میرے سفرحیات کی ہم نشین:اسلامی معاشیات

ایڈمن

عصر جدید میں علم معیشت اسلامی کے آفریدگارپروفیسر محمد نجات اﷲ صدیقی کی خصوصی تحریر قسط اول ترجمہ: عبدالباری مومن میری زندگی کا بڑاحصہ اسلامی معاشیات کی ہم نشینی میں بسرہواہے ۔حالاں کہ اسکولی زندگی میں سائنس کے مضامین میرے…

عصر جدید میں علم معیشت اسلامی کے آفریدگارپروفیسر محمد نجات اﷲ صدیقی کی خصوصی تحریر

قسط اول
ترجمہ: عبدالباری مومن

میری زندگی کا بڑاحصہ اسلامی معاشیات کی ہم نشینی میں بسرہواہے ۔حالاں کہ اسکولی زندگی میں سائنس کے مضامین میرے مطالعہ کا محورتھے۔ 1949 میں جب میں نے بی اے کی تعلیم کے لیے علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی کا رُخ کیا تو میرا رجحان معاشیات، عربی اور انگریزی ادب کی طرف ہوگیا۔اس کی ایک وجہ میرا مطالعہ کا شوق تھا۔میں بلا ناغہ الہلال اور البلاغ کا مطالعہ کیا کرتا تھا۔ جیسا کہ آج سب کو معلوم ہے یہ اخبارات تحریک آزادی کے مشہور رہنما، نقاد، شاعر اور فلسفی مولانا ابوالکلام آزاد ؒ (1888-1958) کی ادارت میں شائع ہوا کرتے تھے۔ میں التبلیغ کا مطالعہ بھی کیا کرتا تھا۔دیوبندی فکر کے مشہور عالِم مولانا اشرف علی تھانویؒ سے بھی متاثر تھا۔ وہ اس زمانے کی مشہور کتاب بہشتی زیورکے مصنف تھے جو خاص طور سے خواتین کے لیے لکھی گئی تھی اور ہر دلہن کو اس کی شادی کے موقع پر جہیز کے ساتھ دی جاتی تھی۔

اس وقت کے بہت سے نوجوانوں کی طرح میں بھی مولانا ابوالاعلیٰ مودودیؒ (1903-1979)کی تحریروں کا مطالعہ کیا کرتا تھا۔ندوۃُالعُلماء میں دیے گئے ان کے خطبات اور علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی کے لیے ان کی مجوزہ اسکیم سے میں بہت متاثر ہوا تھا۔ یہ خطبات بعد میں ان کی کتاب تعلیمات کا حصہ بنے۔ان علماء کے افکار کے زیر اثر میں نے اپنا پہلے کا طے شدہ سائنس اور انجینیرنگ کا کیریئر ترک کردیا ۔ اب میں عربی زبان سیکھ کر براہ راست اسلامی مآخذ سے استفادہ کرکے یہ سمجھنا چاہتا تھا کہ اسلامی تعلیمات اور جدید طرز زندگی کیسے ایک دوسرے پر اثر انداز ہو تے ہیں۔ یہ میرا مستقل مِشن بن گیا، حالانکہ اس مقصد کو حاصل کرنے کی لیے مجھے چھے سالوں تک اپنی رسمی تعلیم سے دوررہناپڑا۔ یہ پورا عرصہ میں نے جماعت اسلامی ہندکی ثانوی درس گاہ رام پوراورمدرستہ الاصلاح سرائے میرمیں گزارا۔اس کے بعد میں معاشیات میں پی ایچ ڈی کرنے کے لیے واپس علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی آگیا۔

علی گڑھ میں اس وقت کے مشہور ما ہر معاشیات ڈی پی مکرجی کے لیکچرس میں نے سنے۔یہ بھارت میں سوشلسٹوں کے اپنے عروج کی طرف سفر کا زمانہ تھا۔ اس وقت اسلام اور اس سے تعلق رکھنے والی ہر چیز کو صرف سوشلسٹ مخالف ہی نہیں بلکہ سرمایہ داری حامی بھی سمجھا جاتاتھا۔ اساتذہ بھی اس سے بَری نہیں تھے۔لیکن طلبہ تنظیم اسلامی مزاج کی حامل تھی۔ اس بنا پر کلاس روم اور یونی ورسٹی کیمپس میں ایک زبر دست بحث و مباحثہ کا ماحول بن گیا تھا۔ شعبہ معاشیات کے وِزیٹنگ پروفیسرس میں ممتاز ماہرین معاشیات جیسے برطانیہ کے جے آر ہِکس اور ما بعد کینس معاشیات کے ماہر جان رابِنسَن شا مل تھے۔ان کے لیکچرس کے بعد لازمی طورسے بحث ہوتی تھی جو عموماًسوشلسٹ منصوبہ بندی بمقابلہ غیر منظم مارکیٹ کی نظری بنیادوں پرہوتی تھی۔

1972میں تحریر شدہ میری کتاب ’’ اسلام کا معاشی نظام‘‘ پر انہی مباحث سے کے اثرات تھے۔ ہم جو کچھ سیکھتے ہیں اور جس پر بحث و مباحثہ کرتے ہیں وہ سختی سے موجودہ دور سے متعلق اور اس دور کی ضروریات کے مطابق ہوتا ہے۔ جب وہ دور گزر جاتا ہے اور نئی تحدّیاں (Challanges) ہمارے سامنے آتی ہیں تو ہمارا محور فکر بھی بدل جاتا ہے۔ کتابوں میں کچھ ٹھوس اور مستقل باتیں ہونی چاہئیں۔ اس کا ثبوت یہ ہے کہ میری کتاب ’’ اسلام کا معاشی نظام‘‘ اگرچہ نہایت سادہ اور آسان زبان میں تھی۔ لیکن پھر بھی وہ طلبہ کو متاثر کرہی تھی۔اس کا سبب یہ تھا کہ یہ کتاب کردارِ اسلامی اور اسلام کے معاشی نظام کو بیان کرنے کے لیے ایک قالب پیش کررہی تھی اور یہ مکمل طور سے قرآن و سنّت پر مبنی تھا۔یہ کتاب صرف سوشلزم اور سرمایہ داری پر تنقید ؂نہیں کرتی تھی، جیسا کہ اس موضوع پر شائع ہونے والی دیگر کتابوں کا حال تھا۔ بلکہ وہ معاشی رجحانات کو سمجھنے اور پالیسی کی تشکیل کے لیے الوہی رہنمائی کی طالب تھی۔ اگرچہ کتاب نامکمل لگتی تھی اور بصیرت و فہم کے اعتبار سے زیادہ گہرائی میں اتری ہوئی نہیں معلوم ہورہی تھی۔اس کتاب میں تعاون باہمی کے معاملات میں اطلاعات اور معلومات کے حصول اور ان کی اشاعت میں درپیش مسائل کا احاطہ نہیں کیا گیا تھا۔جب ہم معاشی ترقی کے ایک دوَر سے دوسرے دوَر کی طرف ، یعنی زراعتی دوَر سے صنعتی دوَر کی طرف، صنعتی دوَر سے خدماتی دوَر کی طرف اور خدماتی دوَر سے اطلاعاتی اور نالج کے دوَر کی طرف بڑھتے ہیں تو معاشی عوامل کے درمیان با معنی تعاون باہمی کے لیے درکار معلومات (انفارمیشن) کی نوعیت اور مقدار بھی بدلتی ہے۔ایسا صرف پچھلے دو دہوں میں ہوا ہے کہ علم معاشیات نے ایک باقاعدہ پیشے کی حیثیت اختیا رکی ہے اور اس میدان میں بامعنی ترقی کی ہے۔


کچھ عرصے بعد مجھے خیال آیا کہ معاشی عوامل کی نشان دہی کے لیے ایک نئے اپروچ کی ضرورت ہے۔کیوں نہ خریدار یا صارف اورآجر یا فروشندہ کی بجائے عوامل کے درمیان ان کے خاندان کو بنیاد بنایا جائے۔ اس کا ایک فائدہ مجھے یہ نظر آیا کہ معاشی ضروریات کی تکمیل کے لیے سب سے پہلے خود کو ترجیح دینے کے ترغیبی عمل کی اہمیت گھٹ جائے گی۔ خاندان کا فرد ہونے کی حیثیت سے ہم ایک دوسرے کے ساتھ شفقت و محبت اور ہمدردی کا تعلق رکھتے ہیں۔ یہاں خود غرضی سے قبل عطیہ،کرم، بخشش اور دادو دہش کے جذبات پنپتے ہیں۔مروّجہ علم معاشیات نے مارکیٹ کو اہم ترین معاشی قوت کا درجہ عطا کیا ہے اور خاندان کے کردار کو پسِ پشت ڈال دیا ہے۔ معاشیات کے اس نظریے نے مسابقت کو ترقی کا انجن قرار دیا اور تعاون باہمی کی اہمیت کو نظر انداز کردیا۔جبکہ علم بشریات (Anthropology) کی تحقیقات نے اس نظریے کی دھجیاں اڑاکر رکھ دی ہیں۔ دراصل ہوا یہ کہ اسلامی معاشیات پر کام کرنے والوں کو بیسویں صدی کے وسط کے ماحول اور اس کے مخصوص مزاج نے ٹھگ لیا۔ ہم نے خاندانی نظام سے تعلق رکھنے والے بیش بہا اسلامی لٹریچر کو نظر انداز کردیا۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ہم نے متبادل (اسلامی) نظام معیشت کی اصل بنیاد گم کردی۔ اس کی بجائے ہم مروّجہ معاشیات کے بتائے ہوئے راستے یعنی قلّت، حُبِّ ذات ، مسابقت ، تکاثر اور اسی قبیل کی چیزوں کو لے کر چل پڑے۔یہ راستہ جارحیّت کی طرف لے جاتا ہے اور
آج انسانیت کے تمام دکھوں کا اصل سبب ہے۔


ہم رکے نہیں۔ 1968 میں میری کتاب ’’ اسلام کا نظریہ ملکیت‘‘ شائع ہوئی۔ کچھ لوگوں نے محسوس کیا کہ اس کتاب میں میرا جھکاؤ سوشلزم کی طرف پایا جاتا ہے۔ میرے خیال میں اس کا سبب یہ تھا کہ مَیں نے اس میں ملکیتی حقوق کی حدود بیان کی ہیں اور دوسروں کے تئیں مالک کے حقوق کو زیادہ اہمیت دی ہے۔ایک طویل باب میں مَیں نے قرآن و حدیث اور تاریخی مثالوں کے حوالوں سے یہ بات ثابت کرنے کوشش کی ہے کہ عوام کی بنیادی ضروریات کی تکمیل اور دولت و آمدنی کی عدم مساوات کو کم کرنے کے لیے حکمراں ملکیتی حقوق میں دخل اندازی کرسکتے ہیں۔میری اس کتاب نے اسلامی معاشیات کے حامیوں پر یقیناً اپنے اثرات مرتب کیے ہوں گے۔


علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی کے شعبہ معاشیات میں اسلام کو معاشیات کے ساتھ ملانے کے سلسلے میں بہت سے تحفظات تھے۔جب میں نے غیر سودی بینک کاری کے موضوع پر پی ایچ ڈی کرنے اور تحقیقی مقالہ لکھنے کاارادہ ظاہر کیاتو مجھے کہا گیا کہ اس کی بجائے میں ’’ منافع کے جدید نظریات پر تنقیدی نگاہ‘‘ کو موضوع بناؤں تاکہ ممتحن حضرات کو کدورت نہ ہو۔ چنانچہ میں نے زندگی کی سب سے اہم
حقیقت ’’غیر یقینیت‘‘ کو اپنے مطالعہ کا مرکز بنایا۔اگرچہ یہ موضوع زندگی کے ہر شعبے سے تعلق رکھتا ہے لیکن بلا شبہ معاشیات سے اس کا ایک خاص تعلق ہے۔ اگرچہ شعبہ میں بہت کم افراد معاشیات کو اسلام کے ساتھ جوڑنے کے خیال سے متفق تھے لیکن یہ نظریہ پھیلتا گیا۔ دوسری جامعات میں بھی میرے ہم خیال کچھ لوگ موجود تھے۔ہم نے مل جل کر ایک رسالہ ’’ اسلامک تھاٹ‘‘ (1954-1971) شائع کیا۔ یہ رسالہ پڑوس کے کچھ ممالک تک بھی ہمارے خیالات کی رسائی کا ذریعہ بنا۔ قاہرہ یونی ورسٹی سے ہمیں معاشیات کے پروفیسرعبداﷲ العربیؒ جیسے مربی ملے۔ مولانا مودودیؒ ، سید قطبؒ ، انور اقبال قریشیؒ اور نعیم صدیقیؒ جیسے مسلم اسکالرس نے اپنی تصانیف میں اس فکر کو شرح و بسط کے ساتھ پیش کرنا شروع کیا۔ یہ وہی فکر تھی جسے فلسفی شاعر ڈاکٹر علامہ اقبال (1877-1938) نے اپنی شاعری کے ذریعہ دنیا بھر میں مشہور کردیا تھا۔


ان واقعات کے نتیجے میں1976 میں شہر مکہ میں اسلامی معاشیات پر پہلی بین الاقوامی کانفرنس کا انعقاد ہوا، جس میں بہت سی یونی ورسیٹیوں کے وائس چانسلر حضرات شریک ہوئے۔ علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی کے وائس چانسلر اے ایم خسرو(1925-2003) جو ایک ماہر معاشیات تھے، شریک ہوئے۔ واپسی پر
انھوں نے یونی ورسٹی کے شعبہ معاشیات کو تجویز پیش کی کہ وہ اسلامی معاشیات کی تدریس کے لیے پیش قدمی کریں۔اس بات سے حوصلہ پاکر میں نے بھی بورڈ آف اسٹڈیز میں ایک تجویز پیش کی کہ اسلام کے معاشی نظریہ پر ایم اے میں ایک کورس شروع کیا جائے۔ یہ تجویز صرف ایک ووٹ سے ناکام ہوگئی۔ اس کا سبب یہ تھا کہ بورڈ کے چیئرمن اور چند سینئر اساتذہ کا خیال تھا کہ اگر ایسا کیاگیا توشعبہ معاشیات، دینیات یا اسلامک اسٹڈیز کا ایک ضمنی شعبہ بن کر رہ جائے گا۔ دو دہائیوں کے بعد یہ کورس شروع ہوسکا۔ مزید ایک دہائی کے بعد یونی ورسٹی کی اکیڈمِک کونسل نے بزنس ایڈمنسٹریشن کے شعبہ میں اس موضوع پر ایک پوسٹ گریجویٹ ڈپلوما شروع کرنے کا فیصلہ کیا۔ ان سب کے بعدآخر کار ایک کل وقتی شعبہ اسلامی معاشیات قائم ہوگیا۔


1980 کی دہائی میں اسلامی معاشیات کو جلاء بخشنے والی کئی اسلامی کانفرنسیں اور سیمینار منعقد ہوئے۔ بہت ساری یونی ورسیٹیوں میں اسلامی معاشیات کی تعلیم کا نظم کیا گیا۔ ڈاکٹریٹ کے لیے اس موضوع پر مقالے لکھے گئے۔ یہاں تک کہ مغربی یونی ورسیٹیوں میں بھی اس پر کام تیزی سے بڑھنے لگا۔جدہ کی کِنگ عبدالعزیز یونی ورسٹی میں تو اسلامی معیشت پر تحقیق کا بین الاقوامی
مرکز (International Centre for Research in Islamic Economics) قائم ہوگیا۔ یہاں سے اسلامی معیشت پر جرنل شائع کیا جانے لگا۔اس ایک مرکز کے علاوہ مزید چھے مراکز تھے جو تحقیق و اشاعت کا کام کررہے تھے۔میں 1980 کی دہائی کی ابتداء میں جدہ کے مرکز سے منسلک ہوا۔ایسا محسوس ہو رہا تھا کہ اب اسلامی معاشیات اور اسلامِک بینکنگ اپنے پیر پھیلا رہی ہے۔


اسلامی بینکنگ پر 21 صفحات کا کتابچہ پہلی مرتبہ 1955 میں محمد عزیز نے کراچی اور ڈھاکہ سے شائع کیا جس کا نام تھا ’’غیر سودی بنک کا خاکہ‘‘ (An Outlin of Interest Less Bank) مولانامودودی کی کتاب ’ ’ سود ‘‘ 1961 میں شائع ہوئی۔محمد عبداﷲ العربی نے 1966 میں اسلامک بینکنگ کے نظریے کو اپنے ایک مقالہ میں نہایت شرح و بسط کے ساتھ بیان کرکے اسے شائع کیا۔ 1960 میں میری کتابیں ’’غیر سودی بینکنگ‘‘ (Banking without Interest) اور اس کی معاون جلد ’’غیر سودی بینکنگ اور اسلامی قانون میں کاروبارِشراکت داری اور اور منافع میں شرکت‘‘(Banking without Interest and Partenership and
Profit-Sharing in Islamic Law) منظر عام پر آئیں، اگرچہ اس سے قبل یہ ایک میگزین میں قسط وار شائع ہوچکی تھیں۔ اس سے قبل بھی کچھ لوگ اس نہج پر کچھ کام کرچکے تھے۔ملائیشیا کا 1963 میں قائم کیا گیا’’تبونگ حاجی‘‘ حج کے اخراجات کی فنڈنگ کے لیے بنایا گیا ایک بورڈ تھا۔اسی طرح فِلپائن میں نام کی تبدیلی کے ساتھ 1973 میں ’’امانہ بینک‘‘ قائم کیا گیا۔ مِصر میں اسلامی بینک کا تجربہ 1963 میں شروع کیا گیا۔میت غمرمقام پر اسی نام سے مصر میں اسلامی بینکنگ کے بانی احمد النجار نے بچت اور سرمایہ کاری کے مراکز قائم کیے گئے۔ اب یہ تاریخ کا حصہ بن چکے ہیں۔کراچی میں احمد ارشاد کے ذریعے قائم کیا گیا اسلامی بنک بھی اب بھلا دیا گیا ہے۔ لیکن دوسری طرف یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ0 197 کی دہائی میں قائم کیے گئے اس قسم کے متعدد اداروں کے ذریعے اسلامی بینکنگ اور مالیات کی تحریک کو تقویت حاصل ہوئی ہے۔ 1975 میں دبئی میں نجی شعبے کے ذریعے دبئی اسلامک بینک اور بین الاقوامی شراکت داری میں اسلامک ڈیولپ منٹ بنک قائم کیا گیا۔ یہ سلسلہ جاری رہا۔سوڈان میں امداد باہمی کی بنیادوں پرایک غیر سودی اسلامک انشورنس کمپنی قائم ہوئی ۔

ان ابتدائی مالیاتی اداروں میں سے اکثر خطرات میں شرکت کی بنیاد پر قائم ہوئے تھے۔ ان میں ایسا نہیں تھا کہ تمام خطرات صرف سرمایہ کار کو ہی برداشت کرنے ہوتے تھے۔ اس کے باوجود موجودہ قانونی فریم ورک ان کے لیے بے فائدہ ثابت ہوئے۔ آخر کار اس کا حل انہیں مرابحہ میں نظر آیا۔ان میں اشیاء کا فروخت کنندہ خریدار کو صاف طور سے یہ بتا دیتا ہے کہ اس نے وہ شے کتنے میں خریدی تھی۔اور وہ کچھ منافع لے کر اس شے کو خریدار کو بیچ رہا ہے۔خریدار اس منافع سے واقف ہوتا ہے۔اس طریقے کو سب سے پہلے سمیع حمود نے 1970 میں اپنے پی ایچ ڈی کے مقالے میں اہمیت دی۔ اس کا مقصد یہ تھا کہ بینک کو خطرات کا سامنا کرنے سے آزادی مل جائے اور اپنی لاگت پر اسے منافع بھی مل جائے۔وہ اس بات سے بے نیاز ہوتا ہے کہ صارف اس شے کے ساتھ کیا سلوک کرے گا ۔یہ انتفاعی طریقہ فقہ کے مطابق تھا۔اب اسلامی مالیات اور بینکنگ نئی بلندیوں پر پرواز کے لیے تیار تھے۔دو مزید واقعات نے اس تحریک کو سرعت رفتا ر سے ہمکنار کیا۔ایک؛ ایران، پاکستان اور سوڈان میں ایسی حکومتوں کا برسر اقتدار آنا (جو اسلامی اصولوں پر عمل درآمدکرنا چاہتی تھیں) اور دوسرے عالمی اور بڑے مالیاتی اداروں citi، اسٹینڈرڈ چارٹرڈ ، ABN Amro اور HSBC کا تیل کی بڑھتی ہوئی قیمتوں کے سبب اسلامک بینکنگ کی اہمیت کو محسوس کرنا۔

شریعہ اسکالرس کی ٹیم ایسے ہر شخص یا ادارے کی مدد کو تیار تھیں جو مرابحہ اور تَوَ رُّق کی بنیادوں پرمالیاتی انجینیرنگ کے لیے تیار ہوتا۔ (تورُّق یہ ہے کہ ایک شخص بینک سے ادھار پر مال خرید کر اسے کم نقد قیمت پر کسی اور کو فروخت کردیتا)، اس طرح اسلامک بینکنگ کے ذریعے روایتی مالیاتی بازارکے ہر سودے کا نقش ثانی تیار ہوگیا۔ مکان کی خریداری، تعطیلات میں سیرو تفریح کے اخراجات، بچوں کی تعلیم کے اخراجات، اپنا یا اہل و عیال کا لائف یا ہیلتھ انشورنس ان تمام ضرورتوں کی فوری تکمیل ’’ ضرورت کی تکمیل ابھی،ادائیگی بعد میں‘‘ کے اصول پر اسلامک فائنانس کے دائرے میں شامل ہوتی چلی گئی۔ 1980 تک یہ سلسلہ اسی طرح جاری رہا۔ پھر آوازیں اٹھنے لگیں کہ آخر کس طرح سرمایہ دارانہ معیشت کے دائرے کے اندر رہتے ہوئے(جس کا کام ہی صارفیت، لالچ اور ارتکازِ دولت کو بڑھاوا دینا ہے) اسلامک فائنانس کے لیے جگہ نکل سکتی ہے۔


اس دوران یورپ اور امریکہ کی مسلمان اقلیتوں نے اسلامک بینکنگ اور فائنانس کے قیام میں بھرپور تعاون دیا۔1972 میں امریکہ میں چھٹیاں گذارنے کے دوران میرا تعامل مغرب سے ہوا۔ میں نے محسوس کیا کہ اسلامک اسٹڈیز یا مشرق وسطیٰ کے مطالعے میں اسلامی معاشیات کو شامل کرنا مفید ثابت ہو سکتا
ہے۔اس وقت مہاجر امریکن مسلم برادری کے لیے اسلامی اصولوں کی بنیاد پرباہمی تعاون کے ذریعے مکان خریدنے یا چھوٹے موٹے کارو بار کی مالیات کا نظم کرنا ممکن نہ تھا۔لیکن مسلم سیوِنگ اور انویسٹ منٹ (MSI)ادارہ اور امریکی فائنانس ہاؤس لارِبہ (LARIBA) کی سوچ کی بنیادیں پڑچکی تھیں۔اگرچہ یہ قائم بعد میں ہوئے۔ 1979 میں مَیں نے دوماہ لیسِسٹر کے اسلامک فاؤنڈیشن میں بسر کیے۔ اس وقت وہاں اسلامی معاشی پروجیکٹ عروج پر تھا، جسے مکہ کانفرنس کے موقع پر لانچ کیا گیا تھا۔

اسی طرح 1981 میں د ومہینو ں کے لیے شکاگو کی ایسٹ ویسٹ یونیورسٹی میں میرا قیام بھی اس پروجیکٹ کو متحرک کرنے میں کامیاب رہا۔لیکن اصل پیش رفت 1980 کی دہائی میں اس وقت ہوئی جب پرنس محمد الفیصل اور سعودی تاجر شیخ صالح کامل کی ابتدائی کوششوں سے یورپ اور امریکہ میں بہت سارے اسلامی مالیاتی اداروں کا قیام عمل میں آیا۔اسی دوران مشرق وسطیٰ اور جنوب مشرقی ایشیا میں بھی متعدد اسلامی مالیاتی ادارے قائم کیے گئے۔اسلامی معاشیات کی تعلیم اور تحقیقات میں بھی اضافہ ہوتا رہا۔اس پیش رفت سے مغربی ممالک میں مسلم مہاجرین کو بھی اسلامی فائنانس کے میدان میں پیش قدمی کرنے کا حوصلہ ملا۔ اس طرح وہ اپنی جداگانہ شناخت بنائے رکھنے میں بھی کامیاب رہے۔ مسلمانوں کے مالی تعاون سے وہاں کی بڑی بڑی یونی ورسیٹیوں ہارورڈ، UCLA، LSE، Laughborugh یونی ورسٹی اور Sorbonne میں بھی اس مضمون کی سرپرستی کی گئی۔اس کے نتیجے میں مغربی سیکولر اور مشرقی اسلامی علوم کے ماہرین کو قریب آنے اور مشرق و مغرب کے مشترکہ مسائل پر غورو فکر کے مواقع حاصل ہوئے۔ 2001-02 میں مَیں نے لاس اینجلز کی کیلیفورنیا یونی ورسٹی کے مشرقِ قریب کے مطالعاتی مرکز میں LARIBA کے سینیر وِزِ ٹنگ اسکالر کی حیثیت سے دورہ کیا۔اس سے قبل 1990 کی دہائی میں ہارورڈ اور LSE کے پروگراموں بھی شریک رہا۔ دونوں جگہوں پر میرا تاثر یہ رہا کہ وہاں کے ماہرین معاشیات اور بینکرس اسلامک فائنانس اور معاشیات کو صرف ایک مسلم ایشو سمجھتے ہیں۔ یہ ایشو عالمی معاشیات میں حاشیہ پر ہونے کے باعث ان کی زیادہ توجہ کا مستحق نہیں ہے۔ سرمایہ داری کے ایک متبادل نظام کی حیثیت سے اس کی کوئی پہچان نہیں ہے۔ جزوی طور پراس کے ذمہ دار ہم مسلمان خود ہیں۔
(جاری)

حالیہ شمارے

براہیمی نظر پیدا مگر مشکل سے ہوتی ہے

شمارہ پڑھیں

امتیازی سلوک کے خلاف منظم جدو جہد کی ضرورت

شمارہ پڑھیں