نوجوانوں کی ترجیحات

ایڈمن

ڈاکٹر تمنا مبین اعظمینوجوانوں کی قدر و قیمت ہر دور اور معاشرے میں مسلم رہی ہے۔ ملک و معاشرے کی ترقی ، حالات کا رخ بدلنے کا جوش و جذبہ اور مستقبل کو اپنی فکر و سوچ کے مطابق موڑ…


ڈاکٹر تمنا مبین اعظمی

نوجوانوں کی قدر و قیمت ہر دور اور معاشرے میں مسلم رہی ہے۔ ملک و معاشرے کی ترقی ، حالات کا رخ بدلنے کا جوش و جذبہ اور مستقبل کو اپنی فکر و سوچ کے مطابق موڑ لینے کی صلاحیت ا ن میں بدرجہ اتم موجود ہوتی ہے۔ ان کی حیثیت کسی بھی سماج کے لئے ریڑھ کی ہڈی کے مانند ہوتی ہے۔ جس کی کمزوری یا طاقت پر پورے سماج کا مستقبل انحصار کرتا ہے۔ اگر نوجوان نسل مثبت سوچ و فکر اور عقل و جذبات کے درمیان توازن برقرار رکھنے والی ہوتی ہے تو پورا معاشرہ اور ملک مثبت دھارے کا رخ اختیار کرتا ہے جب کہ اگر اس کے برخلاف ہو تو پورا سماج و ملک بربادی کی اور چل پڑتا ہے۔ہر انقلاب چاہے وہ سیاسی ہو یا اقتصادی، معاشرتی سطح کا ہو یا ملکی سطح کا ، غرض سبھی میدانوں میں نوجوانوں کا کردار نہایت ہی اہم اور کلیدی ہوتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ قرآن و حدیث نے نوجوانوں کے کردار کے سلسلے میں غور و فکر کرنے کو کہا ہے ۔ ان کے جذبات و احساسات کو صحیح رخ پر ڈالنے میں والدین کے کردار کی اہمیت کو واضح کیاہے۔ اسلام انفرادی تربیت پر بہت زور دیتا ہے اور یہ تربیت ماں کی گود سے ہی شروع ہوجاتی ہے۔ اس تربیت میں وہ تمام حسن ہونا چاہیے جو ہمارے مستقبل کے نوجوانوں کی رہنمائی صحیح سمت میںکر سکے۔ قرآن اصحاب کہف کے نوجوانوںکا مثبت انداز میں ذکر کرتا ہے ۔جن کے اندر بادشاہ وقت اور اس قوم کے بد ترین عناصر سے ٹکر لینے کی ہمت و طاقت موجود تھی۔ اللہ تعالیٰ ان نوجوانوں کا کردار کچھ یوں بیان کرتا ہے:

ہم ان کا اصل قصہ تمہیں سناتے ہیں ۔ وہ چند نوجوان تھے جو اپنے رب پر ایمان لے آئے اور ہم نے ان کو ہدایت بخشی تھی۔ ہم نے ان کے دل اس وقت مضبوط کردیے جب وہ اٹھے اور یہ اعلان کر دیا کہ ہمارا رب بس وہی ہے جو آسمانوں اور زمین کا رب ہے ، ہم اسے چھوڑ کر کسی دوسرے معبود کو نہ پکاریں گے۔ اگر ہم ایسا کریں گے تو بالکل بے جا بات کریں گیــ‘‘۔( سورہ کہف :۱۷۔۱۸)
اسی طرح سورہ یونس میں اللہ تعالیٰ نے موسی علیہ السلام کی قوم کے ان چند نوجوانوں کا ذکر کیا جو باوجود تمام تر مخالفت کے موسیٰ ؑپر ایمان لے آئے:’’موسیٰ کو اس کی قوم میں سے چند نوجوانوں کے سوا کسی نے نہ مانا ، فرعون کے ڈر سے اور خود اپنی قوم کے سر براہ لوگوں کے ڈر سے کہ فرعون ان کو عذاب میں مبتلا کر دے گا‘‘۔ (سورہ یونس : ۸۳)
نبی کریم ﷺنے بھی صالح نوجوانوں کے کردار کی جا بجا تعریف کرتے ہوئے فرمایا:
’’ سات خوش نصیب ایسے ہیں جنہیں قیامت کے دن اللہ تعالیٰ اپنا سایہ عطا فرمائے گا جس دن اس کے سائے کے علاوہ کوئی دوسرا سایا نہ ہو گا: انصاف کرنے والا حکمراں۔وہ نوجوان جس نے اپنی جوانی اللہ کی عبادت میں گزاری۔وہ آدمی جس کا دل مسجد میں ہی لگا رہتا ہے۔وہ دو آدمی جو اللہ کے خاطر آپس میں محبت کریں، اسی کی خاطر ملیں اور اسی کی خاطر جدا ہوں۔وہ آدمی جسے کوئی اونچے مرتبے والی عورت دعوت گناہ دے مگر وہ یہ کہے کہ میں اللہ سے ڈرتا ہوں۔وہ آدمی جو اپنے دائیں ہاتھ سے اس طرح صدقہ کرتا ہے کہ اس کے بائیں ہاتھ کو علم نہیں ہوتا۔وہ آدمی جو تنہائی میں اللہ تعالیٰ کا ذکر کرتا ہے تو اس کی آنکھوں سے آنسو گرتے ہیں‘‘۔ ( متفق علیہ)
جوانی کی عمر ہر انسان کے لئے ایک نعمت ہے اسی لئے اس کے بارے میں قیامت کے دن خصوصی طور پر پوچھا جائے گا۔ حضرت ابن مسعود ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا :
’’ قیامت کے دن انسان کے قدم اپنی جگہ سے ہٹ نہ سکیں گے یہاں تک کہ ان سے پانچ باتوں کے بارے میں سوال نہ کر لیا جائے۔ عمر کن کاموں میں گزاری؟ جوانی کہاں صرف کی؟ مال کہاں سے کمایا؟ اور کہاں خرچ کیا؟ جو علم حاصل کیا اس پر کہاں تک عمل کیا ۔‘‘ ( ترمذی)
چنانچہ اگر نوجوان طبقہ ایمان، عمل صالح اور صبر و استقامت سے بھر پور ہو توبڑی بڑی باطل طاقتوں اور طاغوتوں کا سامنا کرکے ان کی کمر توڑ سکتا ہے لیکن اگر یہی نوجوان عریانی ، فحاشی اور منفی میدانوں میں اپنی صلاحیتوں کا استعمال کرے تو کسی بھی معاشرے و ملک کو جہنم زار بنا سکتا ہے۔اگر حالات حاضرہ کی بات کی جائے تو مسلم نوجوان اپنے مقصد زندگی سے ناواقف، دنیاوی لذات و شہوات میں پوری طرح ملوث، موبائل، انٹر نیٹ ، فیس بک ، واٹس اپ کے رسیا، رات بھر اپنی قوت و طاقت ان فضولیات میں خرچ کرکے آدھے دن سونے میں گزار کر اپنے وقت کو برباد کررہے ہیں۔ ان میں سے اگر کچھ سنجیدہ اور باوقار نظر آتے بھی ہیں تو ان کی سنجیدگی دنیاوی و مادی ترجیحات تک ہی محدود ہوتی ہے۔ کم ہی ایسے نوجوان نظر آتے ہیں جن کا مطمح نظر آخرت ہوتا ہے اور ان کی پوری زندگی اسی مقصد کے ارد گرد گھومتی ہے۔افسوس تو تب اور زیادہ ہوتا ہے جب وہ نوجوان بھی انہی کاموںمیں مشغول نظر آتے ہیں جو دعوت دین سے جڑے ہوئے ہوتے ہیں جن کی زندگی میں بھی عمل کی واضح کمی محسوس ہوتی ہے ۔
اب سوال یہ ہے کہ دعوت دین کے میدان میں ہمارے نوجوانوں کی ترجیحات کیا ہونی چاہیے؟ تو اس کے لئے نمونہ نبی اکرم ﷺ کی ذات مبارک ہے ۔جن کی پوری زندگی قرآن کی عملی تفسیر تھی اور جنہوں نے دعوت دین کو اپنے اخلاق و کردار سے مزین کیا۔دعوت دین و تبلیغ کے لئے ضروری ہے کہ قرآن کریم کے بیان کردہ اسالیب دعوت اورمقاصد دعوت کو سمجھا جائے۔ اس ضمن میں اسوہ نبوی اور صحابہ کرام کے عمل سے رہنمائی حاصل کی جائے۔ضرورت اس امر کی ہے کہ:
۱۔ سب سے پہلے تو وہ اپنی تخلیق کے مقصد و غایت سے بخوبی واقف ہوں۔۲۔ عالم اسلام کو لاحق خطرات کا ادراک کریں۔۳۔ نصرت الہٰی پر بھروسہ رکھیں۔۴۔ تاریخ اسلام کی بہترین شخصیتوں کو اپنا نمونہ بنائیں۔۵۔ مبلغ و تبلیغ کی فضیلت کو جان لیں۔۶۔ دوسروں پر اثر کر نے کے اسلوب سے واقف ہو جائیں۔۷۔جس کو دعوت دے رہے ہیں ان کی عقلی و ذہنی معیار کے مطابق بات کریں۔۸۔ نرمی و حکمت کو ہاتھ سے نہ جانے دیں۔۹۔ جس کی دعوت دے رہے ہیں اس پر پہلے خود عمل کرنے والے بنیں۔۱۰۔ اسلام کی اخلاقی تعلیمات کا چلتا پھرتا نمونہ بنیں۔۱۱۔ دین کی بنیادی عبادات کو کبھی کسی محفل میں نظر انداز نہ کریں ۔ وہی آپ کی اولیت ہونی چاہئے کیونکہ لوگ آپ کو آپ کے اعمال سے جانیں گے۔۱۲۔ اپنے اندر خلوص و للہیت پیدا کریں کیونکہ اس کے بنا آپ کے الفاظ کی کوئی اہمیت نہیں ہو گی۔۱۳۔ موجودہ دور کی نزاکت آپ کو معلوم و ملحوظ ہو نی چاہیے۔۱۴۔ دوسروں کے جذبات و احساسات اور مذہب کی قدر کریں۔۱۵۔ کوئی بھی ایسی بات نہ کہیں جس سے کسی مذہب یا مذہبی فرقے کی توہین ہو۔۱۶۔ اپنی بات کو منوانے کے لئے زور و زبردستی سے کام نہ لیں۔۱۷۔ دو ٹوک انداز میں حرام و حلال یا جائز و ناجائز کی پابندی نہ لگا دیں بلکہ سامنے والے کی ذہنی سطح اور اس کی سمجھ کو مد نظر رکھیں۔۱۸۔ عزم و استقلال کی مثال بنیں۔۱۹۔ کاہلی و بزدلی مومنین کا شیوہ نہیں۔۲۰۔ ’’ادع الیٰ سبیل ربک بالحکمۃ و الموعظۃالحسنۃو جادلھم بالتی ھی احسن ‘‘کے تقاضوں کے پیش نظر انفرادی و اجتماعی، قومی و ملی سطح پردعوت الیٰ اللہ کا کام ہو۔ ۲۱۔ اظہار خلوص و وفا ہو۔۲۲۔ ناکامیوں پر ذہنی خلفشار کا شکار نہ ہوں۔ ۲۳۔خود ساختہ معیار کوترک کرکے آسان نکاح کو عام کریں۔ ۲۴۔ آپ کا کام دعوت دینا ہے ، زبردستی کسی کے ذہن و دماغ کو موڑنا اور تبدیل کرنا نہیں ہے۔’’ لا اکراہ فی الدین ‘‘کا اسلامی تصور ذہن میں موجود رہے۔
اگر نو جوانان اسلام دعوت و تبلیغ میں اپنی ترجیحات و ترغیبات میں ان اصولوں کو شامل کر لیں اور راہ اعتدال اختیار کر لیں تو اس کا نہایت ہی مثبت پہلو مستقبل میں نظر آئے گا ۔ ساتھ ہی قول و عمل کا امتزاج لوگوں کے ذہن سے اسلام کے منفی تصورات کو مٹا کر اسلام کی اعلیٰ و ارفع اخلاقی قدروں کو ان کے دل و دماغ میں جا گزیں کر دے گا جس سے لوگ اسلام کی طرف جوق در جوق آتے چلے آئیںگے اور امت وسط کے فریضے کی انجام دہی ہوتی رہے گی۔

(مضمون نگار جامعہ ملیہ اسلامیہ میں گیسٹ فیکلٹی ہیں )

حالیہ شمارے

براہیمی نظر پیدا مگر مشکل سے ہوتی ہے

شمارہ پڑھیں

امتیازی سلوک کے خلاف منظم جدو جہد کی ضرورت

شمارہ پڑھیں