ڈاکٹر عبدالکلام: سچی لگن کا مثالی نمونہ

ایڈمن

محمدعامرخان ۔ نظام آباد۔تلنگانہ

یہ زندگی کی سچائی ہے کہ یہاں وہی مقدر کاسکندر ہوتاہے جو مصائب ومشکلات کوزندگی کا حصہ تسلیم کرتے ہوئے کامیابی کے فراز تک پہنچنے کی کوشش کرتاہے۔ دراصل یہی لوگ جیتے تو سوسال نہیں لیکن صدیاں ان کے کارناموں اور نظریات کے سامنے عاجزی اختیار کرتی ہے اور ان کی زندگی نئی نسل کے اند رعزم ، مستقل مزاجی وانتھک کوشش کاجلتا ہوا شعلہ پیدا کرتی ہے۔ ایسے ہی دنیا کے ان گنت مشہور شخصیات میں ایک نام’’ڈاکٹر عبدالکلام‘‘ کا بھی ہے جو ناکامیوں اور مشکلوں میں پل کر سائنس داں بنے۔ معاشی بدحالی، مستقل ناکامیاں آپ کے عزائم کو ٹھنڈا نہ کرپائی۔ اس تحریر میں مجھے ڈاکٹر کلام کی پوری سوانح حیات پیش کرنا مقصود نہیں بلکہ آپ کی زندگی کے ان واقعات کو اجاگر کرنا ہے جو طلبہ میں مثبت سوچ اور بہترین لائحہ عمل کی طرف متوجہ کرتے ہیں۔ ناامید ومایوسی کے چنگل سے نکال کر خود اعتمادی کی کشتی پرسیرکراکر دنیا کو کچھ دینے کا خواب دکھاتے ہیں۔ یہ ایک ایسے شخص کا تذکرہ ہے جس نے نامعلوم گھر میں جنم لیا اور اپنی لگن وقابلیت سے ہندوستان کا بھاگیہ ودھاتہ بن گیا۔

ڈاکٹر اے پی جے عبدالکلام ، میزائیل مین آف انڈیا کی زندگی جہاں لوگوں میں بالخصوص طلبہ و نوجوانوں کو جینے کا ہنر سکھاتی ہے وہیں آپ کے اقوال عزائم ومقاصد کوتقویت بخشنے کا فریضہ انجام دیتے ہیں۔ آپ کہا کرتے تھے انتظار کرنے والوں کو اتنا ہی ملتا ہے جتنا محنت کرنے والے چھوڑ دیتے ہیں۔
خاندان: ڈاکٹر عبدالکلام 15؍اکتوبر1931ء کو ضلع رامیشورم، تاملناڈو کے غریب خاندان میں پیدا ہوئے۔ آپ کے والد کا نام زین العابدین اور ماں کانام اشیامہ تھا۔ والد صاحب کی ذاتی کشتی تھی جو آپ کرایہ پر دیاکرتے تھے۔ آپ کے والد نیک ودیانتدار انسان تھے اور ماں رحمدل خاتون تھی۔ عبداکلام اپنے والدین کے متعلق کہتے ہیں ’’مجھے دیانتداری اور Self Discrimination اپنے ابا سے ملا اور ماں سے اچھائی پر یقین کرنا اور رحمدلی۔ ایک دن آپ کے والد نے مخاطب ہوکر کہا جب آفت آئے تو آفت کی وجہ سمجھنے کی کوشش کرو۔ مشکلیں ہمیشہ خود کو پرکھنے کا موقع دیتی ہے ۔

بچپن کا خواب:کہتے ہیں خواب دیکھنے کے پیسے نہیں لگتے۔ خواب امیر ہوتے ہیں اور نہ ہی غریب۔ خواب بس خواب ہوتے ہیں جسے امیر بھی دیکھتاہے اور غریب بھی چاہے وہ بڑے ہویا چھوٹے۔ ڈاکٹر کلام کا بچپن سے ایک خواب تھاکہ وہ Fighter Pilotبنیں۔ اس کمزور کندھوں و بے بس بچے نے نہ خاندان کی غریبی دیکھی اور نہ ہی وسائل کی کمی کارونا رویا۔ بس ہمیشہ اڑتے ہوئے پرندوں کو دیکھ کر اپنے خواب کی تعبیر کے سپنے سجایا کرتاتھا۔ اک دن آپ کے اسکول کے استاد نے عملی مشق کیلئے تمام بچوں کو دریا کے کنارے لے گئے ۔ وہاں پر پرندوں کی اڑان اور دریا کی خوبصورتی کاتعارف کروایا۔ اس کے بعد عبدالکلام کا Figther Pilotبننے کا خواب اب چہرے سے بھی جھلکنے لگاتھا۔ غریبی نے آپ کواخبار ڈالنے پر مجبور تو کردیا لیکن دل میں جلتی ہوئی خواہش کو کبھی بجھانہ سکی۔ خدا نے کبھی وعدہ نہیںکیا ہے کہ زندگی بھرپھولوں سے بھری راہیں ملے گی۔ سورج ہے تو بادل نہیں ہوںگے ، خوشی ہے تو غم نہیں، سکون ہے تو درد نہیں ہوگا۔ کیونکہ یہاںلوہابھی تبھی کندن بنتا ہے جب اسے آگ کی بھٹی سے گذارا جاتاہے۔ کوئی بھی شخص کتنا بھی چھوٹا کیوں نہ ہو اسے حوصلہ نہیں چھوڑنا چاہئے۔

تعلیمی سفر: رامیشورم کے اسکول سے تعلیم حاصل کرنے کے بعد آپ نے تروچھیراپلی کے St. Joseph’sکالج میںد اخلہ لیا۔ گریجویشن مکمل کرنے کے بعد محسوس کیاکہ فزیکس میراپسندیدہ مضمون نہیں ہے ۔ میرے خواب کو پورا کرنے کیلئے مجھے انجینئرنگ میں جاناتھا۔ بس اس خیال کے آتے ہی آپ نے مدراس انسٹی ٹیوٹس آف ٹکنالوجی(MIT)میں Airospace Engg. میں داخلہ لیا۔MITمیں داخلہ بڑامہنگاتھاکم از کم 1000روپیوں کی ضرورت تھی۔ آپ کے والد کے پاس اتنے پیسے نہ تھے کہ بیٹے کے داخلے کویقینی بناسکیں۔ اس وقت آپ کی آپانے سونے کی چین بیچ کر فیس کا انتظام کیا۔ MITمیں عبدالکام کو بہت مزاہ آتاتھااوروہ MITمیں موجود دو آزاد ہوائی جہاز دیکھ کر کھینچائو محسوس کرتے تھے جب بچے ہاسٹل لوٹ جاتے تھے تب کلام کئی کئی گھنٹے ہوائی جہازوں کے پاس گذارتے تھے اور اپنے سپنوں کو حقیقی تصویر دینے کی کوشش کرتے تھے۔ ڈاکٹر کلام کہتے تھے :”Dreams are not that which comes when you sleep, Dream are that which won’t let you sleep.” ’’خواب وہ نہیں ہوتے جو آپ نیند میں دیکھتے ہیں بلکہ خواب وہ ہوتے ہیں جو آپ کو سونے نہ دیں۔‘‘ یقینا عبدالکلام نے جو خواب دیکھاتھا اس نے کبھی آپ کو چین سے سونے نہیں دیا۔ اپنے خواب کو حقیقت کا رخ دینے کیلئے آپ نے Indian Air Force (دہرادون)اور ڈیفنس ریسرچ سنٹر(دہلی) میں درخواست دی۔ جب نتیجہ آیا تو کیادیکھاIAFمیں داخلہ کیلئے8 امیدواروں کی ضرورت تھی لیکن آپ کو9واں مقام آیا۔ اس طرح آپ کا Fighter Pilotبننے کا خواب اب بس خواب ہی رہ گیا۔ اس صدمہ کو لیکر آپ رشی کیش چلے گئے ۔IAFمیں موقع نہ ملنے پر آپ مایوس ضرور تھے لیکن امید کی کرن اب بھی دل کو منور کررہی تھی۔ ڈیفنس کا نتیجہ معلوم کرنے آپ دہلی روانہ ہوئے۔ وہاں ہاتھ میں ایکOppointmentتھمادیاگیااور اگلے دن Senior Scientific Assistant کے عہدے پر250روپیئے ماہانہ تنخواہ پر آپ کو مقرر کردیاگیا۔ یہ اس وجہ سے کہ آپ نے انجینئرنگ کی تعلیم میں کئی اہم پروجیکٹس پر کام کیا اور ڈیزائن تیار کئے تھے۔ تین سال یہاں کام کرنے کے بعد آپ کو Aeronatical Development Establishment بنگلورمیں پوسٹ کردیاگیا۔ جہاں آپ نے سودیشی ائیر کرافٹ ’نندی‘ پر کام کیا۔ نندی کی تیاری کے ایک ہفتہ بعد کلام انٹرویو دینے کیلئے دی انڈین کمیٹی فار اسپیس ریسرچ ممبئی گئے جہاں آپ کو منتخب کرلیاگیا۔ ان ہی دنوں1962ء میں پہلا راکٹPadتیار کرنے کافیصلہ کیاگیا۔

ناکامی واعتراضات: 10؍اگست1979ء ہندوستان ڈاکٹر کلام کی صدارت میں پہلاSLV-IIIبنانے جارہاتھا۔ سارے ہندوستان کی نظر ڈاکٹر کلام کی قیادت پر ٹکی ہوئی تھی پہلے تو لوگوں کے اعتراضات نے خوب وار کیاکہ جس ملک میں دووقت کھانے کے لئے روٹی میسر نہ ہووہاںخلائی تنظیموں کوکیوںکراہمیت دی جارہی ہے لیکن کلام کی نظر یں کہیں اور ہی ٹکی ہوئی تھی۔ وہ ہندوستان کو سائنس وٹکنالوجی کی عظیم قوت سے آراستہ کرنے کے فکر مند تھے۔ اعتراضات کے سمندر میں وہ SLV-IIIکی تیاری کیلئے ساحل پر آنے کی کوشش کرتے رہے ۔تقریباً 7سال کی انتھک محنت کے بعدSLV-IIIکی اُڑان کا وقت آپہنچا۔ لیکن بدقسمتی سے SLV-IIIکامیاب اُران نہ بھرپایا اور7ٹن کا راکٹ317سکنڈ کے اندر ہی سمندر میں گرگیا۔ اتنی محنت کے بعدناکام ہوجانا گویا زندگی کی بڑی بازی ہارجانا ہے لیکن کلام مایوس ہوئے اور نہ ہی خاموش۔ پھرجڑگئے کام میں، صرف ایک سال کے اندر ہیSLV-IIIاڑان بھرنے میں کامیاب ہوگیا۔SLV-IIIکی کامیابی کے بعد کلام نے اگنی میزائل پر کام کرنا شروع کردیا۔ اس میں بھی آپ کوکئی اعتراضات وناکامیوںکاسامنا کرنا پڑا اور اگنی میزائیل کی تیاری میں پانچ سال کا وقت لگ گیا۔ دس سال کے اندر آپ نے ذہین افراد کی ٹیم کے ساتھ مل کر تریشول ،پرتھوی، آکاش اور ناگ میزائیل بھی بنائے۔

ڈاکٹر کلام کی مسلسل کوششیں اس جملے کے مصداق ہے :End is not the end, If fact E.N.D. means Effort Never Dies۔ میزائیلوں کی تیاری میں ڈاکٹر کلام کو لوگوں کے اعتراضات بھی برداشت کرنے پڑے اور ساتھ ہی ناکامیوںکے بوجھ کو بھی اٹھانا پڑا۔ لیکن کبھی آپ تھک کر یامایوس ہوکر نہیں بیٹھ گئے۔ کلام کہتے ہیں ’مصیبت کامیابی کاجوہرہے‘۔بغیر مصیبت کے آپ کامیابی کی چوکھٹ پر قدم بھی نہیں رکھ سکتے۔
عوامی صدر: ڈاکٹر کلام بہت سادگی پسند انسان تھے۔ لوگوں سے ملاقات، بات کرنے کا انداز، کپڑوں کی سادگی، قناعت پسندی، محنت ورحمدلی وغیرہ ویسی ہی تھی جو صدر بننے سے پہلے ہواکرتی تھی۔ اس لئے ہندوستان کی عوام آپ کوPeople Presidentکے نام سے بھی پکارتی ہے۔ صدر بننے سے پہلے اور بعد آپ نے جس طریقہ زندگی و سادگی کو اپنایا وہ اپنی مثال آپ ہے۔ چند واقعات سے ہم اس کا اندازہ لگاسکتے ہیں۔

1۔ صدر بنتے ہی سب سے پہلے موچی اور دھابے والے کو دعوت دی جہاں آپ جایاکرتے تھے۔
2۔ جب آپDRDOکے ڈائرکٹرتھے اس وقت اگنی میزائیل پر کام چل رہاتھا۔ کام کادبائو زیادہ تھا۔ اسی دوران ایک ساتھی ملازم نے کہا میں نے اپنے بچوں سے وعدہ کیاہے کہ انہیں آج گھمانے لے جائوں گا۔ اس پر آپ نے حامی بھردی لیکن وہ آدمی کام میں مصروف ہوگیا۔ ڈاکٹر کلام خود بغیر اطلاع دئے بچوں کو گھمانے چلے گئے۔

3۔ DRDOکی حفاظت اور مضبوطی کولیکر بات اٹھی۔ اس کی چار دیواری پر کانچ لگانے پر غور کیاجانے لگا۔ تب کلام نے پرندوں کے زخمی ہوجانے کے اندیشہ کو لیکراسے منظور نہیں کیا۔
4۔ 2002ء میں جب آپ صدر بنائے گئے اس وقت آپ ایک اسکول کی دعوت پر بغیر حفاظتی دستہ کے ہی چلے گئے ۔
5۔ سمن نامی شخص نے آپ کی ایک تصویربناکر بھیجی تو آپ نے جواب میں Thank Youکارڈ بھیجا۔ سمن حیران ہوگیا۔ انہیں امید نہ تھی کہ وقت کا صدر انہیں جواب دے گا۔

6۔ جب آپ کے افرادِ خاندان راشٹرا بھون آئے تو تمام کا خرچ کلام نے خود برداشت کیا۔ یہاں تک کہ چائے کے پیسے بھی آپ اپنی جیب سے دیئے ۔7۔ صدر جمہوریہ کے عہدے پر رہتے ہوئے اپنی ساری جمع پونجی اور ملنے والی تنخواہTrustکے نام کردی۔
کتابوں کے مصنف: سائنسداں اور صدر ہونے کے ساتھ آپ ایک بہترین مصنف بھی تھے۔ حالات و مستقبل کے لائحہ عمل پر آپ کی نظریں برابرکیمرہ کاکام کرتی تھی۔ آپ نے کئی کتابیں لکھی۔ جس میں اگنی کی اڑان، انڈیا2020ء ، Inspiring Thoughts، Ignited Mindsوغیرہ قابل ذکر ہے ۔
ایوارڈس: ڈاکٹر کلام کی سائنس کے میدان میں کی گئی کاوشوں اور بہتر کارکردگیوں پر حکومت ہند کی جانب سے پدمابھوشن (1981ء)، پدماوبھوشن اور بھارت رتن (1997)جیسے اہم انعامات سے نوازاگیا۔UKکی جانب سے کنگ چارلس دوم (2007)، USAاسمافائونڈیشن کی جانب سے آنرمیڈل(2008)، کیلی فورنیا یونیورسٹی کی جانب سے وان کارمان ونگس ایوارڈ (2009)سے نوازا گیا۔

آپ کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ دنیا کے تقریباً40یونیورسٹیزنے آپ کو ڈاکٹریٹ کی ڈگری سے نوازا اور آپ کی79ویں یوم پیدائش کوUnited Nationنے ’’ عالمی یوم طلبہ‘‘ کے طورپر منایاگیا۔
بچوں سے کلام: ڈاکٹر کلام کو جب کبھی طلبہ سے مخاطب ہونے کا موقع ملتا وہ ان میں گھل مل جایاکرتے تھے اور اپنی منفرد سوچ وحوصلہ افزاء باتوں سے قوم کے معماروں کو صحیح فکر و نظر دینے کی کوشش کرتے تھے۔ آج بھی اسکول کے طلبہ آپ کی باتوں کو یادکرتے ہیں اور آپ کے اقوال سے عملی زندگی کی طرف رخ کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ یوں تو ڈاکٹر کلام کے کئی اقوال ہیںلیکن تین باتیں جو ہمیشہ طلبہ میںمحرکہ کاکام کرتی رہی ہے۔ اول یہ کہ ڈاکٹرکلام نے کہاتھا چار باتیں خود سے کرو(۱)میں سب سے اچھا ہوں(۲)میں یہ کام کرسکتاہوں (۳) چمپئن تھا اور ہوں (۴) آج کا دن میرا ہے ۔وسری بات ، ہمیشہ دوسروں کو دینے کی فکر کرواور ہر لمحہ یہ کوشش کرو کہ میں اب کیادے سکتاہوں اور سوچتے رہو What I can give…?۔
تیسری بات ، کلام کہتے ہیں”If you want shine like a Sun, first burn like a Sun” سورج کی طرح چمکنا چاہتے ہوتو سورج کی طرح جلناہوگا۔
یہ وہ باتیں ہیں جسے ڈاکٹر کلام طلبہ سے اکثر کہاکرتے تھے ۔ واقعتاً ہر جملہ خود کو پرکھنے، سمجھنے کا موقع دیتاہے۔
آخری بات: ڈاکٹر کلام کی زندگی ہمیں کئی باتوں کا درس دیتی ہے ۔ جسے ذہن نشین رکھنا ہر طالب علم کیلئے ضروری ہے ۔
(۱) اپنی زندگی کا ایک بڑا مقصد ہو اور ساری توانائی اس مقصد کے حصول میں صرف کی جائے۔
(۲) اس میدان کا انتخاب کیاجائے جس میں شوق ہو۔جوآپ کا پسندیدہ ہو۔دوسروں کی ضد اور حالات کو دیکھ کر میدان کا انتخاب نہ کریں۔
(۳) مصائب ومشکلات زندگی کا حصہ ہے اس لئے ناامید ہونے کے بجائے ان کا مقابلہ کیاجائے کیونکہ کامیابی کا راستہ مصائب سے ہوکر ہی گذرتاہے۔
(۴) ہمیشہ سماج وملک کو دینے کی فکرکریں۔ ملک کی ترقی میں اپنی حصہ داری کو یقینی بنائے۔ دینے والے بنے، لینے والے نہیں۔ کیونکہ لینے کی خصلت فقیر کی ہوتی ہے ۔
منزل پہ پہنچنے کی طلب ہوتی ہے جن کو رستوں پہ کھڑے ہوکر وہ سوچانہیں کرتے

مارچ 2018

مزید

حالیہ شمارہ

امتیازی سلوک کے خلاف منظم جدو جہد کی ضرورت

شمارہ پڑھیں

فلسطینی مزاحمت

شمارہ پڑھیں