پانچ سوال

0

قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم : ’’لاتزول قدما عبد یوم القیامۃ حتی یسأل: عن شبابہ فیما أبلاہ، وعن عمرہ فیما أفناہ، وعن مالہ من این اکتسبہ وفیما انفقہ، وعن علمہ ماذا عمل فیہ‘‘۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایا: قیامت کے دن بندے کے قدم اپنی جگہ سے نہیں ہٹ سکیں گے جب تک کہ اس سے ان چیزوں کے بارے میں دریافت نہ کرلیا جائے: (۱) جوانی کو کن کاموں میں کھپایا۔ (۲) زندگی کن کاموں میں گزاری۔ (۳) مال کہاں سے کمایا۔(۴) اور کن کاموں میں خرچ کیا۔ (۵) جو کچھ علم حاصل کیا اس پر کتنا عمل کیا۔
2 جوانی انسان کی زندگی کا اہم ترین حصہ ہے۔ عمر کے اس حصے میں انسان کوبہت سے کام کرنے ہوتے ہیں۔ یہ انسان کی زندگی کا سب سے مصروف مرحلہ ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس دور میں اللہ رب العزت کو بندے کی عبادت بہت پسند آتی ہے۔ اگر ایک بندہ جوانی اپنے رب کے احکامات کے مطابق گزارتا ہے تو یقیناًوہ کامیاب ہے۔ جوانی اللہ رب العزت کی ایک ایسی نعمت ہے کہ اس کی جتنی قدر کی جائے کم ہے۔ سوال یہ ہے کہ ملت اسلامیہ کے نوجوان اپنی جوانی کے یہ قیمتی اوقات کہاں صرف کررہے ہیں، کیا یہ حقیقت نہیں کہ وہ اس کی اہمیت اور قدروقیمت سے ناواقف ہیں۔
2 انسان کی زندگی عموماََ ۶۰؍سال کے قریب ہوتی ہے، کسی کو یہ زندگی کچھ طویل ملتی ہے اور کسی کو کچھ مختصر، کسی کو اس زندگی میں صحت اور توانائی نصیب ہوتی اور کوئی ضعف اور معذوری کی حالت میں اس دنیا میں آتا ہے اور چلا جاتا ہے۔ سوچنے کا مقام یہ ہے کہ انسان کو جو یہ زندگی ملی ہے اس زندگی کو وہ کس طرح گزاررہا ہے، اس کی مشغولیات کیا ہیں، وہ کیا کررہا ہے، کیا اس کی زندگی رب کائنات کی دی ہوئی ہدایات کے مطابق بسر ہورہی ہے یا پھر وہ بھی عام انسانوں کی طرح زندگی کو لایعنی کاموں میں گزار رہاہے۔
2 مال کمانے کی دھن ہر انسان کو سوار رہتی ہے، اور آج جبکہ مادی نظام نے پوری دنیا کو اپنی بیڑیوں میں جکڑ کررکھ دیا ہے، کسبِ مال کی ضرورت میں مزید اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ دولت کمانے میں کوئی مضائقہ نہیں ہے، یہ انسان کی فطری اور بنیادی ضرورت ہے، لیکن سوال یہ ہے کہ دولت کن ذرائع سے کمائی جارہی ہے، اور اس کے حصول کے لیے کیا وسائل اختیار کیے جارہے ہیں۔ ضرورت ہے کہ اس سلسلے میں ہوشیار رہا جائے، رزق کے تمام وسائل اور ذرائع جائز ہونے چاہئیں، ایسا نہ ہو کہ کہیں مالِ حرام رزق کا حصہ بن جائے، اللہ رب العزت کے یہاں مال کے سلسلے میں سخت بازپرس ہوگی۔
2مال خرچ کرنے کا بھوت سب کے سر پر سوار رہتا ہے، لیکن کہاں؟ ریا کے لیے، برائی کے کاموں میں، بے حیائی کی جگہوں پر، جوا کھیلنے میں، شراب نوشی اور غلط کاموں میں۔ انسان کو اللہ رب العزت نے خوب خرچ کرنے کی تعلیم دی ہے، لیکن اس کے ساتھ ہی یہ بھی بتادیا گیا کہ مال کن کاموں میں خرچ کیا جائے، کن جگہوں پر اور کن مقاصد کے لیے خرچ کیا جائے۔ انسان کو اپنا مال اپنی جائز ضرورتوں کے لیے، اپنی اولاد کی جائز ضرورتوں کے لیے، اپنے گھربار کی جائز ضرورتوں کے لیے اور پھر اللہ کی راہ میں ، اللہ کے لیے جہاں بھی خرچ کرنا چاہے، اس کی اجازت بلکہ ترغیب دی گئی ہے، لیکن اس بات کا خیال رکھتے ہوئے کہ اس کا مال حرام اور غلط جگہوں پر نہ خرچ ہو، یقیناًاللہ رب العزت نے انسان کو جو کچھ بھی روزی روٹی دی ہے، قیامت کے دن اس کی بازپرس ہوگی۔
2 علم حاصل کرنا ہر مسلمان مرد وعورت پر فرض ہے، لیکن علم حاصل کرنے کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ وہ زیادہ سے زیادہ معلومات حاصل کرلے، یا بہت بڑا عالم بن جائے، بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ جو کچھ علم حاصل کرتا جائے، اس پر ساتھ ہی ساتھ عمل بھی کرتا جائے، قیامت کے دن اللہ رب العزت کی بارگاہ میں یہ سوال بھی کیا جائے کہ جو علم اس بندے نے حاصل کیا تھا، اس پر کتنا عمل کیا۔
اللہ رب العزت ہم سب کو اس حدیث پاک کے مطابق عمل کرنے اور آخرت کے لیے زیادہ سے زیادہ تیاری کرنے کی توفیق عطافرمائے۔ آمین
(محمد شاہد خان، وزیرپور ، راجستھان)

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.

Verified by MonsterInsights