کیمبرج انالیٹیکا اور ڈیٹا کا تحفظ

ایڈمن

امبا اُتّراکک ترجمہ: عدنان الحق

’’ہم جان لیں گے کہ کس قسم کی پیغام رسانی، کس اسلوب اورکن عناوین سے آپ متاثر ہوتے ہیں۔جس کی وجہ سے آپ کے صارف بننے کے امکانات زیادہ ہوتے ہیں۔۔۔اور آپ کس طرح سوچتے ہیں اسے تبدیل کرنے کے لیے ہمیں، آپ کو کتنی باریاددہانی کرانے کی ضرورت ہوگی۔‘‘
مندرجہ بالااقتباس کیمبرج انالیٹیکاکے کریسٹوفر وایلی کے ایک انٹرویو سے ماخوذ ہے۔ کیمبرج انالیٹیکاایک سیاسی مشاورتی فرم ہے جس نے کچھ ہی ہفتوں میں ایک غیر معروف فرم سے عالمی سطح پر معروف فرم تک کا سفر طے کیا ہے۔ کیمبرج انالیٹیکانے 50 ملین سے زائد امریکیوں کے بارے میں فیس بک سے’’گرینولر(بنیادی اور باریک)‘‘ معلومات تک رسائی حاصل کرنے کے لئے فریب (کئی ممالک میں غیر قانونی ذرائع) کا استعمال کیا۔ اس معلومات کا استعمال ڈونالڈ ٹرمپ کی صدارتی انتخابی مہم میں سیاسی پیغام رسانی کے لیے کیا گیا۔اس طرح کا پروپیگنڈہ نیا نہیں ہے اور جب چالاکی سے کیا ہو تو اس کے ذریعہ رائے عامہ کو تبدیل کیا جاتاہے۔ تو پھراس واقعے میں نیا کیا تھا؟ دراصل فیس بک پر خوشگوار شخصیت کوئز کے تحت لوگوں کی ترجیحات اور محرکات کے بارے میں معلومات حاصل کی گئی تھی ۔صارفین کو اس بات پر شدید غصہ تھا کہ ان کے (اور ان کے فیس بک دوستوں) کی معلومات، بغیر ان کے علم یا رضامندی کے کسی سیاسی مہم کے لیے چارے کے طور پر استعمال کی گئی ۔


ہم یہ نہیں جانتے کہ کیمبرج انالیٹیکا کی سرگرمیوں نے ٹرمپ کی فتح میں حصہ لیا تھا یا نہیں اور اگر لیا تھا تو کس حد تک ،اس وقت اس پر قیاس کرنا غیر متعلق ہے۔لیکن اس طرح کے معاملات کے بعد عوامی رابطے اور نجی مواصلات کے لئے ایک مہذب، شفاف اور جمہوری ذریعہ کے طور پر انٹرنیٹ کا وعدہ بہت دورمعلوم ہوتاہے۔ان سب کے باوجود، آپ اب بھی انٹرنیٹ پر’’اپنی کہانی بیان‘‘ کر سکتے ہیں۔جس طرح کہ ٹیلی ویژن یا پرنٹ میڈیا پر ممکن نہیں، لیکن آپ کی اس کہانی کے سامعین ہوں گے بھی یا نہیں، اور اگر ہوں گے تو کس قسم کے ہوں گے، اس کا فیصلہ کون کرے گا ؟یہ ایک اہم سوال ہے۔


یہ ایک کھلا راز رہا ہے کہ انٹرنیٹ پر مواصلات، سوشل میڈیا کے مٹھی بھر پلیٹ فارم پر مرکوز ہوکر رہ گئی ہے اور کچھ ہی کمپنیاں ان سوشل میڈیا سائیٹس کی مالک ہیں۔انٹرنیٹ پرہو سکتا ہے کہ لامحدود مواد ہو، لیکن اس کے صارفین کی توجہ محدود ہے۔ اس لئے صارفین کو متوجہ رکھنے کے لئے پہلے سے متعین شدہ اہداف کے تحت پلیٹ فارم بنائے گئے ہیں۔ یہ پلیٹ فارمس صارفین کے لئے موزوں اور تجارت کو فروغ دینے والا مواد آگے بڑھانے میں مدد دیتے ہیں۔ سماجی میڈیا کمپنیاں عام طور پر مواد کی پیداوار نہیں کرتی ہیں اور اس لیے ان کے بہت سے رہنما اصول، پلیٹ فارم کے رہنماؤں اور تاجروںکے بجائے صارفین پر لاگو ہوتے ہیں۔ تاہم، الگورتھم کے آپریشن کے ذریعےایک انفرادی صارف کیا اور کب کون سا مواد دیکھے اس بات کو کنٹرول کرنے کا موقع ان پلیٹ فارم کے مالکوں کو میسر ہوتا ہے۔ اس کے ساتھ ہی عوامی رجحان کی درجہ بندی کی بنیاد پر فیصلہ بھی کیا جاتا ہے۔ مجموعی طور پر، یہ الگورتھم ہی اس بات کا تعین کرتا ہے کہ کونسے موادکو بڑھاوا دیا جائے اور کونسا مواد اپنی چھاپ چھوڑے بغیر غائب ہوجائے۔

ان سائٹس کا ایک حصہ اسپانسر شدہ مواد بھی رہتا ہے جو مصنوعی طور پر ادائیگی کے بدلے میں ناظرین کو ہدف بنا کر سائٹ پر ڈالا جاتا ہے۔یہ الگورتھم کے انتخاب اور کاروباری طور طریقے ہماری آراء اور سوچ کو ایک شکل دیتے ہیں، اورہماری معلومات کے ذرائع بھی طے کرتے ہیں۔ان کی ترجیحات کی تجاویز کسی فرد کے اختیارات کے ساتھ براہ راست مداخلت نہیں کرسکتی ہیں، لیکن ایک قانونی فلسفی جوزف راز اس کی وضاحت یوں کرتا ہے کہ ’’جس طرح کوئی فرد خودسے فیصلے تک پہنچتا ہے، یا اپنی ترجیحات طے کرتا ہے، یا اہداف بناتا ہے اس طریقے کو یہ الگورتھم ختم کر دیتے ہیں۔یہ خرابی خود ایک ’’خودمختاری کا خاتمہ‘‘ ہے‘‘۔ ہندوستان کا آئینی فقہ (Jurispridance) یہ ہے کہ انفرادی آزادی اور جمہوریت دونوں کے لئے ضروری ہے کہ مختلف قسم کی معلومات حاصل کرنے کے لیے ذرائع موجود ہوں تاکہ فرد خود مناسب انتخاب کرسکے۔جسٹس میتھیوز(Bennette celeam v Union of india,1973) کی رائے کے مطابق ایک باخبر رائے دہندہ کو حکومت سینسر شپ کی طرف سے نہیں بلکہ نجی کھلاڑیوں کی ذرائع تک رسائی پر پابندی کی طرف سے ہی زیادہ نقصان پہنچتا ہے۔ایک اور معاملہ میں 1995 میں سپریم کورٹ نے یہ مشاہدہ کیا ہے کہ اگر صرف معدودے چند افراد ہی نشریات کو کنٹرول کرنے لگیں تو اپنے مفاد کے لیے اس کا استعمال کرتے ہوئے خبروں اور رائے عامہ کو تبدیل کرتے ہیں۔ ایسی صورت حال آزادی اظہار رائے کے لئے ایک خطرہ بن جاتی ہے کیونکہ یہ آراء کے تنوع کو ختم کردیتا ہے اور عوام کو ایک مسئلہ کے تمام پہلوؤں پر صحیح معلومات سے آگاہی نہیں ہو پاتی۔ (Ministry of information and Broadcasting V

Cricket Asosiation of Bengal 1995)سوشل میڈیا کے پلیٹ فارمس اور اشتہاراتی اداروں کے مالی مفادات سیاسی اداکاروں کے مفادات کےکب مشترک ہو جاتے ہیں؟ اور ان مفادات کا آئینی اقدار کے ساتھ کہاں ٹکرائو ہوتاہے؟کیا ٹیکنالوجی اس طرح کے مفادات میں مدد کرتی ہے اور ان مفادات کے ٹکرائو کو آف لائن ہونے والے اسی طرح کے ٹکرائو سے کیوں کر مختلف سمجھا جائے؟یہ اور اس سے جڑی بحث رائے عامہ پر تیکنیکی ساخت کے اثرات کو بڑھانے والی ہیں۔سب سے پہلے ہمیں ہندوستان کے مخصوص تناظر میں تحقیقات کی ضرورت ہے۔موبائل فون کے ذریعہ انٹرنیٹ تک رسائی شہری علاقوں میں 60 فی صد کے قریب ہے،جبکہ دیہی علاقوں میں 20 فیصد سے کم ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ زیادہ سے زیادہ انتخابی پروپیگنڈا ٓج بھی آف لائن ٹولز کے ذریعہ ہی پھیلا یا جارہا ہے۔لیکن مندرجہ بالا اعدادو شماروقت کہ ساتھ بڑھ رہے ہیں اس لیے ڈیٹا پر مبنی انتخابی مہمات بھی بڑھ رہی ہیں۔ جیسا کہ ہم بھارت میں 2019 عام انتخابات کے بہت قریب ہیں، سیاسی اشتہارات اور ڈیٹا کی رازداری کو منظم کرنے کے لئے ایک فریم ورک وقت کی فوری ضرورت ہے۔


انفرادی ذہن سازی


سماجی میڈیا پلیٹ فارمز پر انفرادی رجحانات اورترجیحات کے مطابق مواد کی تنظیم کی جاتی ہے ۔یہ پلیٹ فارم مواد کو غیر جانبداری کے ساتھ پیش کرتے ہیں ،اس میں کوئی انسانی مداخلت نہیںہوتی لیکن وہ ڈیزائن کے انتخاب کے لیے کسی اور کو شامل کرتے ہیں۔خاص طور پران پلیٹ فارم کو افراد کی مصروفیت یا تعلق اور رابطے کو بڑھانے کے لئے تشکیل دیا جاتا ہے۔صارف سائٹ پرجتنا وقت صرف کرتا ہے اتنے ہی زیادہ کلکس اور زیادہ لائکس کا اظہار وہ کرتا ہے۔یہ ٹولز سیاسی مہمات یا ان کے ایجنٹوں کو پیغامات کی ترسیل کرنے کی اجازت دیتے ہیں۔بالآخرجتنی زیادہ بنیادی سطح پرافراد کی ذہن سازی کی جائے گی صارفین اتنا ہی زیادہ ان سائٹس پر وقت صرف کریں گے۔ اور اس وجہ سے یہ مشتہرین کے لئے زیادہ پر کشش ہوگا۔اور اسی طرح پلیٹ فارم کی اقتصادی قدر بڑھتی چلی جائے گی۔لیکن، صارفین پر اس کا کیا اثر ہو گا؟اس بات کو ذہن میں رکھتے ہوئے کہ صارفین کی توجہ محدود ہوتی ہے۔ کچھ مقدار میںفلٹرنگ نا صرف جائز ہے بلکہ ضروری بھی ہے۔تاہم، بہت سے لوگوں کو یہ خطرہ ہے کہ ذاتی طور پر افراد، جن نظریات، نیٹ ورکس اور رجحانات سے آشنا ہیں ان ہی کو پروان چڑھانے والا مواد ان کے سامنے پیش کیا جاتا ہے جس سے ان کی پولرائزڈسوچ تشکیل پاتی ہے۔


صحیح وقت پر ایک پرجوش رائے پیش کرنے کے لیے، ہدف شدہ مواصلات منفرد طور پر پیش کیے جاتے ہیں تاکہ ہماری معلومات کے اختیارات کو محدود کیا جاسکے۔جیسا کہ خبر وں سے آگاہی کا رجحان روایتی ذرائع ابلاغ سے سوشل میڈیا کی جانب منتقل ہو رہا ہے،ایک معاشرے میں خبر بننے لائق کیا چیز ہے اور کیا نہیں اس کااحساس ختم ہو گیا ہے، اور یہاں تک کہ ایک مشترکہ احساس حقیقت (sense of Reality) کی بھی کمی ہے۔ایک وقت تھا جب انٹرنیٹ، محروم طبقات اور روایات کے لئے اپنی بات رکھنے کی جگہ کے طور پرکام کر تاتھااور آج وہ صرف خصوصی سیاسی دلچسپیوںکو فروغ دینے کا ذریعہ بن کر رہ گیاہے۔اس کے ساتھ ہی جب یہ فکر مند لوگوں کو اکثر یہ گمان ہوتا ہے کہ ٹیکنالوجی،سماجی اور سیاسی تعلقات میں ایک متعین عنصر ہے لیکن انتخابی نتائج میں اس کے اثرات کی حد ایک کھلا سوال ہے۔ہارورڈ یونیورسٹی میں ایک ٹیم کی جانب سے کئے گئے ایک مطالعہ سے پتہ چلا ہے کہ امریکہ میں صدارتی انتخاب کے دوران دائیں بازوکے میڈیا نظام نے دنیا سے کٹی ہوئی خود کو عقل کل سمجھنے والی کمیونٹی تیار کی تھی جو قارئین کے مشترکہ عالمی نقطہ نظر کو فروغ دینے اوراسے چیلنج کرنے والی صحافت سے انہیں بچانے کے لئے کیا گیا تھا۔تاہم، یہ پولرایزیشن بائیں بازو کے مقابلے میں دائیں بازو پر بھاری پڑا۔ جو اس بات کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ داخلی سیاست اورغیر ٹیکنیکل ڈھانچے کی وجہ سے کچھ کمیونٹیزکو دوسروں کے مقابلے میں غیر جمہوری مرکزی دھارے سے متعلق خبروں سے دوررکھا جاتا ہے۔اسی طرح کی تحقیق ہندوستان میں 2019 عام انتخابات سے قبل کرنے کی ضرورت ہے۔فوری تشویش یہ ہے کہ یہ انفرادی ذہن سازی کے لئے استعمال ہونے والے یہ ٹولز اعلی ترین بولی لگانے والوں کہ لیے ایک موقع ہے۔گہری جیبوں والے لوگ عام صارفین سے زیادہ پیمانے پر اور زیادہ درست حد تک ذہن سازی کے ذرائع تک رسائی حاصل کر پائیں گے۔


سیاسی اشتہارات


سماجی میڈیا پر سیاسی اشتہارات بہت سے شکلوں میں آتے ہیں اور ہندوستان میں بلا تحقیق چلائے جاتے ہیں۔براہ راست شکل میں سوشل میڈیا کمپنیوں کو معاوضہ دیکر سیاسی مہمات میںمواد کو فروغ دینے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ تاہم زیادہ تر اشتہارات ان افراد کے ذاتی اکاؤنٹس کے ذریعے چلے جاتے ہیں جو بڑے نیٹ ورک اور اعلی سطحی مصروفیت کے ساتھ، ”سماجی میڈیا کے بارسوخ افراد” کے طور پر جانے جاتے ہیں۔یہ ایجنٹ ایسے مواد کو پھیلاتے ہیں جو کبھی ظاہر نہیں کرتا کہ یہ سیاسی مہمات یا ان کی سوشل میڈیا کمپنیوں کے ذریعہ ادائیگی کے بدلے میں پھیلائے جارہے ہیں۔ہندوستان میں رپورٹوں سے پتہ چلتا ہے کہ وہاٹس ایپ (فیس بک یا ٹویٹر سے کہیں زیادہ) سیاسی مواصلات کی تقسیم کے لئے بنیادی ذریعہ ہے ۔سیاسی پیغام رسانی کا یہ طریقہ کار کم سے کم دو طریقوں سے روایتی بڑے میڈیا سے مختلف ہے۔سب سے پہلے انفرادی ذہن سازی سیاسی اداکاروں کو بڑے پیمانے پراور کم وقت میںانفرادی سطح تک پیغامات کی ترسیل کی اجازت دیتا ہے۔

تقریبا اس بات کی شناخت ممکن ہے کہ خاص طور پر کہاں ناظرین جمع ہوسکتے ہیں(فیس بک کے ایک گروپ پر یا ایک خاص ٹویٹر اکاؤنٹ پر)تاہم، کچھ سوشل میڈیا کمپنیاںیہ خدمت مشتہرین کوبڑے پیمانے پر اور زیادہ درست انداز کے ساتھ پیش کرتی ہیں۔مثال کے طور پر، فیس بک، ”ڈیموگرافکس، مقام، دلچسپییوںاور رویوں” کے مطابق سامعین کی وضاحت کرتا ہے جیسے سیاسی طور پر اعتدال پسند، یوگا کرنے والے، اتر پردیش میں رہنے والے وغیرہ اور اس گروپ کے مواد کو تقسیم کرنے کے لئے فیس چارج بھی کر سکتا ہے۔مشتہرین چنندہ افراد کے ای میلز کو بھی جمع کرکے رکھ سکتے ہیں اور فیس بک کے ”lookalike audiance” کے ٹول کا استعمال کرتے ہوئے جنس، علاقہ، عمر، یا خصوصی دلچسپیوں پر مبنی اسی طرح کے سامعین کے ساتھ منسلک ہوسکتے ہیں۔برطانیہ اور امریکہ میں ہوئی تحقیق کے مطابق اشتہاری مہم چلانے والے اداروں میں مناسب گروپوں کے لیے سماجی میڈیا پر اشتہارات کے ایک سے زیادہ ورژن چلائے جاتے ہیں۔ آخر میںاس میں یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ کمپنیوں نے کچھ گروپس کے لئے ”نرم” نقطہ نظر کی سفارش کی، اور دوسروں کے لئے زیادہ سخت نقطہ نظر کی ۔


دوسرا اختلاف سوشل میڈیا اور روایتی میڈیا میں یہ ہے کہ روایتی میڈیاپر سیاسی تشہیر ممکنہ طور پر شناخت کی جاسکتی ہے اور اس کی جانچ پڑتال بھی ہوسکتی ہے۔اس کے بر خلاف سوشل میڈیا پر ذاتی اشتہارات بیرونی آڈٹ کے اندیشے سے پاک ہوتے ہیں۔ یہ مسئلہWhatsApp کے ساتھ بڑھا ہوا ہے ،جوایک پیغام رسانی ایپ کے طور پر کام کرتا ہے اس میں End to End Encryption ہوتی ہے یہ مواد کو تکنیکی طور پر مداخلت سے پاک بناتا ہے۔سوشل میڈیا کے ذریعہ ہونے والے سیاسی مہمات پر نظر نہیںرکھی جا رہی ہے اسلیے انتخابی اخراجات کی حد بندی کرنا ناممکن محسوس ہوتا ہے۔اور اس لئے سیاسی رہنمائوں کے ذریعہ کیے گئے وعدے بھی نا قابل اعتماد ہیںحالانکہ ہندوستان کے مخصوص تناظر میںتحقیقات کی کمی کے باوجود ، Alt News and SMHoax جیسے خبروں کی جانچ پڑتا ل کرنے والی تنظیموں نے اس مسئلے کے ممکنہ پہلوؤں کا اظہار کیا ہے۔انہوں نے محسوس کیا ہے کہ ٹویٹر پربہت سے اکاؤنٹس باقاعدہ طور پر اوربڑے پیمانے پر ہنگامہ خیز(اور عمومانفرت انگیز) موادپھیلانے کے لئے ذمہ دار ہیں۔ یہ اکاؤنٹس درمیان میںوقفہ وقفہ سے بڑے کارپوریٹ کمپنیوں سے لے کرجوتا کمپنیوں کے اشتہارات کی تصاویر تک کو فروغ دینے والے مواد کو پوسٹ کرتے ہیں۔یہ ممکن ہے (اور بیشک ایسا ہی ہے) کہ سیاسی مہمات بھی اسی طرح کرتے ہیں۔اس لیے ان طریقوں اورجو یہ سہولت فراہم کرتے ہیں ان سماجی میڈیا مینجمنٹ کے اداروں میں تحقیقات کی ضرورت ہے۔


سرٹیفیکیشن کے بجائے شفافیت


خالص کاروباری منطق، سیاسی اور تجارتی اشتہارات کے درمیان خط امتیاز کی ضرورت محسوس نہیںکرتا۔لیکن موجودہ وقت کی گرمی اب سماجی میڈیا کے پلیٹ فارمس کو ایسا کرنے پر مجبور کررہی ہیں۔ریگولیٹری پس منظر کے خطرات سے مجبور ہوکر سماجی میڈیا کمپنیوں نے سیاسی اشتہارات کے بارے میں صارفین کو زیادہ افشاء کرنے کا اعلان کیا ہے،خاص طور پر ان لوگوں کے لئے جو ان کو فنڈز فراہم کرتے ہیں۔فیس بک کے چیف ایگزیکٹو آفیسر مارک زکربرگ نے بھی ”مسئلے سے متعلق اشتہارات” کی اصطلاح کے نام سے بنیادی سیاسی معاملات کے بارے میں’پیسہ کے بدلے مواد‘ پرشفافیت کا اعلان کیا ہے ،اگرچہ یہ انتخابات یا امیدواروں سے متعلق نہ بھی ہو تب بھی۔انہوں نے آگے بڑھ کر یہ ا علان کیا ہے کہ فیس بک کو ان سیاسی معاملات کی شناخت کرنے کے لئے ”بڑی تعداد میں پیروکاروں” کے ساتھ اکاؤنٹس کی بھی ضرورت ہوتی ہے۔کئی سوشل میڈیا پلیٹ فارم اب Honest Advertising Actکے نفاذ کے لئے آگے آچکے ہیں جس کے مطابق جو اشتہارات پر 500 ڈالر کے اوپر خرچ کرتا ہے اس کی معلومات عوامی کی جائے گی۔ موجودہ اور تاریخی سیاسی اشتہارات، ان کے ذرائع، اور ان کو فروغ دینے کے لیے دی گئی رقوم جیسی معلومات کو محفوظ ر کھنے کے لیے کینیڈا میں، فیس بک نے پہلے سے ہی ”وفاقی انتخاب سے متعلق اشتہارات” کے نام سے ایک محفوظ خانہ بنایا ہے (Canadian Press 2017)۔ ٹویٹر نے اپنے حصے پر، امریکہ میں ”ایڈورٹائزنگ ٹرانسپرنسی سینٹر” کا اعلان کیا ہے، جس سے پتہ چلے گا کہ ہر مہم میں اشتہارات پر کتنا پیسہ خرچ ہوتا ہے، خرچ کرنے والی تنظیم کی شناخت کیا ہے،اور ذہن سازی کے لیے وہ کن ڈیموگرافکس کا استعمال کر رہیں ہیں۔

ہندوستان میں سوشل میڈیا پلیٹ فارم کو ان شفافیت کی خصوصیات کو لاگو کرنے کے لئے تیزی سے آگے آنے کی ضرورت ہے۔ایک خبر کی رپورٹ کے مطابق2014 کے انتخابات کے لئے سوشل میڈیا بجٹ 10000کروڑ روپے سے زیادہ تھا اور ابھی تک پارلیمان کے صرف پانچ لوک سبھا ارکان نے سوشل میڈیا پر اخراجات کا اعلان کیا ہے۔People Act 1951 اور ماڈل ضابطہ اخلاق، جو کہ انتخابات اور انتخابی اخراجات کی حد کو منضبط کرتے ہیں اور پولنگ کے دن سے 48 گھنٹہ پہلے سیاسی مہم پر پابندی کی بھی دیکھ ریکھ کرتے ہیں، کی نمائندگی میں کچھ شرائط ہیںجو سماجی میڈیا پر بھی نافذ ہوتے ہیں۔یہ بات ذہن میں رکھتے ہوئے کہ بڑے پیمانے پر مواد کوبا رسوخ افراد کے ذریعے عوام میں پھیلایا جاتا ہے۔ اس لئےہمیں گمراہ کن سیاسی اشتہارات کی نگرانی کے لئے بھی مضبوط قانون کی ضرورت ہے۔یہاں، رقم کی ادائیگی کے بدلہ میںخبریں یعنی پیڈ خبریں یاجیسا کہ یورپ میں اصطلاح ہےadvertorialsپر روایتی قواعدکچھ مدد کرسکتے ہیں۔اگرچہ ادارتی مواد پر ان قوانین کی توجہ سماجی میڈیا کے صارفین کے ذریعہ پیدا ہونے والے ٹیکسٹ اور ویڈیو کے مجموعہ سے میل نہیں کھاتی ہیں۔2012 میں انڈیا کے الیکشن کمیشن نے پریس کونسل کی طرف سے وضاحت کردہ ”پیڈ خبروں” کے رجحان کو محدود کرنے کے لئے ہدایات کا ایک کمزور سیٹ متعارف کروایا تھا۔

نقد ، تحفہ یا اسی طرح کے فوائد کے بدلے میں کسی میڈیا پر خبر یا تجزیہ شائع کرنا یا دکھانا پریس کونسل کی رو سے پیڈ خبروں کے زمرے میں آتا ہے ۔الیکشن کمیشن کی ہدایات کے مطابق ہر ریاست میں میڈیا سرٹیفکیشن اور مونیٹرنگ کمیٹی (ایم سی ایم سی) قائم کی گئی ہے جس کا مقصدیہ ہے کہ تمام پیڈ خبروں کی پہلے سے تصدیق کرلی جائے ۔ لیکن سماجی میڈیا پر اس کا نفاذ غیرواضح ہے۔ایک بڑا مسئلہ یہ بھی ہے کہ آن لائن ذرائع ابلاغ، نگرانی اور نفاذ کے ان مندرجہ بالا طریقوں کے لیے نا قابل عمل ہیں۔قبل از سرٹیفیکیشن، سیاسی فنڈز میں شفافیت کا مطالبہ ایک اور فوری ضرورت ہے۔اس طرح کے اخراجات کے ایک قابل آڈٹ ڈیٹا بیس کونگرانی کے لئے تیسری پارٹی کو بھی اجازت دی جانی چاہئے۔اس میں ”ایشو کے متعلق اشتہارات” شامل ہوسکتے ہیںجو شاید سیاسی مہموں سے نہیں آسکتے لیکن سیاسی معاملات سے متعلق ایشوز ا س میں لازماً شامل کرسکتے ہیں۔


در اندازیوں پر کنٹرول


ووٹر کو بیوقوف بنانے کے ایک اسکینڈل نے حقوق رازداری اورڈیٹا کے تحفظ کے قوانین کے بارے میں تیزی سے عالمی سطح پر بحث کا رخ اختیارکر لیا ہے کیونکہ ان ہدف شدہ مواصلات کی زندگی ناگزیر طور پر ذاتی معلومات کے مجموعہ میں پوشیدہ ہے۔یہاں تک کہ وہ لوگ بھی جو ان مہمات کے اثرات سے متفق نہیںہیں، ڈیٹا جمع کرنے (اور اس کی مونٹائزیشن) کے بے لگام طریقہ کو تشویشناک سمجھتے ہیں۔اب کچھ سالوں سے رازداری کے محققین ڈیٹا کو جمع کرنے کے لیے استعمال ہونے والی بہت سی تکنیکوں کی جانب توجہ مرکوز کر رہیںہیں۔ایک فکر مندسینیٹرنے زکربرگ کو امریکی سینیٹ کمیٹی سے پہلے پوچھا تھاکہ ”کیا فیس بک اپنے صارفین کے بارے میں ذاتی معلومات کو فروغ دینے کے لئے موبائل آلات سے آڈیو وصول کرتا ہے؟”

زکربرگ نے اسے سازش بتانے میںجلدی دکھائی تھی۔لیکن جیسا کہ مبصرین نے اشارہ کیا ہے کونسی کتابیں آپ نے پڑھی ہیں، کیاچیزیں آپ خریدتے ہیں،چھٹی کے دن آپ کہاںجاتے ہیں، اور بے شک آپ کے سیاسی جذبات کیا ہیں انہیں (سوشل میڈیا پلیٹ فارم کو)یہ سب جاننے کے لیے آپ کی باتیں سننے کی ضرورت نہیں ہیں۔اس بات سے شاید کبھی آپ کو یہ محسوس ہو کہ پلیٹ فارمز جانتے ہیں کہ آپ کے دماغ میںکیا چل رہا ہے لیکن اس بات کو آپ ذہن میں رکھیں کہ یہ معلومات ہمیشہ آپ کے ڈیجیٹل نقش قدم سے ملتی ہیں۔ ویب بیکن اور کوکیز جیسے ٹولز کوسائٹس کے مابین ذاتی رویوں کو جاننے کے لئے استعمال کیا جا سکتا ہے۔ وہ مخصوص رویوں کو ان کی شناخت کے ذریعے یعنی IP پتوں، ای میلز، یا سوشل میڈیا اکاؤنٹس کے ذریعے ایک دوسرے سے منسلک کرتے ہیں۔Location Tracking خدمات ،آپ کہاں رہتے ہیں ، آپ کہاں کام کرتے ہیں اور سوشل میڈیا پر کب آپ زیادہ وقت صرف کرتے ہیں،اس بارے میں معلومات فراہم کرتی ہیں۔ یہ نگرانی GPS سے منسلک آلات کے ذریعہ کی جاتی ہے ۔بہت سے صارفینLocation Servicesہمیشہ شروع رکھتے ہیں لیکن جیسا کہ محققین نے بتایا ہے کہ جی پی ایس کے بند رہنے کے باوجود بھی دیگر آف لائن میٹرکس کے مجموعے کے ذریعہ آپ کے مقام کا پتہ لگایاجاسکتا ہے۔

اس طرح کے ڈیٹا جمع کرنے کے طریقے کمپنیوں میں عام ہیں۔کچھ اپنی مصنوعات اور خدمات کی مارکیٹنگ کے لئے مخصوص طور پر ڈیٹا استعمال کرتے ہیں، جبکہ دوسرے اس ڈیٹا کو بروکرز کو فروخت کردیتے ہیں جو اس کو دوسرے ڈیٹا (آف لائن ریکارڈز سمیت) کے ساتھ جمع کرتے ہیں اور اسے مشتہرین کو فروخت کردیتے ہیں۔ بڑے سوشل میڈیا پلیٹ فارمس کے ساتھ بڑے نیٹ ورکس (مشتہرین، ڈیٹا بروکرز، سوشل میڈیا مینجمنٹ سسٹم) کے تعلقات تو اس کھیل کا صرف عشر عشیرہے۔یہ مشتہرین زیادہ تر سیاسی مہم جو ہوتے ہیںیا پھر کاروباری افراد۔جس طرح سے تجارتی مشتہرین، کامیابی سے اس بات کی پیمائش کرتے ہیںکہ آیا خریداروں نے وہ چیزیں خریدی ہیں یا نہیں جن کا کہ اشتہار کیا گیا تھا۔ سیاسی اداکاراس بات پر توجہ کرتے ہیں کہ انھوں نے لوگوں کی توجہ اپنی جانب کی ہے یا نہیں اوروہ ان کے ساتھ جڑے ہیں یا نہیں۔


رازداری اور انتخاب کا سوال


قانون کے حالیہJurisprudence کے مطابق معلومات کی رازداری، یا اپنے ذاتی ڈیٹا پر قابو پانے کا حق، انفرادی خودمختاری کا ایک پہلو ہے اور ایک متحرک جمہوریت کے لئے لازمی ہے (Justice K.S.Puttaswamy v Union of India 2017)۔کن طریقوں سے معلومات کی رازداری کویقینی بنایا جاسکتا ہے؟اس سلسلہ میں جولیا کوہین (1996) کے مطابق ـ’’اپنی مرضی کے مطابق متفرق موادپڑھنے کا حق انفرادی رازداری کے لئے لازمی ہے‘‘۔یہ دعویٰ اس بات پر نگرانی کی مذمت کرتا ہے کہ افراد کیا پڑھنے یاکیا دیکھنے کا انتخاب کررہے ہیں ۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ افراد کو کسی پلیٹ فارم پر، ڈیٹا جمع کرنے والی سرگرمیوں کی ذہن سازی کے بغیر، ذاتی طور پر اپنے ذہن کے مطابق انتخاب کرنے کا اختیار ہونا چاہیے۔ایک تجویز یہ بھی ہوسکتی ہے کہ صارفین کواس کا حق دینا چاہیے کہ وہ یہ دیکھ سکیںکہ انہیں کس طرح اور کیوں ایک خاص طریقے سے درجہ بند کیا جارہا ہے اور اس میں تبدیلی کا بھی اختیار صارفین کو ہونا چاہئے۔مزید ایک تسلیم شدہ حق رازداری، خود کے ذاتی ڈیٹا کو درست کرنے کا حق ہے، یہ حق صارفین کو اپنے بارے میں غلط ڈیٹا کو درست کرنے کا حق فراہم کرتا ہے۔لیکن یہ ایک فلسفیانہ سوال اٹھاتا ہے کہ اگر آپ کے بارے میں ڈیٹا صرف آپ کےذریعے سے بنائے گئے انتخاب کی عکاسی کرتا ہے تو پھر اس میںاصلاحات (جس کے لیے ثبوت کی ضرورت ہوتی ہے کہ معلومات غلط ہے۔) کہاں تک چل پائیں گی؟ اگر میں اپنے آپ کو نوجوان ،دائیں بازو کی سوچ رکھنے والے پروفیشنل طالب علم کے گروپ میں درجہ بندی کرنے کی سفارش کرتا ہوں جبکہ میرے رویے دوسری جانب ہیں، یہ کہاں تک درست ہے؟ کیا فرد کو ڈیٹا پروفائلز کو کنٹرول کرنا چاہئے، قطع نظر اس کے کہ اس کا ڈیٹا واقعی کیا کہتا ہے؟

اس طرح کے سوالات پر بحث ہونی چاہیے لیکن اس طرح کی تجاویز صارفین کو بااختیار بنانے میں ضرور مدد کرسکتی ہیں، لیکن وہ بھی ان انتخابوں کو منظم کرنے کے لئے صارفین پر منحصرہوں گی۔ان تجاویز کی پیشکش کرنے والوںکا خیال ہے کہ صارفین کو اپنے ڈیٹا کو منظم کرنے میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گالیکن ابھی یہ بتانے کے لئے بہت کم ثبوت موجود ہیں۔ہمیں بیشک ذاتی انتخابی سا لمیت کی حفاظت کرنے کی ضرورت ہے، لیکن قطع نظر اس سے کہ صارفین کیا منتخب کرتے ہیں، اس کے تناسب اور ضروریات کے کچھ معیارات ہونا چاہئے جو تمام ڈیٹا پروسیسنگ سرگرمیوں پر نافذ ہوں۔مثال کے طور پر، اگر کسی مخصوص درخواست کی طرف سے کراس سائٹ سے باخبر رہنا، اس کے مقصد کے لحاظ سے غیر موزوں ہے، تو اس کو اجازت نہیں دی جاسکتی ہے۔ قطع نظر اس کے کہ صارف کیا انتخاب کر رہا ہے۔یہ تجاویز بھی عالمی سطح پر ذاتی ڈیٹا کے تحفظ کے قوانین میں بڑھتی ہوئی اتفاق رائے کو ظاہر کرتی ہیں۔بھارت اپنے قانون کو تشکیل دینے کے عمل میں ہے، اور جسٹس بی این شری کرشنا کی سربراہی میں ایک کمیٹی نے قانون کے مسودے کا اعلان کیا ہے ۔ایک قانونی فریم ورک، تکنیکی خصوصیات (ڈیزائن کی طرف سے ان بلٹ رازداری ٹولز)اور عوامی تعلیم کا ایک مضبوط پروگرام ڈیٹا پر مبنی پروپیگنڈا میں حدود متعین کر سکتا ہے، خاص طور پر جہاں وہ دیگر طریقے سے تیار نہیں ہوتے ہیں۔


خاتمہ کلام


سیاسی اشتہاریات اورڈیٹا کے تحفظ کے معیاروں میں شفافیت کو لانے کی ضرورت ہے، خاص طور پر جیسا کہ بھارت میں2019 کے انتخابات قریب ہیںاور اسی لیے بھارت میں اس بات پر تحقیق دنیا میں اس طرح کے مسائل حل کرنے کے لئے روشنی کا کام کریگی ۔لیکن اسے شروع کرنے کے لئے پلیٹ فارمز کی طاقت پر ایک وسیع بحث کرنی ہوگی۔عوامی مباحثے اور نجی مواصلات کے ذرائع چند نجی ہاتھوں میں مرکوز ہوکر رہ گئے ہیں۔ اور شاید یہی ذرائع ابلاغ تک رسائی پر معمولی رکاوٹوں کی جڑ ہے جس کے بارے میں سپریم کورٹ نے ہمیں خبردار کیا تھا۔

اپریل 2019

مزید

حالیہ شمارہ

امتیازی سلوک کے خلاف منظم جدو جہد کی ضرورت

شمارہ پڑھیں

فلسطینی مزاحمت

شمارہ پڑھیں