ڈاکٹر طٰہٰ جابر علوانی ایک ممتاز معاصر فقیہ ومفکر

0

ڈاکٹر طہ جابر علوانی علمی دنیا کا ایک اہم نام ہے۔ فقہ اسلامی اور فکر اسلامی دونوں میںانہوں نے اپنی ایک پہچان بنائی اور اپنے اجتہادی فکر و فلسفہ کے ذریعہ دونوں کو ہم آہنگ کرنے کی بھر پور کوشش کی۔ ابتدائی تعلیم تو وطن(عراق) میں ہی حاصل کی لیکن ثانویہ سے لے کر ڈاکٹریٹ کی ڈگری تک کی تعلیم جامعہ ازہر قاہرہ میں حاصل کی، اور فقہ و اصولِ فقہ کو ہی اپنی تحقیق و دراسہ کا میدان بنایا اور مقاصد شریعت کے موضوع کو اُجاگر کرکے اپنی وسعتِ فکری کو جلا بخشی اور تقریباً ساٹھ سالوں تک اپنی خطابت و کتابت سے علمی دنیا کو سیراب کرتے رہے۔ چنانچہ سب سے پہلے عنفوان شباب میں ہی حاجیہ حسیبہ کی جامع مسجد بغداد میں امامت و خطابت کے فرائض انجام دیئے اور اسی جامع مسجد میں درس بھی دیا کرتے تھے ، یہ عمل 1953 ء سے 1969 تک جاری رہا۔ 1963 میں ایک سال کے لئے الجندی فی التدریب العسکری‘‘ نامی میگزین کے ایڈیٹر بھی رہے، اسی طرح 1964 ء سے 1969 تک الکلیتہ العسکریتہ بغداد اور کلتہ الدراسات اسلامیہ بغداد میں تدریسی خدمات انجام دیں۔
عراق میں اسلامی پارٹی کی بنیاد رکھی اور پوری تندہی اور اخلاص کے ساتھ اس کے کاز کے لیے کام کیا اور اس کی فکر کو عام کرنے اور اسے مستحکم کرنے میں اہم رول ادا کیا،ا ور اپنی محنت و لگن سے اسلامی فکر کے حامل نوجوانوں کی ایک پوری ٹیم تیار کردی، ایک وقت ایسا آیا کہ انھوں نے عراق کی بعث پارٹی نظام کے خلاف جراتمندانہ اقدام کیا اور اس کے ظالمانہ نظام کے خلاف آواز اُٹھائی ، جس کے نتیجہ میں سن 1969 میں انھیں عراق چھوڑنے پر مجبور کیاگیا۔ سن 1973 میں جامعہ از ہر سے ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کرنے کے بعد ڈاکٹر علوانی سن 1975 میں امام محمد بن سعود اسلامک یونیورسٹی ریاض میں اصول فقہ کے استاذ کی حیثیت سے بحال ہوئے اور تقریبا دس سال یعنی 1984 تک وہاں تدریسی خدمات انجام دیں۔ دو سالوں کے لئے یعنی 1975 سے 1976 تک سعودی عرب کی وزارت داخلہ کے پرسنلر حقوق کے قانونی مشیر اور اللجنتہ الوطنیہ للمیاہ سعودی عرب کے مشیر بھی رہے، اسی طرح معہد ضباط الامن العام ریاض میں 1977 سے 1983 تک اسلامی ثقافت کے استاذ کی حیثیت سے کام کرتے رہے۔
آپ سن 1981 میں ہیر نڈن ، ورجینیا، امریکہ میں قائم ہونے والے ادارے المعہد العالمی للفکر الاسلامی (IIIT) کے بانیوں میں سے ہیں1984 سے 1986 تک اس ادارہ کے نائب صدر اور اس ادارہ کے تحت قائم شعبہ ریسرچ واسٹڈیز کے صدر کے عہدے پر فائز رہے، پھر 1984 سے لے کر 2007 تک جامعتہ العلوم اسلامیہ والا جتماعیہ ورجینیا (GSISS) کے صدر رہے، سن 2002 ء میں اس جامعہ کا نام بدل کر ’’جامعہ قرطبہ‘‘ رکھا گیا ، اسی طرح آپ جامعہ قرطبہ، ورجینیا امریکہ میں قائم امام شافعی چیئر برائے فقہ و اصول فقہ و فقہ متعارف میں 1997 سے 2008 ء تک استاد کی حیثیت سے خدمات انجام دیتے رہے۔ 1988 میں اسلامک فقہ اکیڈمی انڈیا کے دہلی میں ہونے والے پہلے سمینار میں بھی آپ نے شرکت فرمائی اور مقالہ پیش کیا۔
ڈاکٹر علوانی اپنی علمی و فکری صلاحیت اور نئے پیش آمدہ مسائل پر گہری نظر اور اجتہادی فکر کی وجہ سے پوری دنیا کے علمی حلقوں میں قدر کی نگاہ سے دیکھے جاتے تھے، یہ وجہ ہے کہ ہر اہم علمی پروگراموں اور سمیناروں اور مباحثوں میں آپ بلائے جاتے تھے اور آپ اسے اسلامی فریضہ سمجھتے ہوئے ان میں شرکت کرتے تھے آپ کی آراء و افکار اور خطابات و مقالات کو غور سے سنا جاتا تھا اور پھر ان پر علمی بحثیں ہوتی تھیں، چنانچہ آپ نے اس کے لئے سعودی عرب، رہا ستہائے متحدہ امریکہ الجزائر، سوپسراء افریقی ممالک ، بنگلہ دیش، ملیشیاء ہندوستان، نیروبی، پاکستان ، سوڈان، آردن، تونس، مصر بحرین ، انڈونیشیا، عمان مراکش، لبنان ، ترکی ، کناڈا، جاپان وغیرہ کے متعدد اسفار کئے۔ آپ کے ۱۰۰سے زائد علمی و فکری مضامین دنیا کے مختلف ممالک کے میگزینوں اور جرائد و مجلات میں شائع ہوچکے ہیںاور آپ کی پچاس سے زائد کتابیں دنیا کے مختلف اشاعتی اداروں سے چھپ کر قبول عام حاصل کر چکے ہیں، آپ کے علمی و فکری دائرہ میں اجتہاد و تجدید، امت کا فکری بحران، قرآنی منہج کے مختلف پہلو، فقہ الاقلیات، معاصر اسلامی تحریکات دینی تعلیم میں اصلاح و تجدید، مقاصد شریعت، انسانی معاشرہ عمرانیات اور فکر اسلامی وغیرہ خاص موضوعات رہے ہیں۔
آپ نے جس موضوع پر بھی قلم اُٹھایا اس میں اپنی گہری نظر اور عمیق فکر کا استعمال کیا اور اس موضوع کا موجودہ پس منظر میں حق ادا کیا، اور اُمت اور مسلم سماج کے تئیں اپنی ہمدردی و فکر مندی اور سوزدروں کا بھی کھل کر اظہار کیا؛ مثال کے طور پر فکر اسلامی کی اصلاح کے تعلق سے لکھتے ہیں کہ’ آج جن سخت حالات سے اُمت اسلامیہ گزررہی ہے اور جس مشکل وقت میں امت جی رہی ہے اس میں فکر ی مسائل کی طرف کم ہی توجہ دی جاتی ہے اور ناکامیوں اور پسماندگی کاتسلسل ذلت و بے توقیری اور زیاں کا احساس یہ سب چیخ چیخ کر بتارہے ہیں کہ اگر اس اُمت کا عقیدہ مضبوط ہوتا، اس کی فکر درست ہوتی اور اس شعور و ارادہ آزاد ہوتا تو کیا یہ ممکن تھا کہ آج جو کچھ پیش آرہا ہے وہ پیش آتا، اگر فکری بحران اس طرح نہ جکڑتا اور ثقافتی و تہذیبی تشخص اور برادرانہ اتحاد ختم نہ ہوتا تو کیا اُمت دشمنوں کے جال میں اس بری طرح پھنستی؟ ہرگز نہیں۔ لہذا آج اُمت کو ہوا اور غذا سے زیادہ فکری اصلاح اور تہذیبی و ثقافتی وجود کی ضرورت ہے۔‘
اسی طرح آپسی اختلاف کے تعلق سے لکھتے ہیں کہ اس وقت سب سے بڑی بیماری جو اُمت اسلامیہ کو لاحق ہے وہ اختلاف و مخالفت کرنے کی بیماری ہے، یہ وہ بیماری ہے جو ہر محلہ، ہر شہر اور ہر سماج میںپھیل چکی ہے، اور فکرو عقیدہ، تصور و خیال، رائے ، ذوق ، تصرف، اخلاق و سلوک ، طرز حیات، طریقہ تعامل، اسلوب کلام، تمنائیں و آرزوئیں ، اغراض و مقاص سب اس بیماری کی لپیٹ میں آچکے ہیں۔ حتی کہ اس نے اپنا کالا سایہ لوگوں کے دلوں پر پھیلا دیا تو اوہام و خرافات کے بادل فضاء پر چھا گئے۔ جس نے خشک و بنجر دلوں پر موسلادھارزہریلی بارش برسائی، اس کا نتیجہ یہ سامنے آیا کہ لڑنے بھڑنے والے لوگوں کی ایک جماعت اُگ آئی اور ایسا منظر پیش کرنے لگی کہ گویا اس اُمت کے پاس جو بھی اوامر و نواہی اور تعلیمات ہیں وہ سبھی اختلاف و مخالفت پر اُبھارتے ہیں اور باہم دست و گریباں رہنے کی ترغیب دیتے ہیں۔
جبکہ معاملہ بالکل اُس کے برعکس ہے، کتاب اﷲ اور سنت رسولؐ، توحید کے بعد سب سے زیادہ اس بات کی حریص ہے کہ اُمت کا اتحاد مضبوط رہے، اختلافات دور ہوجائیں اور اسلامی اصول و مبادی اور شرعی نصوص نے اُمت کے اختلافات و نزاعات کی سخت مذمت کی ہے اور ایمان باﷲ کے بعد مسلمانوں کے درمیان وحدت و الفت پیدا کرنے پر زور دیا ہے، اور اﷲ و رسول کے احکامات صفوں میں اتحاد، تالیف قلوب اور جہدو مساعی میں باہمی تعاون دینے کی طرف بلانے میں بہت ہی واضح ہیں۔
ان دونوں عبارتوں سے یہ واضح ہوتا ہے کہ اُمت مسلمہ کے تعلق سے ان کے اندر کتنی دلسوزی و فکر مندی تھی،آپ کی تمام تحریروں اور کتابوں میں اسی اصلاحی فکر کی جھلک دیکھنے کو ملتی ہے۔

 

از: ڈاکٹرصفدر زیبر ندوی

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.

Verified by MonsterInsights