کتاب : Sense and Solidarity Jholawala Economics For Everyone

ایڈمن

مصنف
جین ڈریز
ناشر
Permanent Black
1st Edition; Sept 2017
مبصر
عبدالباری مومن، بھیونڈی

 

ہمارے ملک کے سابق وزیر اعظم منموہن سنگھ جی جنہیں مذاق میں مون سنگھ جی بھی کہا جاتا تھا کیوں کہ وہ بہت کم بولتے تھے۔اس کے علاوہ ان پر اس بات کے لیے بھی بہت تنقیدیں کی گئیں کہ وہ ساری ہدایات 10 جن پتھ سے لیتے تھے جو سونیا گاندھی کی رہائش گاہ ہے۔ دراصل یہ کام ایک قومی مشاورتی کونسل (NAC) کی تشکیل کے ذریعے کیا گیا۔ اس کونسل کے ذریعے کانگریس حکومت کو مشورے دیے جاتے تھے۔ کونسل کی صدر سونیا گاندھی تھیں۔ لیکن دراصل اس کی خصوصیت یہ تھی کہ اس میں مختلف شعبوں کے ماہرین کے علاوہ ایسے کارکن بھی شامل کیے گئے تھے جو ملک کے معاشی زمینی حقائق سے اچھی طرح واقف تھے اور انہیں عام طور پر حکومتوں پر تنقیدی نظر رکھنے والے افراد کی حیثیت سے جانا جاتا تھا۔چنانچہ اس کونسل کی مدد سے کئی نئی سماجی پالیسیاں تشکیل دی گئیں اور کئی مفید قوانین بنائے گئے۔ ان میں حق اطلاعات، حق روزگار،حق تعلیم، حق غذا وغیرہ کے قوانین شامل ہیں جو کانگریس کے دور میں بنائے گئے، اسی کونسل کے مشوروں کا نتیجہ تھے۔ اس کونسل کے ذریعے حکومت کو دیے گئے مشوروں میں خاص طور سے جھولے والے کارکنان یعنی عوامی سطح پر کام کرنے والے کارکنان کا بڑا ہاتھ رہا ہے۔ NAC کی مدد سے ان کارکنان کو اپنی تجاویزحکومت تک پہنچانے کا

ایک موثر راستہ مل گیا۔ اس کتاب کے مصنف جِین ڈریز (Jean Dreze) ایسے ہندوستانی شہری ہیں جو بیلجیم میں پیدا ہوئے ۔ وہ منموہن سنگھ کے دونوں ادوار حکومت میں NAC کے ممبر رہے ہیں۔ دونوں مرتبہ انہوں نے ایک سال کام کرنے کے بعد کونسل سے معذرت کرلی۔ان کا خاص مضمون ہندوستانی ترقیاتی معاشیات رہا ہے۔اسبناء پر انھوں نے مختلف موضوعات جیسے ہندوستان میں بھکمری، غریبی، بے روزگاری، صحتِ اطفال،قحط سالی، صنفی تفریق وغیرہ پر کافی کام کیا ہے اور کتابیں تصنیف کی ہیں۔ ان کی تصنیفات میں ان کے ساتھ مل کر نوبل انعام یافتہ افراد جیسے امرتیہ سین اور دیگر شامل رہے ہیں۔ وہ اس وقت دہلی اسکول آف اکنامِکس کے اعزازی پروفیسر اوررانچی یونی ورسِٹی (جھارکھنڈ) کے شعبہ معاشیات کے وِزیٹِنگ پروفیسر ہیں۔منریگا (MNREGA) کا تصور انھوں نے ہی دیا تھا اور اس کا ڈرافٹ بھی انھوں نے ہی تیار کیا تھا۔ ان کے بارے میں نوبل انعام یافتہ ماہر معاشیات Angus Deaton کا یہ کہنا ہے کہ جین ڈریز ترقیاتی معاشیات کے ایک بہترین ماہر ہیں۔جین ڈریز کے بارے میں یہ بھی کہا جاتا ہے کہ حقیقتاً جھگی جھونپڑی میں ہی رہ کر انہوں نے اپنا تحقیقی کام مکمل کیا ہے۔

انگریزی کتاب Sense and Solidarity دراصل ان کے مضامین کا مجموعہ ہے جو سال 2000 اور 2017 کے درمیان انھوں نے تحریر کیے ہیں۔جس کا ایک ذیلی عنوان ہے،Jholawala Economics For Everyone

اس کتاب کے مضامین ان کی اور ان کے شریک کارمضمون نگاروں کی ذاتی تحقیقات اور شخصی تجربات پر مبنی ہیں۔انھوں نے معاشی اسکیموں کے اثرات کا جائزہ خود ان افراد کے درمیان رہ کر لیا ہے جن کے لیے وہ اسکیمیں بنائی گئی تھیں۔ انھوں نے جہاںان اسکیموں کی خامیوں کا تذکرہ کیا ہے وہیں انھوں نے ان کی خوبیوں کو بیان کرنے میں بھی کوئی کوتاہی نہیں کی ہے۔ حقیقی اعداد و شمار بیان کیے ہیں۔ کتاب میں تقریباً تمام ہی ترقیاتی معاشی عوامل کا احاطہ کیا گیا ہے، جیسے فاقہ کشی ، مفلسی، مِڈ ڈے میل، صحت و بیماری، ترقی اطفال، ابتدائی تعلیم، روزگار ضمانت اسکیم، غذائی تحفظ، عوامی راشننگ نظام وغیرہ۔ اسی طرح کرپشن، نوٹ بندی،کارپوریٹ گھرانوں کی قوت، ٹکنالوجی کے اچھے اور برے اثرات، آدھار کارڈکا استعمال ان سب کو بھی شامل کیا ہے۔ہرباب کے شروع میں ایک نوٹ کے ذریعہ اس میں شامل مضامین کے آپسی تعلق کی تشریح کی گئی ہے۔ عنوانات خود مصنف کی فکری گہرائی اور گیرائی کا اظہار کرتے ہیں۔ دیگر حکومتی اور غیر حکومتی ایجنسیوں نے بھی ان موضوعات پر تحقیقات کی ہیں، لیکن یا تو ان میں گہرائی اور زمینی حقائق کا فقدان ہے یا ان کا مقصد حکومت کے فرضی اور بعید از حقیقت کارناموں کو سراہنا ہے۔

مذکورہ کتاب میں ایسے موضوعات پر سیر حاصل گفتگو کی گئی ہے جو اب بھی بڑے پیمانے پر بحث کا موضوع ہیں، جیسے فوڈ کارپوریشن آف انڈیا کی نااہلیاں،خط افلاس کے نیچے رہنے والے خاندانوں کی غلط تعریف اور ان خاندانوں کی شناخت (یا عدم شناخت) کے ہلاکت خیز نتائج، اسکولوں میں پکے ہوئے کھانے فراہم کیے جانے کا مسئلہ،صحت کے معاملے میں ہندوستان کی اپنے سے غریب ممالک کے مقابلے میں بھی ناقص کارکردگی، اسکولوں میں اساتذہ کا بالکل نہ پڑھانا ، منریگا کے امکانات کا اندازہ بہت کم لگانا،قومی غذائی تحفظ کے قانون کے اثرات میں اضافہ کی استعداد، وغیرہ۔ کتاب کے تعارف میں انھوں نے عملی تحقیق (Research for Action) کے تعلق سے ماہرین معاشیات اور عوامی کارکنوں کے درمیان تال میل قائم کرنے کی پرزور حمایت کی ہے۔ ان کے خیال میں سرکاری اسکیموں سے عوام صحیح فائدہ اسی وقت اٹھا سکتے ہیں جب ان کے تعلق سے خودعوام اور عوامی کارکنان کا شعور بیدار ہو ۔ اگر ایسا ہوا تو خود عوام ہی حکومت کا احتساب لینے کے قابل ہوجائیں گے۔

اپریل 2018

مزید

حالیہ شمارہ

امتیازی سلوک کے خلاف منظم جدو جہد کی ضرورت

شمارہ پڑھیں

فلسطینی مزاحمت

شمارہ پڑھیں