کر اس طرح بیان کیا جاتا ہے جیسے یہ کوئی ناقابل تردید حقیقت ہرگزشتہ دنوں لو جہاد کے موضوع پر بات کرتے ہوئے ایک مقرر نے بھرے مجمع کے سامنے یہ کہا کہ “اگر وہ ہماری ایک ہندو لڑکی لے جاتے ہیں تو ہم ان کی دس لے آئیں گے”۔
یہ بس واحد سانحہ نہیں ہے جہاں دھمکی آمیز الفاظ کا استعمال کیا گیا ہو۔ بی جے پی اور ہیٹ اسپیچیس کے درمیان پایا جانے والا تعلق اب کوئی پوشیدہ حقیقت نہیں ہے۔ جہاد ایک ایسا لفظ ہے جس کو بین الاقوامی سطح پر تو بدنام کر دیا گیا ہے اور جس کے معنی اب بس بربریت یا سوسائیڈ بامبنگ (Suicide Bombing) کے ہو چکے ہیں۔ اسی طرح ہندوستان میں بی جے پی کی جانب سے پھیلایا جانے والا بیانیہ ‘ہندوستان میں اسلامی ریاست کا قیام’ ہے جس کے ذریعے عوام میں یہ خوف پیدا کیا جا رہا ہے کہ اگر ہندو سماج کوئی فوری کاروائی نہ کرے تو قریب ہے کہ مسلمان جمہوریت کو ختم کر کے اسلامی قوانین کا نفاذ عمل میں لاے آئیں گے۔ اس فرقہ وارانہ کشیدگی کو ہوا دینے میں یاتی نرسنگھانند سرسوتی جیسے مقرر پیش پیش ہیں جو ہمیشہ ہندو عوام کو ان کےسامنے درپیش خطرناک مستقبل سے ڈراتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ علاوہ ازیں تاریخی مسلم عبادت گاہوں کی تہدیم کی دھمکیاں نہ صرف اب بس تقاریر تک محدود ہیں بلکہ بابری مسجد کی صورت میں ایک حقیقت بن گئی ہیں جو عدلیہ اور سیاسی و مذہبی اداروں پر زیر اقتدار پارٹی کے کنٹرول کو ظاہر کرتی ہے۔ مسلم عبادت گاہوں کے تعلق سے یہ کہنا کہ وہ مندروں کی تہدیم کے بعد دوبارہ تعمیر کی گئی ہیں، اس کا اصل مقصد بس انتقام کی آگ کو بھڑکانا ہے۔

مواد کے اعتبار سے متنفر تقاریر کی درجہ بندی(بی جے پی اور غیر بی جے پی ریاستوں کا موازنہ)
ایسے بیانات نہ صرف مسلمانوں میں خوف کی فضا کو مزید بڑھاوا دیتے ہیں بلکہ فرقہ وارانہ تناؤ کو بھی شدید بنا کر ملک کی وحدت کو داؤ پر لگا دیتے ہیں۔ مزید برآں، نفرت انگیز تقریروں کے واقعات اور سیاسی کیلنڈر کے مابین براہ راست تعلق نظر آتا ہے۔ جہاں ٪54واقعات انتخابات کے قریب ریاستوں میں ہوئے جو اس بات کی دلالت کرتا ہے کہ انتخابی نتائج پر اثر ڈالنے کے لیے نفرت انگیز تقریروں کا استعمال ایک سوچی سمجھی حکمت عملی کے طور پر کیا گیا، جو کہ اس بیانیہ کے مقابلے میں ایک جامع حکمت عملی (Counter Narrative)کی ضرورت کو نمایاں کرتا ہے تاکہ اس ملک کی فرقہ وارانہ ہم آہنگی اور جمہوری اصولوں کو برقرار رکھا جاسکے۔
نفرت کی صدائیں: کچھ نہاں چہرے
گزشتہ سال 2023ء کا جائزہ لیا جائے تو یہ کہنا مضحکہ خیز نہ ہوگا کہ یہ سال ہندوتوا اور نفرت کے علمبرداروں کے لئے ایک مسابقتی میدان بنا ہوا تھا جہاں ہر گزرتا ہوا دن نفرت اور تشدد کی ایک نئی داستان رقم کر رہا تھا۔ اس نفرت کی معمولی لہر کو گردباد کی شکل دینے میں جو لوگ پیش پیش تھے ان میں بی جے پی کے قانون ساز ٹی راجا سنگھ اور نتش رانے، ای ایچ پی چیف پروین توگاڑیا، رائٹ ونگ کی موثر شخصیت کاجل سنگلا اور سدرشن نیوز کے مالک سریش چوہانکے شامل ہیں۔ ان کی جانب سے دیے گئے شدید جارحانہ بیانات میں کبھی مسلمانوں کو غیر ملکی کہا گیا تو کبھی زیادہ بچے پیدا کرنے والے (fertilizer jihad) کے نام سے منسوب کیا گیا۔ اور واضح دھمکیوں کے بغیر یہ تقریریں نا مکمل ہیں۔۔۔ “تم آدھے کٹے (ختنہ شدہ) ہو، ہم تمہیں پورا کاٹ دیں گے۔”
چونکہ ہر سماج میں مذہبی رہنما ایک نمایاں حیثیت رکھتے ہیں اور عوام کی ذہن سازی میں ایک اہم رول ادا کرتے ہیں۔ ان علما کی کہی گئی ہر بات ایک گہرا اثر مرتب کرتی ہے۔ جو نہ صرف فرد کے عقائد و نظریات کو تشکیل دیتی ہیں بلکہ معاشرتی تعامل اور روابط کی سمت کا تعین بھی کرتی ہے۔ اگر یہ مذہبی گروہ بہتر معاشرے کی تعمیر میں عوام کی اصلاح کے بجائے نفرت کے علمبردار بن جائیں تو اس کے نتائج انتہائی مضر اور دور رس ہو سکتے ہیں۔ ہندوستان میں نہ صرف ان علما (جن میں یاتی نرسنگھانند، کالی چرن مہاراج اور سادھوی سرسوتی مشرا سر فہرست ہیں) نے سیاست دانوں کی جانب سے کئے جانے والے متنفر بیانات کی پذیرائی کی بلکہ انہوں نے خود بھی مختلف مواقع پر ایسے بیانات دے کر فرقہ وارانہ کشیدگی کو ہوا دی ہے۔ یہ رویہ نہ صرف مذہبی امن و ہم آہنگی کے لیے خطرہ ہے بلکہ یہ ملک کی لادینی خصوصیت کو بھی کمزور کرتا ہے۔ ایسے بیانات کا فروغ، معاشرے میں بے یقینی اور خوف کی فضا کو مزید بڑھاوا دیتا ہے، جو کہ مختلف برادریوں کے درمیان باہمی اعتماد اور مفاہمت کی بنیاد کو کمزور کرتا ہے۔ لہٰذا، ہر طرح کی نفرت انگیز بیان بازی کے خلاف ایک مضبوط موقف اپنانے اور معاشرتی سطح پر ہر فرد کو ایک دوسرے کے عقائد و نظریات کا احترام کرنے کی ضرورت ہے، تاکہ ایک ہم آہنگ اور پرامن معاشرہ کو تشکیل دیا جاسکے۔
عالمی تنازعات: ہندوستانی مسلمانوں پر گرفت
اسلام ایک عالمی مذہب ہے لہٰذا دنیا کے ہر کونے میں بسنے والے مسلمانوں کے واقعات کو عالمی لبادہ پہنانے کی وسعت فراہم کرتا ہے۔ سن 2023ء میں، فرقہ وارانہ نفرت کے فروغ کے لئے ایسے ہی عالمی واقعات اور تنازعات کا استعمال ہندوستانی مسلمانوں کے خلاف کیا گیا۔ چاہے وہ اسرائیل اور غزہ کے درمیان جنگ ہو یا چین اور سیریا میں مسلمانوں پر کیا جانے والا استبداد ہو۔ ان متنفر تقریروں میں اکثر یہ بیانیہ پیش کیا گیا کہ ہندوستانی مسلمانوں کے لئے بھی ایسی ہی شدید پالیسیاں تشکیل دینی چاہئے جیسے اسرائیل نے دی ہیں۔ یعنی اسی قسم کی بربریت اور انسانیت سوزی کا مظاہرہ کرنا چاہیے تاکہ ہندوستانی مسلمان ہندوستان میں رہنےکا سلیقہ سیکھ پائیں۔ گویا اگر مسلمانوں کو آزادی دی جائے تو سارے ہندوؤں کا مستقبل خطرے میں پڑ جائے گا۔
اویناش دھرما دھیکاری جو بھارت کی اعلیٰ بیوروکریٹک سروس کے سابق رکن ہیں، انھوں نے اپنے ایک بیان میں یہ کہا کہ “اسلام ایک لعنت ہے” اور ہر ہندوستانی کو مسلمانوں کے خلاف اس جنگ میں شرکت کی دعوت پیش کی۔ یہ رجحانات ہندوستان کے متنوع سماج کے لئے بے حد ضرر رساں ہیں۔ یہ تقاریر صرف اس موضوع تک محدود نہیں ہیں بلکہ کبھی عالمی سطح میں ہونے والی دہشت گردی کو ہندوستانی مسلمانوں سے جوڑا جاتا ہے تو کبھی چین کے ایغور مسلمانوں کے مسئلے کو۔
نیو ہندوتوا: انتہا پسندی کی ایک نئی لہر
اگر ہندوستان کے مستقبل کی بات کریں تو ایک طرف ہندوتوا دن بہ دن اپنی نئی شکلیں اختیار کر رہا ہے، جہاں “نیو ہندوتوا” کے ظہور نے بھارت کے سماجی و سیاسی منظرنامے کو نیا رخ دیا ہے۔ اس نئی لہر میں سکل ہندو سماج (SHS) جیسے گروہ منظر عام پر آئے ہیں جو اپنے شدت پسند نظریات اور تصادم کی حکمت عملی کے ذریعے ہندو قوم پرستی کی ایک نئی تعبیر پیش کر رہے ہیں جن کا واحد عزم بھارت کی سماجی و سیاسی فضا میں ایک تقسیمی خط کھینچنا ہے۔ تو دوسری طرف اقلیتوں کی سیاسی و سماجی قوت ختم کرنے کی مسلسل کوشش کی جا رہی ہے تاکہ دنیا کو ایک خیالی اکھنڈ بھارت کی اصطلاح سے متعارف کیا جائے۔ لہٰذا جمہوری توازن کو برقرار رکھنے کے لئے تمام ہندوستانیوں کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ متحد ہو جائیں اور اپنی متنوع ثقافت کی حفاظت کریں۔
انڈیا ہیٹ لیب (India Hate Lab) کا یہ تجزیہ، ہندوستان میں ہونے والے تمام متنفر بیانات کا اعادہ کرتا ہے اور اس سیاہ موج جس کا مقصد جمہوری ہندوستان کو ہندو مرکزی ریاست میں تبدیل کرنا ہے، اس کے پیچھے کار فرما عوامل، پوشیدہ ایجنڈے، فرقہ وارانہ حکمت عملی، ثقافتی تصادم، نظریاتی سازشوں، مذہبی و سیاسی چہروں اور انتہا پسندانہ تعبیرات کو منظر عام پر لاتا ہے۔ جیسے جیسے 2024ء الیکشن قریب آرہا ہے ان متنفر تقاریر اور متشدد سرگرمیوں میں بھر پور اضافہ کا امکان ہے۔ لہذا ماضی کی غلطیوں سے سبق حاصل کرتے ہوئے جلد از جلد عوام، سول سوسائٹی، عدلیہ اور دیگر جمہوری اداروں کی جانب سے فوری و موثر اقدامات کی ضرورت ہے۔
(مکمل رپورٹ کے لیے دیکھیں: www.indiahatelab.com)

اپریل 2024

مزید

حالیہ شمارہ

امتیازی سلوک کے خلاف منظم جدو جہد کی ضرورت

شمارہ پڑھیں

فلسطینی مزاحمت

شمارہ پڑھیں