کبر ناحق ہے

0

ان اللہ جمیل یحب الجمال، الکبر بطر الحق وغمط الناس۔ (مسلم، ترمذی، ابن ماجہ، مسند احمد، عن عبداللہ بن مسعود)
اللہ تبارک وتعالیٰ کی تمام صفات اسمائے حسنیٰ ہیں اور ان میں سے اکثر کا پرتو انسان پر پڑنا مطلوب ہے۔ مثال کے طور پر اللہ رحیم ہے اس لیے بندوں کو بھی دوسرے بندگان خدا کے لیے رحم دل ہونا چاہیے۔ البتہ اللہ تعالی کی چند صفات ایسی ہیں جو صرف اسے زیب دیتی ہیں۔ اس دوسری قسم کی صفات باری تعالیٰ میں ’اکبر‘ بھی ہے۔ اللہ بڑا ہے (اللہ اکبر) اور کوئی دوسرا بڑا نہیں ہے۔ کائنات میں صرف دو چیزوں کا وجود ہے۔ ایک خالق اور بقیہ سب مخلوق، ایک معبود اور دیگر سب عابد، ایک بڑا اور دوسرا کوئی بڑا نہیں۔ کبر صرف اور صرف اللہ کا حق ہے۔ یہ چادر مالک کائنات نے اپنے لیے مخصوص کرلی ہے اور اس کے کسی گوشے کا بھی کوئی اور دعویدارہوجائے تو وہ ناحق ہے اور غضب الٰہی کو دعوت دینے والا ہے۔
ایک موقع پر اللہ کے رسول حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ وہ شخص جنت میں نہیں جائے گاجس کے قلب میں ذرہ برابر بھی کبر ہوگا (لایدخل الجنۃ من کان فی قلبہ مثقال ذرۃ من کبر)۔ اس پر ایک صحابی نے کہا کہ انسان کی خواہش ہوتی ہے کہ اس کا لباس اچھا ہو اور اس کا جوتا اچھا ہو۔ صحابی رسول کے اس قول کا مطلب یہ تھا کہ کیا یہ خواہش اور اس پر عمل بھی کبر میں شمار ہوگا۔ اس استفسار پر حضور صلی ا للہ علیہ وسلم نے وہ جواب دیا جو اوپر حدیث میں مذکور ہے۔ جس کا مفہوم یہ ہے کہ اللہ جمیل ہے اور جمال کو پسند کرتا ہے۔ کبر حق کا انکار اور لوگوں کو حقیر سمجھنا ہے۔
اسلام دین فطرت ہے اور انسان اپنی فطرت اور کائنات کی فطرت سے ہم آہنگ ہوکر اپنی جائز خواہشات کی تکمیل کے لیے جائز حدود میں رہتے ہوئے جائز طریقے اختیار کرے تو آخرت کے ساتھ ساتھ یہ دنیا بھی حسن وجمال سے معمور ہوجائے گی۔ اس حدیث میں اس حقیقت کو ایک حسین پیرائے میں بیان کیا گیا ہے کہ اللہ خود صاحب جمال ہے اور جمال کو پسند کرتا ہے۔ اللہ تعالی نے ایک حسین کائنات بنائی ہے اور بہترین مخلوق (انسان) کو زمین پر اپنا خلیفہ بنایا ہے، تاکہ وہ اس حسن کو برقرار رکھنے کی سعی کرے، جس کے بدلے میں اس دنیا سے حسین تر دنیا، آخرت کا وعدہ ہے۔ دنیا کو جنت نظیر بنانے اور آخرت میں جنت نعیم کو حاصل کرنے کا ایک ہی راستہ ہے اور وہ یہ کہ انسان کو حق کی معرفت حاصل ہوجائے اور اس کا اپنا عمل اس حق شناسی کے تقاضے کے مطابق ہو۔ علامہ اقبالؒ نے اسی معرفت حق کو خودی سے تعبیر کیا ہے۔ دراصل یہ حق شناسی ہی خودشناسی ہے۔ آدمی کی اپنی حیثیت یہ ہے کہ وہ اللہ کا بندہ ہے اور کسی اور کا بندہ نہیں ہے۔ وہ ایک سجدہ کرکے ہزار سجدوں سے آزاد ہوجاتا ہے۔ اب جس طرح میرے لیے اللہ کی ذات کے علاوہ کوئی دوسری ذات بڑی نہیں ہے، اسی طرح دوسرے انسانوں کے لیے بھی اللہ کی ذات سے بڑی کوئی ہستی نہیں ہے، یعنی میں بھی دوسروں سے بڑا نہیں ہوں۔ میرا اپنے آپ کو دوسروں سے بڑا سمجھنا دراصل اللہ کے حق میں دراندازی ہوگی جو اللہ تعالیٰ کے عتاب کو دعوت دینے والا ہوگا۔ اسی بات کو مذکورہ حدیث میں اس طرح بتایا گیا ہے کہ کبر کا شائبہ بھی ہوگا تو جنت میں جانا ممکن نہیں ہوگا۔
اس حدیث میں کبر میں مبتلا ہونے کے دو وجوہ بتائے گئے ہیں۔ ایک بطرالحق اور دوسری غمط الناس۔ پہلے کا مطلب ہے حق کا انکار اور دوسرے کا انسانوں کو حقیر جاننا۔ حق کا انکار یہ ہے کہ کوئی شخص اس حقیقت کو فراموش کردے کہ وہ خود فقیر ہے اور عطا کرنے والا اللہ تعالیٰ ہے۔ وہ یہ بھول جائے کہ اللہ بڑا ہے اور انسان خود اس کے مقابلے میں ذلیل ہے، عبادت دراصل تذلل ہی سے تعبیر ہے۔ جب انسان حقیقت کو فراموش کردیتا ہے تو وہ حقوق اللہ سے روگردانی کرنے لگتا ہے۔ شیطان کو حکم عدولی کا خیال اسی وجہ سے آیا تھا کہ اس نے اپنے آپ کو بڑا سمجھا تھا۔ ایک دفعہ یہ خنّاس ذہن میں بیٹھ جائے تو دیگر افراد حقیر لگنے لگتے ہیں۔ بندگان خدا کو کوئی حقیر سمجھے یہ بات خالق کائنات کو پسند نہیں ہے۔ مخلوق کی تذلیل خالق آخر کیسے برداشت کرسکتا ہے۔ وہ خود فیصلہ کرے گا کہ اس کی مخلوقات میں کون کس درجہ کا ہے۔ اس کے فیصلے میں دخیل ہونے والاتو راندۂ درگاہ ہی ٹھہرے گا۔
(ڈاکٹر وقار انور ، مرکز جماعت اسلامی ہند)

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.

Verified by MonsterInsights