ٹکڑے ٹکڑے ہوجائیں گی جب حد سے بڑھیں گی زنجیریں!

ایڈمن

سعود فیروز حکومت ہند نے سنگ دلی کی انتہاکردی ہے۔کشمیر سے دفعہ 370کے خاتمے کو زائد از چالیس روز ہوچکے ہیں۔کرفیو بدستور لگا ہوا ہے۔ ذرائع موصلات بند ہیں۔ کشمیر ی عوام کے لیے ایک ایک لمحہ ، صدیوں کی…

سعود فیروز
حکومت ہند نے سنگ دلی کی انتہاکردی ہے۔کشمیر سے دفعہ 370کے خاتمے کو زائد از چالیس روز ہوچکے ہیں۔کرفیو بدستور لگا ہوا ہے۔ ذرائع موصلات بند ہیں۔ کشمیر ی عوام کے لیے ایک ایک لمحہ ، صدیوں کی طرح گزر رہا ہے۔ یہ شب ظلمت نہ جانے کب تک دراز رہے گی۔ ایسا معلوم ہوتا ہے گویا خطہ کشمیر روئے زمین سے معا ً غائب ہوگیا ہے۔ چٹھی،نہ کوئی سندیش۔ مکمل بلیک آوٹ۔ مودی میڈیا ہر روزصبح سے شام تک یہ ثابت کرنے میں لگا ہوا ہے کہ کشمیر میں حالات بالکل ’نارمل‘ ہیں۔لیکن یہ ایک فریب ہے ۔یہ اندازہ تھا پھربعض عالمی خبر رساں ایجنسیوں کی پورٹنگ سے اس کی تصدیق بھی ہوگئی کہ حالات انتہائی ناگفتہ بہ ہیں۔ معمول کی زندگی کو ناممکن بنانے کا حکومت نے پورا بندوبست کررکھا ہے۔ ’دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت‘ نے دفعہ 370کے حوالے سے اپنے فیصلے میں پہلے تو کشمیری عوام کوشامل نہیںکیا،پھر فیصلے پر اختلاف رائے کا اظہار کرنے والوں پر کریک ڈاؤن کر رہی ہے۔ متعدد ہلاکتیں بھی ہوئی ہیں۔وادی کے تمام سربرآوردہ قائدین ہنوز نظر بند ہیں۔


دفعہ 370کے خاتمے کے فیصلے کونافذ کرنے کے لیے حکومت ہند نے جبر و تشدد پر مبنی جس آمرانہ راستے کا انتخاب کیا ہے، اسے دیکھ کر توقع کی جارہی تھی کہ اقوام متحدہ، تحفظ حقوق انسانی کے عالمی ادارے اورپوری عالمی برادری یا کم از کم مسلم ممالک اس کی پرزور مخالفت کریں گے اور مودی انتظامیہ کو اپنے فیصلے پر نظر ثانی کرنے پر مجبور کریں گے۔ لیکن اس موقع پر عالمی سیاست میں موجوداقدار اور اصولوں کا شدید بحران بہت واضح طور پر سامنے آگیا۔اعتراف کرنا پڑا کہ رہی سہی حق پرستی و انصاف پسندی بھی اب باقی نہیں رہی۔ مفاد پرستی اور ابن الوقتی کا دوردورہ ہے۔ عالمی برادری تو کجا،خودمسلم ممالک نے اس ضمن میں کسی دلچسپی کا اظہار نہیں کیا ۔دکھاوے ہی کے لیے سہی،مذمتی بیانات تک جاری نہیں کیے گئے۔حکومت ہند پر کوئی عالمی دباؤ نہیں ڈالا گیا۔کسی کے سفارتی تعلقات متاثر نہیں ہوئے۔حد تو اس وقت ہوگئی جب کہ عین انہی ایام میں جب کہ وادی میں ظالمانہ کریک ڈاؤن اور بلیک آؤٹ کا کھیل اپنے شباب پر تھا، متحدہ عرب امارات نے وزیر اعظم ہند کو اپنے اعلی ترین شہری ایوارڈ سے نوازا اور اس میں ننگ و عار محسوس نہیں کیا۔

امارات ہو یا وہ ممالک جنہوں نے ہندوستان میں سرمایہ کاری کی ہے، مجبور ہیں کہ کوئی ایسی سرگرمی انجام نہ دیں جو وزیر اعظم ہند کی ’طبع نازک ٗپر گراں گزرے۔یہ ممالک نہیں چاہتے کہ محض ’سیاسی مسائل ‘ کی بناء پر اسے ایک سو پچیس کروڑ افراد پر مشتمل ’مارکیٹ‘سے ہاتھ دھونا پڑے۔


اس فیصلے کی مخالفت کی جو توقع خود وطن عزیز کے تمام انصاف پسند شہریوں سے تھی، افسوس ہے کہ وہ توقع بھی اک امید خام ہی ثابت ہوئی۔ ملت اسلامیہ ہند، مسلم تحریکوں،جماعتوں اور انجمنوں کا ردعمل بھی بہت زیادہ حوصلہ افزا نہیں معلوم ہوا۔ اس مسئلے پر ملت بہ حیثیت مجموعی خواب غفلت میں مست رہی۔ جن جماعتوں اور ملت کے اجتماعی اداروں سے کچھ امید تھی کہ مختلف طریقے اختیار کرکے حکومت پر دباؤ ڈالنے کی کوشش کریں گی، ان جماعتوںاوراداروں نے بھی حسب معمول خوبصورت لفظیات سے آراستہ مذمتی بیانات ہی پر اکتفا کیا۔یہ بدلے ہوئے سیاسی حالات کی کرشمہ سازی ہے کہ مختلف جماعتیں اور انجمنیں سیاسی -سماجی مسائل پر بیانات جاری کرنے پر اپنے آپ کو مجبور پاتی ہیں۔ بیانات جاری کرنے کا عمل ایک ناگزیر مجبوری بن چکا ہے۔ اب یہ بھی صاف طور پرمحسوس ہونے لگا ہے کہ جو بیانات جاری کیے جاتے ہیں ان میں نفس مسئلہ کے حل پر فوکس نسبتاً کم اور اپنی ’پوزیشن کلیئر‘ کرنے پر توجہ زیادہ صَرف کی جاتی ہے۔
موجودہ حکومت اپنے ہر ’ماسٹر اسٹروک‘ پرکمال عیاری سے ’قومی مفاد ‘اور ’قومی سلامتی ‘کی ملمع کاری کرکے اسے اس انداز میں پیش کرتی ہے کہ اس کی مخالفت کرنے والا قومی مفادات کا دشمن اور قومی سلامتی کے لیے خطرہ قرار پاتا ہے۔

دفعہ 370کو ختم کرنے کا معاملہ بھی اسی نوعیت کا ہے۔ اس لیے ممکن ہے کہ حکومتی فیصلوں کی مخالفت میں کسی ایک ملی جماعت کی جانب سے غیر ضروری رد عمل کا اظہار یا اس ضمن میں کوئی سرگرمی یا تحریک ،حکمت اور دور اندیشی کے منافی ہو۔ اگر کوئی جماعت اس نوعیت کی کوئی سرگرمی انجام دیتی ہے تو اس کے لیے اس سوال کا جواب دینا مشکل ہوجائے گا کہ ’’آپ اِس طرف ہیں؟‘‘ یا ’’اُس طرف؟‘‘۔ تاہم یہ عذرخاموش بیٹھ جانے کا جواز نہیں بن سکتا۔ اس کا حل یہ ہے کہ آپ اپنے آرگیومنٹ میں میچورٹیاور رد عمل کے طریقوں میں تبدیلی لائیں۔ مثال کے طور پر کشمیر کے حالیہ مسئلے کے تناظر میں ایک ایسا مضبوط، واضح اور مدلل ڈسکورس کھڑا کریں کہ نہ صرف حکومت، دانشور طبقہ اور میڈیا پر بلکہ پوری دنیا پر واضح ہوجائے کہ ’’ہم نہ اِس طرف ہیں، اور نہ اُس طرف۔ہم در اصل اس طرف ہیں جہاں عدل،انصاف، انسانی حقوق، جمہوریت اور انسانیت ہے اور ہماری جدوجہد اور سرگرمی اسی کے لیے ہے۔‘‘


کشمیر کا مسئلہ نیا نہیں ہے۔ وقت کے گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ مسئلہ پیچیدہ ہوتا چلا گیا ہے۔ اس میں ہندوستان اور پاکستان دونوں ممالک کی نیتیں صاف نہیں رہی ہیں۔ دونوں ملکوں نے اسے اپنی ناک کا مسئلہ بنالیا ہے۔ماضی میں مسئلے کو حل کرنے کے کئی مواقع آئے، مذاکرات و معاہدات ہوئے، اقوام متحدہ کی مداخلت بھی ہوئی۔ لیکن دونوں ملکوں کی جانب سے رسم بے وفائی ہی عام رہی۔ پاکستان کا پرچم لہرانے والے ، پاکستان کا قومی ترانہ گنگنانے والے،نام نہاد اسلامی جمہوریہ پاکستان پر فدا،پرو-پاکستان کشمیری نوجوان بھی مسئلے کو پیچیدہ بنانے کے ذمہ دار ہیں۔ ملک میں اب جو حکومت برسر اقتدار ہے ،کشمیر کی مسلم عوام کے حوالے سے اس کے عزائم خطرناک ہیں۔ یہ حکومت مستقبل میں مزید تشدد کا راستہ اختیار کرنے سے دریغ نہیں کرے گی۔ لیکن حکومت ہندکو معلوم ہونا چاہیے کہ تشدد ہی نے کشمیری نوجوانوں میں باغیانہ تیور پیدا کیے ہیں۔ مزید تشدد سے وہ کبھی کشمیری عوام کو ہندوستان کا حصہ نہیں بنا سکے گی۔ تشدد، بغاوت کو جنم دیتا ہے۔ مسئلہ دائمی طور پر جب بھی حل ہوگا وہ تشدد اور اسلحہ کے ذریعے نہیں بلکہ خلوص، انسانی ہمدردی،مذاکرات، گفت وشنید،افہام و تفہیم اور سہ طرفہ قربانیوں سے ہی حل ہوگا۔ اس حقیقت کو مسئلہ کشمیر کے تمام فریق جتنی جلدی ریالائزکرلیںاتنا بہتر ہے۔

حالیہ شمارے

براہیمی نظر پیدا مگر مشکل سے ہوتی ہے

شمارہ پڑھیں

امتیازی سلوک کے خلاف منظم جدو جہد کی ضرورت

شمارہ پڑھیں