نوبل امن انعام کی سیاست

ایڈمن

اکتوبر ۲۰۱۲ ؁ء کی ایک سہانی دوپہر ہے۔ شمالی وزیرستان میں ایک آٹھ سالہ بچی نبیلہ رحمان اپنے بھائی بہنوں اور دادی کے ساتھ کھیتوں میں کام کر رہی ہے۔ عید الاضحی قریب ہے۔ نبیلہ کی دادی اپنے پوتے پوتیوں کو بھنڈی کی کھیتی سے بھنڈی چننا سکھا رہی ہے۔ کسے خبر تھی کہ آج ایک ایسا اندوہناک سانحہ ہونے والا ہے جو نبیلہ کے ہنستے کھیلتے خاندان کی زندگی کا دھارا بدل کر رکھ دے گا۔ ناگہاں بچوں کو آسمان میں ایک خاص قسم کی گونج سنائی دیتی ہے۔ یہ امریکی ڈرون ہے، ایک ننھا سا مسلح طیارہ، جس کی گونج اس خطے کے باشندوں کے لیے ایک معمول بن چکی ہے۔ یہ ڈرون ۲۴؍ گھنٹے لوگوں کے تعاقب میں رہتے ہیں۔ اچانک ڈرون سے ہلکی سی کلک کی آواز آتی ہے، اور اس سے نکلنے والے گولے نبیلہ کے کنبے پر برسنے لگتے ہیں۔ حیرت اور دہشت کی ملی جلی کیفیت میں نبیلہ کو اس کے سات بھائی بہن خاک اور خون میں غلطیدہ نظر آتے ہیں۔ نبیلہ کی ضعیف دادی اس کی آنکھوں کے سامنے دم توڑ دیتی ہیں۔
اچھا خاصا ہنستا کھیلتا کنبہ بکھر جاتا ہے۔ اس حادثے پر آج تک سی آئی اے اور امریکہ کی طرف سے کوئی معذرت، ہرجانہ یا توجیہہ نہیں پیش کی گئی۔ نبیلہ کے ننھے سے ذہن میں ایک ہی سوال ہے کہ آخر کیوں ، کس جرم میں، اس کے معصوم بھائیوں اور دادی پر حملہ کیا گیا؟
دو سال بعد، اکتوبر ۲۰۱۴ ؁ء میں، نبیلہ یہی سوال لیے اپنے ٹیچر، والد اور بارہ سالہ بھائی کے ہمراہ امریکہ کا رخ کرتی ہے۔ اسے امید ہے کہ یہاں اس کی شنوائی ضرور ہو گی، لیکن انہیں ہر سطح پر نظرانداز کیا جاتا ہے۔ نہ میڈیا ان کو کوریج دیتا ہے اور نہ ارباب حکومت ان کی بات پر کان دھرتے ہیں۔ آخر امریکی کانگریس کی ایک شنوائی میں نبیلہ کے کنبے کو اس واقعہ کی شہادت کے لیے تاریخ ملتی ہے، جہاں ۴۳۰؍ ارکان کی شرکت متوقع تھی، مگر افسوس، محض ۵؍ لوگ حاضر ہوتے ہیں۔ نبیلہ کے والد ان سے کہتے ہیں کہ انہوں نے اتنی صعوبتیں اٹھا کر امریکہ کا سفر محض اس لیے کیا ہے تا کہ بحیثیت ٹیچر وہ امریکیوں کو بتا سکیں کہ ان کے بچے اور ان کی والدہ کوئی دہشت گرد نہیں تھے، اور نہ ہی وہ دہشت گردوں جیسے نظر آتے تھے۔ اس قسم کے سینکڑوں واقعات اس خطے میں ہوتے رہتے ہیں، جنہیں بند ہونا چاہیے۔
اب ایک اور منظر ملاحظہ کیجیے:
نبیلہ اور اس کے کنبے پر حملے سے محض دو ہفتے پہلے، یعنی اوائل اکتوبر ۲۰۱۲ ؁ء کی ایک دوپہر سوات کی گل پوش وادی سے ایک پرائیویٹ اسکول کی وین بچوں کو لیے اسکول سے واپس ہو رہی ہے۔ اچانک ایک موڑ پر چند نقاب پوش وین کو روکتے ہیں، اور اس میں سوار ہو جاتے ہیں۔ یہ طالبان ہیں جو خطے میں لڑکیوں کی تعلیم کے مخالف ہیں اور اسکولو ں کو بند کرنا ان کا مشغلہ ہے۔ ان میں سے ایک نقاب پوش اپنی گن لہراتا ہوا غراتا ہے، ’’تم میں سے ملالہ کون ہے‘‘، تمام بچیاں ایک ۱۵؍ سالہ بچی کی طرف دیکھنے لگتی ہیں جو بس میں سوار واحد ایسی بچی ہے جس نے نقاب نہیں اوڑھ رکھا ہے۔ نقاب پوش سمجھ جاتا ہے کہ یہی ملالہ ہے۔ وہ اپنی کولٹ ۴۵؍ ریوالور سے بچی پر تین فائر کرتا ہے۔ ایک گولی آنکھ کے قریب سے گزرتی ہوئی گلے میں لگتی ہے۔ ملالہ اپنی سہیلی منیبہ کے اوپر گر جاتی ہے۔ دو گولیاں اس کی ہمجولیوں، کائنات ریاض کے کندھے اور شازیہ رمضان کے ہاتھ پر لگتی ہیں۔ طالبان نقاب پوش ملالہ کو مردہ سمجھ کر بس سے اتر جاتے ہیں۔ ملالہ اور اس کی سہیلیوں کو فوراً قریبی ہسپتال پہنچایا جاتا۔ ملالہ کی حالت بہت نازک ہے۔ اس واقعہ کی خبر جنگل کی آگ کی طرح پوری دنیا میں پھیل جاتی ہے۔ ریڈیو اور ٹی وی طالبان کی اس جارحیت پر چیخنے لگتے ہیں۔ پاکستان، امریکہ اور یوروپ ہر جگہ ملالہ کا تذکرہ ہے اور اس کی زندگی کے لیے اجتماعی دعائیں کی جاتی ہیں اور شمعیں جلائی جاتی ہیں۔ اسے خصوصی طبی امداد پہنچائی جاتی ہے۔ یہاں تک کہ امریکی صدر اوباما اپنے مشیروں سے کہتے ہیں کہ ملالہ کو کچھ نہیں ہونا چاہیے۔ اسے پشاور کے ہسپتال سے ایئر لفٹ کرکے لندن پہنچایا جاتا ہے، جہاں برمنگھم کے ایک ہسپتال میں اس کا بہترین ڈاکٹروں کے ذریعے علاج کیا جاتا ہے، اور حیرت انگیز طور پر ملالہ وہاں تیزی سے رو بہ صحت ہو نے لگتی ہے۔
ملالہ یوسف زئی بہادری اور جرأت کی نئی علامت کے طور پر ابھرتی ہے، لیکن مغرب کے لیے اس سے بھی اہم بات یہ ہے کہ وہ طالبان مخالف ہے۔ اسے امریکہ اور مختلف ممالک سے ۳۴؍ اعزازات سے نوازا گیا۔اقوام متحدہ نے عالمی تعلیم اطفال کے لیے ۲۰۱۳ ؁ء سے ملالہ ڈے منانے کا اعلان کر دیا، اور اس سال کے نوبل امن انعام کے لیے مشترکہ طور پر ملالہ یوسف زئی اور ہندوستان کے کیلاش ستیارتھی کے نام کا اعلان کیا گیا ہے۔ ۱۶؍ برس کی عمر میں ملالہ دنیا کی سب سے کم عمرنوبل انعام یافتہ ہے۔ اس سے پہلے یہ اعزاز ۳۲؍ سالہ توکل کرمان کو حاصل تھا۔
کیلاش ستیارتھی کا تعلق مدھیہ پردیش کے ودیشہ ضلع سے ہے۔ انہوں نے اپنا الیکٹریکل انجنیئرنگ کا پیشہ ترک کرکے حقوق اطفال کے تحفظ کو اپنی زندگی کا مشن بنا لیا۔ وہ محض ۲۶؍ سال کے تھے جب انہوں نے بچپن بچاؤ آندولن کے نام سے ایک این جی او شروع کی اور بہت جدو جہد اور مساعی کے بعد اسے ایک عالمی سطح کی تحریک میں بدل دیا۔ اس تحریک کے ذریعے ہزاروں بچوں کو بندھوا مزدوری ، جبری مزدوری اور بردہ فروشی سے نجات دلائی۔ مختلف تنظیموں کے تعاون سے ستیارتھی نے بڑی کامیابی کے ساتھ بہت سی فیکٹریوں اور گوداموں پر چھاپہ پڑوایا، جہاں بچوں سے جبری مزدوری کروائی جاتی تھی۔ یہ ستیارتھی ہی تھے جنہوں نے ’رگمارک‘ جیسے منصوبے کو کامیاب کیا۔ اس منصوبے کے تحت قالین کی صنعت سے جڑے اداروں کو تصدیق نامہ دیا جاتا ہے کہ ان کے قالین بنانے میں کسی بچے سے مزدوری نہیں کروائی گئی۔ یہ منصوبہ انتہائی کامیاب رہا اور بیرون ممالک میں بچہ مزدوری کے لیے حساسیت پیدا کرنے میں اس نے خاص رول ادا کیا۔ کیلاش ستیارتھی سے ایک بار پوچھا گیا کہ انہیں اس مشن کی تحریک کہاں سے حاصل ہوئی تو ان کا جواب تھا حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم۔ پیغمبر اسلامؐ نے ہمیشہ غلاموں کے حقوق کا خیال رکھنے کی تلقین کی ہے، اور انہیں آزاد کرنے کو بہت بڑی عبادت قرار دیا ہے۔
ستیارتھی کا کام ہندوستان تک ہی محدود نہیں ہے بلکہ ۶۰؍ سے زیادہ ممالک میں ان کی تحریک فعال ہے۔ ۱۹۹۸ ؁ء میں انہوں نے بچہ مزدوری کے خلاف ایک عالمی مارچ شروع کیا جو ایشیا ، افریقہ اور لاطینی امریکہ کے ممالک سے ہوتا ہوا جینیوا میں اختتام پذیر ہوا۔ ایک سال بعد بین الاقوامی محنت کشوں کی تنظیم کی جانب سے ایک قرارداد پاس کی گئی جس کی رو سے بین الاقوامی طور پر خطرناک پیشوں سے بچوں کو تحفظ فراہم کرنے کا معاہدہ کیا گیا۔ تاہم ستیارتھی بھی تنازعات سے گھرے ہیں۔ ستیارتھی کو پروجیکٹ کرنے میں کچھ متنازعہ بین الاقوامی اداروں کے نام آرہے ہیں۔ اس کے علاوہ ستیارتھی اپنے کام کے باوجود ہندوستانی میڈیا کے لیے ابھی تک بہت گمنام سی شخصیت رہے ہیں۔ بچہ مزدوری کے خلاف سب سے پہلی مہم سوامی اگنی ویش نے اپنے بندھوا مکتی مورچہ کے ذریعے چھیڑی تھی۔ ستیارتھی بھی اس تنظیم کا حصہ تھے لیکن بعد میں ان سے الگ ہو کر اپنی نئی تنظیم شروع کرلی۔ فاربس میگزین کی میگھا بریی لکھتی ہیں کہ جب انہوں نے اس تنظیم کا دورہ کیا تو انہیں مختلف جگہوں پر لے جایا گیا جہاں سے بچوں کو ’بچایا‘ گیا تھا۔ ان کی تیز صحافیانہ نظروں نے تاڑ لیا کہ یہ محض غیر ملکی فنڈنگ حاصل کرنے کا حربہ ہے۔ ’’جتنے زیادہ بچے دکھائے جائیں گے اتنی ہی زیادہ غیر ملکی اعانتیں حاصل ہوں گی‘‘۔ مدھو کِشور کے مطابق ۱۲؍ سال پہلے امریکی اور جرمن تنظیموں نے ستیارتھی کی تنظیم کو ۲۰؍ لاکھ ڈالر کا تعاون دیا تھا۔
بایں ہمہ، ستیارتھی کا کام قابل ستائش ہے اور اس میں کوئی شک نہیں کہ انہوں نے ہزاروں بچوں کو جبری مزدوری سے نجات دلائی ہے۔ البتہ ان کے حق میں نوبل امن انعام کا اعلان خالص سیاسی فیصلہ ہے۔ نوبل پرائز کمیٹی کے الفاظ اس بات کی کھلی چغلی کھا رہے ہیں:
’’نوبل کمیٹی کے نزدیک یہ امر اہم ہے کہ تعلیم کی خاطر اور تشدد کے خلاف ایک ہندو اور ایک مسلم، ایک ہندوستانی اور ایک پاکستانی، مشترکہ جدوجہد میں شامل ہوں‘‘۔ یہاں انعام یافتگان کے ہندو اور مسلم تشخص پر زور دینا سیاسی مصلحت سے خالی نہیں ہے۔
نوبل پرائز کمیٹی کے چیئر مین ، تھور بیورن جیگ لینڈ ( Jagland Thorbjorn) نے ان الفاظ میں ملالہ کو خراج عقیدت پیش کیا:
’’ اپنی کم عمری و نو خیزی کے باوجود، ملالہ کئی برسوں سے بچیوں کی تعلیم کی خاطر جدوجہد میں مصروف ہے اور اس نے اس بات کا نمونہ پیش کیا ہے کہ نو عمر لوگ بھی اپنے گردوپیش کے حالات بہتر بنانے میں کردار ادا کر سکتے ہیں۔ اس نے یہ کام انتہائی خطرناک حالات میں انجام دیا۔ اپنی جرأت مندی کے باعث وہ تعلیم نسواں کی سربرآوردہ ترجمان بن چکی ہے‘‘۔
پاکستان کے وزیر اعظم نے اسے فخر پاکستان کہا۔ عمران خان نے بھی ملالہ کو نوبل انعام ملنے پر مبارک باد دی۔ تاہم پاکستان کے عوام کا تأثر ملا جلا ہے۔ جہاں بعض لوگ اسے ستارہ جرأت مانتے ہیں وہیں کچھ لوگ اسے امریکہ کا ایجنٹ بھی سمجھتے ہیں۔
ملالہ کو شہرت اس پر حملے سے کئی برس پہلے مل چکی تھی۔ ۲۰۰۹ ؁ء میں نیو یارک ٹائمز کی ایک ڈاکیومنٹری فلم میں ملالہ کو پروفائل کیا گیا تھا۔ ڈاکیومنٹری کا عنوان تھا ’کلاس ڈسمسڈ‘، اس وقت ملالہ محض ۱۱؍ سال کی تھی۔ فلم میں ملالہ اوباما کے خصوصی نمائندے رچرڈ ہالبروک سے ملاقات کرتی ہے، اور یہ دکھایا گیا ہے کہ سوات میں طالبان کے خلاف آپریشن میں اس نے خاطر خواہ تعاون دیا ہے۔ ۲۰۱۱ ؁ء میں ڈیسمنڈ ٹوٹو ملالہ کو بچوں کے عالمی ایوارڈ کے لیے نامزد کرتا ہے۔ یہ اعزاز ملالہ کو گل مکئی کے قلمی نام سے بی بی سی اردو میں بلاگنگ کرنے اور عالمی میڈیا کو خطے کے حالات سے باخبر کرنے میں اس کے تعاون کے اعتراف میں دیا گیا تھا۔ بہت سے لوگ تعجب کرتے تھے کہ آخر سات آٹھ سال کی بچی سیاسی ڈائریاں کیسے لکھ سکتی ہے۔ یہ الگ بحث ہے کہ بعد میں مختلف ذرائع سے یہ بات سامنے آئی کہ گل مکئی نے نہیں بلکہ بی بی سی کے نمائندے عبدالحئی کاکڑ نے یہ ڈائریاں لکھیں، اور اس کے لئے ملالہ اور اس کے والد سے اجازت لینے کے ساتھ ان کو معاوضہ بھی ادا کیا گیا تھا۔
گل مکئی کے فرضی نام سے ملالہ نے ۲۰۰۹ ؁ء میں بی بی سی پر ڈائری لکھنا شروع کی۔ ڈائری لکھنے کی وجہ اس کا اسکول بند ہونا بتایا گیا ہے کہ طالبان نے اس کا اسکول بند کردیا تھا، اور ملالہ کو اپنی تعلیم جاری نہ رکھنے کا بہت رنج تھا۔ یہاں یہ بات واضح کردی جائے کہ ملالہ یوسف زئی اپنے والد ضیاء الدین یوسف زئی کے اسکول ’’خوشحال پبلک اسکول اینڈ کالج‘‘ میں زیر تعلیم تھی اور اس اسکول کو نہ تو اس وقت تک دھمکیاں دی گئیں تھیں، اور نہ ہی بند کیا گیا تھا۔ اس لیے یہاں یہ بات غلط ثابت ہوئی کہ ملالہ کا اسکول بند ہوگیا تھا جس کے باعث اس نے ڈائری لکھنا شروع کی۔
ملالہ پر حملہ قابل مذمت ہے اور وحشیانہ اور ظلم و بربریت کا منہ بولتا ثبوت ہے لیکن ان ہزاروں بے گناہ اور معصوم لوگوں اور بچوں کو کیوں فراموش کردیا گیا جن کے جسموں کے چتھڑے ڈرون حملوں سے اڑائے گئے۔ جنہیں کفن اور جنازہ بھی نصیب نہ ہوا۔مگر ان کے لیے نہ کوئی آنکھ روئی ، نہ دعا کے لیے کوئی ہاتھ اٹھا، نہ کسی اسمبلی میں قرار داد پاس کی گئی، نہ کوئی واک آؤٹ ہوا، اور نہ شمعیں جلائی گئیں۔ ملالہ کی صلاحیتوں سے انکار نہیں ہے، لیکن پاکستان میں ایسے دسیوں بچے ہیں جو غیر معمولی طور پر ذہین ہیں، مضامین لکھتے ہیں اور ٹی وی پر بھی آتے ہیں۔ ملالہ کو طالبان مخالف آئیکن کی حیثیت سے مغربی این جی اوز نے منتخب کیا۔ اس میں تعجب نہیں ہونا چاہیے کہ اکثر اس کی ملاقات امریکی فوج کے سینیئر افسران، صحافیوں اور ڈپلومیٹس سے کرائی جاتی تھی جیسا کہ ڈاکیومنٹری سے ظاہر ہے۔
ملالہ کی شخصیت تو شروع سے متنازع تھی لیکن رہی سہی کسر اس کی کتاب \’I am Malala\’نے پوری کر دی۔ کتاب پڑھیے تو اس میں جا بجا دل آزار باتیں ملیں گی۔ سلمان رشدی کی حمایت، قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دینے والے واقعہ، ناموس رسالت کے قانون وغیرہ پڑھ کر لگتا نہیں کہ یہ سولہ سالہ بچی کی آواز ہے۔ کتاب لکھنے میں کرسٹینا لیمب نے ملالہ کی معاونت کی تھی۔ محسوس ہوتا ہے کہ بات معاونت سے آگے بڑھ کر رنگ آمیزی تک جا پہنچی ہے۔ مستشرقین کے جتنے اعتراضات اسلام پر ہیں کم و بیش تمام اس کتاب میں مل جائیں گے۔ آل پاکستان پرائیویٹ اسکولز اسوسی ایشن نے تمام پاکستانی پرائیویٹ اسکولوں میں ملالہ کی کتاب پر پابندی عائد کر دی ہے۔ تنظیم کا کہنا ہے کہ کتاب کے متن میں ایسی بہت سی باتیں ہیں جو اسکول کے بچوں کو ابہام میں مبتلا کر دیں گی۔
ایک تجزیہ نگار ڈیوڈ سوانسن لکھتا ہے کہ ’’ملالہ کے مغربی میڈیا میں شہرت کی بلندیوں کو چھونے کی اصل وجہ یہ ہے کہ وہ مغربی استعمار کے دشمنوں کا شکار ہوئی تھی۔ اگر وہ سعودی حکومت یا اسرائیل یا کسی بھی ایسی حکومت کی جارحیت کا شکار ہوئی ہوتی جنہیں مغربی ممالک اپنے مفاد کے لیے استعمال کر رہے ہیں تو نہ تو ہمیں اس پر حملے کی بھنک لگتی اور نہ اس کے اچھے کاز کی خبر ملتی۔ اگر وہ محض پاکستان یا یمن میں ڈرون سے شکار ہونے والے بچوں کی وکالت کرتی تو امریکی ٹی وی ناظرین کے لیے بالکل اجنبی ہوتی۔‘‘
چین میں میڈیا ملالہ کے انعام کو مشکوک نظروں سے دیکھتا ہے۔ چینی میڈیا کے مطابق اس انعام کے ذریعے پاکستان اور افغانستان میں امریکی فوجی مداخلت کو مثبت انداز میں دکھانے کی ایک بھونڈی کوشش کی گئی ہے۔ شنگھائی انسٹی ٹیوٹ آف انٹرنیشنل اسٹڈیز کے ڈائرکٹر ڑاو گانشنگ کے مطابق ’’ملالہ کا پروپیگنڈا افغانستان سے امریکی فوجی دستوں کے انخلا کے ساتھ ہی شروع ہوا تھا۔ مغرب ملالہ کی کہانی کو دیگر ممالک میں اپنی فوجی مداخلت کو حق بجانب ٹھہرانے اور اس کے روشن پہلو مثلاً تعلیم نسواں اور سیاست میں خواتین کی شمولیت کو اجاگر کرنے کے لیے استعمال کر رہا ہے جبکہ اس کے تاریک پہلو مثلاً بڑھتا ہوا تنازع اور پیچیدگی اور بڑے پیمانے پر شہریوں کی ہلاکت کو دبایا جارہاہے۔‘‘
انٹرنیٹ اور فیس بک پر میکنسے اینڈ کمپنی کے بارے میں بہت سے اپڈیٹس آرہے ہیں۔ یہ عالمی مینجمنٹ کنسلٹنگ کمپنی ہے جو ملالہ پروجیکٹ کے پیچھے کار فرما ہے۔ ملالہ کا میڈیا پروموشن بہت کچھ اسی کمپنی کا کارنامہ ہے۔
نوبل امن انعام ہمیشہ متنازع رہے ہیں۔ یہ انعامات یا تو خوشامدی نوعیت کے ہوتے ہیں جو یوروپ اور امریکہ کی سیاسی شخصیات کو خوش کرنے لیے پیش کیے جاتے ہیں یا پھر سرے سے غیرمنطقی۔ اس سال کل ۲۷۸؍ نامزدگیاں تھیں جن میں پوپ فرانسس، کانگو کے ڈاکٹر ڈینس مکویج اور ایڈورڈ اسنوڈین جیسے اہم نام شامل تھے۔ عموماً نوبل امن ایوارڈ امن پسند افراد یا تنظیموں کو ہی دیا جاتا ہے لیکن اس کی تاریخ ایسی بھی رہی ہے کہ انتہائی وحشیانہ ماضی رکھنے والوں کو بھی یہ انعام ملا ہے۔ ایسے لوگوں میں سر فہرست ہنری کسنجر ہے جسے ۱۹۷۴ ؁ء میں شمالی ویتنامی لیڈر لی ڈک تھو کے ساتھ مشترکہ طور پر امن انعام کا حق دار ٹھہرایا گیا تھا۔ کسنجر کو یہ انعام ویت نام میں جنگ بندی کے معاہدے کے لیے دیا گیا جبکہ جنگ اس انعام کے دو سال بعد تک جاری رہی۔۔ لی ڈک تھو نے یہ کہہ کر انعام لینے سے انکار کردیا تھا کہ امن معامدے پر عمل درآمد نہیں ہوا۔ کسنجر تاریخ عالم کے بدترین جنگی جرائم کا مجرم ہے جس نے ویتنام کی جنگ میں کیمیائی ہتھیاروں کا استعمال کیا تھا اور ہزاروں افراد کی ہلاکت کا سبب بنا تھا۔ امن انعام حاصل کرنے کے بعد بھی کسنجر کمبوڈیا کی جنگ میں بربریت کا ننگا ناچ ناچنے سے باز نہیں آیا۔
۱۹۹۴ ؁ء میں یاسر عرافات، اسرائیلی وزیر اعظم شمعون پیریز اور اضحاک رابن کو مشترکہ امن ایوارڈ دیا گیا۔ شمعون پیریز اسرائیل کو نیو کلیئر قوت بنانے کے لیے ذمہ دار تھا۔ اس کے بعد ۱۹۹۶ ؁ء میں اس پر لبنان کے قانا میں قتل عام کروانے کا بھی الزام ہے جس میں ۱۰۶؍ افراد ہلاک اور ۱۱۶؍ زخمی ہوئے تھے۔ رابن اسرائیل کی ملٹری میں افسر تھا جس نے ۱۹۴۸ ؁ء کے نکبہ میں فلسطینیوں پر مظالم کے پہاڑ توڑ ے تھے، اور ان کو ان کے وطن سے ہجرت پر مجبور کیا۔ یہ شخص بھی ہزاروں افراد کی ہلاکت کا سبب بنا۔
۲۰۰۹ ؁ء میں جب نوبل کا امن ایوارڈ امریکی صدر باراک اوباما کی جھولی میں ڈالا گیا تو ساری دنیا پرائز کمیٹی کی اس ستم ظریفی پرششدر رہ گئی۔ اوباما کو صدارت سنبھالے ابھی ۱۲؍ دن ہی ہوئے تھے کہ ان کی’’غیر معمولی امن مساعی‘‘ کی خاطر ان کی نامزدگی عمل میں آگئی۔ جبکہ اوباما نے پاکستان اور افغانستان میں ڈرون آپریشن کو آگے بڑھایا، لیبیا پر بم برسائے اور اب شام پر فوج کشی کر رہا ہے۔ ۲۰۱۲ ؁ء میں انعام یوروپین یونین کو دیا گیا جبکہ سب جانتے ہیں کہ اس کی ماتحت عسکری تنظیم ناٹو افغانستان اور لیبیا میں جارحیت کے لیے ذمہ دار ہے۔ ۲۰۱۰ ؁ء میں ایک چینی لیو شیاباو (Liu Xiaobao) کو اس انعام کا مستحق قرار دیا گیا۔ گزشتہ برس لیو کو ۱۹۸۹ ؁ء میں دنگے بھڑکانے کی پاداش میں ۱۱؍ سال کی قید کی سزا سنائی گئی ہے۔ چین کی وزارت خارجہ نے اس کا سخت نوٹس لیا اور کہا کہ لیو شیاباؤ ایک مجرم ہے جس نے چینی قانون کو توڑا ہے، یہ نوبل انعام کے اصولوں کی صریح خلاف ورزی ہے، اور ایسے شخص کو انعام دینا خودامن انعام کی توہین بھی ہے‘‘۔ ۱۹۷۸ ؁ء میں کیمپ ڈیوڈ معاہدے کے لیے مینکم بگن(Menachim Begin) کو امن انعام دیا گیا۔ بگن دنیا کی پہلی دہشت گرد تنظیم ارگن کا سرغنہ تھا جس نے ۱۹۴۶ ؁ء میں کنگ ڈیوڈ ہوٹل میں بم دھماکہ کیا تھا۔ اس میں ۹۱؍ جانوں کا نقصان ہوا تھا۔
یہ محض چند مثالیں ہیں ورنہ نوبل انعامات کی پوری تاریخ اس قسم کی مثالوں سے بھری پڑی ہے۔
فریڈرک ہیفرمہل ناروے کے ایک وکیل ہیں جو گزشتہ کئی برسوں سے نوبل پرائز کمیٹی کو اس بات پر آمادہ کرنے میں مصروف ہیں کہ امن انعام کے لیے الفریڈ نوبل کی وصیت پر صحیح طور سے عمل درآمد ہو سکے۔ ہیفرمہل نے دو کتابیں بھی لکھی ہیں۔ ان کی حالیہ کتاب \’Nobel Peace Prize: What Nobel Really Wanted\’ میں انہوں نے ۱۹۰۱ ؁ء سے ۲۰۰۹ ؁ء تک کے تمام ۱۱۹؍ نوبیل امن انعامات کا تجزیہ کیا ہے، اور ثابت کیا ہے کہ ان میں سے بیشتر انعامات دینا نوبل کی وصیت کے عین منافی تھا۔ ان کے مطابق گزشتہ دس انعامات میں سے ایک کو چھوڑ کر باقی تمام انعامات بلاجواز اور غیر قانونی ہیں۔ الفریڈ نوبل نے ۱۸۹۵ ؁ء میں اپنی وصیت میں لکھا تھا کہ امن کا انعام اس فرد کو دیا جائے جس نے گزشتہ برس میں ’’ اقوام عالم کے بھائی چارے کے لیے، جاری عسکری جارحیت کے سدباب کے لیے اور امن عالم کے لیے مجلس سازی اور ان کے انعقاد کے لیے سب سے بڑھ کر اور سب سے بہتر کام کیا ہو۔‘‘
ہیفرمہل حالیہ انعام کے بارے میں کہتے ہیں: ’’ملالہ یوسف زئی بہادر ہے، ہو نہار ہے اور دلکش شخصیت کی حامل ہے۔ بچیوں کی تعلیم بہت اہم اشو ہے اور بچوں کی مزدوری کے افسوسناک معاملہ سے بھی چشم پوشی ممکن نہیں۔ یہ دونوں کاز قابل ستائش ہیں۔ لیکن نوبل کمیٹی نے ایک بار پھر نوبل سے وفاداری کا ڈھونگ کیا، اور امن عالم کے اس منصوبے کو مبہم اور مخفی کر دیا جس کا نوبل نے خواب دیکھا تھا۔ اگر یہ کمیٹی نوبل کے لیے وفادار ہوتی تو ضرور اصرار کرتی کہ ملالہ نے ہتھیاروں اور فوج کشی کے خلاف کام کیا ہو، ممالک کے درمیان جنگ بندی کی کوشش کی ہو، اور اسے اس بات کا گہرا شعور ہو، عسکری جارحیت تلے عوام کیسے مصائب سے دو چار ہوتے ہیں۔ نوجوان نسل اس بات کو بزرگوں سے بہتر جان سکتی ہے۔‘‘
ملالہ اور نبیلہ ایک ہی سکے کے دو پہلو ہیں۔ دونوں دہشت گردی کا نشانہ بنے۔ ایک مغرب کی آنکھ کا تارہ ہے اور دوسری کی بات سننا بھی مغرب اور اس کے حواریوں کو گوارا نہیں۔ مغرب کے لیے قابل اعتناء صرف وہی ہیں جو ان کے دشمن کے ہاتھوں جارحیت کا شکار ہوتے ہیں۔ایسی بے حس ، مصلحت کوش اور ترجیح پسند دنیا میں نبیلہ جیسے بچوں کے لیے شاید ہی کوئی ایوارڈ سیرمنی ہو گی، اور شاید ہی اس کے آنسو پونچھنے کے لیے کوئی آگے آئے گا۔ ایسے حالات میں امن کے ان ٹھیکیداروں کے ذریعے عالمی امن انعام کا اعلان ایک المناک اور بیہودہ مذاق کے سوا کچھ نہیں ہے۔

عرفان وحید، سابق مدیر انگریزی ماہنامہ The Companion

نومبر 2014

مزید

حالیہ شمارہ

امتیازی سلوک کے خلاف منظم جدو جہد کی ضرورت

شمارہ پڑھیں

فلسطینی مزاحمت

شمارہ پڑھیں