نئی میقات 2019-20 میں ایس آئی او کے کل ہند صدر جناب لبید عالیہ صاحب سے خصوصی مکالمہ

ایڈمن

”ہماری زیادہ توجہ تعلیمی اداروں پر ہی رہے گی“مکالمہ کار: انس شاکرس: سب سے پہلے اپنی ذاتی زندگی کے بارے میں کچھ بتائیں۔ج: میرا تعلق کرناٹک کے پنینگڑی سے ہے۔ میرے گھر میں والدین کے علاوہ چھ بھائی اور دو…

”ہماری زیادہ توجہ تعلیمی اداروں پر ہی رہے گی“

مکالمہ کار: انس شاکر

س: سب سے پہلے اپنی ذاتی زندگی کے بارے میں کچھ بتائیں۔

ج: میرا تعلق کرناٹک کے پنینگڑی سے ہے۔ میرے گھر میں والدین کے علاوہ چھ بھائی اور دو بہنیں ہیں۔ امی کا تعلق تحریکی خاندان سے تھا البتہ والد صاحب کا گھرانہ بریلوی تھا۔ہمارے گھر کاماحول تحریکی نہیں تھا۔کنڑازبان میں شائع ہونے والے کچھ رسالے جیسے سنمارگہ(Sanmarga) اور انوپما(Anupma) وغیرہ گھر میں آ تے تھے۔یہ میرے زیر مطالعہ رہتے۔ تحریک اسلامی کے بارے میں گھر میں کبھی کبھی حسب موقع بات چیت ہوتی تھی۔گھر پر رہتے ہوئے کبھی ایس آئی او سے قابل ذکر تعلق نہیں رہا۔کبھی گھر سے بھی اصرار نہیں رہا۔بس کبھی کبھی جونیئراسوسی ایٹ سرکل (JAC)کے پروگرام میں جایا کرتا تھا جہاں مسابقوں میں انعامات وغیرہ بھی ملتے تھے۔ اسی درمیان میرے ایک بڑے بھائی اور میں نے ایس ایل سی پاس کیا۔اس کے بعد معاشی مسائل کے سبب میرے دو بڑے بھائیوں نے تعلیمی سلسلہ منقطع کرکے گھر میں معاشی تعاون کر نے کا فیصلہ کیا۔ میں آگے کی پڑھائی سائنس کے میدان میں کرنا چاہتا تھا۔ معاشی کمزوری کے باوجودمیرا شوق دیکھ کر والدہ کا بھی اصرار ہواکہ میں آگے کی پڑھائی مکمل کروں۔

            اس کے بعد جناب کے پی اسماعیل صاحب کے ذریعہ عالیہ کالج کاسر گوڈ(کیرلا)سے متعارف ہوا۔ لیکن جب میں نے وہاں داخلہ لیا تومعلوم ہوا کہ وہاں صرف دینی علوم پڑھائے جا رہے تھے۔ پہلے سال تو مجھے کافی پریشانی ہوئی، تعلیمی سلسلہ منقطع کا خیال بھی کئی مرتبہ آیا۔لیکن آگے کی پڑھائی کو جاری رکھنے کا کوئی دوسرا راستہ نہیں تھا،آخرکاریہیں رکنے کا فیصلہ کیا۔ سات برس کاکورس مکمل کیا۔اس کے بعد کالی کٹ یونیورسٹی(کیرلا) سے بی ایڈ اورپوسٹ گریجویشن مکمل کیا۔

س: آپ کا تحریکی سفر کب اور کیسے شروع ہوا؟

ج:جیسا کہ میں نے بتایا کہ میری والدہ کا تعلق ایک تحریکی گھرانے سے تھا۔والدہ کا تحریکی لٹریچر کا مطالعہ جاری رہتا تھا۔ سنمارگہ، انوپما اور شانتی پرکاشن کی بعض دوسری کتابیں،ترجمہ قرآن اور مولانا مودودی ؒکی تفہیم القرآن وغیرہ گھر میں موجود تھیں،لیکن مطالعہ کا بہت زیادہ ماحول نہیں تھا۔نہ دین کے نظریاتی تصور ہی سے واقفیت تھی۔ بعض تحریکی گھرانوں میں والدہ کے ساتھ جایا کرتا تھا تو ان کے بچوں سے بات چیت ہوا کرتی تھی، بعض دوست بھی تحریک سے وابستہ تھے لیکن گھر کے ماحول کی وجہ سے میرا مزاج غیر جانب دارانہ تھا۔ہم ہر طرح کے پروگرام میں جایا کرتے تھے۔ نہ ابو نے کبھی بریلویت پر زور دیااور نہ والدہ نے تحریک پراصرار کیا، ماڈرن اصطلاح میں آپ (از راہ مذاق) کہہ سکتے ہیں کہ ہم سیکولر مسلم تھے۔

            عالیہ کالج میں داخلے کے بعد شروع کے چار سالوں تک میں ایس آئی او کو زیادہ پسند نہیں کرتا تھا بلکہ ایس آئی او کا مخالف تھا۔ ایس ائی اوکے ممبران سے بحث و مباحثہ کرتا تھا۔ مولانا مودودیؒ پر، جماعت اسلامی کی بنیادی فکرپر تنقید کرتا تھا۔ کالج میں بعض اساتذہ بھی ارکان جماعت تھے لہذاپڑھائی کے وقت ان سے بھی مباحثہ ہوا کرتاتھا۔وہاں سینئر ایس آئی او کے ممبران جونیئرطلبہ پر کافی توجہ دیتے تھے۔ ان کو ایس آئی او سے قریب کرنے کی ہر ممکن کوشش کرتے تھے۔

            چوتھے سال تک مولانا مودودی ؒ کی کوئی کتاب میرے زیر مطالعہ نہیں آئی تھی۔ ایک مرتبہ ایس آئی او کے تمام ممبران ZACالیکشن کے لئے گئے۔واپسی پر ازراہ مذاق میں نے پوچھا ”عہدے کے لئے تو کافی جھگڑا ہو اہوگا آپ لوگوں میں؟“ انہوں نے ہنس کر مجھے بیٹھا یا اور ایس آئی او میں مختلف سطح پرالیکشن کا پورا طریق عمل بتایا، ذمہ دار کا انتخاب کیسے ہوتا ہے، شوریٰ کا نظام کیا ہے، ہاوس کی امانت کیا ہوتی ہے،وغیرہ۔اس طرح تفصیل سے مجھے پورا لیکشن پروسس سمجھایا۔ مجھے یہ جان کر حیرت ہوئی کہ اس طرح منظم انداز میں بھی کوئی الیکشن ہوتا ہے؟ اس کے بعدایس آئی او میں میری کسی قدر دلچسپی پیدا ہوئی۔  ایک مرتبہ یونہی لائبریری میں ٹہلتے ہوئے میری نظر مولانا مودودیؒکی معروف کتاب ”قران کی چار بنیادی اصطلاحات“پر پڑی۔ ایک بورنگ پیریڈ میں پڑھنے کے لئے میں نے اسے لے لیا اور پڑھنا شروع کیا۔مولانا کا مدلل انداز، احادیث سے استدلال، عربی ادب کا حوالہ،ان سب چیزوں نے مجھے بہت متاثر کیااور مولانا کے لئے میرے لیے دل میں احترام کا جذبہ پیدا ہوا۔ اس کے بعد ایک مہینے میں مولانا مودودیؒ کی کم از کم تیس کتابیں میں نے پڑھ لیں۔مولانا ؒکی فکر سے میں بے حد متاثر ہوا۔ اس کے بعد ایس آئی او کے کئی مظاہروں میں شامل ہونے کا موقع ملا۔میں ایس آئی اوکے ایکٹیوزم سے بھی متاثر ہوا۔ عالیہ کالج کے ایس آئی او کے سینئر ممبران کوجب معلوم ہوا کے تنظیم کے سلسلے میں میری رائے بدلتی جا رہی ہے اور میں کئی کتابوں کا مطالعہ بھی کر چکا ہوں تو آخر میں انہو ں نے مجھے ایس آئی او کا دستور دیا۔ مجھے محسوس ہوا کہ ایک تنظیم کوچلانے کے لئے یہ ایک بہت منظم دستور ہے۔ دستور کا مجھ پر نہایت مثبت اثر ہوا اور شرح صدر ہو گیا کہ ایس آئی او اپنی ایک مستقل فکر رکھنے والی تنظیم ہے جس کے مقاصد بہت اعلی ہیں جس کا شاندار دستو ر ہے۔ اس کے بعد میں نے تنظیم سے وابستہ ہونے کاکا فیصلہ کیا اور 2012 میں جناب اشفاق شریف صاحب کی میقات میں مَیں ایس آئی او کاباضابطہ ممبر بن گیا۔

س: کن تحریکی کتابوں نے آپ کی ذہن سازی میں کلیدی رول ادا کیا؟

ج: جیسا کہ میں نے ذکر کیا، سب سے پہلے قرآن کی چار بنیادی اصطلاحات، پھر پردہ، پھرالجہاد فی الاسلام وغیرکا مطالعہ کیا۔ اخوان المسلمین کی کتابوں سے بھی استفادہ کیا۔ سید قطب شہیدؒکی فی ظلال القران، اور حسن البناؒ کی تحریروں نے بھی مجھے متاثر کیا ہے۔

س:ایک تحریکی شخص کی زندگی میں قرآن مجید کی کیا حیثیت ہونی چاہیے؟

ج: ایس آئی او کی نئی میقات کی پالیسی آپ دیکھیں گے تو معلوم ہوگا کہ ہم قرآن مجید کوفرد کے تزکیہ کی بنیاد سمجھتے ہیں۔قرآن مجید محض تلاوت و تبرک کی کتاب نہ بن جائے بلکہ اس پر غور و فکر،تدبر و تفکر کیا جائے۔ اس کا عکس ہماری زندگی میں، ہمارے سماج میں نظر آنا چاہیے اور یہی ہمارے وابستگان سے مطلوب ہے۔

رسول اکرم ﷺ کے متعلق کہا گیاکہ”کان خلقہ القران“ ان کا کردار قرآن تھا۔ وہ چلتے پھرتے قرآن تھے۔ لیکن یہ شعور ابھی ہمارے وابستگان میں بہت کم ہے۔ وہ کبھی کبھی قرآن پڑھ لیتے ہیں،اجتماعات میں درس قرآن سنتے ہیں لیکن روز مرہ کی زندگی میں قرآن نظر نہیں آتا۔ قرآن کا جو اثر ہماری گفتگو میں، ہماری فکر میں نظر آنا چاہئے وہ نہیں ملتا۔

            دوسری چیز یہ کہ ہم کوئی بھی لٹریچر پڑھیں ہماری عینک قرآنی ہونی چاہئے، ہر چیز کو دیکھنے کا ہمارا زاویہ قرآنی ہونا چاہئے تاکہ اس فکر کی کمزوریاں ہم پر واضح ہو جائیں۔ اس کے لئے قرآن کا گہرا مطالعہ لازمی ہے۔ ایس آئی او نے پچھلی کئی میقاتوں میں اپنے وابستگان میں قرآنی سمجھ پیدا کرنے کے لئے عربی زبان کی تدریس کا تجربہ بھی کیا ہے۔لیکن اب بھی یہ محسوس ہوتا ہے کہ ہمارا کیڈر قرآن کو اس انداز میں سمجھنے میں کامیاب نہیں ہوسکا ہے۔اس میقات میں بھی ہم نے یہ پروگرام بنایا ہے کہ ہمارے ممبران تفہیم القرآن کا مطالعہ کریں گے تاکہ ہمارے ممبران کا قرٓن سے تعلق مضبوط ہو اوروہ کم از کم ایک مرتبہ قرآن کو اور اس کے احکام کو سمجھنے کی کوشش کریں۔

س:اسلام اور تحریک اسلامی کو سمجھنے کے سفر میں کن اسلامی مفکرین اور مصنفین سے آپ زیادہ متاثر ہوئے؟

ج:میری تعلیم مکمل طور پر ایک دینی ادارے میں ہی ہوئی ہے۔ کئی  معروف اسلامی اسکالرس کو بطور سبجیکٹ پڑھنے کا موقع مجھے ملاہے۔سب سے زیادہ جن سے میں نے استفادہ کیا ہے وہ امام غزالیؒ ہیں۔ ان کی کتاب احیاء علوم الدین کافی اہم کتاب ہے۔اس کے علاوہ اسلامی فقہ کا بھی مطالعہ کیا۔ جہاں تک تحریک اسلامی کی بات ہے تو ایس آئی او سے وابستہ ہونے سے قبل میں نے حسن البناشہیدؒ، سید قطب شہیدؒ کی کتابوں کا مطالعہ کیاتھا۔ جب میں تحریک سے وابستہ ہوا تومولانا مودودیؒ، صدر الدین اصلاحیؒ اور دیگر تحریکی مصنفین کو پڑھا۔سب سے زیادہ متاثر میں مولانا مودودیؒ اور سید قطب ؒکے لٹریچرسے ہوا۔ ان حضرات کا میری تحریکی فکر بنانے میں ایک اہم کردار ہے۔

س:گزشتہ میقات میں آپ ایس آئی او کے قومی سکریٹری رہے۔ اُس میقات میں تنظیم نے کس کس محاذ پر کیا پیش رفت کی؟

ج: گزشتہ میقات میں تنظیمی استحکام اور انسانی وسائل کا فروغ ہماری توجہ کا اصل مرکز تھے۔الحمدللہ اس میں ہم بہت حد تک کامیاب رہے۔اس میقات میں تین ہزارسے زائد افراد تحریک کے قافلہ شوق میں شامل ہوئے ہیں۔ بالخصوص شمالی ہند سے ایک بڑی تعداد ایس ائی او سے وابستہ ہوئی ہے۔ سماج میں مین اسٹریم آرگنائزیشن کے طور پر ہم ابھر کر آئے ہیں۔اُس میقات میں خاص بات یہ رہی کہ جواہر لعل نہرو یونیورسٹی، دہلی یونیورسٹی اور حیدرآباد سینٹرل یونیورسٹی جیسے بڑے کیمپس سیاسی اور سماجی طور پر کافی متحرک ہو گئے۔ وہاں ہم نے طلبہ یونین الیکشن میں حصہ لیا۔ اب تواسلامی تحریک کے مخالفین کی جانب سے وہاں ”no modi no moududi” کا نعرہ بھی بلند ہوگیاہے۔ایس آئی او ان تعلیمی اداروں میں ایک بہترین انداز میں سامنے آئی ہے۔ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ ہم وہاں ایکnarrative setکرنے میں کامیاب رہے ہیں۔وہاں اسلام گفتگو کا ایک مستقل موضوع بن چکاہے۔ بالجبر غائب کردیے گئے طالب علم نجیب احمدکی بازیابی کی پوری تحریک کو ہم نے ہی کھڑا کیا اور اب تک زندہ رکھا ہے۔

س:ایس آئی او کے قیام کو اب 37 برس سے زیادہ ہوچکے ہیں۔آج ہندوستانی طلبہ ایکٹیوزم میں ایس آئی او کا کیا مقام ہے؟

ج:آج ایس آئی او کے قیام کو 37 سال ہو چکے ہیں۔ ایس آئی او ملک کی سب سے بڑی مسلم طلبہ تنظیم ہے۔ ابتدا سے ہر میقات میں مختلف محاذ پر کام ہوا ہے۔طلبہ کے درمیان بھی ہم مختلف مسائل پر ذہن سازی کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں۔پہلے ہم صرف تعلیمی بیداری کے لئے کام کررہے تھے لیکن اب ہم خود ملکی اور بین الاقوامی کانفرنس منعقد کرتے ہیں۔ کیمپس میں ہماری ایک پہچان بنی ہے۔ تعلیم اور طلبہ سے متعلق کوئی بھی مسئلہ سامنے آتا ہے تو اس کے لئے صف اول میں جدوجہد کرنے والی تنظیم ایس آئی او ہی ہوتی ہے۔ لیکن یہ سفر طویل اور صبر آزما ہے۔ ابھی مزید جد وجہد کرنا ہے۔ ہمارے بیانیہ کو عوام تک،عام طلبہ تک پہنچا نا ہے۔ مختلف ریاستی جامعات اور کالج میں ہماری پہنچ کم ہے،اس کو مضبوط کرنے کی ضرورت ہے۔ اس میقات میں اس پر ہماری توجہ رہے گی کہ ہم ریاستی جامعات اور کالجوں میں بھی اپنی پہنچ بڑھائیں اور وہاں بھی اسلام کو ایک ڈسکورس بنائیں، وہاں بھی طلبہ کے مسائل کو حل کرنے کی کوشش کریں۔

ان 37 سالوں میں ایس آئی او کا سفر الحمدللہ بہترین رہا۔ ہم نے مختلف محاذ پر کام کیا ہے۔ہم نے طلبہ کے مسائل کا حل بھی پیش کیاہے۔ سماج کے مسائل کو موضوع بحث بنایاہے۔دعوتی میدان میں بھی کام کیاہے۔ ملت کے مسائل پر بھی توجہ دی ہے۔ ایس آئی او کا اب تک کا37 سالہ سفر اطمینان بخش ہے۔ یہ ہمارے سابق ذمہ داروں کی بہترین اور پرخلوص کوششوں کا ثمرہ ہے۔ ہم اپنا احتساب کرتے ہوئے مزید نئے محاذوں پر کام کرنے کی کوشش کریں گے۔

س:کیا نئی میقات کی مرکزی پالیسی میں کوئی قابل ذکر بہتری لائی گئی ہے؟

ج:ہاں، کئی تبدیلیاں کی گئی ہیں۔بنیادی طور پر دیکھا جائے تو محض الفاظ کی تبدیلی نہیں ہوئی ہے،جیسا کہ پچھلی پالیسیوں میں ہوتا رہا ہے۔بلکہ اس مرتبہ ہم نے کافی وقت ہمارے37 سالہ سفر کی آڈٹنگ میں صرف کیا اور اس بات کی ضرورت محسوس کی کہ پالیسی میں کچھ چیزوں کا اضافہ کیا جائے اور بعض چیزوں کو حذف کیاجائے۔لہٰذا اس پالیسی میں ہم نے کئی اہم تبدیلیاں کی ہیں۔

            اس مرتبہ ہم نے ماحولیات پر ایک نئی پالیسی کا اضافہ کیا ہے۔کیونکہ قران نے ”استمارۃ الارض“کا تصور دیا ہے کہ یہ زمین ہمارے لئے امانت ہے۔ آج جو ماحولیاتی مسائل درپیش ہیں ان کو سامنے رکھتے ہوئے پالیسی میں اس موضوع پر توجہ دی گئی ہے۔

            جامعات کے مسائل کو سامنے رکھتے ہوئے بھی ہم نے پالیسی میں بعض نکات کا اضافہ کیا ہے۔ آج کل جامعات میں اسلاموفوبیا کا اثر بڑھ رہا ہے اور اقلیات پر ظلم وستم کی ایک منظم سازش کی جارہی ہے جس کی مثال روہت ویمولا اور نجیب ہیں۔ طلبہ کاکمزور اور اقلیتی طبقہ ان مسائل سے دوچار ہے لہٰذا ان مسائل کو سامنے رکھتے ہوئے بھی ہم نے پالیسی میں بعض نکات کا اضافہ کیا ہے۔دعوت کے ضمن میں بھی ہمارا اسٹیٹمنٹ تبدیل ہوا ہے۔انٹرپرینئرشپ کی  پالیسی کو ہم اس میقات میں بھی برقرار رکھیں گے۔ کلچرل ایکٹوزم کے متعلق بھی ہم نے کافی ڈسکشن کے بعد یہ پالیسی بنائی ہے کہ ہم کلچرل ورکشاپ منعقد کریں گے۔ الغرض، ہم سے اس مرتبہ پالیسی کو از سر نو فریم کیا ہے۔

س:آپ کی نظر میں اس وقت تنظیم کو کیاتحدیات (challenges)در پیش ہیں؟

ج:داخلی تحدی کی اگر بات کریں تو ہمیں اس بات پر توجہ دینے کی ضرورت ہے کہ ہمارا تنظیمی ڈھانچہ ہمارے لئے بوجھ نہ بن جائے۔اور کہیں ہم اسی کو سب کچھ سمجھ کر اسی پر اکتفا نہ کرلیں۔ جس تحریک کو لے کر ہم اٹھے ہیں وہ متاثر نہیں ہونا چاہئے۔ ہمارا یہ تنظیمی ڈھانچہ بھی اسی لئے بنایاگیا ہے کہ تحریک کا کام آسان ہو۔تحریک کے لئے تنظیمی ڈھانچہ کبھی رکاوٹ نہیں بننا چاہئے۔  دوسرا اہم چیلنج یہ ہے کہ ہمارے 37 سالہ سفر میں اب تک ممبرس کی تعدا دبہت معمولی رہی ہے۔ ایک ملکی سطح کی تنظیم ہونے کی حیثیت سے ہمارا انسانی وسائل(Human Resource)کافی کم ہے۔ ہم نے اپنے نصاب پر بھی نظر ثانی کے لئے ایک کمیٹی تشکیل دی ہے۔انشاء اللہ اس میقات میں ہم نئے نصاب کو بھی متعارف کرائیں گے تاکہ طلبہ اور نوجوان با آسانی ہمارے قریب آسکیں اور تنظیم سے وابستہ ہو سکیں، اس کے بعد ان کی تربیت ہوسکے۔

            خارجی تحدیات میں ایک اہم بات یہ ہے کہ ہمارے وابستگان کاخارجی دنیا سے، سماج سے ایک اچھا رابطہ ہو۔ ہم سماج میں صرف پروگرام کرنے نہ جائیں بلکہ سماج میں ہر وقت ہم موجودرہیں اور اس سے رابطہ میں رہیں۔یہ کلچر ابھی ہمارے پاس نہیں ہے۔

            ایس آئی او نے ہمیشہ ہی تحدیات کا سامنا کیا ہے، تعلیمی اداروں میں بنیاد پرستی اورفرقہ پرست ہونے کے الزامات لگے ہیں کیونکہ جہاں بھی ہم اسلام کی بات کریں گے ہماری مخالفت ہونی تو یقینی ہے۔ اگر ہم داخلی طور پر مضبوط ہیں اور اپنے ڈسکورس کو لوگوں کے سامنے رکھنے میں کامیاب ہیں تو یہ زیادہ بڑا مسئلہ بھی نہیں ہے۔ ہماری پالیسی میں پہلے ’غالب ڈسکورس‘میں حصہ لینے کی بات تھی لیکن اب الحمدللہ ہم اس پوزیشن میں ہیں کہ ہم نے پالیسی سے ’غالب ڈسکورس‘کے الفاظ بھی نکال دیئے ہیں۔اب ہم اپنا ڈسکورس خود کھڑا کریں گے۔ کیمپس میں ہم دوسروں کے ایجنڈے کے تحت کھڑے کیے گئے ڈسکورس کے بجائے اپنے نظریہ،اپنے ڈسکورس کو رکھیں گے تاکہ وہ طلبہ کی گفتگو اور ان کی بات چیت کا موضوع بن سکے۔ یہ ہمارے لئے ایک چیلنج رہے گا کہ ہم کس طرح اپنا ڈسکورس عام لوگوں تک پہنچا ئیں اور اسے موضوع گفتگو بنائیں۔

س: اس ملک میں ایک اسلامی طلبہ تنظیم کے لئے کیا امکانات ہیں؟

ج:اس ملک میں ہمارے لئے کئی امکانات اور مواقع ہیں۔ ہمارے مقاصد میں شامل ہے کہ اسلام کی طرف طلبہ اور نوجوانوں کی فکری رہنمائی کی جائے۔ عام طلبہ کی بات تو دور خود ہمارے نوجوان بھی اسلامی فکر سے ابھی صحیح انداز میں واقف نہیں ہیں۔لیکن کیونکہ یہ دور تعلیمی سرگرمی کا دور ہے، مسلم طلبہ بھی اب اس میدان میں آگے آ رہے ہیں۔ مستقبل میں ایس آئی او کے لئے کافی امکانات ہیں۔

            ہم اب تک جس کیمپس میں گئے ہیں اور اسلام کے بارے میں بات چیت کی ہے، ہر جگہ ایک مثبت اور حوصلہ بخش رد عمل ہمیں ملا ہے۔ہم کبھی بھی کیمپس میں پیچھے نہیں رہے۔ہر مرتبہ نئے میدان ہمارے سامنے کھلے ہیں۔ہندوستان ایک زرخیز سرزمین ہے یہاں آپ جیسا بیج بوئیں گے ویسی فصل آپ کاٹیں گے۔

س:نئی میقات کے لئے آپ کے کیا عزائم ہیں، اور وابستگان تنظیم سے آپ کی کیا توقعات ہیں؟

 ج:آپ ہماری پالیسی پڑھیں گے تو معلوم ہوگا کہ اس مرتبہ ہم ملکی اور ریاستی دونوں سطحوں پر جامعات اور کالجوں میں زیادہ سے زیادہ کام کرنے کی کوشش کریں گے۔ بطور طلبہ تنظیم ہماری زیادہ توجہ جامعات اور کیمپس پر ہی رہے گی۔ کوشش یہ رہے گی کہ ہم باہر سے زیادہ کیمپس میں اپنی سرگرمی انجام دیں۔

            کئی جگہوں پر جہاں تنظیم کمزور ہے یا شمال مشرقی علاقے کے حلقے جو ابھی ترقی پذیر ہیں،ان پر توجہ دی جائے گی۔ انسانی وسائل کی تعداد بڑھانا اور ان کی تربیت کرنا بھی ہمارے سامنے ایک چیلنج ہے۔ایس آئی او اب ایک سماجی تحریک تو بن چکی ہے البتہ اب اسے مزید زمینی سطح تک پہنچا نا اور ملکی سطح سے گاؤں گاؤں قریہ قریہ تک اس کے پیغام کو عام کرنا، طلبہ میں اسے موضوع گفتگو بنانا ہماری ذمہ داری ہے۔کیمپس میں دعوت کے میدان میں کیا کام کرنا ہے۔اس پر ہم نے کافی ورک آوٹ کیاہے۔بھگوا طاقتیں جواب کھل سامنے آچکی ہیں اور ملک کی اقلیات کے لئے خطرہ بنتی جارہی ہیں،ان سے دفاع کا کیا طریقہ ہے،اس پر بھی ہم کام کریں گے۔             تنظیم کے افراد سے وہی توقع ہے جس کو قرآن اس طرح بیان کرتا ہے”ان اللہ اشتریٰ من المومنین انفسھم و اموالھم بان لھم الجنہ“مطلوب یہی ہے کہ ہماری ساری محنت، فکر،تعلیم اور صلاحیت سب اسلام کے لئے لگا دی جائیں، جتنے اخلاص کے ساتھ ہم اپنی صلاحیتوں کو اس جد و جہد میں لگائیں گے تنظیم اتنی ہی ترقی کرے گی۔         

حالیہ شمارے

براہیمی نظر پیدا مگر مشکل سے ہوتی ہے

شمارہ پڑھیں

امتیازی سلوک کے خلاف منظم جدو جہد کی ضرورت

شمارہ پڑھیں