نوّے سال کے عظیم نوجوان محمد مہدی

ایڈمن

محی الدین غازی بارہ سال کی عمر میں اخوان المسلمون میں شامل ہوئے، اور نوّے سال کی عمر تک نوجوانی کا علم پوری قوت اور شان سے اٹھائے رہے۔ تصور سے زیادہ حسین بچپن، ہمالہ سے اونچی جوانی اور جوانی…

محی الدین غازی

بارہ سال کی عمر میں اخوان المسلمون میں شامل ہوئے، اور نوّے سال کی عمر تک نوجوانی کا علم پوری قوت اور شان سے اٹھائے رہے۔ تصور سے زیادہ حسین بچپن، ہمالہ سے اونچی جوانی اور جوانی سے بھرپور پیرانہ سالی۔ طالب علمی کے زمانے میں ہی تحریک کی ضرورتوں کا شعور ان پر اچھی طرح واضح ہوگیا تھا، ان کی دور رس نگاہوں نے بھانپ لیا تھا کہ آنے والے وقتوں میں تحریک کو مضبوط، توانا، مستعد اور متحرک نوجوانوں کی ضرورت ہوگی، جو میدان جنگ میں بھی مردانگی کے جوہر دکھائیں، اور جیل کی کوٹھریوں میں بھی ثابت قدم رہیں۔

جو ملک کو درپیش بیرونی خطروں کا طاقت سے جواب دے سکیں، اور ملک کے اندر بہتر تبدیلی کے لئے پرامن اور صبر آزما جدوجہد بھی کرسکیں۔ وہ جسمانی تربیت کے اچھے کورس کرکے، بہت جلد اعلی درجے کے کوچ بنے، اور پھر تحریک میں شامل نوجوانوں کی جوانیاں نکھارنے اور توانائیاں جگانے میں مصروف ہوگئے۔

کالج کی تعلیم نے انہیں جسمانی تربیت کا کوچ بنایا، تو امام حسن البنا، شیخ عبدالکریم خطیب اور ان کے عظیم ساتھیوں کی تربیت نے انہیں زبردست روحانی مربی بھی بنادیا۔ اس طرح وہ ایک ہمہ جہت اور کامل مربی ہوگئے۔ انہوں نے اپنی تربیتی مہارتوں کا بھرپور استعمال کیا اور اپنی ساری توانائی تحریکی نوجوانوں کو ہر طرح سے تربیت یافتہ، طاقت ور اور بڑے کاموں کا اہل بنانے میں نچوڑ ڈالی۔ زندگی کا ایک بڑا حصہ دنیا بھر میں تحریکی نوجوانوں کی ہمہ جہت تربیت کرتے ہوئے گزارا، اور ایک بڑا حصہ مصر کے ظالم حکمرانوں کی جیلوں میں خود اپنی تربیت کرتے ہوئے گزارا۔ ملک میں رہے تو ملک کے نوجوانوں کی تربیت کرتے رہے، اور جلا وطن ہوئے تو بہت سے ملکوں میں اپنے تربیتی کیمپوں کے نقش قائم کردئے۔

وہ بچپن سے ہی بڑے آدمی تھے، اور زندگی بھر بڑے بنے رہے، کبھی اپنے قد کو چھوٹا نہیں ہونے دیا۔ بارہ سال کی عمر میں جو جوش اور جذبہ پیدا ہوا تھا اسے نوّے سال کی عمر تک توانا اور بیدار رکھا۔ اخوان المسلمون کے چھ مرشد عام ان کی وفاداری اور مددگاری کی داد دیتے رہے، ساتویں مرشد عام وہ خود بنے تو جماعت میں زبردست اصلاحات کردیں، اور پھر خود ہی آٹھویں مرشد عام کے مددگار بن گئے۔ اخوان میں مرشد عام تا حیات منتخب ہوا کرتے تھے، ان کی رائے تھی کہ مرشد عام کے لئے میقات کا تعین ہونا چاہئے، اس رائے کے اظہار کا صحیح وقت اس وقت آیا جب وہ خود مرشد عام منتخب ہوئے، اور پانچ سال کے بعد خود شدید اصرار کرکے اس منصب کو اگلے مرشد عام کے لئے خالی کردیا۔

عام طور سے لوگ سسٹم میں اس طرح کی اصلاحات کی باتیں منتخب ہونے سے پہلے کرتے ہیں، یا معزول ہوجانے کے بعد کرتے ہیں۔ اپنے منصب کو اصلاحات کے لئے تختہ مشق بنانا بہت بڑے ظرف کی بات ہوتی ہے۔ ظالم کی ایک کمزوری یہ ہوتی ہے کہ وہ بے حد ڈرپوک ہوتا ہے، مہدی عاکف کی عمر نوّے سال کے قریب تھی، جسم بے شمار بڑی بیماریوں سے نبرد آزما تھا، لیکن پھر بھی ظالم حکومت ان سے بری طرح خوف زدہ تھی، اور انہیں جیل میں بند کر رکھا تھا، تیمارداری تو دور کی بات ہے گھر کے کسی فرد کو ملاقات کی بھی اجازت نہیں تھی، مصر کی باغی حکومت کا مطالبہ بس یہ تھا کہ وہ اسے آئینی حکومت تسلیم کرلیں۔

جابر وظالم حکومت نے ہر طرح کا جبر اور ہر قسم کا ظلم آزمایا، لیکن نوّے سال کے عظیم جوان نے ذرا کمزوری نہیں دکھائی۔ آخر کار ظالموں کو شکست فاش دیتے ہوئے ایک عظیم مربی اور مثالی قائد اپنے مالک حقیقی سے جاملا۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے، جب مصر کی ہزاروں سالہ تاریخ میں پہلی بار منصفانہ اور شفاف انتخابات ہوئے تھے، اسلام پسندوں کو زبردست جیت ملی تھی، اس وقت میں عالم اسلام کے ایک بڑے ماہر آئین ڈاکٹر حسین حامد حسان کے آفس میں بیٹھا تھا، ایک فون آیا، ڈاکٹر صاحب نے فون اٹھایا، بات کی، اور فون رکھنے کے بعد کہا، مہدی عاکف کا فون تھا، انہوں نے کہا ہے کہ تم نے زندگی تو ادھر ادھر کے کاموں میں گزار دی اب ایک اہم وقت آیا ہے، دین کی ایک بڑی خدمت درپیش ہے، مصر کو ایک مثالی دستور کی ضرورت ہے، آؤ اور اس کام کا بیڑا اٹھاؤ۔ ڈاکٹر صاحب نے مہدی عاکف کی پکار پر لبیک کہا اور مصر روانہ ہوگئے۔ دستور لکھا گیا، اور منظور ہوگیا، محمد مرسی کی صورت میں ملک کو ایک صالح اور عادل حکمراں بھی مل گیا، مگر اسلامی انقلاب کے نقیبوں کو کچھ اور امتحانوں سے گزرنا باقی تھا، خدا کے باغیوں نے ملک میں بغاوت برپا کی اور مصر دوبارہ غلامی کے دلدل میں ڈوب گیا۔ اسلام پسندوں کو جیلوں میں بھرا گیا، اور تعذیب کا سلسلہ ایک بار پھر شروع ہوگیا۔ مہدی عاکف حق وباطل کے اس معرکے میں سرخ رو ہو کر اپنے رب کی طرف روانہ ہوگئے، جب کہ ہزاروں بوڑھے اور نوجوان ابھی بھی صبر واستقامت کے ساتھ جیل کی کوٹھریوں میں ظلم سے برسر پیکار رب کی رحمت کے منتظر ہیں۔ واقعہ یہ ہے کہ جن کے سروں میں جنت کا سودا سما جاتا ہے انہیں اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ زندگی میں راحت میسر آتی ہے یا مشقت، اور موت گھر والوں کے درمیان آتی ہے یا جیل کی تنہائی میں۔

حالیہ شمارے

براہیمی نظر پیدا مگر مشکل سے ہوتی ہے

شمارہ پڑھیں

امتیازی سلوک کے خلاف منظم جدو جہد کی ضرورت

شمارہ پڑھیں