وقت کبھی لوٹ کر نہیں آتا

0

شیخ فاطمہ بشیرا۔ممبر

حارث اپنے والدین کا بڑا بیٹا ، نویں کلاس کا طالب علم ، پڑھائی میں ہوشیار ، صوم و صلوٰۃ اور قرآن کا پابند ، کھیلوں میں اوّل ، تقریری و تحریری مقابلوں کی جان ، اپنے والدین کا فرمانبردار ، بہنوں کا مان ، دوستوں کا ہمدرد ، اساتذہ کی آنکھوں کا تارا ، ایک ہونہار اور نیک صفت بچہ تھا۔ والدین کی خواہش تھی کہ ان کا بیٹا جج بنے اور انصاف کے مطابق فیصلے صادر کرے۔ حارث سے دو سال چھوٹا خالد ، بڑے بھائی کے برعکس نہایت شریر ، جسے پڑھائی سے نہ کوئی رغبت تھی نہ مستقبل کی کوئی فکر۔ وقت کی بربادی اس کا بہترین شغل تھا۔ اساتذہ کی باتیں ماننا تو درکنار ، والدین کی بات سننا بھی اسے گوارا نہ تھا۔

حارث اور اس کی بہنیں ہمیشہ اسے سمجھانے کی کوشش کرتے لیکن اپنی من مانی کرنا گویا اس کا فرض تھا۔ حامد صاحب ہمیشہ اولاد کی تربیت کے معاملے میں ایک شفیق باپ تھے۔ اِس لئے وہ خالد کو کبھی پیار سے تو کبھی ڈنڈے کے زور پر سمجھانے کی کوشش کرتے لیکن وہ ان کی پیار بھری نصیحتیں بھی سنی اَن سنی کردیتا۔ حارث کی طرح خالد بھی ان کا بچپن میں نہایت ذہین اور ہر مقابلوں میں اوّل مقام حاصل کرنے والا ہوشیار بیٹا تھا۔ لیکن بڑی جماعت میں آنے کے بعد برے دوستوں کی صحبت نے اسے مکمل بدل کر رکھ دیا۔ اِسے نماز ، قرآن اور پڑھائی سے دور اور والدین کا نافرمان بنا دیا تھا۔ نتیجتاً کلاس میں اوّل آنے والا بچہ ،تین مرتبہ نوین جماعت میں فیل ہونے کے بعد اسکول سے باہر کردیا گیا تھا۔ حامد صاحب خالد کو ایک بہادر اور بے باک صحافی کے روپ میں دیکھنا چاہتے تھے لیکن اِسکی عادتوں نے ان کی اُمیدوں پر پانی پھیر دیا۔

جوں جوں دِن گزرتے گئے ، خالد کی آوارہ گردی بڑھتی ہی چلی گئی۔ اِسکی عادتوں کے بگاڑ میں اُسکے دوستوں کا بڑا ہاتھ تھا۔ پھر ایسے بھی دن آئے جب خالد اور اُس کے ٹولے کو رات سڑکوں پر بیٹھنے کے جرم میں جیل کی ہوا بھی کھانی پڑی۔ لیکن حامد صاحب کے اثر و رسوخ نے اسے ایک یا دو دِن میں جیل سے چھٹی دلوادی۔ اس کے باوجود خالد کی عادتیں بدلنے کی بجائے پختہ ہوتی چلی گئی۔ دوسری طرف حارث پڑھائی پر توجہ دیے، سب کا خیال رکھتے ہوئے فرائض کی پابندی کے ساتھ اور والدین کی دعائیں ہمراہ لیے کامیابی سے اپنا سفر طے کرتا چلا جارہا تھا۔ بڑا بھائی ہونے کے ناطے حارث ہمیشہ اسے سمجھاتا رہا لیکن خالد کے کانوں پر جوں تک نہ رینگتی۔ بری لت اور آوارہ گردی سے اسکی شخصیت مسخ ہوگئی تھی۔ جوان اولاد کی بگڑتی عادتوں نے حامد صاحب کو اندر ہی اندر گھلا ڈالا اور ایک دِن دِل کا دورہ پڑھنے کے بعد وہ خاموشی سے اس جہاں سے رخصت ہوگئے۔ شفیق باپ کی وفات سے بھی خالد پر کوئی اثر نہ ہوا اور اس کی زندگی اسی نہج پر رواں دواں رہی۔

حارث ایک کامیاب جج بن چکا تھا اور یہ اس کی محنت ، اللہ کی مدد اور والدین کی دعائوں کا ثمرہ تھا کہ آج وہ ملک کی سب سے بڑی عدالت میں جج کے فرائض انجام دے رہا تھا۔ پھر گردشِ ایام میں ایسا وقت بھی آیا جب حارث کو اپنے بھائی کے خلاف فیصلہ سنانا پڑا۔ ہوا یوں کہ خالد کے ٹولے نے ایک وزیر کے گھر ڈاکہ ڈال کر بڑے پیمانے پر مال و زَر اُڑا لے گئے۔ نتیجتاً یہ فیصلہ سپریم کورٹ پہنچا جہاں حارث نے ایک انصاف پسند جج ہونے کے ناطے پورے گروہ کو پانچ سال جیل با مشقت کی سزا سنائی۔

چھوٹے اور لاڈلے بیٹے کی عادتوں کی فکر میں گھلتی ان کی والدہ کی روح بھی رب پرور کی جانب پرواز کرگئیں۔ جیل میں والدہ کی وفات کی خبر نے خالد کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا۔ آج اسکا ضمیر اسے مسلسل کچوکے لگارہا تھا۔ شدت سے اپنی غلطی کا احساس ، کانوں میں گونجتی باپ کی نصیحتیں اور ماں کا آنسوئوں سے تر چہرہ اس کی آنکھوں کے سامنے گھوم رہا تھا۔ سر ہاتھوں میں گرائے اور ندامت و شرمندگی کے آنسو بہاتے ہوئے اس نے کئی گھنٹے گزار دیے۔ جب کچھ ہوش آیا اور وقت کا اندازہ ہوا تو دِل کے گوشے سے ضمیر نے آواز لگائی کہ اللہ کے حضور پلٹ اور اُس سے بخشش طلب کر۔ آج کئی سالوں بعد جب اس نے نماز کی نیت باندھی تو ایک سکون سا دِل میں اُترتا چلا گیا اور نماز کے بعد بہت دیر تک وہ ہاتھ اُٹھائے اپنے رب سے دعائیں مانگتا رہا۔

یوں دِن گزرتے جارہے تھے۔ آخر اس کی رہائی کا دِن بھی آ پہنچا۔ حارث نے کبھی اپنے بھائی کو لاوارث نہ چھوڑا تھا اور اِسی لیے آج بھی وہ خالد کو لینے جیل آ پہنچا۔ جوں ہی خالد کی نظر اپنے بھائی پر پڑی احساسِ ندامت سے اس کا سر جھکتا ہی چلا گیا۔ کھانے کے بعد کمرے میں داخل ہوتے وقت جیسے ہی خالد کی نظریں اپنے تمغات پر پڑی تو آنکھوں سے اشکوں کا ایک دریا بہہ نکلا۔ ہر چیز اس کے ہاتھ سے نکل چکی تھی۔ وقت برباد ہوگیا۔ والدین پریشان اور دِل میں درد لیے اِس دنیا سے رخصت ہوگئے۔ غلط طریقوں سے پیسہ حاصل کرنے کی کوشش میں کئی بار اسے جیل کی ہوا کھانی پڑی، نہ علم ملا ، نہ دین اور نہ ہی دنیا سنور سکی۔ لوگوں میں بدنامی اور نفرت پھیل گئی۔ غرض کوئی اچھائی ہاتھ نہ آئی ، صرف پچھتاوا باقی رہ گیا۔

دیکھا بچو! آپ نے خالد نے ماں باپ کا کہا نہ مانا ، اساتذہ کی عزت نہ کی ، اللہ کی باتوں کو نہ سنا ، فرائض کی پابندی نہ کی، علم کی اہمیت کو نہ جانا ، پڑھائی سے منہ موڑا تو اسے نہ ہی دولت و شہرت ملی اور نہ ہی علم و ترقی۔

تو پیارے بچوں ہمیشہ یاد رکھو کہ والدین کی خدمت اور ان کی دعائیں ہماری دنیا بناتی ہے اور آخرت بھی سنوار دیتی ہے۔ باپ کی عزت جنت کا دروازہ اور ماں کا احترام بہشت ہے۔ اللہ میاں نے قرآن میں کہا کہ ’’نہ انھیں اُف کہوا ور نہ جھڑکو ، بلکہ ان سے تعظیم سے بات کرو۔‘‘ اور ہمیں اپنے والدین کے لیے دعا کرتے رہنا چاہئے۔ رَبِّ ارْحَمْھُمِا کَمَا رَبَّیَانِیْ صَغِیْرَا (اے میرے رب اِن دونوں پر رحم فرما جیسے اُنھوں نے مجھے بچپن میں پالا۔)

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.

Verified by MonsterInsights