کیا کیوں اورکیسے؟

ایڈمن

عالم نقوی مسلمانوں کے سوچنے اور سمجھنے کی پہلی بات یہ ہے کہ پوری غیر مسلم دنیا اور بالخصوص طاقتور دنیا اُن کے خلاف کیوں ہے ؟ منڈاناؤ سے کاشغر تک ،غزہ سے یانگون تک اور صنعا سے دمشق تک…

عالم نقوی

مسلمانوں کے سوچنے اور سمجھنے کی پہلی بات یہ ہے کہ پوری غیر مسلم دنیا اور بالخصوص طاقتور دنیا اُن کے خلاف کیوں ہے ؟ منڈاناؤ سے کاشغر تک ،غزہ سے یانگون تک اور صنعا سے دمشق تک جو کچھ ہورہا ہے وہ کیوں ہو رہا ہے ؟اور کیا اِس ’گرداب ِشر‘(Vicious Circle )سے باہر نکلنے کا کوئی راستہ ہے ؟ اور کیا اُن کا دِین اُنہیں اَپنے دائمی دشمنوں کے ظلم و تعصب اور غیظ و غضب سے بچانے اور اپنے جان و مال اور عزت و آبرو کے دفاع کا کوئی راستہ دکھاتا ہے ؟ اور کیا اُن کے دین نے اُنہیں بتایا ہے کہ اِس دنیا میں کون اور کون اَہلِ ایمان کے دائمی دشمن ہیں ؟

پانچویں اور آخری سوال کا جواب ہے: بے شک ،ہاں ۔سورہ مائدہ کی بیاسیویں آیت میں ارشاد ہورہا ہے کہ۔۔ ’’تم یقیناً اہل ایمان سے دشمنی میں سب سے زیادہ سخت (دو قوموں کو )پاؤگےایک یہود دوسرے مشرکین ۔۔‘‘ تیسرے اور چوتھے سوال کا جواب بھی ،الحمد للہ، اِثبات میں ہے :سورہ اَنفال کی ساٹھویں آیت میں اِرشاد ِباری تعالیٰ ہے کہ :’’اور تم لوگ ،جہاں تک تمہارا بس چلے زیادہ سے زیادہ قوت اور تیار بندھے رہنے والے گھوڑےاُن کے ( دشمنوں کے ) مقابلے کے لیے مہیا رکھو تاکہ اس کے ذریعے سے اللہ کے اور اپنے دشمنوں کو اور اُن دوسرے دشمنوں کو (بھی )خوف زدہ کر سکو جنہیں تم نہیں جانتے مگر اللہ جانتا ہے (کہ وہ تمہارے دشمن ہیں ) اللہ کی راہ میں تم جو کچھ خرچ کروگے اُس کا پورا پورا بدل تمہیں لَو ٹا دیا جائے گا اور تمہارے ساتھ ہرگز ظلم نہیں ہوگا ‘‘۔
بالکل ابتدا ہی میں قائم کیے گئے پہلے اور دوسرے سوال کا جواب بھی قرآن کریم نے چودہ سو سال قبل ہی دے دیا ہے کہ ’’اللہ کے نزدیک دین تو بس اسلام ہے (آل عمران ۔۱۹) ‘‘اور ’’جو اسلام کے سوا کسی اور دین کا اتباع کرے گا تو وہ ہرگز قبول نہیں کیا جائے گا اور آخرت میں وہ گھاٹا اٹھانے والوں میں سے ہو گا (آل عمران ۔۱۱۲)‘‘

دنیا اس وقت اہل ایمان کے دائمی دشمنوں ،یہود ومشرکین اور اُن کے اَعوَان و اَنصار ہی کے قبضہ و اقتدار میں ہے لہٰذا اسلام اور مسلمانوں کا غلبہ و تَسَلُّط اُنہیں کسی قیمت پر منظور نہیں ۔ پوری دنیا میں نام نہاد ’’اسلامو فوبیا ‘‘ (یعنی اسلام کے خلاف فرضی ،نقلی اور جھوٹے خوف )کے فروغ اور دنیا کے سبھی مسلم ملکوں اور دیگر ممالک کے مسلم علاقوں کو جدال ِ باہم (مسلکی تنازعوں)اور خانہ جنگیوں کا مرکز بنائے رکھنے یا اُنہیں غیر مسلموں کے ظلم و تعصب کا نشانہ بناتے رہنے کے پیچھے اُن کی یہی اِبلیسی حکمتِ عملی کار فرما ہے کہ مسلمان حقیقی معنی میں مؤمن اور طاقتور نہ ہو نے پائیں کیونکہ قرآن میں موجود غلبہ و اقتدار کی یہ شرط مسلمانوں سے زیادہ مسلمانوں کے دشمنوں کو معلوم ہے کہ ’’تم ہی غالب رہوگے اگر تم مؤمن ہو (آل عمران ۔۱۳۹)
مسلمانوں کا معاملہ یہ ہے کہ اُن کی اَکثریت قرآنی معیارو معنٰی میں مؤمن نہیں ۔وہ پورے کے پورے اسلام میں داخل نہیں ۔وہ آپس میں نرم (رحما بینھم ) اور کافروں پر سخت (اشدا علی ا لکفار ) کے بجائے اُس کے’ بر عکس ‘ہیں ۔وہ صلہ رحمی کے قرآنی حکم پر عمل کرنے کے بجائے قطع رحمی میں مبتلا ہیں ۔وہ دوسروں کو معاف کردینے والے (عافین عن ا لناس ) کے بجائے دلوں میں کینہ پالنے اور بغض و حسد کے شیطانی اِمراض میں گرفتار ہیں ۔ وہ جھوٹ ،غیبت ، بد عنوانی (کرپشن ) اور اسراف کے عذاب میں مبتلا ہیں !علما کی اکثریت علم کے غرور کی ماری اور بے عمل ہے تو دانشوروں اور لیڈروں کی اکثریت عقل ،حکمت اور اخلاص سے عاری اور اہل ثروت کی اکثریت جذبہ انفاق و خدمت سے محروم ۔ تو مسلمان جب اپنے دائمی دشمنوں ہی کو اپنا ولی و سرپرست بنانے میں کوئی عار نہیں سمجھتے جبکہ قرآن اُنہیں ایسا کرنے سے سختی سے روکتا ہے ،اور جب وہ دفاع ذات و مال کے لیے قرآن اور نبی ﷺ کے حکم پر عمل نہیں کرتے اور جب وہ اپنے رحمی و صلبی قرابت داروں کے ساتھ صلہ رحمی کا معاملہ نہیں کرتے اور جب وہ حق گوئی اور امانت داری کے اسلامی دھارے کے بجائے جھوٹ کرپشن اور نا انصافی کے قومی ،ملکی او ربین ا لا قوامی دھارے میں شامل رہتے ہیں تووہ غیر مسلموں اور اسلام کے دشمنوں سے یہ توقع کیوں رکھتے ہیں کہ وہ اُن کے ساتھ رحم و اُخوَّت اور انصاف کا معاملہ کریں ؟ انہیں قیادت کی خود غرضی ،بے حسی اور مفاد پرستی کی شکایت کا کیا حق ہے ؟ ہمارے لیڈر اور حکمراں ٹھیک ویسے ہی ہیں جیسے ہم خود ہیں !پوری دنیا میں اور با لخصوص پوری مسلم دنیا میں اپنے زیر دستوں ،کمزوروں اور اقلیتوں کے ساتھ خود ہمارے سلوک کے جیسے نمونے دنیا کے سامنے ہیں ،اُن کی موجودگی میں کیا ہمیں اس بات کا کوئی اخلاقی حق پہنچتا ہے کہ ہم اہل ایمان کے کھلے اور چھپے دشمنوں کی موجودہ ظالمانہ کارروائیوں کا شکوہ کریں ؟ یہ دنیا عالم اسباب ہے ۔یہاں انسان کو وہی ملتا ہے جس کی وہ کوشش کرتا ہے۔ و ان لیس للا نسان الا ما سعیٰ (سورہ نجم ۔۵۳)مطلب یہ کہ صرف رونے دھونے اور رحم و انصاف کی بھیک مانگنے سے کام نہیں چلنے والا! ہمارے ہر چھوٹے بڑے مسئلے کا حل اور ہمارے ہر نفسانی مرض کا علاج قرآن میں موجود ہے جسے ہم نے ’’مہجور ‘‘ بنا رکھا ہے ۔اور یہ ہم اپنی طرف سے نہیں کہہ رہے ہیں ،خود قرآن کریم میں نبی کریم ﷺ کا یہ شکوہ اور امت کا مرثیہ موجود ہے کہ ’’اور قیامت کے دن (اللہ سبحانہ کی عدالت میں ) رسول یہ کہیں گے کہ اے میرے رب ! میری قوم کے لوگوں نے اس قرآن کو مہجور بنا ڈالا‘‘ (سورہ فرقان ۔۳۰)

بے شک اس گناہ کا بڑا عذاب اُن علما ے سو کے سر ہے جنہوں نے اپنی اجارہ داری قائم رکھنے کے لیے عوام کو قرآن سے دور رکھا اور انہیں سمجھ کر پڑھنے کی ترغیب دینے کے بجائے ان سے یہ کہتے رہے کہ جو پوچھنا ہو ہم سے پوچھو ،تم خود قرآن کو نہیں سمجھ سکتے ۔اس کے لیے ستر علوم کی مہارت درکار ہے ( جو بد قسمتی سے خود اُن علمائے سو میں بھی نہیں ہوتی ) لیکن ،اُمت کے اَفراد بھی اِس جرم سے پوری طرح بری ا لذ مہ نہیں ہو سکتے ۔ جواب تو سب کو دینا پڑے گا کہ جب تمہیں یہ معلوم تھا کہ یہ قرآن پوری دنیا کے لیے ہے اور قیامت تک آنے تمام انسانوں کے لیے ہے تو تم نے خود اسے سمجھنے اور اسے سمجھ کے پڑھنے کی کوشش کیوں نہیں کی؟

سورہ انفال کی آیت ساٹھ میں اپنی استطاعت بھر ’’قوت‘‘ کے حصول کا حکم ہے۔اور سب جانتے ہیں کہ قوت صرف اقتدار اور فوج کی نہیں ہوتی کہ جو حکومت کی ذمہ داری ہے ۔قوت علم کی بھی ہوتی ہے اور مال(معاش و اقتصاد )ا ور جسم (بدن ) کی بھی جو ہر ہر فرد کی انفرادی ذمہ داری بھی ہے اور گھر ،خاندان ،محلے ،کالونی ،بلڈنگ ،ہاؤسنگ سوسائٹی اور سماج کی بھی !
نبی کریم نے فرمایا ’’جو اپنے مال کی حفاظت میں مارا گیا وہ شہید ہے اور جو اپنے اہل کی حفاظت میں مارا گیا وہ شہید ہے اور جو اپنے دین کی حفاظت میں مارا گیا وہ شہید ہے اور جو اپنے خون (یعنی اپنی جان ) کی حفاظت میں مارا گیا وہ شہید ہے (سنن نسائی ۴۱۰۱)’[جو اپنے مال کی حفاظت کے لیے لڑا پھر قتل کر دیا گیا وہ شہید ہے (نسائی ۴۰۹۰)جو مظلوماً اپنے مال کی حفاظت میں مارا گیا وہ اس کے لیے جنت ہے (نسائی ۴۰۹۲)۔لیکن بقول محمد مشتاق فلاحی(وحدت ، اگست ۲۰۱۷ ص ۱۴ ) المیہ یہ ہے کہ
’’بھارت میں مسلمانوں کے لیے اب محض یہ مسئلہ نہیں رہا کہ ان کے اوپر منظم ،متحرک اور مجنون قسم کے لوگ حملہ آور ہو رہے ہیں بلکہ اس سے سنگین مسئلہ یہ ہو گیا ہے کہ دادری کے اخلاق سے لے کر حافظ جنید اور علیم ا لدین انصاری تک کے تمام واقعات میں سے کسی ایک میں بھی یہ اطلاع نہیں ملی کہ ان لوگوں نے اپنے دفاع کے لیے حملہ آورآتنکیوں سے مقابلہ کیا ہو ۔،(دفاع ذات کے شرعی اور قانونی حق کا استعما ل کیے بغیر وقوع پذیر ہونے والی )ذلت کی یہ اموات مسلمانوں کی قیادت کو بھی کٹہرے میں کھڑا کر رہی ہیں ۔۔مسلمانوں کا اپنی جان و مال ،عزت و ناموس کی حفاظت نہ کرنا اس بات کا (بھی)غماز ہے کہ علما نے انہیں دین(قرآن و سنت ) کے اِس پہلو سے باخبر کرنے میں (مجرمانہ کوتاہی کی ہے ) جس میں اُمَّت کی زندگی ہے ‘‘۔

حالیہ شمارے

براہیمی نظر پیدا مگر مشکل سے ہوتی ہے

شمارہ پڑھیں

امتیازی سلوک کے خلاف منظم جدو جہد کی ضرورت

شمارہ پڑھیں