ہمارا ملک اور ہمارا سیاسی ڈسکورس

ایڈمن

سعود فیروز اعظمی مدیر رفیقِ منزل لوک سبھا انتخابات 2019 کا بگل بج چکا ہے۔آئندہ اپریل اور مئی کے درمیان 17ویں لوک سبھا انتخابات عمل میں آئیں گے۔ انتخابات کے ذریعہ اقتدار کی منتقلی جمہوری نظام کی سب سے اہم…


سعود فیروز اعظمی
مدیر رفیقِ منزل

لوک سبھا انتخابات 2019 کا بگل بج چکا ہے۔آئندہ اپریل اور مئی کے درمیان 17ویں لوک سبھا انتخابات عمل میں آئیں گے۔ انتخابات کے ذریعہ اقتدار کی منتقلی جمہوری نظام کی سب سے اہم دین ہے ۔ماضی میں بادشاہی طرز حکومت میں عوام اس موقع سے محروم تھے۔ظالم بادشاہ کے ظلم سے نجات کی کوئی سبیل نہ تھی۔ شرق و غرب کے انسانوں نے صدیوں پر محیط ایذا نصیبی کے بعد ایک ایسے طرز حکومت تک رسائی حاصل کی ہے جس میں انہیں حکومت میں شامل ہونے اور حکومت میں تبدیلی لانے کا باربار موقع میسر آتا رہتا ہے۔ دوسری جانب بروقت ، صاف اور شفاف انتخابی پروسیس مضبوط جمہوریت کی سب سے نمایاں علامت ہے۔ہندوستان اس لحاظ سے ایک مضبوط جمہوری ملک رہا ہے۔ البتہ گزرے چند برسوں میں یہ احساس ابھر کر سامنے آیاہے کہ ہمارے یہاں انتخابات کی شفافیت متاثر ہوئی ہے۔یہ ملک کی پیشانی پر ایک بد نما داغ ہے۔


انتخابات کا موسم قریب آتے ہی ملک کے سیاسی اسٹیج پر انتخابی سیاست کے ڈرامے بھی شروع ہوگئے ہیں۔ سرکردہ سیاسی جماعتوں نے جوڑ توڑکی مہم کا آغاز کردیا ہے ۔گزشتہ لوک سبھا انتخابات کے مقابلے میں اس مرتبہ ملک کا سیاسی منظر نامہ کسی قدر مختلف ہے۔گزشتہ انتخابات میں ’مودی لہر‘ کا سحر تھا جس کے دام فریب میں آنے سے اچھے خاصے تیس مار خاں بھی نہ بچ سکے تھے اور بھارتیہ جنتا پارٹی اکتیس فیصد ووٹ کے ساتھ واضح اکثریت حاصل کرتے ہوئے برسر اقتدار آگئی تھی۔اب صورت حال یہ ہے کہ ’مودی لہر‘ ’موذی زہر‘ ثابت ہوچکی ہے۔ ’سب کا ساتھ،سب کا وِکاس‘ اور ’اچھے دن‘ جیسے خوشنما نعروں کے غبارے سے ہوا نکل چکی ہے۔’کانگریس مُکت بھارت‘ کا نعرہ بلند کرنے والی جماعت کے لیے اپنی سیاسی ساکھ بچا پانا مشکل نظر آرہا ہے۔

موقع کی نزاکت کا سیاسی فائدہ اٹھانے کے لیے سیاسی جماعتوں نے محاذ آرائی بھی شروع کردی ہے۔ تقریباسبھی علاقائی اور قومی سیاسی جماعتیں بی جے پی کو شکست فاش دینے کے لیے دوڑ دھوپ میں لگ گئی ہیں۔کولکاتہ میں ممتا بنرجی کی آواز پرآل پارٹی کانفرنس کو اس کوشش کا اہم سنگ میل قرار دیا جارہا ہے۔اتر پردیش جیسی سیاسی اہمیت رکھنے والی ریاست میں بھی بہوجن سماج پارٹی اور سماج وادی پارٹی کے اتحاد کا اعلان ہوچکا ہے۔تلنگانہ میں بی جے پی مخالف اتحاد کا قیام تقریبا طئے ہے۔ ان کوششوں سے عوام کے مسائل کس قدر ختم ہوں گے یہ تو بعد میں دیکھا جائے گا البتہ ان سے بی جے پی کو شکست دینے کی ’اجتماعی رومانوی خواہش‘ کی تسکین کے امکانات ضرور پیدا ہوگئے ہیں۔


انتخابات ہمیں اپنی سیاست کا احتساب کرنے کا موقع بھی فراہم کرتے ہیں۔آنے والے لوک سبھا انتخابات کے پیش نظر یہاں ہندوستان کی موجودہ سیاست کا جائزہ لینا ضروری ہے۔ہندوستانی سیاست تیزی سے مائل بہ زوال ہے۔ سیاست دانوں کا رشتہ مسلمہ سیاسی اخلاق و اقدار سے ختم ہوتاجارہا ہے۔ہر آنے والاانتخاب ہمارے سیاسی اقدار کے بحران میں اضافہ ہی کررہا ہے۔ سیاست کا وسیع میدان سام،دام،ڈنڈ، بھید کے تنگ گلیاروں تک سکڑتا جارہا ہے۔جمہوریت کے چوتھے ستون میڈیا کو اس ضمن میں ایک بڑی ذمہ داری ادا کرنی تھی ۔لیکن اس وقت میڈیا کا ادارہ بھی بری طرح سے اہل سیاست اور اہل ثروت کے چنگل میں پھنسا ہوا ہے۔یہ ملکی سیاست کی ایک سنگین حقیقت ہے۔


ملک کے مختلف سیاسی ، سماجی و معاشی ایشوز مثلا بے روزگاری، مہنگائی اور بدعنوانی وغیرہ پر حزب اختلاف آواز اٹھاتا رہا ہے۔ملک کے بڑے دانشور،سینیرصحافی اورماہر تجزیہ کار بھی ان ہی ایشوز پر گفتگو کرتے رہے ہیں۔ مرکزی جامعات میں زیر تعلیم سوچنے سمجھنے والے طلبہ بھی طلبہ یونین کے انتخابات کے موقع پر ان ایشیوز پر گفتگو کرتے رہے ہیں۔ان مسائل کو موضوع بحث بنانا خوش آئند بات ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا اس وقت ہندوستانی عوام کے اصل مسائل یہی اور اتنے ہی ہیں؟ کیاایشوز کے نام پر ہندوستانی اسکالرشپ کے پاس بے روزگاری ،مہنگائی اور صنفی مساوات کی رٹ کے سوا کچھ اور بھی ہے؟متعدد مسائل ایسے ہیں جو مذکورہ مسائل سے زیادہ سنگین ہیں، لیکن ان پر گفتگو کے لیے کوئی تیارنہیں ہے۔ ہندوستانی سماج کا ایک سنگین مسئلہ ذات پات کا نظام ہے۔ ہمارے سیاسی ڈسکورس میں ہر ذات کو متناسب نمائندگی عطا کردینا ہی اس مسئلہ کا حل سمجھا جاتا ہے۔ ملک کا حکمراں طبقہ پسماندہ طبقات کو یہ باور کرانے میں کامیاب ہوچکا ہے کہ ان کے مسائل کا حل متناسب نمائندگی ہے۔چنانچہ ان طبقات کی ساری تگ و دو بھی اسی خواب کی تکمیل تک محدودہوچکی ہے۔

وہ وقت کب آئے گا جب ہم اپنے سیاسی ڈسکورس میں ذات پات کے غیر انسانی، غیر فطری اور غیر معقول ظالمانہ نظام کی جڑوں پر تیشہ چلا کر اس نظام کے خلاف بنیادی سوالات کھڑے کریں گے؟ فرقہ وارانہ منافرت ہمارے ملک کا ایک اور سنگین مسئلہ ہے جس کی جڑیں بہت گہری ہوچکی ہیں۔فرقہ واریت نے ملک کے سماجی تانے بانے کو تباہ کرکے اخوت و محبت کی فضا کو مکدر کرکے رکھ دیا ہے۔جہاں تمام انسانی وسائل کا استعمال ملک کی تعمیر وترقی کے لیے ہونا چاہیے تھا وہاں صورت حال یہ ہے کہ سب کی تلواریں آپس میں الجھ کر رہ گئی ہیں۔یہ سیاست کی کرشمہ سازی ہے کہ مختلف مذاہب کے ماننے والے جو صدیوں سے پرامن بقائے باہم کی عالمی مثال تھے اب ایک دوسرے کے لیے نفرت اور دشمنی کے جذبات رکھتے ہیں۔ہمارے اہل سیاست کامعیار اتنا بلند کب ہوگا کہ وہ اس مسئلہ کے حل کے لیے سنجیدہ منصوبہ بندی کرسکیں؟ شہریوں کی شخصیت کا ہمہ جہت ارتقاء آج بھی ملک کے لیے ایک بڑا چیلنج ہے۔

ملک کے باشندوں میں ایک بڑی آبادی ایسے افراد کی ہے جو آج بھی توہم پرستی سے آزاد نہیں ہوسکی ہے۔ملک کی اکثریت کا طرز فکرمذہب ،سماج اور سیاست ہر میدان میں عقل و شعورپر نہیں بلکہ اندھی تقلید پر مبنی ہے۔محبت، وفاداری، اعتماد، امداد و انفاق،ایثار، کسر نفسی،قناعت ، عفو ودر گزر،اور حیا ء جیسی قیمتی اقدارہماری اجتماعی پہچان نہیں بن سکی ہیں۔جس طرف جائیے نفرت،دھوکہ،فریب،شک ،ابن الوقتی،خود نمائی،حرص و طمع، غصہ،انتقام اوربے حیائی کے بازار لگے ہوئے ہیں۔کیا یہ مسائل عوامی مسائل نہیں ہیں؟ کیا یہ مسائل ایسے مسائل ہیں جنہیں آسانی سے نظرانداز کیا جاسکتا ہے؟آخر ان مسائل کو ہمارے سیاسی ڈسکورس اور انتخابی منشور میں جگہ کب ملے گی؟


سترہویں لوک سبھا انتخابات کے اس موقع پر آزاد ہندوستان میں مسلمانوں کی سیاسی بصیرت،سیاسی حکمت عملی اور سیاسی ایکٹیوزم کا احتساب کرنا بھی ضروری ہے۔آزاد ہندوستان میں مسلم سیاست کا سب بڑا مسئلہ یہ رہا ہے اور اب تک ہے کہ ملت اسلامیہ ہند کے سامنے اپنی سیاسی منزل واضح نہیں ہے۔ سیاست کے محاذ پر اسے جانا کہاں ہے،پہنچنا کہاں ہے،اس کا شعور نہ افراد ملت میں نظر آتا ہے اور نہ ملت کی سیاسی قیادت میں۔اسی کا نتیجہ ہے کہ سیاست میں ہمارے یہاں ’جتنے مسافر اتنی منزلیں‘والا سماں ہے۔یہ سیاسی بصیرت کے فقدان ہی کا فیض ہے کہ بحیثیت ایک ملت ،ہماری کوئی سیاسی حکمت عملی نہیں ہے۔کارگرسیاسی حکمت عملی کے نہ ہونے کا نتیجہ ہے کہ ہمارا پورا سیاسی ڈسکورس ایک دفاعی ڈسکورس میں تبدیل ہوچکا ہے۔ ملک کی سیاسی بساط پر مہرے ہم ہیں ،لیکن چالیں کوئی اور چل رہا ہے۔ ہم دوسروں کے بچھائے ہوئے جال میں بار بار پھنس جاتے ہیں اور بہت آسانی سے پھنس جاتے ہیں۔ہماری تمام سیاست چند سطحی مطالبات اور وقتی جذباتی ہنگامہ آرائی تک سمٹ کر رہ گئی ہے۔

ملکی سیاست کے مدوجزر میں کلیدی کردار ادا کرنا تو کجا، ہم اپنے خلاف رچی گئی معمولی سازشوں کو ناکام بنانے کا ہنر بھی نہیں رکھتے۔ کیا اس دعوی کی صحت میں کسی کو شک ہوسکتا ہے کہ اس وقت ملک میں سب سے کم سیاسی شعور رکھنے والا اور سب سے زیادہ سیاسی بے وزنی رکھنے والاطبقہ مسلمانوں کا ہے؟ ہمارا سیاسی شعور اس سے آگے نہیں بڑھ سکا ہے کہ ’’بی جے پی فرقہ پرست جماعت ہے، کانگریس نسبتا زیادہ سیکولر ہے اس لیے بی جے پی کے مقابلے میں ہم کانگریس کی حمایت کریں گے۔‘‘ یہ سمجھنے میں ہم نے کتنی دیر کردی کہ آزاد ہندوستان میں فرقہ پرستی کی خاموش شاطرانہ سرپرستی کرنے کا شرف ’نسبتا زیادہ سیکولر‘ کانگریس ہی کو حاصل رہاہے۔


ملک کی سیاست میں کلیدی کردار ادا کرنے کے لیے مسلم اسکالرشپ ، مسلم مذہبی انجمنیں اور دینی تحریکیں اگر اب بھی کمر بستہ نہ ہوئیں تو یہ ایک داعی امت کی اجتماعی غفلت شمار کی جائے گی۔ سیاسی جدوجہد کے لیے تن من دھن سے کمر بستہ ہونا ملک کی ضرورت تو ہے ہی، مَن رای مِنکم مُنکَرا فلیُغَیِّرہ کے تحت عین دینی ذمہ داری بھی ہے۔ خیر امت کا فرد ہونے کے ناطے ملت کے افراد اور قائدین کو دوہری ذمہ داری ادا کرنی ہے۔ ایک تو انہیں ملک کی مین اسٹریم سیاست کی تطہیر و تزکیہ کا قابل عمل روڈ میپ تیار کرنا ہے ، دوسرے یہ کہ انہیں خود امت مسلمہ کی سیاسی بصیرت کی بازیابی، سیاسی حکمت عملی کی تشکیل اورسیاسی ایکٹیوزم کی سمت کا خاکہ تیار کرکے اس میں رنگ بھرنا ہے۔

حالیہ شمارے

براہیمی نظر پیدا مگر مشکل سے ہوتی ہے

شمارہ پڑھیں

امتیازی سلوک کے خلاف منظم جدو جہد کی ضرورت

شمارہ پڑھیں