کیمپس میں جو آگ لگی ہے ہوا چلے گی سرکار جلے گی

ایڈمن

ڈاکٹر سلیم خان

جواہر لال یونیورسٹی کے نتائج سےبی جے پی کو دہلی یونیورسٹی کی آب و ہوا کااندازہ ہوگیاکہ اس لیے وزیراعظم گجرات کی طرف نکل گئے اور امیت شاہ نے بنگال کی راہ لی۔ کون جانتا تھا دہلی یونیورسٹی سے نکل وزیر خزانہ بننے والے ارون جیٹلی کے راج میں کانگریس کی این ایس یو آئی صدر و نائب صدر دونوں عہدوں پر قابض ہو جائیگی ۔ جے این یو میں اپنے قدم جمانے کے لیے آرایس ایس نے سارے حربے استعمال کرلیے ۔ جنوری ۲۰۱۶ ؁ میں نئے وائس چانسلر کے تقرر سے جو سلسلہ شروع ہوا تو یونین کے صدر کنھیا کمار اور عمر خالد وغیرہ پر بغاوت کے الزام تک پھیل گیا۔ جب یہ سازش ناکام ہوئی تو ایم فل اور پی ایچ ڈی کے داخلے میں ۸۳ فیصد کی کٹوتی کردی گئی۔ طلباء کے اندر دیش بھکتی کے فروغ کی خاطر کیمپس میں فوجی ٹینک نصب کیا گیا جبکہ ڈوکلام میں چین کے مقابلے سے انہیں ہٹا لیا گیا ۔ ان گیدڑ بھپکیوں کے باوجود اے بی وی پی ۲۰۰۰؁ کی اپنی کامیابی کو نہیں دوہرا سکی جبکہ سندیپ مہاپاترا نے صدارتی انتخاب جیت لیا تھا۔ جے این یو کی چاروں نشستوں پر اے بی وی پی شکست نے ثابت کردیا طلباء کو ڈرانا یا جھانسے میں لینا آسان نہیں ہے۔

جے این یو کی اس انتخابی جنگ میں ایک اہم مدعا نجیب احمد کی پراسرار گمشدگی بھی تھا ۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ شنکھ پھونک کر اپنی مہم کا آغاز کرنے والی اے بی وی پی کے امیدواربائیں بازو کی جماعتوں پر نجیب لاپتہ ہونے پر سیاست کرنے کا اوٹ پٹانگ الزام لگادیا ۔ باپسا کی امیدوار شبانہ علی کی بحث کا جواب دیتے ہوئےودیارتھی پریشد کی ندھی ترپاٹھی نے کہا کہ نجیب احمد جے این یو سے نکل کر جامعہ ملیہ گیا تھا ۔ جامعہ والے اپنے گیٹ کی ویڈیو ریکارڈنگ کیوں نہیں دے رہے ہیں ؟ اس بیان کو پڑھتے ہوئے ایسا لگتا ہے کہ گویا جامعہ ملیہ اسلامیہ پاکستان میں ہے ۔دہلی پولس کے لیے وہاں جاکر تفتیش کرنا ممکن نہیں ہے۔ بی جے پی کی مرکزی سرکار کے تحت کام کرنے والی پولس کو آخر ویڈیو حاصل کرنے سے کس نے روکا ؟ جو پولس نجیب کے آبائی گاوں میں جاکر اس کے ضعیف نانا کو ہراساں کرسکتی ہے وہ جامعہ سے فلم کیوں حاصل نہیں کرسکتی؟

ندھی ترپاٹھی نے یہاں تک کہہ دیا کہ ’’سچ تو یہ ہے کہ اپنے خودغرضانہ سیاسی مفادات کے حصول کی خاطر آپ لوگوں نے (بائیں بازو) ہی نجیب احمد کو لاپتہ کردیا ہوگا‘‘۔ ندھی ترپاٹھی کے اس بے تکی بہتان تراشی اور ڈھٹائی سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ آگے چل کر وہ بھی ملک کی وزیردفاع یا وزیر خارجہ بن ہی جائیں گی۔ کچھ اور نہیں توکم ازکم ان کو اوما بھارتی کی جگہ آبی وسائل کی وزارت تھما دی جائیگی ۔ ان لوگوں کا کام احمقانہ انداز میں سنگھ پریوار کی مدافعت کرنا ہے اور کالج کے زمانے سے وہ اس فن کی تربیت حاصل کرتے ہیں ۔ اپنے مخالفین پر نجیب کی گمشدگی کا الزام لگانے والی ترپاٹھی یہ بھول گئیں کہ ان کی اپنی جماعت نے نجیب کے ساتھ جھگڑا کرنے والے انکت رائے کو زبان، ادب اورتہذیبی شعبے سےکونسلر کا ٹکٹ دیا یہ اور بات ہے کہ وہ ناہنجار نہ صرف ناکام رہا بلکہ تیسرے مقام پر کھدیڑ دیا گیا۔

ویسے کون جانتا تھا کہ نجیب احمد کی گمشدگی کے ایک سال بعد نہ صرف ایک مسلم امیدوار سمن ضیاء خان نائب صدر کا انتخاب جیت جائیں گی بلکہ صدارتی عہدے کے لیے ایک آزاد مسلم امیدوارفاروق عالم طلباء کی توجہات کا مرکز بن جائیگا۔ جے این یو میں ویسے بھی آزاد امیدوار کا میاب نہیں ہوتے پھر بھی یہ کوئی معمولی بات نہیں ہے کہ عالم نے این ایس یو آئی کے امیدوار سے پانچ گنا زیادہ ووٹ حاصل ہوئے۔ فاروق عالم نے اے آئی ایس ایف سے الگ ہوکر آزادامیدوار کی حیثیت سے الیکشن لڑا اور اس سے بھی تین زائد ووٹ حاصل کیے۔ اے آئی ایس ایف سے کنارہ کشی کی وجہ فاروق نے اس طرح بیان کی کہ ’’مجھے محسوس ہوا انہیں کیمپس سے باہرکے معاملات میں زیادہ دلچسپی ہے اور وہ کیمپس کے مسائل کی جانب توجہ نہیں دیتے ۔ وہ مودی اور ان کی سیاست پر اپنی توجہ مرکوز رکھتے ہیں۔ فاروق بہار کے ایک کسان کامعذور بیٹا ہے جو بچپن میں دماغی فالج کا شکار ہوگیا تھا ۔ اس کے غریب والدین علاج کرانے کی کوشش کی لیکن کچھ زیادہ نہ کرسکے۔

۲۰۱۳؁ کے اندر اس نے انڈر گریجویٹ ڈگری کے لیے جے این یو میں داخلہ لیا اور اب ماسٹرس کررہا ہے۔ اس نے پچھلے دوسالوں میں گوگل کے لیےایک مترجم کی حیثیت سے اپنی خدمات پیش کیں۔ جو لوگ دن رات سنگھ پریوار کی اور یہودیوں کی تعریف و توصیف میں رطب اللسان رہتے ہیں ان کو خود اپنی ملت کا ہونہار فاروق عالم نظر نہیں آتا ۔ فاروق عالم نے اپنے بارے میں بتایا کہ ’’جب میں پہلی بار کیمپس میں آیا تو میرے اندر یہ جاننے کا اشتیاق تھا کہ طلباء کی سیاست کیسے ہوتی ہے اور انتخاب کیسے لڑا جاتا ہے؟ اس کے بعد میں کیمپس سرگرمیوں میں مصروف ہوگیا۔ میرا خیال ہے کہ میں بہت کچھ سن چکا ہوں اور اب بولنے کا وقت آگیا ہے‘‘۔

صدارتی بحث میں فاروق عالم جب بولنے کے لیے آگے آئے تو خوب بولے اور سامعین کا دل جیت لیا۔ انہوں نےسوال کیا یہ بائیں بازو والے لوگ اپنے آپ کو ترقی پسند یا روشن خیال اور مستضعفین کا نجات دہندہ کہتے ہیں لیکن کیا وہ کبھی معذوروں کے ساتھ شانہ بشانہ کھڑے ہوئے ہیں؟ انہیں صرف تعزیتی نشستوں کا انعقاد اور پمفلٹ تقسیم کرنا آتا ہے۔جو لوگ ایک نجیب کی حفاظت نہیں کرسکے ان سے کیمپس کے تحفظ کی توقع کیسے کی جائے؟ باپسا پر نشانہ سادھتے ہوئے فاروق نے کہا کہ جب سارے طلباء نجیب کے معاملے میں متحد ہوگئے تو باپسا نے اپنی ڈیڑھ اینٹ کی الگ مسجد بناکرشکونی ماما کی طرح ہندو اور مسلمان طلباء کو تقسیم کرنے کی مذموم کوشش کی۔ انہوں نے اے بی وی پی کو تلقین کی کہ اگر وہ طلباء کی سیاست کرنا چاہتے ہیں تو فرقہ پرستی سے باز آجائیں ۔ سابقہ صدر موہت پانڈے نے فاروق عالم کے انتخاب میں شرکت پر خوشی کا اظہار کرتے ہوئے کہا یہ اچھی بات ہے ہرکسی کو موقع ملنا چاہیے۔

صدارتی انتخاب کی بحث میں اے آئی ایس ایف کی اپرجیتا راجہ نے اے بی وی پی پر الزام لگایا کہ کچھ ایسے لوگ بھی ہیں جو کیمپس کو مذبح خانہ بنانا چاہتے ہیں ۔ انہوں وعدہ کیا تھا کہ وہ یونیورسٹی گرانٹس کمیشن سے مل کر کٹوتی شدہ نشستوں کو پھر سے بحال کرائیں گی۔ بائیں محاذ کی گیتا کماری نے اے بی وی پی کا موازنہ ہٹلر سے کرتے ہوئے کہا یادرہے نازیوں نے بھی اپنی مہم کا آغاز یونیوسٹی کی بیخ کنی سے کیا تھا اور اے بی وی پی کیمپس کو آرایس ایس کی شاکھا میں تبدیل کردینا چاہتی ہے۔ جے این یو کے بیدار مغز طلبا نےسنگھ کے منصوبے کو خاک میں ملادیا۔ صدارتی انتخاب میں چونکہ دومسلم امیدوار تھے اور باپسا کی شبانہ علی نے ۹۳۵ ووٹ حاصل کرلیے اے بی وی پی کو گیتا کماری نے صرف ۴۶۴ ووٹ سے ہرایا۔ اس کے علاوہ نائب صدر کا انتخاب سمن ضیاء نے ۸۵۰ ووٹ کے فرق سے جیتا جنرل سکریٹر ی کی دوڑ میں دگی رالا نے اے بی وی پی کے ۹۷۵ ووٹ کے بالمقابل ۲۰۸۲ ووٹ حاصل کیے۔ بائیں بازو کی سبھانشو سنگھ کو بھی پنکج کیشری کے ۹۲۰ کے بالمقابل ۱۷۵۵ ووٹ ملے ۔

اولین وزیراعظم جواہر لال نہرو کے نام پرقائم شدہ یونیورسٹی میں سب سے برا حال کانگریس کی این ایس یوآئی کا ہوا۔ اس بیچاری کو نوٹا کے جملہ ۱۵۱۲ سے نصف ۷۲۸ ووٹ ملے ۔ یہ قابل ِ تشویش پہلو ہے کہ اس ہنگامہ کے باوجود ۱۵۰۰ سے زیادہ طلباء نے کسی امیدوار کو قابل التفات نہیں سمجھا اور بیلٹ پیپر پر نوٹا کے نشان پر مہر ثبت کردی ۔ جے این یو انتخاب کے بعد ایک ہفتے کے اندر ایک اور چمتکار ہوگیا ۔ سنگھ پریوار کے گڑھ دہلی یونیورسٹی میں این ایس یو آئی نے صدر و نائب صدر کی نشستوں پر اے بی وی پی کو شکست فاش سے دوچار کردیا۔ دہلی میں رامجس کالج سانحہ کے بعد اے بی وی پی نے طلبا برادری کو قوم پرست اور قوم دشمن کے خانوں میں تقسیم کرنے کی مذموم کوشش کی تھی۔کنھیاو عمرفاروق وغیرہ و غدار قرار دیا تھا ۔ اس غیر ضروری بحث کا فائدہ کانگریس کو ملا ۔ پچھلے سال پریشدکے لوگ صدر، نائب صدر اور سکریٹری کے عہدے پرفائز تھے جبکہ جوائنٹ سکریٹری کا عہدہ پر این ایس یو آئی کے پاس تھا ۔ اس بار بازی الٹ پلٹ گئی ۔ صدر و نائب صدر عہدہ این ایس یو آئی کے پاس آگیااور اے بی وی پی کو سکریڑی و جوائنٹ سیکریٹری کی نشستوں پر اکتفا کرنا پڑا۔ ۲۰۱۲ ؁کے بعد پہلی مرتبہ این ایس یو آئی کو صدارتی انتخاب میں کامیابی ملی ہے۔ این ایس یو آئی کا کہنا ہے کہ ایک عہدے پر بی جے پی نے جعلسازی کی ہے اس لیے وہ عدالت سے رجوع کرےگی۔ اس انتخاب میں بھی طلبا کی عدم دلچسپی کا یہ عالم تھا کہ صرف ۳۴ فیصد نے انتخاب میں حصہ لیااور ان ایک لاکھ ۷۸ہزار طلباء میں سے۹۲ ہزار ۷۰۰ یعنی ۵۱ فیصدنے نوٹا یعنی سارے امیدواروں کو نااہل قرار دے دیا۔

دہلی یونیورسٹی میں اے بی وی پی کی کامیابی کا گراف مودی جی کی مقبولتن سے منسوب ہے۔۲۰۱۴؁ اورمی۲۰۱۵؁ میں اس نے چاروں اہم عہدوں پر قبضہ کیا لیکن پچھلے سال اس کو ایک سب سے غیر اہم نشست گنوانی پڑی۔ اس سال وہ دو اہم ترین عہدوں سے محروم ہوگئی۔ دہلی میں بو انا کے ضمنی انتخاب میں بھی بی جے پی کو عآپ پارٹی کے ہاتھوں ایسی ہی ہزیمت اٹھانی پڑی تھی۔ وہاں بی جے پی اور کانگریس کے ووٹ تقریباً یکساں تھے۔ اے بی وی پی کی اس کامیابی کو استثنائی قراردے کرنظر انداز کرنا درست نہیں ہے ۔ اس سے قبل راجستھان یونیورسٹی میں بی جے پی کو صوبائی حکومت کے باوجود اے بی وی پی چاروں اہم عہدے ہار گئی۔ صدارت کی کرسی پرایک آزاد امیدوار نیز بقیہ تینوں عہدوں پر این ایس یو آئی کامیاب ہوگئی پنجاب یونیورسٹی میں بھی این ایس یوآئی نےیونین کے صدر سمیت تین عہدے جیت لیے۔

کیمپس کی سیاست سے قطع نظر اگر انتظامیہ اور معیار تعلیم پر نظر ڈالی جائے تو ایک زمانے تک ملک بھر میں سب سے آگے رہنے والی ممبئی یونیورسٹی کا حال بہت برا ہے۔ اس سال مجبوراً مہاراشٹر کے گورنراور ممبئی یونیورسٹی کے چانسلر سی ایچ ودیاداگر راؤکو مداخلت کرتے ہوئے وائس چانسلر ڈاکٹر دنجے دیشمکھ کو چھٹی پر بھیجنا پڑا اور کولہاپور یونیورسٹی کے وائس چانسلر پروفیسردیوآنند شندے کو کارگزار وی سی مقررکیا گیا۔ ممبئی یونیورسٹی کے نتائج میں تاخیر کے سبب سخت بے چینی سے تنگ آکر گورنر ودیاساگر راؤ کو یہ اقدام کیا۔ یہ معاملہ اس قدر تشویشناک تھا کہ مہاراشٹر کے حکمران اتحادمیں شامل شیوسینا نے ریاست کے وائس چانسلر سمیت وزیر تعلیم ونود تاوڑے کے استعفیٰ کامطالبہ کردیا کیونکہ جن نتائج کا اعلان ۴۵ دن کے اندر ہوجانا چاہیے تھا وہ ۱۱۵ دن کے بعد بھی ظاہر نہیں ہوئے۔ یہ امر قابلِ شرم ہے کہ اس شدید تعلیمی بحران کے دوران بھی بے حس صوبائی حکومت قطعی مطمئن رہی ہے۔ ممبئی یونیورسٹی کی دگرگوں حالت بتاتی ہے کہ اے بی وی پی کے رہنما جب اقتدار سنبھالتے ہیں تو نظام تعلیم کی کیسی درگت بناتے ہیں ۔

وزارتِ فروغِ انسانی وسائل تعلیمی و دیگر انتظامی امور کی بنیاد پر یونیورسٹیوں کی درجہ بندی کرتی ہے ۔ اس سال علی گڈھ مسلم یونیورسٹی کو ۱۹ویں مقام پر رکھا گیاہے جس کے نتیجہ میں ایک منفی پیغام کی ترسیل ہوئی لیکن حقیقتِ حال یہ نہیں ہے۔ ڈاکٹر وسیم احمد کی پیش کردہ تفصیلات سے پتہ چلتا ہے کہ اگراس بابت تفریق و امتیاز نہ برتا جاتا تو علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کا شمار پھر سے ملک کی صفِ اول کی یونیورسٹی میں ہوتا۔ اس رینکنگ میں اے ایم یو کو درس وتدریس میں ۵۸ء۵۶نمبر حاصل ہوئے جبکہ بی ایچ یو ۸۵ء۴۷ اور جے این یو کو۱۱ء۶۲ نمبر حاصل ہوئے۔۲۰۱۶ ؁ میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کو۷۳ء۶۶نمبر، بی ایچ یو ۲۸ء۷۰ اور جے این یو کو۷۵ء۸۹نمبر حاصل ہوئے تھے۔ یہ اعدادو شمار گواہ ہیں کہ تینوں اداروں کے نمبرات کم ہوئے مگر علی گڑھ کی کمی سب سے کم ہے اور وہ اس اہم ترین شعبے میں وہ بی ایچ یو سے آگے نکل گئی ہے۔اصل گھپلا پرسپیشن یعنی شبیہ کے میدان میں کیا گیا اس میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کو۶۲ء۱۶نمبر حاصل ہوئے جبکہ بی ایچ یو کو۱ء۴۴ اورجے این یو کو۳۳ء۸۱نمبر دیئے گئے ۔ یہ ایک ایسی شق ہے کہ اعدادو شمار کی بنیاد پر جس کی حقیقی پیمائش ممکن نہیں ہے اس لیے اس کی بنیاد پر کسی یونیورسٹی کے معیار کو جانچنا درست نہیں ہے۔

اس جانبداری کی قلعی اس طرح کھل جاتی ہے کہ ڈاکٹر وسیم کے مطابق ٹائمس ہائر ایجوکیشن، یوکے نے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کو ایشیا کی۵۰ویں سب سے بہتر یونیورسٹی قرار دیا ہے۔ دا ویک ہنس بیسٹ انڈین یونیورسٹی سروے کے مطابق علی گڑھ مسلم یونیورسٹی چوتھے نمبر پر تھی۔ انڈیا ٹوڈے کے مطابق علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کا جے این میڈیکل کالج۱۲ویں مقام پر، جبکہ فائن آرٹس شعبہ۱۰ویں مقام پر اور انجینئرنگ کالج۲۳ویں پرہے۔ امریکہ کی یو ایس نیوز ایف ورلڈ رپورٹ کے مطابق علی گڑھ مسلم یونیورسٹی ملک کی دوسری سب سے بہتر یونیورسٹی ہے۔ عوام کواب سوچنا ہوگا کہ وہ جانبدارزعفرانی وازرت کی مانیں یا غیر جانبدار بین الاقوامی اداروں پر اعتبار کریں۔ویسے حکومت ہند نے بھی فارمیسی کے اداروں میں جامعہ ہمدرد دہلی کو پہلے نمبر پر رکھا ہے۔ جامعہ ہمدرد کی یہ کامیابی قابل ستائش ہے۔

جامعہ ملیہ اسلامیہ اس سال قومی رینکنگ میں اپنی بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ۸۳ ویں مقام سے ۱۲ ویں نمبر پر سب سے اونچی چھلانگ لگائی ہے ۔گزشتہ سال یونیورسٹی انتظامیہ نے وزارت ترقی انسانی وسائل میں اپنا اعتراض درج کیا تھا اور درجہ بندی کے معیار میں تکنیکی خرابی بتائی تھی۔ اس باردرستگی ہوئی تو وہ ۷۱ درجہ اوپر آگئی۔ گزشتہ سال جامعہ کو درس و تدریس کے وسائل میں ۱۳ء۲۴ پوائنٹ ملے تھے جبکہ اس سال ۸۹ء۵۸ پوائنٹس ملے جو اہم کامیابی ہے۔ پرسپشن کے معاملے نے جہاں علی گڈھ مسلم یونیورسٹی کو پیچھے ڈھکیل دیا گیا وہیں جامعہ آگے بڑھ گئی اور اس کی شبیہ گزشتہ سال ۶۴پوائنٹس کے مقابلے اس بار ۷۳ء۹۰ پوائنٹس پر پہنچ گئی ۔ ملت کودن رات کوسنے والے ماتمی دانشور وں کو چاہیے کہ اب تو وہ مسلمانوں میں احساسِ کمتری یا جرم و ندامت کا رحجان پھیلانے والے کارِ شر سے باز آجائیں۔

یونیورسٹی کے بعد آئیے اسکول ، پاٹھ شالا اور مدرسوں کا رخ کریں ۔آج کل اتر پردیش کے وزیراعلیٰ مدرسوں کے پیچھے نہا دھو کر پڑے ہوئے ہیں ۔ پہلے تو انہوں نے یوم آزادی پر وندے ماترم پڑھنے اور اس کی ویڈیو نکال کر بھیجنے کا فرمان جاری کیا جسے مسلمانوں نے ان کے منہ پر دے مارا۔ اب انہوں نے بے ضابطگی کا بہانہ بناکر ۴۵ مدرسوں کا تعاون روک دیا۔ مفت کی بھکشا پر پلنے والے سادھو حکومت کی امداد کو خیرات سمجھتے ہیں حالانکہ یہ عوام کا حق ہے۔ اس ملک کے مسلمان بالواسطہ اور بلا واسطہ ٹیکس ان سیاستدانوں کے عیش و عشرت کے لیے نہیں بلکہ اپنے فلاح بہبود کے لیے ادا کرتے ہیں۔ اس لیے مسلمانوں کے ٹیکس کی رقم کو غصب کرلینا کسی سادھو زیب نہیں دیتا۔ ابھی انہوں نے مدرسوں کے ہر کمرے میں کیمرہ لگانے کا فتویٰ نکال دیا۔ مدرسے والوں نے اس پر اعتراض نہیں کیا مگرکہا جو حکم دیتا ہے وہ خرچ بھی کرے ۔ ممکن ہےکل کو یوگی کی پولس کسی کو گرفتار کرنے آئےتو اسی سے کرایہ بھی وصول کرے ۔ ویسے سارے بڑے اسکولوں میں کمرے لگے ہوئے اس کے باوجود آئے دن قتل و جنسی آبروریزی کے واقعات سامنے آجاتے ہیں۔ دہلی میں بی جے پی رہنما کے اسکول ریان کا سانحہ سب کے سامنے ہے۔ یوگی کی اس داداگیری پر ہمارے ایک کرم فرما نے اعتراض کیا کہ سنسکرت پاٹھ شالاوں یا آشرموں میں کیمرے کیوں نصب نہیں کیے جاتے؟ تو ہم نے اسے سمجھایا بھائی ایسا مطالبہ نہ کرو ورنہ بلیو فلمیں بننے لگیں گی اور سرکاری افسر کوئی کام کاج کرنے بجائے انہیں فلموں سے دل بہلاتے رہیں گے۔یوگی جی کو پتہ ہے مدرسوں میں ایسا خطرہ نہیں ہے اس لیے وہاں پر کیمرے لگوا رہے ہیں اگرگرومیت رام رحیم حیوان کی گپھا میں پوشیدہ کیمرہ لگا ہوتا تو نہ جانے کیسا انرتھ ہوجاتا۔

مارچ 2018

مزید

حالیہ شمارہ

امتیازی سلوک کے خلاف منظم جدو جہد کی ضرورت

شمارہ پڑھیں

فلسطینی مزاحمت

شمارہ پڑھیں