رات کی تاریکی مکمل طور سے اپنی چادر اوڑھے ہوئے ہے۔ چاروں طرف مکمل اور گہرا سناٹا ہے۔ صرف سمندر کی لہروں کی آواز ساحل کے ایک پتھر پر بیٹھے شخص کو اس بات کا اندازہ دلارہی ہے کہ اس کے کانوں کے سننے کی صلاحیت ابھی بھی باقی ہے۔ سمندرکے پانی کو چھوتی ہوئی سرد ہوائیں جب اسکے جسم کو چھوتی ہیں تو اسکو اندازہ ہوتا ہے کہ اسکی محسوس کرنے کی صلاحیت ابھی بھی قائم ہے۔ کچھ دیر پہلے اور کافی دنوں بعد ہونے والی بارش کی وجہ سے ساحل کی مٹی سے آنے والی بھینی خوشبو جب اس کی ناک تک پہنچتی ہے تو اسے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ ابھی بھی اپنی ناکوں سے سونگھ سکتا ہے۔ بادلوں کے پیچھے سے جھانکتا ہوا چاند جب اس کی آنکھوں کو ٹھنڈک بخشتا ہے تو اسے اندازہ ہوتا ہے کہ اسکی بینائی ابھی بھی برقرار ہے۔
چاند کو دیکھتے ہوئے کافی دیگر بعد اسکوخود اپنی موجودگی کا احساس ہوتا ہے۔ شاید یہی احساس اسے بے چین کردیتا ہے۔ وہ فوراً اپنی آنکھیں بند کرتا ہے۔ اور اپنے آپ کو پھر اُسی تاریکی میں گم کردینا چاہتا ہے جہاں تھوڑی دیر پہلے وہ تھا وہ پھر اپنی موجودگی کو بھلا دینا چاہتا ہے۔وہ اپنی آنکھوں سے وہ چیزیں نہیں دیکھنا چاہتا جو اسے تکلیف پہنچائے۔ وہ اپنے کانوں سے ایسی آوازیں نہیں سننا چاہتا جو اسے درد پہنچائیں۔ وہ حقیقتوںسے اتنی دور چلے جانا چاہتا ہے جہاں سے وہ محسوس ہی نہ کر سکے۔ اسی لیے شاید اپنا ایک ایک احساس اسے بے چین کررہا ہے۔
تھوڑی دیر بعد زبردستی آنکھیں بند کیے رکھنے کے بعداسکی آنکھوں سے آنسو بہنے لگتے ہیں۔ اسکے دل و دماغ بار بار یہ گواہی دے رہے ہیں کہ دنیا میں صرف تو ہی وہ شخص ہے جس کے ساتھ یہ سب ہورہا ہے۔ تو ہی اکیلا وہ مظلوم ہے جس پر ظلم کی انتہا ہورہی ہے۔ اتنے گہرے سناٹے میں بھی اسکے کانوں میں بہت سے آوازیں گونج رہی ہیں۔ اتنی گہری تاریکی میں بھی اسے وہ سب دکھائی دے رہا ہے۔ جو اسکے لیے تکلیف دہ ہے۔ اور جو اسے بے چین کرہے ہیں ۔ ہر طرف پھیلی بھینی خوشبو کے باوجود اس کی ناک اس خوشبو کو ناخوشگوار محسوس کررہی ہے۔ قدر ت کے اتنے پر سکون اور خوشگوار ماحول میں رہنے کے باوجود وہ اپنے آپ کو پر سکون نہیں پارہا ہے۔
کیسے وہ پرسکون ہوبھی سکتا ہے۔ وہ ’خود‘ تھوڑی نہ وہاں بیٹھا تھا۔ وہاں تو صرف اسکا جسم موجود تھا۔ اسکی ’روح‘ تو وہاں نہیں تھی۔ وہ تو اس سکون کی تلاش میں کہیں ایسی جگہ گم تھی جہاں اسے دردر کی ٹھوکروں در، در کی گمراہیوں،ذلت و بے رخی کے سوا کچھ نصیب نہ ہوتا تھا۔ وہ اپنی روح اپنی کو وہاں سے کھینچ کر خداکے پیدا کردہ اس خوشگوار ماحول میں لاکر پر سکون کرنا چاہتا تھا۔ لیکن یہ حسین مناظر اسے سکون نہیں پہنچارہے تھے۔ یہ سرد ہوائیں اسکے جسم تک ضرور پہنچ رہی تھیں پر شاید اس کی روح کو نہیں چھورہی تھیں۔ یہ لہروں کی آوازیں جو کبھی اسے کافی محظوظ کردیتی تھیں آج اسکے ذہن کو منتشر کررہی تھیں۔
کافی دیر تک آنسو بہہ جانے کے بعد اس کا من پہلے سے کچھ ہلکا ہوا تھا۔ شاید آنسوئوں کے ساتھ اس کے کچھ جذبات بھی بہہ آئے تھے جنھیں وہ چاہتے ہوئے بھی کسی کے سامنے نہیں پیش کر سکتا تھا۔ اپنے آنسوئوں کو صاف کرنے کے لیے اس نے اپنے چہرے پر ہاتھ پھیرا تو اسے احساس ہوا کہ اسکے آنسوؤں نے اس کے چہرے کو تر کر دیا تھا ۔ اس تر ہوئے چہرے کے ساتھ وہ ایک بار پھر تاریک آسمان کی طرف دیکھتا ہے جہاں چاند اب بادلوں میں چھپ گیا ہے۔ آسماں میں دیکھتے ہوئے دنیائے ہستی کے خالق کو آواز دیتا ہے ۔اپنا تر چہرہ اسکو دکھاتے ہوئے اپنی کیفیت کو بیان کرتا ہے۔ شاید اس وقت اسے ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے خدا اس کی کیفیت سے واقف نہیں۔ کافی دیر تک اسی طرح وہ آسمان میں دیکھتے رہتا ہے۔ بظاہر تو وہ کچھ نہیں بولتا لیکن اسکی روح پوری شدت سے چیخ رہی چلارہی ہے ۔
تھوڑی دیر وہ اسی کیفیت میں رہنے کے بعد اپنی گزری ہوئی زندگی کا جائزہ لیتا ہے۔ جہاں اسکو احساس ہوتا ہے کہ اسنے اپنی پوری زندگی میں کبھی کسی کو اپنی ذات سے اتنی تکلیف نہیں پہنچائی ، کبھی کسی کے ساتھ دھوکہ دھڑی اور براسلوک نہیں کیا اور اگر کسی کو پریشان کیا بھی ہوگا تو اسکی اتنی بڑی سزا تو نہیں ملنی چاہیے۔ کافی دیر ان ساری باتوں پر غور کرنے کے بعد وہ ربِ کائنات کو ہی دوش دینے لگتا ہے۔ وہ کہتا ہے کہ جب ساری نظام کا مالک تو ہے۔ خوشی و غم ، جزا و سزا، زندگی و موت سب تیرے بس میں ہے تو مجھے اس حالت میں لانے والا بھی تو ہی ہے۔ میری یہ کیفیت، میری یہ بے سکونی تیری ہی وجہ سے ہے۔ آخر تو ایسا کیوں کررہا ہے؟ تیری وہ ذات تو نہیں جو بلا وجہ کسی کو تکلیف میں رکھے، تو تو اپنے بندوں پر نہایت ہی مہربان ہے۔ پھر آخر یہ کیسی مہربانی؟
کافی دیر یوں کوستے رہنے کے بعد اسے یہ خیال آتا ہے کہ وہ کس کو کوس رہا ہے ۔ کس کو مجرم ٹھہرا رہا ہے۔ اس ذات کو جو اپنے بندوں کو ۷۰ مائوں سے زیادہ محبت کرتا ہے۔ اس ذات کو جس کی طرف تم ایک قدم چلو تو وہ تمہاری طرف دس قدم چل کر آتا ہے۔ نہیں وہ تو ایسا نہیں کرسکتا۔ اسنے ہم کو عمل کی آزادی دی ہے۔ ہم کو صحیح اور غلط بتا دیا ہے اور یہ اختیار دیا ہے کہ ہم اپنی مرضی سے راستوں کا انتخاب کریں۔ یہ سوچتے ہوئے اس کی آنکھیں جو آسمان کی طرف دیکھتے ہوئے رب کائنات کو کوس رہی تھیں۔ یک بیک نیچے آجاتی ہیں۔
اس بار اسکی آنکھیں اسکے خود کے وجود پرمرتکز ہوئی ہیں۔ وہ اپنے جسم کے ساتھ ساتھ اپنی روح کو بھی دیکھتا ہے۔ اور یہ بھی سوچتا ہے کہ جب اختیار کی آزادی اﷲ نے ہم کو دی ہے اور ہدایت و گمرہی دونوں کے راستہ ہم کو دکھا دیے ہیں تو ضرور پھر مجھ سے ہی کوئی غلطی سرزد ہوگئی ہوگی جس کی سزا مل رہی ہے۔ ضرور میں نے ہدایت کے بجائے گمراہی کا راستہ اختیار کر لیا ہوگا۔یہ سوچتے ہوئے اب اس خود کی ذات سے نفرت ہونے لگتی ہے۔ اس حسین منظر و پرکشش ماحول میں جب وہ اپنے آپ کو دیکھتا ہے تو اسے وہ مناظر صرف اسکی موجودگی کی وجہ سے بھدے اور خراب لگنے لگتے ہیں۔ لیکن اسکے باوجود وہ اپنے آپ کو بھی مورد الزام ٹہراتے ہوئے مطمئن نہیں ہوتا۔ اسے پھر اس بات پر یقین نہیںا ٓتا کہ اس نے ایسی کوئی غلطی کردی ہے جس کی اتنی بڑی سزا ہو۔
اﷲ نے ضرور ہمیں اختیار و آزادی سے بخشاہے۔ لیکن بعض دفعہ کئی اوامر میںہمارا بس اورا ختیار نہیں چلتا۔ زندگی میں کئی مراحل ایسے ہوتے ہیں جہاں ہمارا اختیار نہیں ہوتا۔ انسان کی زندگی میں مشکل وقت وہ ہوتا ہے جب اس کا دل کسی ایسی حقیقت سے نبرد آزماء ہو جسکا وہ گمان بھی نہیں کر سکتا۔ ایسے حالات انسان پر بھی آتے ہیں جب انسان اﷲ کی ذات کو چھوڑ کر کسی اور سے اُمیدیں وابستہ کرلے۔ جب وہ اﷲ کی ذات کو چھوڑ کر سکون اور خوشی کہیں اور تلاش کرنا شروع کردے۔ اﷲ شاید ہر گناہ معاف کرسکتا ہے لیکن شرک کبھی نہیں معاف کرسکتا ۔ اسے یہ قطعی نہیں پسند کہ اس کی ذات میں کسی بھی طریقے سے کسی اورکو شریک کیا جائے۔
ان ساری باتوںکو سوچتے ہوئے اب اس شخص کو ایسا محسوس ہونے لگتا ہے جیسے اب اسکی سوچنے کی صلاحیت ختم ہوگئی ہو۔ وہ اپنے منتشر ذہن کو یکسو کرنے کی بے انتہا کوشش کرنے لگتا ہے وہ کبھی کسی کو تو کبھی کسی اور کو دوش دینے لگتا ہے۔ کبھی پچھتا وہ ،تو کبھی افسوس کرتا ہے۔ کبھی خود کو ظالم تو کبھی مظلوم سمجھنے لگتا ہے۔ اس کا ذہن بے پناہ منتشر ہوجاتا ہے ، اور اس سَر میں ایسادرد ہوتا ہے کہ جیسے پھٹا پڑتا ہو۔
آخر کافی دیرسوچنے کے بعد اس کا ذہن ایک جگہ آکر ٹھہر جاتا ہے۔ ایک ایسی سوچ پر آکر رک جاتا ہے جہاں اسے گہری تاریکی میں ایک لو جلتی دکھائی دیتی ہے جو اس اندھیرے کو ایک حد تک کم کرنے میں کامیاب ہوجاتی ہے جس اندھیرے میں اس کی روح موجود ہے۔ وہی چاند جو اسکی آنکھوں کو چبھ رہا تھا اب اسی چاند سے اس کی آنکھوں کو ٹھنڈک ملتی ہے۔ اب اسے سمجھ میں آتا ہے کہ آخر انسان گہرے اندھیرے میں بھی اپنی آنکھیں کیوں کھلی رکھتا ہے۔ کیوں کہ وہ اس کوشش میں رہتا ہے کہ اسے کہیں سے بھی ایک ہلکی سی شمع یا روشنی ملے جو اسے اس اندھیرے میں چلنے میں آسانی پیدا کرے۔
’’اﷲ تعالیٰ کسی کو اسکی استطاعت سے زیادہ اس پر بوجھ نہیں ڈالتا‘‘ یہی وہ سوچ تھی جہاں اس کا ذہن آکر رک گیا تھا۔ یہی وہ جلتی لو تھی جو اس اندھیرے کو منتشر کررہی تھی۔ اب وہ یہ سوچنے لگتا ہے کہ اگر میری استطاعت نہیں ہوتی تو میں ابھی تک اس بوجھ کو نہیں اُٹھارہا ہوتا۔ یہ بوجھ میں اُٹھا سکتا تھا اس لیے ابھی تک میں زندہ ہوں ورنہ میں فنا ہوجاتا۔ اور میں اس بوجھ کو ابھی تک اُٹھائے ہوئے ہوں تو اسکا مطلب میری استطاعت اور زیادہ ہے۔ اور یہ بوجھ اسکے آگے بہت کم ہے۔ اس معمولی بوجھ کو اُٹھائے ہوئے میں ہار نہیں مان سکتا۔ مجھے اس سے آگے بڑھنا ہوگا۔ شاید اﷲ کو کچھ اور منظور ہے ۔ شاید وہ کچھ اور چاہتا ہے اور میری یہ حالت بھی شاید اسی لیے ہے کہ میں اسکی منظوری کو ڈھونڈ سکوں اسکی خوشنودی کو پہچان سکوں اور وہ سب کر سکوں جو اسکو پسند ہے۔ شاید یہ اﷲ تعالیٰ کی طرف سے آزمائش ہے یہ جاننے کے لیے کہ میں اس میں کتنا کھرا اتر سکتا ہوں اور کس حد تک صبرکرنے میں کامیاب ہوسکتا ہوں۔ اور اگر پھر میں یہ سوچوں کہ اﷲ مجھ سے اتنی زیادہ اور سخت آزمائش کیوں لے رہا ہے تو اﷲ کی ذات تو ایسی ہی ہے وہ جسے زیادہ پسند کرتا ہے اسی سے زیادہ سخت آزمائش لیتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ میں اﷲ کا پسندیدہ بندہ ہوں۔
اب یہ سوچتے ہوئے اس کا جی آہستہ آہستہ ہلکا ہوتا جاتا ہے۔ اسکا منتشر ذہن یکسو ہوجاتا ہے۔ اب وہ پہلے سے زیادہ پر سکون ہو جاتا ہے۔ قدرت کا وہ حسین منظر جہاں وہ بیٹھا ہے اسے سچ میں خوشگوار لگنے لگتا ہے۔ اب وہ سرد ہوائوں سے محظوظ ہونے لگتا ہے۔ بھینی خوشبو سے لطف اُٹھاتا ہے۔ ایک پل کے لیے وہ اپنی آنکھیں بند کرتا ہے اور گہری سانس لیتا ہے اور قدرت کی خوشگوار رُت کو محسوس کرتا ہے۔ تھوڑی دیر بعد وہاں سے اُٹھتے ہوئے وہ سڑک پر پہنچتا ہے اور پوری لگن سے منزل کی اور چل پڑتا ہے۔
انسان کے اعمال و حرکات کا انحصار اس کی سوچ اورنقطہ نظر پر منحصر ہوتا ہے۔ اگر اسکی سوچ منتشر رہے اور اسکا ذہن بند تو اسکے اعمال بھی منتشر ہونگے اور وہ بھی راہِ راست سے بھٹک جائیگا۔ اگر وہ کسی مخصوص سوچ کو لے کر بیٹھا ہے تو اس کے اعمال بھی اسکی مخصوص سوچ کے مطابق ہونگے اور اگر وہ سوچ منفی سوچ ہوتو سارے اعمال خراب ہونگے اور اس کی شخصیت ترقی نہیں کرپائیگی۔ شخصیت کے ارتقاء کے لیے بہت ضروری ہے کہ انسان مثبت سوچ رکھے۔ انسان کو ذہنی سکون اسی وقت فراہم ہوتا ہے جب اسکی سوچ مثبت اور معتدل ہوگی اور اس کے صبر اور برداشت کرنے کی صلاحیت بہت زیادہ ہوگی۔
نظر سپہر پر رکھتا ہے جو ستارہ شناس
نہیں ہے اپنی خودی کے مقام سے آگاہ
خودی کو جس نے فلک سے بلند تر دیکھا
وہی ہے مملکت صبح و شام سے آگاہ
وہی نگاہ کے ناخوب و خوب سے محرم
وہی ہے دل کے حلال اور حرام سے آگاہ
از: انس شیخ