کریئر گائیڈنس : پس منظر، موجودہ صورتِ حال اور مستقبل کا لائحۂ عمل

ایڈمن

انسان کو زندگی کے ہر مو ڑپر رہنمائی کی ضرورت ہوتی ہے۔ پیدائش سے لے کر موت تک اسے مختلف مراحل سے گزرنا پڑتا ہے، جہاں صحیح اور مناسب رہنمائی کے بغیر اس کا آگے بڑھنا مشکل ہوتا ہے۔ بچپن…

انسان کو زندگی کے ہر مو ڑپر رہنمائی کی ضرورت ہوتی ہے۔ پیدائش سے لے کر موت تک اسے مختلف مراحل سے گزرنا پڑتا ہے، جہاں صحیح اور مناسب رہنمائی کے بغیر اس کا آگے بڑھنا مشکل ہوتا ہے۔ بچپن میں والدین اسے بولنا سکھاتے ہیں، اسکول میں اسے لکھنا پڑھنا سکھایا جاتا ہے۔ اسکولی زندگی کے اختتام پر ہر انسان کی زندگی میں ایک اہم موڑ آتا ہے، جہاں اسے کریئر کے انتخاب کے لیے رہنمائی کی ضرورت پیش آتی ہے، جسے کریئر گائڈنس کہا جاتا ہے۔ یہ انتہائی اہم اور دشوار کن مرحلہ ہوتا ہے۔ ہمارے ملک میں کریئر گائیڈنس کے لیے باقاعدہ کوششیں ابھی تک شروع نہیں ہوئی ہیں۔ طلبہ کریئر کا انتخاب والدین، رشتے دار، اساتذہ اور دوستوں کی مرضی سے کرتے ہیں یا پھر کریئر کا انتخاب میڈیا کی تشہیر کی بنا پر کیا جاتا ہے، یہی وجہ ہے کہ بھارت میں پڑھے لکھے تعلیم یافتہ بے روزگاروں کی تعداد میں روز بہ روز اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ غلط کریئر کا انتخاب کرنے کی وجہ سے کئی نوجوان ذہنی پریشانی کا شکار ہیں۔ نوجوانوں میں ڈپریشن، anxiety، نیند نہ آنا، خود کشی کا رجحان جیسی منفی باتیں پروان چڑھ رہی ہیں۔ اگر اب بھی ہم نے اس شعبے کی طرف توجہ نہ دی تو ہم نئی نسل کو گمراہی سے بچا نہیں پائیں گے۔
ترقی یافتہ ممالک کے ہر کالج، یونیورسٹی میں کریئر گائیڈنس ایک مستقل شعبے کی حیثیت سے کام کرتا ہے جس میں سائیکلوجسٹ، سائیکرٹسٹ، کونسلر اور تھیرپسٹ کی خدمات میسر ہوتی ہے۔ کورس کے انتخاب سے لے کرنوکری لگنے تک کے ہر مرحلے پر طلبہ کی رہنمائی پروفیشنل طریقے پر کی جاتی ہے، لیکن ہماری یونیورسٹیز میں اس طرح کی مدد کا فقدان نظر آتا ہے، نتیجتاً پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کرنے کے بعد بھی طلبہ کریئرکا تعین نہیں کرپاتے۔
ہندوستان میں کرئیر کے انتخاب کی تاریخ بڑی دلچسپ ہے۔ آزادی کے بعد ملک میں بڑے پیمانے پر وکیلوں، ججوں اور اساتذہ کی ضرورت پڑی۔ آزادی کی لڑائی میں بیشتر لیڈران کے وکیل ہونے کے باعث کئی نوجوانوں نے ۵۰ کی دہائی میں وکالت کو بطورِ پیشہ اختیار کیا۔ بی اے تک تعلیم حاصل کرنا اُن دنوں بہت بڑی قابلیت مانی جاتی تھی۔ نئے نئے اسکول، کالج اور یونیورسٹیاں بن رہی تھیں اور بہت بڑی تعداد میں اساتذہ کی ضرورت پیش آئی، اس وقت وکیلوں اور اساتذہ کو کافی عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا۔
۶۰ کی دہائی میں بھارت ترقی کی راہ پر گامزن تھا، کارخانے، فیکٹریاں،جوہری ری ایکٹر قائم کیے جارہے تھے یعنی کہ انجینئرنس کی ضرورت پڑنے والی تھی۔ یہی وہ وقت تھا جب سِول، الیکٹریکل، آرکٹیکٹ، میکینکل، انڈسٹریل، الیکٹرونکس جیسے انجینئرنگ شعبوں نے فروغ حاصل کیا۔ ذہین طلبہ وکالت کو چھوڑ انجینئر بننے کی خواہش کرنے لگے۔
۱۹۷۰ کی دہائی تک حکومت کے پلاننگ کمیشن نے مقابلہ جاتی امتحانات کے ذریعے حکومت کی آسامیوں کو شروع کیا۔ اچانک رجحان میں تبدیلی آئی۔ اور ذہین طلبہ گریجویشن کے بعد سول سروسس کی طرف رخ کرنے لگے۔ سرکاری نوکریاں اس وقت آسانی سے مل جاتی تھیں۔ ایم اے کامیاب ہونے والے امیدواروں کو ادارے بلا بلا کر نوکریاں دیتے تھے۔ اس دوران میڈیکل کے شعبے نے بھی کافی ترقی کی۔ طب میں تخصص کا دور شروع ہوا۔ خاص طور پر ماہرِ قلب، Neurologist اور کینسر کے ماہرین کی ضرورت پیش آنے لگی۔ انجینئرنگ کے ساتھ ڈاکٹری بھی ایک عمدہ کریئر تصور کیا جانے لگا۔ سائنس اور ٹکنالوجی کی ترقی کے باعث بنیادی ریسرچ، خلائی سائنس، آٹو موبائل جیسی صنعتوں میں بھی اضافہ ہوا۔ کریئر کے انتخاب پر اب تک معاشی، سیاسی اور سماجی دباؤ حائل رہا۔
۱۹۸۰ء کی دہائی کرئیر کے انتخاب میں ایک بڑی تبدیلی لے کر آئی۔ خلیجی ممالک میں تیل کے کنوؤں کے کاروبار نے زور پکڑا اور انھیں بڑی تعداد میں ہیلپرس، انجینئرس، ٹیکنیشین کی ضرورت پیش آئی، یہی وہ وقت تھاجب ہزاروں ہندوستانی نوجوانوں نے سعودی عرب اور دیگر خلیجی ممالک کی راہ لی۔ خاص طور پر حیدرآباد، کیرلا، اعظم گڑھ علاقوں سے بڑی تعداد میں افراد بیرونِ ملک تلاشِ روزگار کے لیے منتقل ہوئے، اس وقت بھی ریال، درہم اور دینار کی شرحِ مبادلہ ہندوستانی روپیوں سے زیادہ تھی۔
۱۹۹۰ء کی دہائی مینجمنٹ کی تعلیم کے فروغ کی دہائی کہلاتی ہے۔ اسی وقت کمپیوٹر ٹکنالوجی کی آمد ملک میں ہوئی اور ایسے نوجوان جو پڑھائی میں کمزور سمجھے جاتے تھے لیکن ٹیکنیکل دماغ رکھتے تھے ان کے لیے ہزاروں نوکریاں پیدا ہوگئیں۔ کمپیوٹر سافٹ ویئر ٹکنالوجی اور مینجمنٹ نے اتنی تیزی سے ترقی کی کہ ہر نوجوان کیریئر کے لیے اسی سمت میں دوڑ لگانے لگا۔ IITکی طرح IIMجیسے مینجمنٹ کی تعلیم کے اعلیٰ ادارے قائم ہوئے۔ پرائیویٹ اداروں نے ایم بی اے کی اشتہار بازی میں خوب روپیہ خرچ کیا اور ہر طالب علم کو باور کروایا کہ وہ کوئی بھی ڈگری حاصل کرلے لیکن MBAکیے بغیر وہ اچھی نوکری نہیں پاسکتا۔ یہاں تک کہ IIT کے انجینئر، AIIMS کے ڈاکٹرس بھی گریجویشن کے بعد MBAکرنے لگے۔
اسی دور میں Travel & Tourism، ہوٹل مینجمنٹ اور T.V.جرنلزم جیسے کریئر کا آغاز ہوا۔ کمپیوٹر سافٹ ویئر انڈسٹری پہلے ہی ایک بہترین آغاز کرچکی تھی۔ انٹرنیٹ کی آمدنے اس میں چار چاند لگادیے۔ جو طلبہ باہر جاکر نوکریاں کرتے تھے، ان کو وہی تنخواہ پرائیویٹ کمپنیوں نے بھارت میں مہیا کروادیں۔ ہر کریئر اب ٹیکنالوجی سے جڑ گیا۔ مینجمنٹ اور کمپیوٹر کی تعلیم ہر شعبے کے لیے لازمی ہوگئی۔
۲۰۰۰ء کے بعد کی صدی کریئر کے انتخاب کے لیے سب سے مشکل ترین دور رہا ہے۔۲۰۰۲ء میں امریکہ میں ورلڈ ٹریڈ سینٹر کی تباہی کے بعد سے امریکہ معاشی بحران کا شکار ہونے لگا۔ ساتھ ہی خلیجی ممالک بھی آپسی انتشار کی وجہ سے بہتر معاشی متبادل مہیا نہیں کرپا رہے ہیں۔ کمپیوٹر سافٹ ویئر میں مواقع محدود ہوچکے ہیں۔ چین سے انتہائی سستے داموں پر ٹیکنیکل آلات کی فراہمی کے باعث دیسی آلات کی فروخت متأثر ہوئی ہے۔ ہندوستان عالمی تجارت کے لیے ایک بڑا بازار بن گیا ہے۔ حالیہ سالوں میں چین دنیا کا سب سے بڑا Manufacturing Hub بن کر اُبھرا ہے، وہیں ہندوستان سب سے بڑا Service Provider ثابت ہوا ہے۔ پیٹرول کی بڑھتی قیمتوں کے باعث آٹو موبائل انڈسٹری میں بھی نوکریاں حاصل کرنا مشکل ہوچکا ہے۔
ہم ۲۰۱۴ء میں قدم رکھ چکے ہیں۔ وہ وقت آچکا ہے کہ اس مقابلہ جاتی دور میں طلبہ کی رہنمائی بیرونی عوامل پر نہیں بلکہ طلبہ کی ذہنی صلاحیت کی بنا پر کی جانی چاہیے۔ وہ سائنسی عوامل جن پر رہنمائی کی بنیاد رکھی جانی چاہیے مندرجہ ذیل ہیں:
ذہنی استعدادی جانچ (Intelligent Quotient Test):
یہ ٹسٹ انسان کی ذہنی صلاحیتوں کی پیمائش کے لیے کیا جاتا ہے۔ ہر انسان اپنی ذہنی استعداد کے مطابق ہی کیریئر کا انتخاب کرسکتا ہے۔ عام انسان کا IQ۷۰ تا ۹۰ کے درمیان ہوتا ہے۔ ۹۰ IQکے اوپر ذہین اشخاص کا شمار ہوتا ہے۔ سائنسدانوں کا IQ۱۲۰ کے آس پاس ہوتا ہے۔ IQکے ساتھ imagination, creative thinking, reasoningجیسی صلاحیتیں بھی دیکھی جاتی ہیں۔ یہ تمام ٹسٹ کمپیوٹر کے ذریعے بھی کیے جاتے ہیں۔ IQٹیسٹ طلبہ کو صحیح کریئر گائیڈنس فراہم کرنے میں انتہائی معاون ثابت ہوتے ہیں۔
رجحان (Attitude)
کسی بھی شعبے میں کریئر بنانے کے لیے لازمی ہے کہ طلبہ اپنا Attitudeدرست کریں اور اس برتاؤ کو اختیار کرنے کی کوشش کریں جیسا انھیں بننا ہے۔ اپنے بارے میں مثبت رائے رکھیں اور جس کریئر کو اپنانا ہے اس کے ماہرین سے ملاقات کریں۔
دلچسپی(Interest):
آپ کسی بھی کام کو اس وقت تک دل جمعی کے ساتھ نہیں کرسکتے جب تک آپ اس میں مکمل دلچسپی نہ لیں۔ کریئر کا انتخاب کرتے وقت طلبہ کو اس کی دلچسپی اور شوق کا خیال رکھنا چاہیے۔
معاشی حالات(Economic Condition):
کسی کورس کا انتخاب کرتے وقت خیال رکھنا چاہیے کہ اس کی مدت کتنی ہے اور کل کتنا خرچ اس میں ہوگا۔ کن کورسس کو اسکالرشپ مل سکتی ہے۔ یہ تمام معلومات بہت اہم ہیں۔
جنس(Gender)
لڑکوں اور لڑکیوں کو اپنی شخصیت کے مطابق کورس کا انتخاب کرنا چاہیے۔ اکثر لڑکے ہوٹل مینجمنٹ کورس میں داخلہ لے کر بعد میں شکایت کرتے ہیں کہ یہ کورس ان کی شخصیت کے لیے مناسب نہیں ہے۔ اسی طرح لڑکیاں ہارڈ ویئر انجینئر بن کر پچھتاتی ہیں۔
والدین کا رول
کیریئر گائڈنس میں والدین کا رول بھی اہم ہے۔ والدین کو چاہیے کہ بچے کی مرضی کا دھیان رکھیں اور اپنے خوابوں کو اس کے ذریعے پورا کرنے کے بجائے اسے اپنے خوابوں کو پورا کرنے کا موقع دیں۔ اکثر والدین اپنے بچوں کو وہی بنانا چاہتے ہیں جو وہ خود نہ بن سکے۔ یہ ممکن تو ہے لیکن اس کے لیے درکار وقت اور محنت کرنے کے لیے والدین تیار نہیں ہوتے۔
اساتذہ کا رول
اساتذہ کو بھی طلبہ کی گائیڈنس میں مدد کرنی چاہیے۔ مختلف مقابلہ جاتی امتحانات سے طلبہ کو واقف کراتے رہنا چاہیے۔ انھیں خود بھی میگزین، اخباروں کے ذریعے updateرہنا چاہیے، پڑھاتے وقت ۱۵ دنوں یا کم از کم مہینے میں ایک بار کسی ایک کریئر کے متعلق مفصل معلومات طلبہ کو دیتے رہنا چاہیے۔
کریئر کی تین اقسام
طلبہ کو اب آٹھویں کلاس کے بعد ہی اپنے کریئر کے متعلق سوچنا شروع کردینا چاہیے کیونکہ جتنی جلدی وہ سوچیں گے اتنی ہی جلدی وہ اپنے من پسند کریئر کی معلومات اکٹھا کرپائیں گے۔ کریئر اختیار کرنے سے قبل ضروری ہے کہ وہ موجودہ کریئر کے بارے میں جاننے کے ساتھ ہی ساتھ مستقبل میں آنے والے نئے کریئرس کے متعلق بھی اندازہ لگائیں۔ یہاں ہم کریئر کی تین اقسام بیان کررہے ہیں جن کی بدولت طلبہ کو اپنے لیے صحیح سمت کا تعین کرنے میں آسانی ہوگی:
روایتی کریئرس (Traditional Careers)
یہ وہ کریئرس ہیں جو آزادی کے بعد سے ہندوستان میں رائج ہیں۔ ان میں سے کچھ کریئرس جیسے ڈاکٹر، انجینئر، وکیل اور مدرس سدا بہار کریئر ہیں۔ ان میں سے کچھ کریئر آج بھی رائج ہیں لیکن ان کے نام بدل چکے ہیں۔ جیسے کلرک کو اب DTP Operatorکہا جاتا ہے۔ Translatorکو Interpreterکے نام سے جانا جاتا ہے۔
روایتی کیریئرس کے عنوان سے کسی کو یہ غلط فہمی نہ ہو کہ اب یہ کریئر بالکل ختم ہوچکے ہیں۔ صرف بتانا یہ مقصود ہے کہ یہ کریئرس پہلے سے چلے آرہے ہیں اور ان میں زمانے کے ساتھ ساتھ تبدیلیاں بھی ہوتی رہی ہیں۔
ماڈرن کریئرس(Modern Careers)
یہ موجودہ زمانے میں رائج کریئرس ہیں۔ لیکن ان میں روز بروز تبدیلی آتی جارہی ہے۔ زمانے کی رفتار کافی تیز ہوچکی ہے۔ دنیا میں موجودہ ساری معلومات تقریباً ۳؍ سال میں دوہری ہوجاتی ہیں۔ مقابلہ جاتی دور ہے، روایتی تعلیمی قابلیت کے ساتھskills اور communicationپر بھی زور دیا جارہا ہے۔ ہر شعبے میں specializationاور super-specialization شروع ہوچکا ہے۔ کمپنی میں پہلے ایک فرد ایک یا دو ذمہ داریاں سنبھالتا تھا، اب وہ کئی ذمہ داریاں سنبھالتا ہے اسے Multi Taskingکہتے ہیں۔
کچھ ماڈرن کریئرس جیسےInternet Journalism، roboticsاور Retail مستقبل میں بھی اچھے ثابت ہوسکتے ہیں۔
مستقبل کے کریئرس (Future Careers)
یہ وہ کریئرس ہیں جو آنے والے دس سالوں میں ترقی پاسکتے ہیں، اس کا یہ مطلب قطعی نہیں کہ ان کے علاوہ دوسرے کریئرس میں مستقبل نہیں ہے۔ یہ صرف ٹکنالوجی کی ترقی کے باعث فروغ پانے والے کریئرس ہیں۔ مستقبل کے جن کریئرس کی یہاں نشاندہی کی گئی ہے ان میں کریئر بنانے کے لیے طلبہ کو پروفیشنل کریئر کاؤنسلرس سے رابطہ قائم کرنا چاہیے کیونکہ ان کیریئرس میں طلبہ کی صلاحیتوں کا بڑا دخل ہے۔ یہ کریئرس کڑی محنت چاہتے ہیں، وہ دور اب گیا جب ۱۰؍ تا ۵؍ بجے تک جاب کرکے گھر آکر آرام کیا جاتا تھا ، اب ایک دن میں ۱۲؍تا ۱۵؍ گھنٹے کام کیا جاتا ہے۔ ہفتے میں ۵ ؍دن کام کے ہوتے ہیں سنیچر اتوار چھٹی ہوتی ہے۔ آنے والے دن ایک نئی روشنی لے کر آنے والے ہیں۔ طلبہ کو چاہیے کہ اپنے آپ کو تیار رکھیں تاکہ وہ نئے بدلتے حالات کا مقابلہ کرسکیں۔

کاظم ملک، کریئر کونسلر، ممبئی

حالیہ شمارے

براہیمی نظر پیدا مگر مشکل سے ہوتی ہے

شمارہ پڑھیں

امتیازی سلوک کے خلاف منظم جدو جہد کی ضرورت

شمارہ پڑھیں