کلچرل نیشنلزم (تہذیبی وطنیت) ہندوستان کے تناظر میں

ایڈمن


ڈاکٹر محمد رفعت


دنیا کے اور بہت سے ملکوں کی طرح ہمارے ملک میں وطن پرستی کی اصطلاح مقبول ہے۔ اس رجحان کی جارحانہ تعبیر کا خاص نشانہ مسلمان ہیں۔ یہ تعبیر کلچرل نیشنلزم کہلاتی ہے۔ گزشتہ چند برسوں میںایسے واقعات پے در پے پیش آئے ہیں جو بتاتے ہیں کہ تہذیبی وطنیت کے علمبرداروں نے مسلمانوں کے جان و مال اور اسلامی شعائر کو نقصان پہنچایا ہے۔ حکومت کی مشنری یا تو خاموش تماشائی رہی یا مفسدین کا ساتھ دیا۔ اس صورتحال میں مسلمانوں کو اور منصف مزاج اہلِ ملک کو کلچرل نیشنلزم کے مضمرات کو سمجھنا چاہیے۔
تہذیبی وطنیت کے رجحان کے علمبردار ترقی کا نعرہ بھی لگاتے ہیں لیکن یہ واضح نہیں ہے کہ پورے ملک کو درپیش سیاسی، سماجی اور معاشی مسائل کے لیے وہ کیا حل پیش کرتے ہیں؟ البتہ مسلمانوں سے ان کا مطالبہ یہ ہے کہ مسلمان اپنے عقائد، شعائر، تہذیب اور ثقافت سے دستبردار ہوجائیں اور اکثریت کے کلچر میں جذب ہوجائیں۔ غالباً یہی کلچرل نیشنلزم کے سیاسی ایجنڈے کی کُل حقیقت ہے۔ اس کے آگے عوام کے لیے یا ملک کے لیے کوئی مثبت پروگرام انہوںنے پیش نہیں کیا ہے۔
مسلمانوں سے اپنا مطالبہ منوانے کے لیے نیشنلزم کی علمبردار طاقتوں کا طریقہ کار یہ ہے کہ وہ مسلمانوں پر حملے کرتے ہیں۔ ان کو جانی و مالی نقصان پہنچاتے ہیں، ان کی مساجد کو مسمار کرتے ہیں اور اس طرح وہ یہ چاہتے ہیں کہ مسلمانوں کے حوصلے پست ہوجائیں اور ڈر کر مسلمان ان کی بات مان لیں۔ مختصر الفاظ میںاس خیال کے حامیوں کا طریقہ کار جبرو اکراہ پر مشتمل ہے۔

مفہوم


سادہ الفاظ میں نیشنلزم محض ایک وطن میں رہنے والوں کے درمیان باہم لگاؤ کا نام ہے۔ جب یہ تعلق، ریاست (نیشن اسٹیٹ) کی شکل اختیار کرتا ہے تو اس مملکت کے رہنے والے تمام شہریوں کے لیے(بلا لحاظ مذہب و کلچر) یکساں حقوق کا تقاضا کرتا ہے۔ ریاست کا مطالبہ شہریوں سے محض اتنا ہوتا ہے کہ شہری اُس کے نظامِ حکومت کو تسلیم کریں اور ہتھیاروں کا استعمال کرکے ریاستی نظام کو بدلنے کی کوشش نہ کریں۔ دوسری طرف ریاست شہریوں کے حقوق کی محافظ ہوتی ہے۔یہ گویا ایک باہمی معاہدہ ہوتا ہے۔
ریاست و شہری کے ربط کی یہ سادہ شکل جب آگے بڑھ کر انتہا پسندانہ تعبیر اختیار کرتی ہے تو ریاست ضروری سمجھتی ہے کہ تمام باشندگانِ ملک، تہذیبی اعتبار سے ہم رنگ ہوجائیں۔ اس تعبیر کو کلچرل نیشنلزم کہا جاتا ہے۔ اکثر اس تعبیر کے ماننے والے جبرواکراہ کے استعمال کو بھی درست سمجھتے ہیں۔
ہندوستان میں کلچرل نیشنلزم مقبول ہورہا ہے اور اس نے مسلمانوں کو اپنا حریف بنارکھا ہے۔ یہ ذہن چاہتا ہے کہ مسلمان، اسلامی تہذیب کے بجائے مشترک تہذیب کو اختیار کرلیں۔ظاہر ہے اس مشترک تہذیب پر ملک کی اکثریت کے کلچر کا رنگ غالب ہوگا۔

نیشنلزم کا طرزِ استدلال


سوال پیدا ہوتا ہے کہ مسلمانوں پر جبرو اکراہ کا استعمال کیوں کیا جارہا ہے؟ تہذیبی وطنیت کے علمبردار جواب میں کہتے ہیں کہ نیشنلزم اور سیکولرزم کا تقاضا یہ تھا کہ ہندوستان کے مسلمان بتدریج ہی سہی، قومی کلچر میں جذب ہوجاتے(مثلاً اپنے الگ پرسنل لاء سے دست بردار ہوجاتے) لیکن مسلمان ہندوستان کے کلچر میں جذب نہیں ہورہے ہیں اور اپنے جداگانہ تہذیبی تشخص پر اصرار کیے جاتے ہیں۔ مزید برآں سیکولر کہلانے والی سیاسی پارٹیاں اپنی سیاسی اغراض اور ووٹوں کی خاطر مسلمانوں کی اس بے جا روش کو نہ صرف برداشت کرتی ہیں بلکہ اس کی ہمت افزائی کرتی ہیں۔
تہذیبی وطنیت کے حامیوں کے نزدیک یہ رویہ نقلی سیکولرزم (Pseudo Secularism)ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ مسلمانوں کی بے جا ضد، اپنے تشخص پر اصرار اور سیاسی پارٹیوں کا اس ضد کو برداشت کرنا یہ سب بہت دنوں سے گوارا کیا جا رہا ہے۔ اب ہمارے صبر کا پیمانہ لبریز ہوچکا ہے۔ اب ناگزیر ہوگیا ہے کہ مسلمانوں کو جبرواکراہ کے ذریعے ’’قومی کلچر‘‘ میں جذب کرلیا جائے۔
یہ وہ دلیل ہے، جو بعض سیکولر افراد کو بھی اپیل کرتی ہے ، اس لیے کہ مختلف وجوہ سے مسلم پرسنل لاء اور مسلمانوں کا جداگانہ تہذیبی وجود ان کو بھی کھٹکتا ہے۔ البتہ ان کی بڑی تعداد مقصد کے حصول کے لیے جبرواکراہ کا طریقِ کار اختیار کیے جانے کی تائید نہیں کرتی۔

عدم مساوات کا سماجی نظام


ہندوستان کے سیاق میں ایک اہم سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ مسلمانوں کا الگ دینی و تہذیبی وجود ختم کردینا تہذیبی وطنیت کے علمبرداروں کا آخری مقصد ہے یا یہ ان کے مقصد کی راہ کا صرف ایک مرحلہ ہے؟
غور کرنے سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ہندوستانی سماج اور خصوصاً ہندوسماج کے پست کردہ طبقے پر اقتدار حاصل کرنا اور قائم رکھنا تہذیبی وطنیت کا آخری مقصد ہے اور مسلمانوں کو جذب کرلینے یا غیر مؤثر بنادینے کا کام اس مقصد کی راہ میں صرف ایک مرحلہ ہے۔ یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ یہ ایک طریقِ کار ہے، جوکلچرل نیشنلزم کے حامیوں نے اختیار کیا ہے۔ وہ یہ سمجھتے ہیں کہ مسلمانوں کے خلاف نفرت پھیلا کر اور مسلمانوں کی بڑھتی ہوئی طاقت کا خیالی خوف دلا کر وہ اکثریت کو مجتمع کرسکتے ہیں اور اس طرح ان پر اپنا اقتدار قائم کرسکتے ہیں۔ اس کے علاوہ اپنے دل میں وہ یہ بھی چاہتے ہیں کہ سماج میں عدم مساوات کا جو نظام قائم ہے، وہ بدستور قائم رہے۔ اس نظام کی بدولت سیاسی اقتدار کی عدم موجودگی میں بھی سماجی اقتدار ان کو حاصل رہتا ہے۔ ان کے خیال میں مسلمان اس سماجی ڈھانچے کے لیے خطرہ ہیں یا مستقبل میں بن سکتے ہیں، چنانچہ ان کو غیر مؤثر بنانا ضروری ہے۔
اس تجزیہ سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ تہذیبی وطنیت کا وسیع تر نشانہ ہندوسماج کی اکثریت ہے، جو سیاسی، سماجی اور معاشی محرومی کا شکار ہے۔ نیشنلزم کے علمبردار چاہتے ہیں کہ یہ محرومی باقی رہے اور ان کا سماجی اقتدار قائم رہے۔ مزید برآں سیاسی اقتدار بھی قائم ہوجائے۔ اس آخری منزل کے حصول کے لیے فی الحال انہوں نے مسلمانوں کو نشانہ بنایا ہے تاکہ مسلمان سماجی ظلم کے خلاف کوئی مؤثر چیلنج نہ بن سکیں، مسلمانوں کے خلاف نفرت پھیلا کر تہذیبی وطنیت کی تائید کرنے والوں کی تعداد میں اضـافہ کیا جاسکتا ہے۔

فکری و جذباتی سہارے


عوام کو ساتھ لینے کے لیے جارحیت کے علمبرداروں نے نفرت پھیلانے اور مسلمانوں کی خیالی طاقت سے ان کو خوفزدہ کرنے کے علاوہ درج ذیل چیزوں کا سہارا لیا:
(الف) شرک اور اوہام پرستی جو سماج میں وسیع پیمانے پر رائج ہے۔
(ب) مسلمانوں کے مبینہ مظالم کا تذکرہ جو انہوںنے تاریخ کے مختلف ادوار میں کیے۔
(ج) نیشنلزم کی جارحانہ تعبیر یعنی کلچرل نیشنلزم ۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ سارے ملک کے باشندوں کا ایک کلچر میں رنگ جانا نیشنلزم کا تقاضا ہے۔
تہذیبی وطنیت کے علمبردار ایک سیلاب کی شکل میں سامنے آئے ہیں۔انہوں نے بیک وقت مذہبی، سماجی اور سیاسی محاذوں پر کام شروع کیا ہے۔ غوروفکر سے کام لے کر اس تحریک کا تجزیہ کیا جاسکتا ہے۔ اس سلسلے میں غوروفکر کا آغاز تہذیبی وطنیت کے بنیادی مطالبے سے کرنا چاہیے۔


مسلمانوں سے اس تحریک کا بنیادی مطالبہ یہ ہے کہ مسلمان تہذیبی شعائر سے اور اپنے پرسنل لاء سے دست بردار ہوجائیں اور ایک اجتماعی وجود کی طرح اپنا سیاسی وزن ڈالنا چھوڑدیں۔ جہاں تک سیاسی معاملات کا (ووٹ ڈالنے وغیرہ کا) تعلق ہے، مسلمان فرد فرد بن کر رہیں۔ ان کا کوئی اجتماعی رویہ نہ ہو۔گویا مطالبہ یہ ہے کہ مسلمان چاہیں تو ذاتی زندگی میں مسلمان رہیں، لیکن معاشرتی اور سیاسی زندگی میں اسلام کو ترک کردیں اور ملت ہونے کے احساس سے عملاً عاری ہوجائیں۔
اس مطالبے کے جواب میں مسلمان عموماً یہ کہتے ہیں کہ اپنے مذہب پر قائم رہنا ہمارا دستوری حق ہے۔ ملک کا ڈھانچہ سیکولر ہے۔ اس نے ہمیں اجازت دی ہے کہ اپنے دین و تہذیب پر قائم رہیں۔ ہم اپنے اس دستوری حق سے دست بردار نہیں ہوسکتے۔ مزید برآں سیکولرزم کے معنی بھی یہی ہیں کہ ہمیں اپنے مذہب پر عمل کا حق ہو۔


یہ جواب اب تک کارگرثابت ہوتا رہا ہے۔ لیکن اس میں ایک بنیادی کمزوری ہے۔
مسلمان سمجھتے ہیں اور کہتے ہیں کہ سیکولرزم کا تقاضا یہ ہے کہ مذہبی معاملات میں ہر مذہبی گروہ آزاد ہو۔ چونکہ (بطورِ مثال) پرسنل لاء ہمارا مذہبی معاملہ ہے، اس لیے ہمارا پرسنل لاء محفوظ رہنا چاہیے۔ کسی کو حق نہیں کہ ہم کو ہمارے پرسنل لاء سے محروم کرکے کامن سول کوڈ ہم پر نافذ کردے۔
لیکن تہذیبی وطنیت کے قائل کہتے ہیں کہ بے شک سیکولرزم کے معنیٰ یہ ہیں کہ کسی مذہبی معاملہ میں مسلمان سمیت تمام مذہبی گروہ آزاد ہوں۔ کوئی ان کے مذہبی معاملات میں مداخلت نہ کرے۔ لیکن پرسنل لاء مذہبی معاملہ نہیں ہے۔ مذہبی معاملات تو مراسمِ عبادت وغیرہ ہیں۔ اس لیے سیکولرزم کا ہی تقاضا ہے کہ کامن سول کوڈ نافذ کیا جائے۔اس سلسلے میں قابلِ غور بات یہ ہے کہ شاہ بانو کیس پر مباحثے کے دوران ملک میں جو بحث چلتی رہی اس میں بعض سیکولر افراد کا کہنا بھی یہی تھا کہ پرسنل لاء مذہبی معاملہ نہیں ہے۔

تہذیبی وطنیت اور سیکولرزم


مسلمان، تہذیبی وطنیت کے علمبردار اور سیکولر پارٹیاں … تینوں… ’’سیکولرزم‘‘ کا لفظ استعمال کرتی ہیں، لیکن اس کا مفہوم ان کے ذہن میں الگ الگ ہے۔ اس حد تک تو ان میں اتفاق ہے کہ انسانی زندگی کے بعض معاملات مذہبی ہوتے ہیں اور بعض غیر مذہبی۔ پھر اس امر پر بھی ان میں اتفاق ہے کہ مذہبی معاملات میں ہر گروہ کو آزادی ملنی چاہیے اور غیر مذہبی معاملات میں سب کا طرزِ عمل یکساں ہونا چاہیے اور ایسا ہونا چاہیے جیسا کہ ریاست یا اس کا بااختیار اداراہ (پارلیمنٹ وغیرہ) طے کرے۔ لیکن یہاں پہنچ کر ان میں اختلاف ہوجاتا ہے کہ مذہبی معاملات کون سے ہیں اور غیر مذہبی کون سے۔
مثلاً مسلمان پرسنل لاء کو مذہبی معاملہ قرار دیتے ہیں جب کہ تہذیبی وطنیت کے علمبردار اور بعض سیکولر پارٹیاں پرسنل لاء کو غیر مذہبی معاملہ سمجھتی ہیں۔ اس بنا پر تہذیبی وطنیت کے حامی اِن سیکولر پارٹیوں سے شکوہ کرتے ہیں کہ تمہارا سیکولرزم نقلی ہے۔


تجزیہ بتاتا ہے کہ خود سیکولرزم کے لفظ میں ابہام ہے۔ اس اصطلاح کا مفہوم واضح اور متعین نہیں ہے۔ اس بات پر کوئی اتفاق نہیں پایا جاتا کہ مذہب کے دائرے میں زندگی کے کون سے معاملات آتے ہیں اور کون سے نہیں آتے۔ اس لیے ایک گروہ لفظ سیکولرزم کا استعمال کرکے جو کچھ کہتا ہے، دوسرا گروہ اس کو سمجھنے سے قاصر رہتا ہے۔ اس ابہام کا فائدہ تہذیبی وطنیت کے حامیوں کو پہنچ رہا ہے۔ وہ غیر مذہبی معاملات کا دائرہ وسیع تر کرنا چاہتے ہیں اور اس میں عقائد و عبادت تک کو شامل کرنا چاہتے ہیں۔ جہاں تک محض لفظ سیکولرزم کا تعلق ہے اس میں اس طرزِ عمل کی گنجائش نکلتی ہے۔


ابہام کی کیفیت یہیں پر ختم نہیں ہوجاتی بلکہ اس سے زیادہ پیچیدگیوں کا باعث بنتی ہے۔ جواب دینے کی حد تک تو مسلمان یہ جواب دے دیتے ہیں کہ سیکولرزم کا تقاضا ہے کہ ہم مذہبی معاملات میں آزاد ہوں اور غیرمذہبی معاملات میں ریاست کے پابند ہوں، لیکن فی الحقیقت مسلمانوں کی نفسیات کے اندر مذہبی اورغیرمذہبی معاملات کی کوئی تقسیم نہیں پائی جاتی۔ مسلمانوں کی نفسیات اسلام سے بنی ہیں۔ اسلام زندگی کی مذہبی اورغیرمذہبی تقسیم کو تسلیم نہیں کرتا بلکہ اس کے نزدیک پوری زندگی میں انسان کو اللہ کا بندہ بن کر رہنا چاہیے۔

اسلام کی جامعیت


اس لیے مسلمان کہتے تو صرف اتنا ہیں کہ ہمارا پرسنل لاء محفوظ رہنا چاہیے، اس لیے کہ وہ ہمارا مذہبی معاملہ ہے، لیکن ان کے شعور اور لاشعور میں یہ ارادہ و تمنا موجود ہوتی ہے کہ وہ پوری زندگی میں دین پر عمل کریں۔ یہ چیز ان کے طرزِ عمل سے بھی جھلکتی ہے۔ وہ سیاسی طرز عمل (مثلاً کسے ووٹ دیا جائے) طے کرتے وقت بھی بحیثیت مسلمان ایک رویہ اپنانا چاہتے ہیں جبکہ رائج الوقت مفہوم کے مطابق ووٹ دینا کسی صورت سے مذہبی معاملہ نہیں قرار پاسکتا۔


اس صورتحال کی بنا پر ہر وہ شخص جو مسلمانوں کے طرزِ عمل کا مشاہدہ کرتا ہے وہ اس نتیجے پر پہنچتا ہے کہ مسلمانوں کا طرزِ عمل غیرسیکولر ہے۔ یعنی یہ کہ وہ فی الواقع زندگی کی مذہبی اورغیر مذہبی تقسیم کو تسلیم نہیں کرتے۔ گو کہ ان کی باتیں سیکولر ہیں یعنی گفتگو میں وہ سیکولرزم کا نام لیتے ہیں اور اپنی مذہبی آزادی کے لیے سیکولرزم کو بطورِ دلیل پیش کرتے ہیں۔
اب اگر مشاہدہ کرنے والا مسلمانوں سے عداوت رکھتا ہو تو وہ صاف کہتا ہے کہ مسلمانوں کا یہ طرزِ عمل عیاری اور منافقت پر مبنی ہے۔ وہ سیکولرزم کا فائدہ تو اٹھانا چاہتے ہیں (یعنی اپنی جان و مال کی حفاظت چاہتے ہیں) لیکن اس کی قیمت نہیں ادا کرنا چاہتے۔ (مثلاً پرسنل لاء سے دست بردار نہیں ہونا چاہتے اور سیاست میں ایک بلاک کی طرح کام کرنے سے باز نہیں رہنا چاہتے۔)
اگر مشاہدہ کرنے والا مسلمانوں سے عداوت نہیں رکھتا تو وہ مسلمانوں کے طرزِ عمل کی یہ تاویل کرتا ہے کہ یہ محض انتشارِ ذہنی (Confusion)کی وجہ سے ہے اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ مسلمان واقعی سیکولر ہوتے جائیں گے۔

مسلمانوں کا موقف کیا ہو؟


بحث کا بنیادی نکتہ یہ ہے کہ کلچرل نیشنلزم مسلمانوں سے مطالبہ کرتا ہے کہ مسلمان اپنی تہذیب سے دست بردار ہوجائیں اور سیاسی میدان میں ان کا متحدہ موقف نہ ہو۔ مسلمان یہ مطالبہ نہیں مانتے اور سیکولرزم کو بطورِ دلیل پیش کرتے ہیں، لیکن مسلمانوں کا یہ جواب کمزور ہے، اس لیے کہ سیکولرزم کے مفہوم میں ابہام ہے۔


پوچھا جاسکتا ہے کہ پھر اس مطالبے کا صحیح جواب کیا ہے؟
اسلامی مزاج کے مطابق صحیح جواب یہ ہے کہ مسلمان اہلِ ملک کو بتائیں کہ ’’ہم اسلام سے دست بردار نہیں ہوسکتے اس لیے کہ یہ کائنات کے حاکم و مالک کا نازل کیا ہوا دین ہے۔ ہم اس پر ایمان لائے ہیں۔ مالکِ کائنات نے زندگی کے ہر گوشے کے لیے احکام دیے ہیں اس لیے زندگی کی تقسیم غلط ہے، اس کے احکام تمام انسانوں کے لیے واجب التعمیل ہیں، وہ خدا پوری دنیا کا بلا استثناء مالک ہے، اس لیے خواہ انسان ہندوستان میں رہتا ہو یا افریقہ میں، اسے خدا ہی کی بندگی کرنی چاہیے۔ یہ اس کا حق بھی ہے اور فرض بھی۔ اسلامی کلچر اور مسلم پرسنل لاء اسلامی شریعت سے ماخوذ ہے، جو اللہ کے احکام کا نام ہے، اس لیے مسلمان اس سے دست بردار نہیں ہوسکتے نیز یہ کہ انسانوں کے اشتراک عمل کی فطری، صحیح اور معقول بنیاد اشتراک عقیدہ اور اشتراک نظریہ زندگی ہے، اس لیے مسلمانوں کا ایک اجتماعی وجود کی طرح کام کرنا بالکل معقول ہے۔ اس کے برخلاف انسانوں کو مجبور کرنا کہ وہ اپنے عقائد، تصورات کے علی الرغم اکثریت کی مرضی کی پیروی کریں، ایک نامعقول طرزِ عمل ہے۔‘‘
یہ جواب سلیقے اور استدلال کے ساتھ دیا جائے تو کوئی پیچیدگی پیدا نہیں ہو تی اور مسلمانوں کی پوزیشن واضح ہوجاتی ہے۔


لیکن مسلمان یہ جواب اس وقت دے سکتے ہیں، جبکہ وہ اپنے ایمان کو زندہ ایمان بنائیں۔ خوابیدہ ایمان نہیں۔ مسلمان اگر خالص اور مکمل اسلام سے وابستگی کا ارادہ، اعلان اور اظہار نہیں کرتے تو نیشنلزم کا سیلاب اس کے درپے ہے کہ ان کو مکمل طور پر قومی دھارے میں بہا لے جائے اور سیکولرزم کا تصور اتنا کمزور اور مبہم ہے کہ اس سیلاب کے مقابلے میں نہیں ٹھہرسکتا۔ اس کے علاوہ کوئی چارہ نہیں کہ مسلمان اپنے ایمان کو زندہ اور بیدار ایمان بنائیں۔

دعوت الی اللہ


ایک صاحبِ ایمان شخص مندرجہ بالا جواب دے گا وہ انسانوں کو اللہ کی بندگی کی طرف دعوت بھی دے گا۔ یہ ناممکن ہے کہ مسلمان اسلام کو حق سمجھنے کی بنا پر اسلام سے چمٹے رہنا چاہتے ہوں اور دوسرے انسانوں کے بہی خواہ بھی ہوں لیکن پھر بھی اُن کو حق کی طرف نہ بلائیں۔اس حقیقت کو سمجھ لینے سے اس سوال کا جواب بھی مل جاتا ہے کہ اسلام سے اس قدر شدید محبت کے باوجود مسلمان دوسرے انسانوں کو اسلام کی طرف کیوں نہیں بلاتے؟


صورتِ حال یہ ہے کہ مسلمان اپنے تحفظ کے لیے سیکولرزم کے نعرے کا سہارا لیتے ہیں، یا سیکولرزم کو اپنی مذہبی آزادی کے لیے بطورِ دلیل پیش کرتے ہیں اور اس کی دُہائی دے کر اپنے جان و مال کے تحفظ کی ضمانت چاہتے ہیں۔ سیکولرزم اس بات کا نام ہے کہ زندگی کے بعض معاملات مذہب کے دائرے سے خارج ہوں (گو اس امر میں اختلاف ہوسکتا ہے اور ہے کہ وہ معاملات کون سے ہیں؟) اسلام کا تصور اس کے برعکس ہے اور وہ مذہبی وغیرمذہبی معاملات کی کوئی تقسیم نہیں کرتا۔ اس بنا پر عقلاً یہ ناممکن ہے کہ مسلمان سیکولرزم سے وابستگی کی بات بھی کریں اور اسلام سے وابستگی کی بھی۔


ظاہر ہے کہ دعوت الی اللہ کا کام ہو یا مسلمانوں کے تحفظ کا، دونوں کے لیے غیر مسلموں سے ربط و گفتگو ضروری ہے۔ اب اسلام اور سیکولرزم دونوں کی گفتگو بیک وقت تو نہیں کی جاسکتی، اس لیے کہ یہ ایک دوسرے کے متضاد ہیں۔ مسلمانوں نے اپنے تحفظ کے لیے سیکولرزم کا سہارا لیا ہے، اس لیے اگر مسلمانوں کے مسائل موضوعِ گفتگو ہوں تو مسلمان غیرمسلموں سے ساری گفتگو اور ربط میں اسلام کا ذکر کہیں نہیں آنے دیتے اورنتیجتاً دعوتی کام سے قاصر ہیں۔


اب اگر مسلمان یہ چاہتے ہیں کہ بحیثیت ملت، دعوت الی اللہ کا کام کریں تو اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنے تحفظ کے لیے بھی اسلام ہی کو بنیاد بنائیں۔ اسلام کا حوالہ دے کر وہ اہلِ ملک کو مطمئن کرسکتے ہیں کہ ہمیں اپنے جداگانہ دینی تشخص پر کیوں اصرار ہے؟ جبکہ سیکولرزم کے حوالے سے جداگانہ دینی تشخص کا جواز ثابت کرنا پیچیدگی کا باعث ہوتا ہے۔
چنانچہ مناسب یہ ہے کہ غیر مسلموں سے ربط و گفتگو میں سیکولرزم کی اصطلاح اور ملتی جلتی اصطلاحات کے استعمال سے گریز کیا جائے۔ ساری گفتگو اسلام کے حوالے سے ہو۔انسانوں کو بتایا جائے کہ اسلام کیا ہے؟ کائنات کیاہے؟ خدا اور انسان کے تعلق کی نوعیت کیا ہے؟ پھر یہ حقیقت واضح کی جائے کہ عقیدہ اور تصورات ہی عمل کی بنیاد بنتے ہیں، اس لیے سب سے پہلے عقائد اور تصورات کا مطابِق حق ہونا ضروری ہے۔ اسلام کے عقائد اور تصورات حقیقت پر مبنی ہیں۔ یہ بات واضح کرنی چاہیے کہ عقیدے اور تصورات کے اشتراک کی بنا پر انسانوں کا اشتراک عمل بالکل فطری اور معقول ہے اور یہی مسلمانوں کے اجتماعی وجود (تشخص) کا جواز ہے۔


اگر مسلمان غیرمسلموں سے ربط و گفتگو کے وقت اسلام کو بنیاد بنائیں گے اور اسلام کے حوالے سے گفتگو کریں گے تو کارِ تحفظ اور کارِ دعوت ایک ہی کام بن جائیںگے۔ غیر مسلموں سے ربط قائم کرکے اور گفتگو کرکے مسلمان مختلف معاملات میں اپنے موقف کی معقولیت بھی واضح کررہے ہوں گے اور ان کو دین کی طرف دعوت بھی دے رہے ہوں گے۔ اس طرح دعوت کی رفتار خودبخود تیز ہوجائے گی۔ اجتماعی طرزِ عمل، انداز گفتگو، اجتماعی موقف کااظہار اور اس کے حق میں استدلال — یہ سب دعوت بن جائے گا۔ملک کا ماحول اس دعوتِ حق سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا۔ اس طرح تہذیبی وطنیت کی گمراہی سے انسانوں کو بچایا جاسکے گا۔


DR MOHAMMAD RAFAT
Professor,
Deptt. of Applied Sciences & Humanities,
Jamia Millia Islamia,New Delhi-110025
Editor, Zindagi-e-Nau,(Urdu)Monthly
New Delhi

اگست 2019

مزید

حالیہ شمارہ

امتیازی سلوک کے خلاف منظم جدو جہد کی ضرورت

شمارہ پڑھیں

فلسطینی مزاحمت

شمارہ پڑھیں