نوجوانوں کو تہذیبی و ثقافتی انتشار کے زمانے میں العروت الوثقی سے جڑنے ہی کے ذریعے سے ثبات مل سکتا ہے: عبد الحفیظ

ادارہ
فروری 2025

نومنتخب صدر تنظیم برادر عبد الحفیظ سے خصوصی انٹرویو

    

رفیق منزل: ایس آئی او آف انڈیا کی نئی میقات (2025-2026) کا آغاز ہوچکا اور پالیسی سازی کا مرحلہ بھی مکمل ہوچکا ہے۔ میقات رواں کی پالیسی کے چند تعارفی پہلو (defining features) کون سے ہیں؟

 عبد الحفیظ: الحمدللہ، ایس آئی او کی مرکزی مجلس شوریٰ (سی اے سی) نے جنوری کے بالکل آغاز میں 4 دن بہت غور و فکر و اعلیٰ مباحث کے بعد پالیسی سازی کے مرحلے کو مکمل کیا  ہے۔پالیسیز کو علمی و عملی تقاضے بیک وقت پورے کرنے پڑتے ہیں‌۔ علمی طور پر وہ تنظیم کے رخ، زبان و اپروچ کو متعارف کرواتی ہیں، وہیں دوسری طرف ان پالیسیز سے پروگرامز و عملی جدوجہد کے لیے راستہ بھی طئے کرنا ہوتا ہے۔ان دونوں تناظر میں دیکھا جائے تو اس شوریٰ کے  پالیسی اجلاس میں انتہائی خاص پہلو زیر بحث  آئے ہیں۔ ایک اہم گفتگو ملی تحفظ و ملی مسائل کے متعلق تھی،بالخصوص مسلمانوں کے خلاف نفرت،ظلم و تشدد نیز مسلم تہذیب و شعائر کے سلسلے میں معاندانہ رویہ وغیرہ کے متعلق۔ اس پر شوریٰ کا اتفاق رہا ہے کہ ملت کے مسائل منفرد و مخصوص ہیں۔ کئی مسائل میں دیگر مظلوم طبقات سے زیادہ سنگینی درپیش ہے جیسے شہریت والا قانون، وقف بل، بلڈوزر سیاست وغیرہ۔ اس کا ذکر صراحتاً انصاف والی پالیسی میں کیا گیا ہے۔ البتہ ان ایشوز پر ریسپانس کے حوالے سے ہماری زبان، اصطلاحات،اپروچ و اقدامات میں مزید علمی و عملی کاوشوں کی ضرورت کا احساس رہا۔ اس سلسلے میں “اسلامی تعلیمات کی روشنی میں مطلوبہ ریسپانس”  پر  گفتگو کی گئی۔ انشاءاللہ ان مباحث کو مختلف ذرائع سے مخاطب کیا جائے گا۔

دوسری اہم گفتگو ایک نئی پالیسی کی شکل میں سامنے آئی جو حیاء و جنسی اخلاقیات کے حوالے سے ہے۔ گذشتہ میقات میں یوتھ ایشوز پر ملک گیر مہم کے بعد شوریٰ میں اس بات کا احساس تھا کہ نوجوانوں کے جنسی و نفسیاتی مسائل پر گفتگو نیز ان مسائل سے دوچار نوجوانوں کو ان سے چھٹکارا دلانے کے لئے سپورٹ سسٹم کی بھی ضرورت ہے، لہذا  میقات رواں میں اس کے لیے الگ پالیسی بنائی گئی ہے۔اس پالیسی میں نظریاتی بنیادوں پر مسائل کو مخاطب کرنے، حیاء و اخلاقی حساسیت پیدا کرنے، عملی طور پر رہنمائی کے لیے سپورٹ سسٹم و پلیٹ فارمز فراہم کرنے کی بات کہی گئی ہے۔اس ضمن میں مہم بھی طے پائی ہے۔

ان دو اہم مباحث  کے علاوہ شوریٰ  کے اجلاس میں

  • تربیت میں فرائض سے ادائیگی و قرآن سے وابستگی
  • مطالعہ میں قرآن و حدیث کے علاوہ تحریکی فکر کے لٹریچر پر خصوصی توجہ
  • تنظیم میں افرادی قوت و دائرہ اثر کو بڑھانے  پر خاص زور رہا۔ اس ضمن میں 3 ماہ کی مہم بھی طئے کی گئی ہے۔

 ر۔م: ملت  اور ملکی سماج میں ایس آئی او کی شناخت (identity)کو آپ کیسے دیکھتے ہیں؟ ایس آئی او کے تصور (آئیڈیا) کی وہ کونسی خوبیاں ہیں جو اسے معاشرہ کے لیے خیر کا باعث بناتی ہیں اور معاشرہ کے لیے معنی خیز ہیں؟

 ع-ح: ایس آئی او ملی و ملکی تناظر میں کئی پہلوؤں سے منفرد مقام و شناخت رکھتی ہے‌۔

  • سب سے پہلی چیز ،ایس آئی او بلند ترین مقاصد کی بنیاد پر جدوجہد کرنے والی تنظیم ہے۔ چونکہ ایس آئی او جماعت اسلامی کا حصہ ہے اس لیے ایس آئی او کے مقاصد و کاموں میں جامعیت و اقدامی پہلو غالب رہتا ہے۔ ملک کی دیگر طلبہ تنظیمیں زیادہ تر کسی سیاسی و سماجی ایشوز پر حرکت میں آتی اور اپنے احتجاج و بیان کو مختلف ذرائع سے سامنے لاتی ہیں۔ ایس آئی او کے کاموں کا یہ بھی اہم حصہ ہے لیکن ایس آئی او یہیں تک محدود نہیں بلکہ اپنے بنیادی اور روٹین کے کاموں کے ذریعےطلبہ و نوجوانوں کو اپنے رب سے قریب کرنا، ان کے اخلاق و کردار کو بنانا و  سنوارنا ، ان کی صلاحیتوں کو نکھارنا و ابھارنا بھی ایس آئی او کی اہم ترجیح ہے۔
  • ملت میں ایس آئی او اپنے متوازن فکر و اپروچ، صالح صحبت و دین کے صحیح شعور کی بیداری وغیرہ کے پہلوؤں سے ممتاز مقام رکھتی ہے۔ نوجوانوں کی نوخیز عمر میں والدین و سرپرستوں کی اولین ترجیح ان کے لیے صالح صحبت کی تلاش ہوتی ہےجس کے ذریعے اس نازک عمر میں اخلاق و کردار کو بہتر بنایا جاسکے۔ ایس آئی او اس ضرورت کو پورا کرتی ہے، خاص کر ایسے دور میں جہاں انفارمیشن و کمیونیکیشن ٹیکنالوجی سے مواد تو اچھا خاصا مل رہا ہے لیکن تہذیبی حصار باقی نہیں ہے۔ ایسے میں ایس آئی او نوجوانوں کے لیے سایہ عافیت کا درجہ رکھتی ہے۔
  • جب کوئی نوجوان دین کی طرف آتا بھی ہے تو بدقسمتی سے دین کے فروعات و جزئیات وغیرہ کو اصل دین سمجھ بیٹھتا ہے۔ عقیدہ و فقہ کی تفصیلات کی لاحاصل بحثیں، دینی تعلیمات میں غلو و سخت گیری وغیرہ اس کے مظاہر ہیں۔ ایس آئی او اس جال سے بھی نوجوانوں کو بچاتی ہے اور ان کو کلامی و فقہی مسلک کی دعوت کے بجائے معروف و منکر کی دعوت پر لگاتی ہے۔
  • ایس آئی او دین کے محدود تصور کے بجائے جامع تصور پیش کرتی ہے۔ دنیاوی معاملات سے کاٹنے و بدظن کرنے کے بجائے اسے دین کی روشنی میں طے کرنے کے لیے آمادہ کرتی ہے۔ دعوت دین کے کام کے ذریعہ غیر‌مسلم‌نوجوانوں سے ربط و تعلق رکھنا بھی سکھاتی ہے۔
  • نوجوانوں کی ایک بڑی خوبی بہادری ، جوش و ولولہ ہوتا ہے۔‌ایس‌آئی او اسے صحیح سمت اور رخ عطا کرتی ہے۔ اندھے جوش سے بچا کر، اس کا رخ عدل و انصاف کی جدوجہد پر لگاتی ہے‌۔

ان‌تمام پہلوؤں سے ایس آئی او ملک و ملت کے لیے ایک نایاب تحفہ ہے۔

 ر۔م: دعوتی محاذ پر تنظیم کی جدوجہد کو جلا بخشنے کے لیے کن خطوط پر کام کرنے کی ضرورت ہے؟

ع۔ح:  دعوتی محاذ پر کام کی جب بات ہوتی ہے تو میرے خیال میں اسے دو پہلوؤں سے دیکھنا چاہیے۔

پہلا پہلو راست دعوت کا ہوتا ہے جسے تنظیمی سیٹ‌اپ میں دعوتی ڈپارٹمنٹ کے ذریعہ کرنے کی کوشش کی جاتی  ہے۔ اس تناظر میں راست اسلامی عقائد و اسلامی عبادات پر کتاب‌، لٹریچر و تقاریر وغیرہ کے ذریعہ سے غیر مسلم سامعین ومخاطبین  تک بات پہنچانے کی کوشش ہوتی ہے۔ اس تناظر میں مسلم تہذیب کے  خوشگوارو مفید پہلوؤں سے غیر مسلم سماج کو متعارف کروانے کی کوشش رہے گی‌۔ مثلاً مسجد پریچے، مسلم گھر وزٹ،مسلم قبرستان وزٹ وغیرہ کے علاوہ عیدین و افطار وغیرہ کی رائج دعوتی سرگرمیوں پر بھی توجہ ہوگی۔ اس تناظر میں پالیسی میں امت مسلمہ و بالخصوص افراد تنظیم میں داعیانہ کردار کو پیدا کرنے کی بات کی گئی ہے۔ ہمارے افراد اپنے کیمپسز، ورک پلیس، کاروبار وغیرہ میں اپنی گفتگو اور کردار سے اسلام کی روشنی پھیلانے والے بنیں۔ اس میقات میں بھی اس پر خاص توجہ دی جائے گی، انشاءاللہ۔ اس کے علاوہ سوشل میڈیا وغیرہ کے ذریعہ بھی اپنی بات پہنچانے کا اچھا موقع میسر ہے جس سے خاص کر مقامی زبانوں میں استفادہ کی ضرورت محسوس ہوتی ہے۔اس پر گذشتہ میقاتوں میں کام کی ابتداء ہوئی ہے،انشاءاللہ اسے آگے بڑھایا جائےگا۔

دوسرا پہلو یہ ہے کہ ملت کی تمام اجتماعی سرگرمیوں میں دعوتی جھلک نمایاں ہو، یہ بات ہماری پالیسی میں بھی کہی گئی ہے۔لیکن اس کے مقتضیات بہت وسیع ہیں یعنی ہمارا خدمت خلق، کیمپس ایکٹوزم، سیاسی سرگرمیاں، ملی مسائل کی کوششیں، دوسری تنظیموں اور نظریات کے ساتھ تال میل، الغرض تمام کوششوں میں، جدوجہد میں، ہمارے بیانیہ و کردار میں وہ روشنی ہو جو لوگوں کو متاثر کرسکے۔ اس کے لیے ایک طرف اسلامی بیانیہ تشکیل دینے کا ایک مشکل کام کرنا ہوگا مثلاً جب ہم عورتوں پر ظلم کے خلاف بات کریں تب ایک فیمینسٹ اور آپ کے بیانیہ کے ماخذ میں لوگ فرق محسوس کریں۔ یہ کام سطحی طور پر چیزیں کہہ دینے یا لکھنے سے نہیں ہوگا بلکہ گہرائی و گیرائی کے ساتھ(ضرورت پڑھنے پر مسلم سماج کی طرف سے مسلم عورتوں پر ہونے والی انصافی کا اعتراف کرتے ہوے) مخاطب کرنا ہوگا‌۔دوسری طرف ایسے پلیٹ فارمز و spaces پر اپنی موجودگی کو یقینی بناتے ہوئے مستقل مزاجی کے ساتھ جدوجہد کرنی ہوگی۔ اگر یہ کام بیانیے والے نکتہ سے مل جاتا ہے تب مجموعی جدوجہد دعوتی جدوجہد کہلائے گی جو  تحریک سے اصلاً متوقع بھی ہے۔

 ر۔م: طلبہ و نوجوانوں کے وہ کونسے اہم اخلاقی مسائل ہیں ،جن پر توجہ دینے کی ضرورت ہے؟

 ع-ح : جدیدیت کا تصور اخلاق، انسان کی افادیت و لذت (utilitarianism and hedonism)سے عبارت رہا۔‌ ان تصورات کو انتخاب (چوائس) اور آزادی (لبرٹی)کا پرفریب لباس پہنایا گیا۔   انٹرٹینمنٹ کی صنعت، میڈیا، تعلیم اور تعلیمی اداروں غرض زندگی کے ہر پہلوؤں پر اس کا اثر رہا۔ ٹکنالوجی نےاس مواد تک رسائی آسان و سستی بنادی ہے۔موجودہ تہذیب نے نوجوانوں کے پسند و نا پسند کے معیار،طرز زندگی،لباس‌‌ و حسن کے معیار، بات چیت و برتاؤ میں فطری شرم و حیا وغیرہ کو بے حد متاثر کیا ہے۔ جن چیزوں کو عام‌انسانی سماج معیوب سمجھتا تھا اسے آزادی اور آرٹ کے نام پر بروئے کار لایا  جارہا ہے۔‌صارفیت ‌نے‌تکاثر و اسراف کی لت پیدا کردی ہے۔ تہذیبی و ثقافتی انتشار کے اس زمانے میں اسلام کی آفاقی و دائمی قدروں ــ جوایمان کی جڑوں سے قوت حاصل کرتی ہیں ـــکو  اپنانے کی ضرورت محسوس ہوتی ہیں۔ حیا، غنیٰ، پاکیزہ طرز زندگی کو اپنانے نیز اس کی طرف دعوت و معنویت کا احساس پیدا کرنے کی ضرورت محسوس ہوتی ہے۔

 ر۔م: ملک میں مسلمانوں سے نفرت کے بڑھتے سماجی ماحول کے متعلق آپ کی کیا رائے ہے؟ اس کے تدارک کے لیے کن خطوط پر کوششیں مطلوب ہیں؟

 ع -ح : اس ملک میں نفرت کئی محاذوں سے سرایت کررہی ہیں۔سیاسی محاذ ،میڈیا و سوشل میڈیاکا محاذ،نظریاتی محاذ اور سماجی سطح پر بڑھتی نفرت۔

سیاسی محاذ میں یہ  شامل ہے کہ فرقہ پرست پارٹیاں اپنے ووٹ بٹورنے کے لیے نیز اکثریت کے نام نہاد اتحاد کے لیے مسلمانوں کےخلاف نفرت انگیز بیانات، اشتہارات ، بیانیے، سازشی نظریات جیسے لو جہاد، لینڈ جہاد وغیرہ کا استعمال کررہی ہیں۔ حکومتیں قتل عام کی کھلے عام دھمکیاں دینے والوں، نفرت پھیلانے والوں پر کارروائی نہیں کرتیں۔ جس سے انہیں جواز و قبولیت حاصل ہوتی  ہے  اور دوسرے حوصلہ پاتے ہیں۔

میڈیا‌ انتہائی حد تک شرمناک رویہ اختیار کرچکا ہے جس کی مثال کورونا وباء کے وقت تبلیغی جماعت و مسلم‌کمیونٹی سے متعلق زہر یلا بیانیہ ہے۔ اس کا زمینی اثر ملک کے کئی علاقوں میں مسلمانوں کے بائیکاٹ کی شکل میں نمودار ہوا۔ سوشل میڈیا پر آئی ٹی سیل کا رویہ جگ ظاہر ہے۔

ہندتوا فکر کی بنیاد میں ساورکر و گولوالکر وغیرہ کے یہاں مسلمانوں کے تئیں غیریانہ    (otherisation) و نفرت کا بیانیہ ملتا ہے۔ تاریخ کا استعمال، نیشن اسٹیٹ میں غیر بنانا، ابراہیمی مذاہب کو  ملامت کرنا، مسلمانوں کے تہذیب و مذہب سے حسد و جلن وغیرہ اس بیانیہ کی خصوصیات ہیں۔

ان‌تمام محاذوں کے دباؤ میں سماج کا دباؤ بھی شامل ہوگیا ہے، جس کے مظاہر میں  مسلمانوں کے سلسلے میں عدم رواداری( مثلاً سوسائٹی میں رہائشی مکان  نہ دینا)، مسلم شعائر سے  تنفر میں اضافہ اور بائیکاٹ  وغیرہ ہیں۔

مذکورہ بالا نکات سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ نفرت مٹانے کی جدوجہد مختلف محاذوں پر کاموں کا تقاضا کرتی ہے۔ سیاسی سطح پر فرقہ پرست پارٹیوں کو حکومت بنانے سے روکنےاور قانونی و دیگر ممکنہ ذرائع کا استعمال کرتے ہوئے لگام لگانے کی کوشش ہونی چاہیئے۔نظریاتی سطح پر ہندوتوا کے فکری و تاریخی بیانیے کو رد کرتے ہوئےمتبادل بیانیہ پیش ہو۔میڈیا و سوشل میڈیا پر ملت کے نوجوانوں کا بامقصدایکٹوزم بڑھنا چاہیے۔ اس کے علاوہ انصاف پسند غیر مسلموں کو بھی حتی الامکان ساتھ شامل کرنا چاہئے۔سماجی سطح پر غیر مسلم سماج کے ساتھ تعامل اور باہمی اعتماد کی فضا قائم کرنے کی حتی الامکان کوشش ہونی چاہیے۔ یہ دعوتی تقاضا بھی ہے اور طویل المیعاد ملی ضرورت بھی‌۔ ان تمام کوششوں کے ساتھ ملی ایمپاورمنٹ یعنی ملت کی تمکین و ترقی کی طویل المیعاد جدوجہد سے ہی ملت کو درپیش مسائل کا سامنا کیا جاسکتاہے۔

ہے جرم ضعیفی کی سزا مرگ مفاجات

ر۔م : میقاتی منصوبے میں قرآن سے تعلق پر خصوصی زور دیا گیا ہے۔ قرآن سے تعلق و استفادہ کی مختلف عملی شکلیں کیا ہوسکتی ہیں؟

ع- ح : جی ہاں۔ پالیسی کے ساتھ ہم نے زونل لیڈرشپ کیمپ میںQs 3 پر توجہ دلائی تھی جنہیں اس میقات میں توجہ و ترجیح دی جائے گی۔  قرآنی ماحول ، ممبران کی تعداد (Quantity) اور تنظیم کے پیغام کی ترسیل و تبلیغ کے لیے جدوجہد (قم)۔ تنظیم میں قرآنی‌ماحول بنانے کی کوشش کئی پہلوؤں سے ہوگی۔اول یہ کہ  قیادت کی سطح پر قرآن مجید سے تعلق کو لے کر اہتمام میں اضافہ ہونا چاہیے ۔‌ ہمارے مرکز،حلقہ جات و مقامی سطح کی اہم نشستوں اور پروگراموں میں قرآن مجید کو نمایاں مقام ملے۔ رسمی تعلق سے آگے بڑھ کر ہماری محفلیں، گفتگو، استدلال،تقاریر وغیرہ پر قرآنی رنگ نظر آنا چاہیے۔

دوم یہ کہ زون و مقامی سطح پر قرآن مجید سے تعلق کو بڑھانے کے لیے ناظرہ، تجوید، تفسیر، قرآنی عربی وغیرہ سیکھنے کے لیے گرمائی تعطیلات و دیگر ایام میں کورسوں اور کلاسوں کا اہتمام ہونا چاہیے۔ مرکز کی سطح پر مدرسین و مربیان قرآن کورس کا اہتمام کیا جائے گا انشاءاللہ۔

سوم اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ مقامی سطح پر قرآنی ریڈنگ سرکل کا لازماً اہتمام کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ ہم چاہتے ہیں‌کہ یہ یونٹ کی پہچان بن جائے۔ قرآن مجید کو پڑھنے و سمجھنے کے حوالے سے ہم‌ملیں، مختصر وقت پر منحصر یہ انٹریکٹیو  محفل قرآنی ماحول بنانے میں ہماری مدد کرےگی، انشاءاللہ۔

ر۔م : آپ کے خیال میں تنظیم کے ورک کلچر سے متعلق وہ کونسے اہم امور ہیں جن پر توجہ دی جانی چاہیے؟

ع-ح : تنظیم کے ورک کلچر پر گفتگو سے قبل تنظیم کی نوعیت و مقام کے متعلق  وضاحت ضروری ہے۔ تنظیم بذاتِ خود مقصد نہیں ہے بلکہ تحریک و مقاصد اصل اہمیت کے حامل ہیں۔ اس سلسلے میں خرم مراد  کی کتاب “حکمت تنظیم” کا مطالعہ مفید ہوگا۔

تنظیم سے محبت بھی ایک فطری امر ہے لیکن اسے “تنظیمیت” کا شکار نہیں بننے دینا چاہیے‌۔ اس نقطہ نظر سے تنظیم کے ورک کلچر پر نظر ڈالنا آسان ہوگا۔ اچھی روایات کو یقیناً آگے بڑھایا جاسکتا ہے، لیکن ان  روایات کو ورک کلچر سے نہیں چمٹا کر رکھنا چاہیے۔ خاص کر ایسی روایات، ورک کلچر اور سرگرمیاں جن سے مقاصد و اہداف تک رسائی نہیں ہورہی ہیں (یا کم ہورہی ہے) تب انہیں بے تکلف نکال دینا چاہیے‌ اور نئے تجربات کرنے چاہیے، اس بات کے مصداق کہ ایس آئی او تحریک اسلامی کے لیے تجربہ گاہ ہے۔

روایات کے بعد ورک کلچر کا دوسرا اہم پہلو ممبران کے باہمی‌تعلقات ہیں۔ بغیر کسی مادی مقاصد کے اسلام کی خدمت کے لیے ایک دوسرے سے قلوب کا جڑنا یہ اللہ کی عظیم نعمت ہے‌۔ ہر حال میں اس کی حفاظت و ترقی ہمارے ذمہ داران و تنظیمی اسٹرکچر کی ترجیح ہونی چاہیے۔ اس کے علاوہ منفی عادتیں مثلاً بدگمانی، غیبت، چغلی، تنقیص،عیب جوئی، مناسب فورم کے بغیر بے تکے و ناروا تبصرے، ذمہ داران پر بے اعتمادی وغیرہ سے پرہیز لازمی ہے۔ اس کی مسلسل یاددہانی ہماری محفلوں میں ہوتی رہنی چاہیے۔ اس کے علاوہ نظم کی پابندی، انفرادی اختلاف کے باوجود اجتماعی فیصلوں کا احترام، جذبہ انفاق، جذبہ قربانی وغیرہ کی تنظیمی کلچر میں تذکیر و عملی مثالوں کی ضرورت محسوس ہوتی ہیں۔

 ر۔م: تنظیم کے پیغام کی ترسیل و اشاعت ا ور اسلام کو درپیش علمی چیلنجز کے ضمن میں ماہنامہ رفیق منزل کی معنویت کو آپ کیسے دیکھتے ہیں؟ رواں میقات  میں رسالہ سے متعلق آپ کی توقعات کیا ہیں؟

ع-ح : ایس آئی او کی تاریخ میں رفیق منزل حقیقتاً سفر و منزل کی طرف بڑھنے کے لیے رفیق رہا ہے۔ ایس آئی اوایک نظریاتی تنظیم ہے ،اس حیثیت سے  یہ بہت ضروری ہوجاتا ہے کہ وہ اعلیٰ سطح کی بحثوں میں شریک ہو۔ صرف  سرگرمیاں ہی اس کا مدعا نہ بنے بلکہ زمانے کے مسائل، مختلف نظریاتی و علمی بحثیں، قرآنی و نبوی اپروچ،نوجوانوں کے مخصوص ٹرینڈز، ملی مسائل، تحریکی فکر وغیرہ بھی اس گفتگو کا مطمح نظر بنے۔ ان تمام پہلوؤں سے رفیق منزل کا ہمیشہ سے اہم‌کردار رہا ہے۔

آگے بھی رفیق منزل سے ‌یہی توقع رہے گی کہ وہ ابھرتے ہوئےمسائل کا تجزیہ ،نیز اسلامی نقطہ نظر سے مسائل کو سمجھنے و سمجھانے کی روایات کو آگے بڑھائےگا، جس سے نہ صرف علمی بلکہ تنظیم کے عملی سفر میں بھی رہنمائی ملےگی، ان شاء اللہ۔

 ر۔م: وابستگان تنظیم اور طلبہ برادری کو آپ کیا پیغام دینا چاہیں گے؟

ع- ح : آج کی‌نوجوان نسل کو اس پوسٹ ماڈرن دنیا میں انتشار فکر کے ذریعہ سے پیدا ہونے والے تہذیبی و ثقافتی انتشار کا‌سامنا‌کرنا ہے۔ اخلاق،اقدار حتیٰ کہ خاندان جیسا بنیادی ادارہ اس تہذیبی یلغار کی زد میں ہے۔ ایسے وقت ہمیں العروت الوثقی (مضبوط سہارا)، جس میں “لا انفصام لھا” کی گا رنٹی شامل ہے، سے جڑنا چاہیے۔ اللہ سے ہمارا تعلق، کتاب و رسول اللہ  ﷺ سے ہمارا تعلق ہی ہمیں اس طوفان بلاخیز میں ثبات و سہارا دے سکتا ہے۔ بشرطیکہ وہ تعلق زندگی کا کوئی  ایک گوشہ نہ ہو بلکہ وہ انجن  کے مانند ہو  جو زندگی کے ہر میدان میں  رہنمائی  کا کام دے۔ اس تعلق سے ہم وہ روشنی پائیں جو اندھیروں میں سہارا دے اور خود  اس روشنی کے علمبردار بنیں۔

دوسرا پیغام یہ ہے کہ ملی مسائل میں ہماری جدوجہد ہمارے مقام کے شایان شان ہو۔ ہم ملت کی مادی و تہذیبی حفاظت کے مسائل کو غیر اہم و قومی جھگڑے کہہ کر نہیں چھوڑسکتے۔ اس نفرت و تشدد سے مقابلہ کرنے کے لیےمسلم نوجوانوں میں توکل،‌ہمت و جرأت پیدا کرنا ، ملت کی تمکین و ترقی اور نفرت سے مقابلہ کرنے کی نشاندہی و رہنمائی ایک بڑی ملی ضرورت ہے۔  دوسری طرف ہمیں اس بات کا بھی شدت سے خیال کرنا ہوگا کہ ہم‌ایک نسلی گروہ نہیں ہے۔ مولانا مودودی کے الفاظ میں مسلمان  نسلی قومیت (racial nationality) نہیں بلکہ عقلی قومیت (Rational nationality) ہے۔ ہماری اصطلاحات، بیانیہ،اپروچ،رد عمل وغیرہ اس فرق کو ملحوظ رکھتے ہوئے ڈیزائن ہونے چاہیے۔

حالیہ شمارے

جدید تہذیب اور اسلامی اخلاق

شمارہ پڑھیں

عام انتخابات کے نتائج 2024 – مستقبل کی راہیں

شمارہ پڑھیں