کتابیں کیسے پڑھیں؟

مدیحہ عنبر
مئی 2025

‘دی بیٹ’ روسی قلم کار آنتون چیخوف کا لکھا ہوا ایک عمدہ افسانچہ ہے۔ کہانی میں دو کرداروں کے مابین شرط کے مطابق ایک شخص اپنی زندگی کے پندرہ سال اندھیرے کمرے میں، انسانوں سے دور گزارنے کی شرط ایک…

‘دی بیٹ’ روسی قلم کار آنتون چیخوف کا لکھا ہوا ایک عمدہ افسانچہ ہے۔ کہانی میں دو کرداروں کے مابین شرط کے مطابق ایک شخص اپنی زندگی کے پندرہ سال اندھیرے کمرے میں، انسانوں سے دور گزارنے کی شرط ایک خطیر رقم کے بدلے میں قبول کرتا ہے۔ اس قیدی کی زندگی میں چند بنیادی ضرورتوں کے علاوہ زندگی کا محور کتابیں تھیں۔ قید کے ابتدائی سالوں میں وہ پیانو بجا کر وقت گزارا کرتا تھا اسی دوران اس نے ادب کا ایک بڑا حصہ پڑھ ڈالا۔ اس کے بعد کلاسیکی تحریروں کو وہ پڑھتا رہا۔ چھٹے سال اس نے فلسفے اور تاریخ کی کتابوں کے ساتھ مختلف زبانوں کو سیکھنے کی غرض سے مختلف کتابیں پڑھیں۔ اس کی درخواست پر چار سال کی مدت میں تقریباً چھ سو جلدیں خریدی گئیں۔ اسی دوران اس نے چھ سے زائد زبانوں میں مہارت حاصل کرلی۔ دسویں سال اس نے صرف اولڈ ٹیسٹیمن کا مطالعہ کیا۔ اس کے بعد وہ مختلف مذاہب کے مطالعے اور تھیولوجی کی طرف راغب ہوا۔ قید کے آخری دو سالوں میں اس کے مطالعے میں مزید تیزی پیدا ہوگئی اور وہ مختلف موضوعات جیسے نیچرل سائنس، کیمیا، طب، فلسفہ اور مذہب سے متعلق موضوعات کا مطالعہ کرتا رہا۔ ساتھ ہی اس نے لارڈ بائرن اور ویلکم شیکسپیر کو بھی پڑھا۔ جیل کے آخری ایام میں جب دوسرا شخص اس کے کمرے میں داخل ہوا تو اس نے میز پر ایک خط پایا۔ جس میں لکھا تھا کہ “مطالعہ کے دوران میں نے تمام دنیا کی سیر کی، ایک ایک ملک ایک ایک شہر، ایک ایک بستی اور ایک ایک گھر گیا۔ ہر طرح کے کردار سے میری ملاقات ہوئی۔ میں ان کی رفاقت سے محظوظ ہوا۔ ان کے خیالات تک میری رسائی ہوئی، دنیا کی خوبصورتی، فطرت کی ادائیں، باغات کی شادابی، شہروں کا حسن اور خوبصورت لوگوں کو دیکھا۔ زندگی کی تمام رعنائیاں اور حسن اسی مطالعہ میں پایا جس کا شاید عام زندگی (میں) مشاہدہ، احساس اور تجربہ کرنا ممکن نہیں تھا۔ ان کتابوں نے مجھے عقل بخشی، صدیوں پر محیط انسانی کوششوں کے طفیل پیدا ہونے والے افکار و نظریات مجھ تک پہنچے۔ یہاں موجود لوگوں میں سب سے زیادہ حکمت و دانائی میرے پاس ہے اور یہی میرا اثاثہ ہے۔” قید کی مدت مکمل ہونے کے بعد وہ شخص شرط کی خطیر رقم لیے بنا ہی کہیں چلا جاتا ہے۔

آنتون چیخوف کی یہ کہانی علم دوستی اور زندگی میں کتابوں کی اہمیت کو بہت خوبصورتی سے پیش کرتی ہے۔ علم دراصل کتابوں میں مہر بند ہے۔ جب تک ان کی سطور میں موجود الفاظ کی گہرائی اور گیرائی تک رسائی نہ ہو یہ سیل نہیں کھلتی۔ کتابیں انسانی تجربات، احساسات، خیالات و افکار کو نہ صرف محفوظ رکھنے بلکہ ان کی ترویج و ترقی کے لیے ناگزیر ہیں۔ ان کتابوں کے ذریعے یہی علم انسانوں تک پہنچتا ہے۔‌ کتابوں سے فیض یابی کے ذرائع مختلف ہوسکتے ہیں لیکن سب سے اہم یہ جاننا ہے کہ ایک انسان کے مطالعے کا دائرہ کونسے موضوعات اور کس طرح کی کتابوں پر مبنی ہو۔ مطالعے کی ابتداء پسندیدہ موضوعات اور ذاتی دلچسپی کی بناء پر ہوتی ہے۔ بعد ازاں ضرورت، شوق اور تجسس انسان کو مزید مطالعے کے لیے مہمیز عطا کرتا ہے۔ 

کونسی کتابیں؟

ہمہ جہت اور وسعتِ مطالعہ ذہن کو تازگی، تخیل کو بلندی، افکار کو گہرائی اور شخصیت کو ہمہ گیری بخشتا ہے۔ مختلف الجہات مطالعے سے تخلیقیت پیدا ہوتی ہے۔ انسانی ذہن نئے احساسات، مشاہدات و تجربات سے گزرتا ہے جس سے شخصیت کی نشوونما ہوتی ہے۔ مطالعہ کرنے والا علم، فہم، حکمت، تخلیقیت اور دوراندیشی جیسی صفات سے متصف ہوتا ہے۔

1۔ کلاسیکل کتابیں

کلاسیکل لٹریچر یعنی قدیم و معیاری لٹریچر جو انسانی تاریخ کا اثاثہ ہے۔ کسی بھی علم کی بنیاد اور تاریخ سے واقفیت کے لیے کلاسیکی کتابوں سے استفادہ ناگزیر ہے۔ کلاسیکی کتابیں دنیا کی مختلف زبانوں میں لکھی گئی ہیں۔ کلاسیکی علم ادب، شاعری، سائنس، فلسفہ، تاریخ، نظریات اور مذاہب غرض ہر شعبہ میں پایا جاتا ہے۔ کلاسیکی کتابوں کا مطالعہ زبان، تاریخ، افکار و نظریات اور معاشرت کا گہرا فہم پیدا کرتا ہے۔

 2۔افسانوی ادب

افسانوی ادب(فکشن) میں افسانے، افسانچے، ناول، شاعری، ڈرامے وغیرہ شامل ہیں۔ ادب انسانی شخصیت کی تعمیر میں بنیادی کردار ادا کرتا ہے۔ طبیعت میں نفاست اور لطافت پیدا کرتا ہے۔ انسانی احساسات و تجربات کو سمجھنے کے ساتھ ساتھ جمالیاتی ذوق کی آبیاری کرتا ہے۔ انسان اور سماج کے تئیں حساسیت پیدا کرتا ہے۔ یہ نہ صرف تفریح بلکہ سماجی تبدیلی کا اہم ذریعہ ہے۔ ادب کے مطالعے سے زبان میں پختگی، شائستگی اور سلاست پیدا ہوتی ہے۔ ادب زبان و بیان کے استعمال کا سلیقہ عطا کرتا ہے۔ ادب کے مطالعے میں مادری زبان کے ساتھ ساتھ مختلف زبانوں میں پائے جانے والے مواد کا مطالعہ انسانی احساسات، مشاہدات اور تجربات کی دنیا کو مزید وسعت عطا کرتا ہے۔ ہندوستان کے پس منظر میں ہندی، مراٹھی، پنجابی، ملیالم، بنگالی، کشمیری اور دوسری علاقائی زبانوں میں دستیاب بیش قیمت ادبی سرمائے سے استفادہ کیا جانا چاہئے۔ ان کے تراجم کا مطالعہ اس تہذیب و تمدن اور معاشرت کا مطالعہ ہے۔ عالمی سطح پر انگریزی، روسی، جاپانی، عربی، فارسی ادب وغیرہ کو بھی ایک خاص مقام حاصل ہے۔

3۔ فلسفہ

فلسفہ دراصل ان بنیادی سوالات کی تلاش کا نام ہے جو انسان کے وجود، علم، اخلاقیات، منطق اور مقصدِ حیات سے جڑے ہوئے ہیں۔ فلسفہ محض نظریات رَٹنے کا نام نہیں بلکہ سوچنے، سوال کرنے اور کائنات کی حقیقتوں کو کھوجنے کا عمل ہے۔ یہ ہمیں سکھاتا ہے کہ ہم خود سے سوال کریں۔ ہم ہیں کیوں؟ ہم کیا جانتے ہیں؟ ہمیں کیا کرنا چاہیے؟

فلسفے کا مطالعہ محض ایک علمی مشق نہیں ہے بلکہ یہ انسان کے ذہن اور تہذیب و تمدن کی بنیاد رکھتا ہے۔ یہ سوچنے اور سوال کرنے کی صلاحیت کو جِلا بخشتا ہے۔ فلسفہ ہمیں سکھاتا ہے کہ ذہنی کمزوریوں، تعصبات اور مفروضات کو کس طرح چیلنج کرنا ہے اور دلائل کو منظم انداز میں کیسے سمجھنا ہے۔ جب سقراط کہتا ہے “اپنے آپ کو جاننا لازمی ہے”، تو وہ ہمیں خود احتسابی کی دعوت دیتا ہے۔ اسی طرح امانوئل کانٹ کا “Categorical imperative” کا اصول ہمیں مجبور کرتا ہے کہ ہماری طرز زندگی ان اصولوں پر ہو جن اصولوں پر رہنے کی توقع ہم سب سے کرتے ہیں۔ فلسفہ اخلاقی فیصلوں میں عقلی، منطقی گہرائی پیدا کرتا ہے۔ معاشرتی اور سیاسی تبدیلیوں کی جڑیں بھی فلسفے میں پیوست ہیں۔ کارل مارکس کی سرمایہ داری پر تنقید نے مزدوروں کو تحریک عطا کی۔ جبکہ جان لاک کے خیالات نے جمہوریت کے اصولوں کو جنم دیا۔ فلسفہ ماضی، حال اور مستقبل کو جوڑنے کا کام کرتا ہے، ہمیں یہ بتاتا ہے کہ آج کی دنیا ان خیالات کی پیداوار ہے جو صدیاں پہلے بوئے گئے تھے۔ گو کہ فلسفہ انسان میں وسعتِ نظری پیدا کرتا ہے۔ اسلامی فلاسفہ الفارابی، امام غزالی، ابن قیم، ابن تیمیہ، ابن رشد، ابن سینا، الکندی، رومی اور ابن خلدون کا مطالعہ ناگزیر ہے۔ جدید فلسفہ کا مطالعہ جدید نظریات اور تنقیحات کے فہم کے لیے لازمی ہے۔

تحریکی و اسلامی لٹریچر

اسلامی لٹریچر میں تفاسیر،‌ احادیث، شریعت کی تفہیم و ترسیل کے لیے لکھی گئی کتابیں اور تحریکی لٹریچر کا ایک بڑا سرمایہ موجود ہے جو دین کی سمجھ کے لیے بنیاد فراہم کرتا ہے۔ تحریکی لٹریچر کے مطالعے کے لیے مندرجہ ذیل دو طریقے اختیار کیے جاسکتے ہیں۔

موضوعاتی مطالعہ

کسی ایک موضوع کا انتخاب کیا جائے۔ اس موضوع کے متعلق گہری سمجھ پیدا کرنے کی غرض سے قدیم اور بنیادی کتابوں سے لے کر موجودہ وقت میں لکھی جارہی کتابوں کی فہرست بنائی جائے۔ اس فہرست کے مطابق مطالعہ کیا جائے۔

٢) کسی ایک مصنف کے افکار و نظریات کے مطالعہ کی غرض سے اس کی تمام کتابوں کا مطالعہ کرلیا جائے۔

مطالعہ کیسے؟

کتب بینی ایک آرٹ ہے۔ آرٹ میں مہارت مستقل کی جانے والی کوششوں سے پیدا ہوتی ہے۔ مؤثر مطالعہ تیزی سے پڑھنا اور کم وقت میں کتابوں کو مکمل کرنا نہیں بلکہ مؤثر طریقے سے پڑھنے کا مطلب ہے موضوع کی گہری سمجھ اور اس کا تجزیاتی مطالعہ، درست سوالات پوچھنا، پڑھنے کے لیے صحیح کتابوں کی شناخت کرنا، مختلف کتابوں کو پڑھنے کے لیے مختلف اہداف اور طریقوں کو سمجھنا اور پڑھنے کی صلاحیت کو بڑھانے کے لیے مختلف تکنیک کا استعمال کرنا ہے۔ کتاب کے تجزیے کے لیے صحیح سوالات کھڑے کرنا گہرائی و گیرائی پیدا کرتا ہے۔ کتاب کیا کہنا چاہ رہی ہے، کیا سمجھانا چاہ رہی ہے، ہر موڑ اور ٹاپک پر یہ سوال پوچھنا سرگرم مطالعہ میں شمار ہوتا ہے۔

پہلا سوال: کتاب کا مدعا کیا ہے؟

اس سوال کا جواب مطالعے سے پہلے حاصل کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ اس کے لیے موثر طریقۂ ہے “اسکیمینگ اور سرسری مطالعہ’۔ کتابوں کا خلاصہ اور روویوز پڑھ‌ کر نہ صرف معلومات بلکہ ایک سمجھ حاصل کی جاسکتی ہے کہ کتاب کا ماحصل کیا ہوگا۔ اس کے علاوہ مطالعہ شروع کرنے سے پہلے پیش لفظ، فہرست مضامین اور کتاب پر ایک نگاہِ غلط سے کافی معلومات حاصل ہوسکتی ہے۔ درمیان سے کسی اقتباس کا مطالعہ بھی دلچسپی پیدا کرنے میں مددگار ثابت ہوتا ہے۔

دوسرا سوال: کتاب کا مدعا کیسے اور کس طرح سے پیش کرنے کی کوشش کی جارہی ہے؟

اس سوال کا جواب دورانِ مطالعہ حاصل ہوگا۔ مطالعے کے ساتھ ساتھ مواد کو اخذ کرنے کی کوشش میں قلم کار کا اندازِ تحریر اور زبان کے استعمال کی سمجھ مواد کو بہتر انداز میں سمجھنے میں مددگار ہوتی ہے۔ نئی اصطلاحات کو اس کے سیاق و سباق کے ساتھ جانے بغیر اصل فکر تک رسائی ناممکن ہے۔ اس کے لیے ڈکشنری کا استعمال کرنا چاہیے۔ قلم کار اپنے نظریہ کو کن مثالوں اور دلائل کے ساتھ پیش کررہا ہے اسے نوٹ کرنا اور ذہن میں دہرانا تجزیے کے لیے مددگار ثابت ہوتا ہے۔‌ اس سے تنقیدی نقطۂ نظر بھی پروان چڑھتا ہے۔

تیسرا سوال: کتاب کے متعلق آپ کا نظریہ اور تجربہ کیا ہے؟

کسی بھی کتاب کے مطالعے کے بعد قاری اپنی ایک رائے قائم کرتا ہے۔ کتاب کے مواد اور اس کی پیش کش کے متعلق رائے قائم کرتا اور اہم نکات و کمزوریوں کی نشاندہی کرتا ہے۔ کہیں اتفاق کرتا ہے تو کہیں اسے دلائل غیر منطقی اور کمزور نظر آتے ہیں۔ ہر کتاب کے متعلق ذاتی رائے مختلف ہوسکتی ہے۔ اپنی رائے قائم کرنا ہر قاری کا حق ہے اور ایک دلچسپ عمل بھی۔ جس سے فکر کی آبیاری ہوتی ہے اور تخلیقیت اور تنقیدی صلاحیت پروان چڑھتی ہے۔

مطالعے میں درپیش چیلنجر

١) ارتکاز کا فقدان

مطالعے کے دوران ذہنی انتشار ایک بڑا چیلنج ہے۔ فون یا گیجیٹ ‌کے ڈسٹریکشن کو کم کرنا بہت ضروری ہے۔ آن لائن مطالعے کے دوران غیرضروری دخل کو ختم کرنا اہم ہے۔ ارتکاز کے فقدان کی ایک وجہ ذہنی تھکاوٹ ہوتی ہے۔ اس وقت ہلکی پھلکی کتابوں اور ادب کا مطالعہ کرنا چاہیے۔ ایسی کتابوں کے مطالعے میں زیادہ توجہ اور دماغی قوت مطلوب نہیں ہوتی ہے۔ مزید یہ کہ دورانِ مطالعہ قلم/ انگلی/ کسی شئے کو سطر پر پھیرتے ہوئے پڑھنے سے توجہ بنی رہتی ہے۔ مشکل اصطلاحات اور زبان بھی اکثر ارتکاز کے ٹوٹنے کا سبب بنتی ہے۔ اس حالت میں اس طرح کی کتب کا مطالعہ دن کے مخصوص حصے کے لیے رکھا جاسکتا ہے۔ مشکل زبان کو سمجھنے کے لیے ڈکشنری اور براؤزنگ کا استعمال مددگار ثابت ہوتا ہے۔ ہر دن کتاب کا کچھ حصہ پڑھنے کی عادت بنانا چاہیے۔ مطالعہ کے دوران پیش آرہی مشکلات پر پریشان ہونے کے بجائے مطالعے پر فوکس رکھنا ضروری ہے۔ مطالعے کے بعد مواد پر ڈسکشن علم کو محفوظ کرنے اور گہری سمجھ پیدا کرنے میں مددگار ثابت ہوتا ہے۔ کتابوں کے موضوعات اور ذاتی دلچسپی کی مناسبت سے مطالعے کے لیے جگہوں کا انتخاب بھی خاص اہمیت رکھتا ہے۔ لطیف موضوعات پر کتابیں پارک، عوامی جگہوں پر پڑھی جاسکتی ہیں لیکن سنجیدہ موضوعات کے لیے لائبریری، ریڈنگ کلبز غرض یہ کہ خاموش اور پرسکون جگہوں کا انتخاب کرنا چاہیے۔

٢) وقت کی کمی

دیگر سرگرمیوں اور مصروفیات کے پیش نظر مطالعے کے لیے مخصوص وقت متعین کرپانا بعض دفعہ ایک بڑا چیلنج بن جاتا ہے۔‌ اس کے لیے مطالعے کی تنظیم اور سہولت بخش آپشنز سے واقفیت مددگار ثابت ہوتی ہے۔ سفر میں یا عام مشغولیات کے دوران آڈیو بکس، بک رویوز سے استفادہ کیا جاسکتا ہے۔ ای بکس بھی مطالعے کے لیے سہولت بخش آپشن ہے۔ کتابوں کے انتخاب میں وقت ضائع ہونے کا امکان ہوتا ہے اور دلچسپی بھی رخصت ہوجاتی ہے۔ مختصر اور جامع کتابوں کا تعارف اور دیگر قارئیں کی رائے سے استفادہ کیا جائے تو اس سے بچا جاسکتا ہے۔ شدید مصروفیت کے دوران بھی چند سطور یا اقتباس کے مطالعے کی عادت کو اپنے اوپر لازم کرلینا چاہیے۔

٣) مطالعے میں تسلسل کا فقدان

مطالعہ شروع کرکے ادھورا چھوڑ دینا، دلچسپی کا عنقا ہوجانا وغیرہ عام مسئلے ہیں۔ ان کا بہترین حل ریڈنگ پارٹنر، اجتماعی مطالعے، اسٹڈی سرکلز، کتابوں کے حاصل مطالعہ لکھنے اور گروپ ڈسکشنز میں حصہ لینے سے ممکن ہوسکتا ہے۔ کتاب میں دلچسپی کا ختم ہوجانا، خشک موضوع، ضخیم کتاب اور پیشکش پر منحصر ہوتا ہے۔ اس کے لیے پسندیدہ قلم کار اور دلچسپ موضوعات کی کتابوں کا انتخاب کرنا چاہیے۔ 

کتب بینی ایک نشہ ہے۔ علم کے حصول کا ایسا نشہ جس کی تشنگی کبھی پُر نہیں ہوسکتی۔ جس کا کوئی نعم البدل نہیں ہوسکتا۔ کتابوں کی صحبت میں ایک سرور ہے۔ ایسا سرور جو دنیا و ما فیھا سے بیگانہ کردیتا ہے اور ایک دوسری دنیا کی سیر پر لے چلتا ہے۔ اس سرور کی کیفیت کو محسوس کرنے والے ہی اصل میں اس سے فیض اٹھاتے ہیں۔ مطالعے کو بوجھ سمجھنا بہت بڑے خسارے کی بات ہے۔ دلچسپی، تجسس اور لطف پیدا کرنا ہی مطالعے کو فروغ بخشتا ہے۔

کتابوں کے سرور اور نشے سے متعلق جون ایلیا نے لکھا کہ

“ان کتابوں نے بڑا ظلم کیا ہے مجھ پر

ان میں اک رمز ہے جس رمز کا مارا ہوا ذہن

مژدۂ عشرت انجام نہیں پا سکتا

زندگی میں کبھی آرام نہیں پا سکتا”

یہی تشنگی اور بے چینی ذہن کو علم کے نخلستان کی تلاش میں مشغول رکھتی ہے۔

(مضمون نگار نے انگریزی ادب میں ماسٹرز کیا ہے)

[email protected]

حالیہ شمارے

وقف ترمیمی قانون: مضمرات اور مطلوب جدوجہد

شمارہ پڑھیں

علمی معیار کی بلندی

شمارہ پڑھیں